اقبال اور قرآن

باذوق

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​

تلاوتِ قرآن کریم اور علامہ اقبال (رحمہ اللہ)۔

علامہ اقبال(رحمہ اللہ) نے ایک موقع پر فرمایا ؛
جب میں سیالکوٹ میں پڑھتا تھا تو صبح اُٹھ کر روزانہ قرآن پاک کی تلاوت کرتا تھا۔ والد مرحوم درود شریف اور وظائف سے فرصت پا کر آتے اور مجھے دیکھ کر گذر جاتے۔
ایک روز صبح کو میرے پاس سے گذرے تو مسکرا کر فرمایا کہ کبھی فرصت ملی تو میں تم کو ایک بات بتاؤں گا۔
میں نے دو چار دفعہ بتانے کا تقاضا کیا تو فرمایا کہ جب امتحان دے لو گے تب۔
جب امتحان دے چکا اور لاہور سے مکان آیا تو والد صاحب نے فرمایا؛ جب پاس ہو جاؤگے تب ۔
جب پاس ہو گیا اور پوچھا تو فرمایا کہ بتاؤں گا ۔
ایک دن صبح کو جب حسبِ دستور قرآن کی تلاوت کر رہا تھا تو وہ میرے پاس آ گئے اور فرمایا؛
''بیٹا ! کہنا یہ تھا ک جب تم قرآن پڑھو تو یہ سمجھو کہ قرآن تم ہی پر اُترا ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ خود تم سے ہم کلام ہے۔''
آہ ! کیا بات کہی اور کیسی بات فرمائی ۔۔۔
لوگ قرآن کو نقالی سے پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ ہم سے ہم کلام نہیں ۔۔۔
یٰاَ یُّھَا النَّاسُ ( اے انسانو )۔
اور
یٰاَ یُّہَ الَّذِیْنَ اَمَنُوْا ( اے ایمان والو )۔

صرف چودہ سو (١٤٠٠) برس پہلے کا قصہ ہے جس سے ان کو سروکار نہیں ، اسی کا نتیجہ ہے کہ قرآن کی تلاوت میں ان کا دل تاثر سے خالی رہتا ہے ۔
علامہ اقبال (رحمہ اللہ) کہتے ہیں کہ والدِ محترم کا یہ فقرہ میرے دل میں اُتر گیا اور اس کی لذت دل میں اب تک محسوس کرتا ہوں۔
علامہ اقبال (رحمہ اللہ) نے اپنے مشفق باپ کی فاضلانہ اور حکیمانہ بات کو اپنے ایک شعر میں بڑی خوبصورتی سے موزوں کیا ہے ؛

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف
 
Top