اقبال اور جمہوری خلافت کا تصور

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
علامہ اقبال کے عمرانی اور سیاسی افکار کے مطالعہ سے ہم جس نتیجہ پر پہنچتے ہیں وہ ہ ہے کہ علامہ اقبال مغربی جمہوریت کو اس کے سیکولر اور مادر پدر آزاد ہونے کی وجہ سے ناپسند کرتے تھے مگر جمہوری روح جس میں حریت فکر اور آزادی رائے عام ہے کو قبول کرتے تھے ۔ وہ چاھتے تھے کہ مسلمانوں میں نہ تو سیکولر جمہوریے آئے نہ لبرل ازم کے نام پر بے راہ روی پیدا ہو ۔ مگر عصرِ حاضر میں مسلمان جمہوری روح سے استفادہ کر کے خود اپنے نظام خلافت اجتہاد کے ذریعہ ایک ایسے منتخب نظام میں بدل دیں جس میں فرد سے زیادہ جماعت مقتدر ہو۔ ریاستِ اسلامی کی سیاسی ، عمرانی اور معاشی معاملات چلانے کے لئے ایک منتخب ایوان تشکیل پائے جو ہماری عظیم فقہی روایات سے اصولی رہنمائی لے کر جدید عصری تقاضوں کے مطابق خود ایک جدید فقہی نظامِ مدنیت یا نظامِ حیات متشکل کرے ۔ یہ ایک ایسا اصول ہو جس سے فرد کا روحانی استخلاص ہو سکے اور اس بنیادی اصول کی عالمگیریت سے انسانی معاشرے کا ارتقاء بھی روحانی اساس پر ہوتا رہے ۔ فرد کے روحانی استخلاص اور انسانی معاشرے کے ارتقا کے اس بنیادی اصول کا استخراج اقبال کے ہاں کائنات کی روحانی تعبیر پر ہے جو مادے کے بارے میں جدید طبیعات کے اس انکشاف کے بعد کہ مادہ قابل تحویل بھی ہے اور قابلِ فنا بھی اقبال نے قرآن کے تصورِ توحید پر ایک نئی مابعدالطبیعات کو ایقان دیتے ہوئے اپنائی۔
 
Top