اقبال اور تصور اقبال۔۔۔حصہ دوئم

iqbal-670.jpg

فوٹو — وکی میڈیا کامنز

یہ بلاگ چار حصّوں پر مشتمل سیریز کا دوسرا حصّہ ہے، پہلا حصّہ یہاں دیکھئے
جماعت اسلامی کے ایک سرگرم رکن سے ہماری پہلی ملاقات کا احوال دلچسپ ہے۔ ہم عام طور پر اس قماش کے افراد سے اضافی بحث نہیں کرتے کیونکہ ہمیں دیوار سے سر ٹکرانے کا شوق قطعی طور پر نہیں ہے۔ اس روز ہم صرف اس وجہ سے یہ غلطی کر بیٹھے کیونکہ ہمیں ان صاحب کی سیاسی وابستگی کا علم نہیں تھا اور جس موضوع پر بحث ہوئی اس کا سیاست سے کوئی واسطہ ہی نہیں تھا، یعنی میرے پسندیدہ شعراء۔
ہم نے ادنیٰ سی کوشش کی کہ بات محسن نقوی، قتیل شفائی، ناصر کاظمی، فیض صاحب اور احمد ندیم قاسمی صاحب پر ختم کی جائے لیکن موصوف نے اعتراض کیا کہ آپ شہر اقبال سے تعلق رکھنے کے باوجود اقبال کو اس فہرست میں شامل کیوں نہیں کیا؟ ہم نے اپنی علمیت جھاڑنے کے چکر میں ان کو ایک پورا مضمون سنا دیا (جو کہ یہاں چھپ چکا ہے)۔ انہوں نے بہر حال ہماری تنقید کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا ایک مضمون شروع کر دیا جس کے مطابق اقبال سے بہتر شاعر تو شائد ہی کبھی دنیا کی تاریخ میں پیدا ہوا ہو، اور، خاص طور پر اقبال کی ’مسلم امہ‘ کے نام شاعری۔​
اس طویل تقریر کے بعد ہم نے تو وہاں سے نکلنے کی ٹھانی لیکن اس بات پر ضرور سوچا کہ آخر اقبال میں ایسی کیا خاص بات ہے جو کسی اور میں نہیں؟​
گزشتہ مضمون میں عرض کر چکا ہوں کہ اقبال پنجاب کے درمیانے طبقے کی سوچ اور امنگوں کے علم بردار شاعر تھے اور ان کی وفات کے بعد پاکستان کی تاریخ میں ان کو ایک اہم کردار بنانے کا ذمہ بھی پنجابی شاونسٹوں اور پنجابی اسٹیبلشمنٹ نے لیا۔​
گزشتہ کچھ دنوں میں ہم کراچی اور حیدر آباد میں آباد مہاجروں کی نمائندہ جماعت کے علاوہ پنجاب کے کاروباری طبقے کے مفادات کی نمائندہ جماعت کے اشتہاروں میں اقبال کا ذکر اور انکی تصویر دیکھ چکے ہیں۔ جماعت اسلامی، جس کے سربراہ کو اقبال محض ایک ’مُلّا‘ سمجھتے تھے (بقول میاں محمد شفیع)، آج اقبال کے گن گاتے نہیں تھکتی۔​
اسی طرح سونامی پارٹی، جس کے جیالے عقیدت کے میدان میں بھٹو صاحب کی جماعت کو بھی مات دے چکے ہیں، اقبال کا گاہے بہ گاہے ذکر کرتی ہے۔ امید ہے کہ جس طرح انہوں نے خان صاحب کا موازنہ جناح صاحب سے کیا ہے (حالانکہ اس تاریخی موازنے میں کم از کم دس غلطیاں ہیں)، ویسا موازنہ وہ اقبال کے ساتھ نہیں کریں گے حالانکہ اقبال کے پوتے انکی جماعت میں شامل ہیں۔ اور تو اور، تحریک طالبان والے ( جو پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرنے کے باعث اقبال کے اصلی شاہین ہونے کا شرف رکھتے ہیں) بھی اپنے بیانات کا آغاز اقبال کے اشعار سے کرتے ہیں۔​

طالبان کا اقبال — ٹویٹر فوٹو –.
اقبال کو امہ کے شاعر کے طور پر پیش کرنے میں ڈاکٹر اسرار احمد کا بھی اہم کردار ہے۔ ماضی قریب میں زید حامد نے بھی اسی طرز پر کچھ تماشا کیا جس میں اس کی مدد اقبال اکیڈمی کی جانب سے بھی کی گئی لیکن زید حامد اس امتحان میں ناکام ٹھہرا۔​
یہ امہ کیا ہوتی ہے، ہمیں باوجود تلاش کے علم نہیں ہو سکا۔ ہمارے کئی عزیز عرب ممالک میں اپنی پوری عمریں گزارنے کے باوجود ابھی تک وہاں تیسرے درجے کے شہری ہیں بلکہ شہری بھی نہیں کیونکہ عربوں کا ہمارے سے شہریت والا مذاق بالکل نہیں ہے۔ ہمارے ہاں وہ نایاب پرندوں کے شکار اور لڑکیوں کی خریدو فروخت وغیرہ کے سلسلے میں چکر لگاتے ہیں، اس طرز کے تعلق کو اگر آپ امہ کہنے کو تیار ہیں تو ضرور ہوں، ہم بغیر اس جھنجٹ کے ہی بہتر ہیں۔​
اس مضمون میں ہم اقبال کی شاعری کے دو مختلف پہلوؤں پر بات کرنا چاہتے ہیں جن میں پہلا اقبال کا مختلف حکمرانوں سے متاثر ہونا اور انکی مدح سرائی ہے۔ اس سلسلے میں نپولین، مسولینی، نادر شاہ، بھوپال کے نواب حمیداللہ، پنجاب کے گورنر مائیکل او ڈائر شامل ہیں۔​
حکمرانوں کی تعریف کوئی بری بات نہیں ہے لیکن کسی معیار کو مد نظر ضرور رکھنا چاہیے۔ نپولین نے نہ صرف یورپ بلکہ افریقہ کو بھی جنگ کا میدان بنایا اور اس نے فوج کی سیاست میں مداخلت کا ایک بھیانک رواج قائم کیا۔​
مسولینی اور اسکی فاشسٹ جماعت، ملک کی محبت کو ایک نئے درجے پر لے گئے اور اپنے مخالفین کو غداری کے الزام میں سزائیں دیں۔ نادر شاہ اور اس کی افواج نے دہلی کی عصمت جس طرح تار تار کی، اسکی مثال ملنی مشکل ہے۔ گورنر او ڈائر کے سانحہ جلیانوالہ باغ میں کردار سے ایک زمانہ واقف ہے۔​
نپولین کے مزار پر علامہ نے لکھا:
راز ہے راز ہے تقدیر جہان تگ و تاز
جوش کردار سے کھل جاتے ہیں تقدیر کے راز​
جوش کردار سے شمشیر سکندر کا طلوع
کوہ الوند ہوا جس کا حرارت سے گداز​
مسولینی کے بارے میں فرمایا:
ندرت فکر و عمل کیا شے ہے ؟ ذوق انقلاب
ندرت فکر وعمل کیا شے ہے؟ ملت کا شباب​
چشم پیران کہن میں زندگی کا فروغ
نوجواں تیرے ہیں سوز آرزو سے سینہ تاب​
فیض یہ کس کی نظر کا ہے؟ کرامت کس کی ہے؟
وہ کہ ہے جس کی نگہ مثلِ شعاعِ آفتاب​
دوسرا پہلو جس پر ہم روشنی ڈالنا چاہتے ہیں، اقبال کا حقوق نسواں اور اسکی تحریکوں کا تمسخر اڑانا ہے۔ ’آزادی ء نسواں‘ نامی نظم ملاحضہ کریں:
اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں سکتا
گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے ، وہ قند​
کیا فائدہ کچھ بھی کہہ کر بنوں اور بھی معتوب
پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند​
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں، معذور ہیں، مردانِ خرد مند​
کیا چیز ہے آر ائش و قیمت میں زیادہ
آزادی ء نسواں یا زمرد کا گلو بند؟​
ایک اور مقام پر فرمایا:
میں بھی مظلومیء نسواں سے ہوں بہت غم ناک
نہیں ممکن لیکن اس عقدہء مشکل کی کشود!​
یہ دو نوں پہلو اس نکتے کی تائید کرتے ہیں کہ اقبال پنجابی بورژوا کے نمائندے تھے۔ فوجی یا سخت حکمرانوں کی خواہش کی روایت اہل پنجاب کے لیے کوئی نئی بات نہیں اور خواتین کے حقوق کے مسئلے کو بھی یہاں کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ جماعت اسلامی کے انہی کارکن کے الفاظ میں اسے یوں بیان کیا گیا کہ ’آخر یہ حقوق نسواں کا جھنڈا ہمیشہ بے پردہ، پر کٹی خواتین ہی کیوں اٹھاتی ہیں‘۔​
پنجابی مسلمان کے اس رویے کو اگر اقبال ہی کے الفاظ کا پیراہن پہنایا جائے تو کچھ مضائقہ نہیں؛
مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت
کر لے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد​
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد​
تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے
یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد​
پنجابیوں کی ایک اور عادت جس میں علامہ مہارت رکھتے تھے، فن جگت تھی۔ برادرم سروپ اعجاز کی توسط سے ہم اس سلسلے میں جو کچھ سن چکے ہیں، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ علامہ اس فن میں بھی بہت طاق تھے۔​
(جاری ہے)​
تحریر: عبدالمجید عابد
بہ شکریہ ڈان اردو
 
سمپل:nerd2:
پہلے نارمل ٹیگ کر دو
پھر تدوین کرکے اسے مٹا دو
چونکہ کوئی پوسٹ "بلینک" نہیں کی جا سکتی اس لیے وہاں کچھ لکھ دیا جاتا ہے
میں اور زیادہ تر لوگ "ٹیگ نامہ" لکھتے ہیں
اوہو یہ تو اچھا ہے ۔اس سے کسی کو شکایت بھی نہ ہوگی کہ ہمیں ٹیگ نہیں کیا کیوں کہ انھیں پتہ نہیں چلے گا کہ کس کس کو ٹیگ کیا گیا ہے۔:)
 
Top