افسانے سے اقتباس ۔۔۔۔۔ س ن مخمور

loneliness4ever

محفلین
اپنے تحریر کردہ افسانے سے اقتباس


میں انھی سوچوں میں گم تھا کہ میرے رخسار بھیگ گئے اورمیرے منجمد جذبات گزرے لمحو ں کی حدت سے بہنے لگے۔ میں پلٹا اور آن کر صوفے پر ڈھیر ہو گیا۔میں نے لرزتے ہاتھوں سے وہ دونوں ہی لفافے اٹھا لئے جو فیصل میز پر رکھ کر گیا تھا ۔ دونوں ہی خط ابّا جی کیجانب سے تھے۔میں نے ایک لفافہ چاک کیا اور خط پڑھنا شروع کر دیا۔

’’بھیا السلام علیکم
اماں ابا کی جانب سے بہت سی دعائیں اور پیار۔ امید ہے بھیا آپ خیریت سے ہوں گے۔ یہاں بھی اللہ کا کرم ہے۔ اماں ابا آپ کو۔۔۔۔‘‘

میں حمیدہ کا لکھا خط آنسوئوں میں ڈوبی آنکھوں سے پڑھتا چلا گیا۔ دونوں ہی خطوط میں ابا اماں نے اصرار کیا تھا کہ میں اب واپس آجائوں تاکہ وہ جلد از جلد میری شادی کر دیں۔ خط پڑھ کر میرے اضطراب میں مزید اضافہ ہو گیا۔ اماں ابا نے تو یہ ہی لکھوایا تھا کہ وہ خیریت سے ہی ہیں مگر حمیدہ نے جو اصل حقیقت بیان کی تھی وہ میری بے چینی میں اضافے کے لئے کافی تھی۔ اماں کی بینائی جاتی رہی تھی اور ابا بھی اب بہت بیمار رہنے لگے تھے اورکسی کام کاج کے نہیں رہے تھے ۔ خط کی لکھائی پھیلی ہوئی اور الفاظ دھندلائے ہوئے تھے جس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ سب لکھتے ہوئے حمیدہ اپنے آنسو ضبط نہ کر سکی ہے۔
میں یہ محسوس کر کے تڑپ ہی گیا اور میرے بدن کے زندان میں مقید میری رُوح کو اپنے فرارکی خواہش ہونے لگی اور آنسوئوں میں ایک بار پھر میرا ماضی بہنے لگا۔ مجھے وہ وقت یاد آنے لگا جب حمیدہ کے آنسوئوں نے مجھے رات بھر جگائے رکھا تھا۔ وہ اُس وقت بہت رُوئی تھی جب میں نے کچے آنگن میں لگے گلاب کے پودے سے پھول توڑ کر اُس کے لئے رکھا تھا۔ اُسے گلاب کا پھول ڈالی ہی پر اچھا لگتاتھا اور میرے یوں پھول توڑنے پر وہ رات بھر گلاب کے پودے کے پاس بیٹھ کر روتی رہی تھی ۔ اور میں رات بھر اُسے مناتا رہا تھا ۔
ماضی کا یہ منظر یاد آتے ہی مجھے خیال آیا کہ میں بھی تو اماں ابا کے چمن کا ایک پھول تھا ،ایک خوشنما پھول جیسے دوری اور فاصلے نے بے رنگ و بے نکہت کر دیا۔ اماں ابا بھی راتوں کو یقینا حمیدہ ہی کی طرح روتے ہوں گے۔ ماں باپ کی تکلیف کا سوچ کر میں بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا ۔

س ن مخمور
امر تنہائی
 
اپنے تحریر کردہ افسانے سے اقتباس


میں انھی سوچوں میں گم تھا کہ میرے رخسار بھیگ گئے اورمیرے منجمد جذبات گزرے لمحو ں کی حدت سے بہنے لگے۔ میں پلٹا اور آن کر صوفے پر ڈھیر ہو گیا۔میں نے لرزتے ہاتھوں سے وہ دونوں ہی لفافے اٹھا لئے جو فیصل میز پر رکھ کر گیا تھا ۔ دونوں ہی خط ابّا جی کیجانب سے تھے۔میں نے ایک لفافہ چاک کیا اور خط پڑھنا شروع کر دیا۔

’’بھیا السلام علیکم
اماں ابا کی جانب سے بہت سی دعائیں اور پیار۔ امید ہے بھیا آپ خیریت سے ہوں گے۔ یہاں بھی اللہ کا کرم ہے۔ اماں ابا آپ کو۔۔۔۔‘‘

میں حمیدہ کا لکھا خط آنسوئوں میں ڈوبی آنکھوں سے پڑھتا چلا گیا۔ دونوں ہی خطوط میں ابا اماں نے اصرار کیا تھا کہ میں اب واپس آجائوں تاکہ وہ جلد از جلد میری شادی کر دیں۔ خط پڑھ کر میرے اضطراب میں مزید اضافہ ہو گیا۔ اماں ابا نے تو یہ ہی لکھوایا تھا کہ وہ خیریت سے ہی ہیں مگر حمیدہ نے جو اصل حقیقت بیان کی تھی وہ میری بے چینی میں اضافے کے لئے کافی تھی۔ اماں کی بینائی جاتی رہی تھی اور ابا بھی اب بہت بیمار رہنے لگے تھے اورکسی کام کاج کے نہیں رہے تھے ۔ خط کی لکھائی پھیلی ہوئی اور الفاظ دھندلائے ہوئے تھے جس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ سب لکھتے ہوئے حمیدہ اپنے آنسو ضبط نہ کر سکی ہے۔
میں یہ محسوس کر کے تڑپ ہی گیا اور میرے بدن کے زندان میں مقید میری رُوح کو اپنے فرارکی خواہش ہونے لگی اور آنسوئوں میں ایک بار پھر میرا ماضی بہنے لگا۔ مجھے وہ وقت یاد آنے لگا جب حمیدہ کے آنسوئوں نے مجھے رات بھر جگائے رکھا تھا۔ وہ اُس وقت بہت رُوئی تھی جب میں نے کچے آنگن میں لگے گلاب کے پودے سے پھول توڑ کر اُس کے لئے رکھا تھا۔ اُسے گلاب کا پھول ڈالی ہی پر اچھا لگتاتھا اور میرے یوں پھول توڑنے پر وہ رات بھر گلاب کے پودے کے پاس بیٹھ کر روتی رہی تھی ۔ اور میں رات بھر اُسے مناتا رہا تھا ۔
ماضی کا یہ منظر یاد آتے ہی مجھے خیال آیا کہ میں بھی تو اماں ابا کے چمن کا ایک پھول تھا ،ایک خوشنما پھول جیسے دوری اور فاصلے نے بے رنگ و بے نکہت کر دیا۔ اماں ابا بھی راتوں کو یقینا حمیدہ ہی کی طرح روتے ہوں گے۔ ماں باپ کی تکلیف کا سوچ کر میں بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا ۔

س ن مخمور
امر تنہائی
صاحب خط پڑھ کر اداس ہوگیاہوں۔۔۔۔
 

loneliness4ever

محفلین
صاحب خط پڑھ کر اداس ہوگیاہوں۔۔۔۔

صحیح کہا جمیل بھائی ۔۔۔۔ میں بھی اداس ہو گیا ایک مرتبہ پھر ،
۔۔۔۔۔۔ نہ جانے والا قرار میں ہوتا ہے اور
نہ پیچھے رہ جانے والے کو قرار آتا ہے

فقیر آپ کی آمد پر شاد اور پسندیدگی پر ممنون ہے

مالک آباد و کامران رکھے آپکو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمین
 

نور وجدان

لائبریرین
اور آنسوئوں میں ایک بار پھر میرا ماضی بہنے لگا۔ مجھے وہ وقت یاد آنے لگا جب حمیدہ کے آنسوئوں نے مجھے رات بھر جگائے رکھا تھا۔ وہ اُس وقت بہت رُوئی تھی جب میں نے کچے آنگن میں لگے گلاب کے پودے سے پھول توڑ کر اُس کے لئے رکھا تھا۔ اُسے گلاب کا پھول ڈالی ہی پر اچھا لگتاتھا

گلاب توڑنا۔۔ اور ملامت کرنا۔۔۔ گلاب تو واقعی ہی ڈلی پر اچھا لگتا ہے
 

جاسمن

لائبریرین
خط پڑھنے سے پہلے ہی بلکہ پہلی سطر سے قاری بھی قلم کار کے ساتھ اُس کی اُداسی میں شریک ہو جاتا ہے۔اور یہ کیفیت تحریر کے بعد بھی قائم رہتی ہے۔ گلاب کے پھول کو کیا خوب استعارہ کے طور پہ استعمال کیا ہے۔ہم کیسے غمِ روزگار کو چمٹائے ماؤں کے سینوں سے لگے گلابوں کو اُن سے چھین کے چل دیتے ہیں۔۔۔۔
مجھے آگے پڑھنے کا بہت ہی شوق ہے،خصوصاََ کسی بہت اچھی جامعہ سے۔ بی اے سے میں باہر کہیں جانے کی شائق ہوں اور صرف اپنی امی کی وجہ سے نہیں جاتی۔ سوچتی ہوں کہ کتنی ہی حسرتیں ہمارے ساتھ اِس دنیا سے اُس دنیا میں چلی جاتی ہیں۔اور نجانے وہاں ہمارے لئے کِس قدر گرانقدر انعامات منتظر ہوں گے اِن کے بدلے۔۔۔۔
بہت خوب!دعاؤں بھری داد قبول کریں۔
 

loneliness4ever

محفلین
گلاب توڑنا۔۔ اور ملامت کرنا۔۔۔ گلاب تو واقعی ہی ڈلی پر اچھا لگتا ہے
خط پڑھنے سے پہلے ہی بلکہ پہلی سطر سے قاری بھی قلم کار کے ساتھ اُس کی اُداسی میں شریک ہو جاتا ہے۔اور یہ کیفیت تحریر کے بعد بھی قائم رہتی ہے۔ گلاب کے پھول کو کیا خوب استعارہ کے طور پہ استعمال کیا ہے۔ہم کیسے غمِ روزگار کو چمٹائے ماؤں کے سینوں سے لگے گلابوں کو اُن سے چھین کے چل دیتے ہیں۔۔۔۔
مجھے آگے پڑھنے کا بہت ہی شوق ہے،خصوصاََ کسی بہت اچھی جامعہ سے۔ بی اے سے میں باہر کہیں جانے کی شائق ہوں اور صرف اپنی امی کی وجہ سے نہیں جاتی۔ سوچتی ہوں کہ کتنی ہی حسرتیں ہمارے ساتھ اِس دنیا سے اُس دنیا میں چلی جاتی ہیں۔اور نجانے وہاں ہمارے لئے کِس قدر گرانقدر انعامات منتظر ہوں گے اِن کے بدلے۔۔۔۔
بہت خوب!دعاؤں بھری داد قبول کریں۔


آپ بہنوں کی آمد نے فقیر کی محفل کو جو رونق بخشی ہے
اس پر فقیر ممنون و مسرور ہے
مالک فقیر کی بہنوں کو ہمیشہ خوشحال و کامران رکھے ۔۔۔۔۔۔ آمین
 
Top