افسانہ گوندا آلا رے آلا از ایم مبین

mmubin

محفلین
افسانہ گوندا آلا رے آلا از ایم مبین


تین مہینوں کے بعد وہ کوما سے نکلا ۔ چوتھے مہینے میں اس کی آنکھیں حرکت کرنے لگیں اور ہونٹوں پر جنبش سی ہونے لگی۔چھ مہینے بعد ڈاکٹر نے اعلان کیا تھا کہ اس کا ذہن پوری طرح کام کررہا ہے۔

شناسا چہروں کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں جو چمک ابھرتی تھی یا لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھر آتی تھی اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ملنے کے لیے آئے شخص کو پہچان گیا ہے۔اس کے لب عجیب وغریب انداز میں حرکت بھی کرتے تھے جیسے وہ کچھ کہنے کی کوشش کررہا ہو مگر ہونٹوں سے آواز نہیں نکلتی تھی۔

اور ایک سال بعد وہ اپنے گھر پر اپنے پلنگ پر ساکت پڑاہوا ہے جیسے کوئی بے جان لاش پلنگ پر رکھی ہے۔صرف اس کی آنکھیں حرکت کرتی تھیں ۔کبھی کبھی وہ کوشش کرتاتو اس کی گردن میں بھی حرکت ہوتی تھی۔کوئی آواز سن کر وہ گردن موڑنے کی جب کوشش کرتا تھاتو اس بات کا اندازہ ہوتا تھا کہ اسے اب کچھ کچھ سنائی بھی دینے لگاہے یا ممکن ہے اسے سب کچھ سنائی دیتا ہومگر وہ نہ تو لب کھول کر کسی کی بات کا جواب دے سکتا تھانہ ہاتھوں یا جسم کو جنبش دے کر اپنی پسند ناپسند ظاہر کرنے کی کوشش کرسکتا تھا۔

شہر میں پھر گووندا کی تیاریاں شروع ہوگئی تھیںاور اس سال تو گووندا کچھ زیادہ ہی دھوم دھام سے منایا جارہا تھا۔شہر میں جگہ جگہ بڑے بڑے ہورڈنگ اور پوسٹر دکھائی دینے لگے تھے

اس سیاسی لیڈر کی دہی ہنڈی کی قیمت ۰۵ہزار ہوگی۔

ایک سیاسی لیڈر نے اپنی دہی ہنڈی کی قیمت ایک لاکھ رکھی تھی۔

سارے شہر کی نظریں راﺅ صاحب کی دہی ہنڈی ہر تھیں۔راﺅ صاحب نے اس سال آٹھ صفوں کی دہی ہنڈی کے لیے قیمت ڈھائی لاکھ رکھی تھی۔جب اس کی ماں نے یہ خبر سنی تھی تو وہ راﺅ صاحب کو گندی گندی گالیاں دینے لگی تھی” حرامیکمینہاپنی دولت ،شان وشوکت کی نمائش کے لیے غریب لوگوں ، غریب ماں باپ کی اولادوں کی جان سے کھیلتا ہے۔“

پچھلے سال ایک لاکھ گیارہ ہزار روپیہ کی دہی ہنڈی کے لالچ میں میرے بیٹے راجو کی جان آدھی چلی گئی۔ اس سال پتہ نہیں کتنی جانوں سے کھیلے گا۔وہ دن بھر گھر کے چبوترے پر بیٹھ کر راﺅ صاحب اور دہی ہنڈی والوں کو گالیاں دیتی رہتی تھی۔ آنے جانے والے کبھی رک کر اس کی بات سنتے تو کبھی آگے بڑھ جاتے۔نہ تو کوئی اس سے کوئی بات کرتاتھااور نہ اسے سمجھانے کی کوشش کرتا تھا۔سارے شہر کو اس کی کہانی معلوم تھی۔

پچھلے سال کی دہی ہنڈی نے اس کے نوجوان بیٹے راجو کو ادھ مرا کردیا تھا۔وہ اس کے گھر میں پلنگ پر بے جان پڑا ہوا ہے اور وہ اس کی خدمت کررہی ہے۔ بچپن میںجب وہ چھوٹا تھاتو اس نے جس طرح اسے پالا تھا اسی طرح ۲۲ سال کے نوجوان کو پال رہی ہے۔اسے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتی تھی، اپنے ہاتھوں سے پانی پلاتی تھی، اس کے کپڑے بدلتی تھی، اس کا پیشاب پاخانہ صاف کرتی تھی، پلنگ پر ہی اسے نہلاتی تھی اور بار بار اسے جاکر دیکھتی تھی کہ اسے کسی بات کی ضرورت تو نہیںہے۔کبھی اس کے پاس بیٹھ کر اسے گھنٹوں دیکھتی اور آنسو بہاتی رہتی تھی، کبھی حسرت ویاس سے اس کے جسم کے ایک ایک حصہ کو چھوکر دیکھتی کہ اس حصہ میںگرمی لوٹ رہی ہے یا نہیں؟

لیکن اسے مایوسی ہوتی۔

راجو کا جسم جیسے پتھر کا ہوگیا تھا۔بے جان جسم، جس میں نہ تو کوئی جنبش ہوتی تھی نہ اس کے برف کی طرح ٹھنڈے جسم میں کبھی ہلکی سی گرمی محسوس ہوتی تھی جو اس بات کا ثبوت دے کہ اس کے جسم میں اب بھی زندگی باقی ہے۔

” ماں ! میں تم سے کچھ بھی چھپانا نہیں چاہتاہوں۔تمھارابیٹاطاقتور ہے۔گھٹیلے جسم کا مالک ہے اس لیے زندہ ہے ورنہ اس کے جسم کا یہ حصہ جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ گیا ہے۔اس کے جسم کی ہڈیوں کاکئی جگہوں سے سرمہ بن گیا ہے اورسب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ دماغ سے اس کے جسم کی طرف جانے والی ساری رگیں جو انسان اور اس کے جسم سے سارے کام کاج کرتی ہیں ٹوٹ کر بے جان ہوچکی ہیں۔اس لیے اس کا جسم بھی بے جان ہوچکا ہے۔اس کے جسم میںکوئی حرکت ، ہلکی سی جنبش بھی نہیںہوتی ہے۔اس کا دماغ زندہ ہے،اس کے جسم کا اندرونی نظام کام کررہاہے۔پھیپھڑے سانس لے رہے ہیں۔معدے اپنا کام کررہے ہیں، گردے شاید اپنا کام کررہے ہیں لیکن اس کے ہاتھ پیر اور اوپری جسم پوری طرح بے حس ہے۔ پتہ نہیں اس حال میںوہ کتنے دنوں تک زندہ رہے گایاکچھ دنوں تک بھی زندہ رہ سکے گا۔ڈاکٹر نے اسے صاف صاف لفظوں میںراجو کی حالت کے بارے میں بتادیاتھا۔لکشمی نے لوگوں سے راجو کے اوپر سے گرنے کی جو کہانی سنی تھی اس کے بعد اسے خود حیرت ہورہی تھی کہ اس کا بیٹا زندہ کس طرح ہے؟ اس نے لوگوں سے جو کچھ سنا تھا کہ جس طرح اس کا بیٹا دہی ہنڈی کی ٹوٹی رسی سے گرکر سامنے والی عمارت کی دیوار سے ٹکرایاتھا اس کے بعد تو اس کا بچنا محال تھا۔

اسے راجو کا یہ گووندا کا کھیل بالکل پسند نہیں تھا۔وہ ہر باراسے سے جھگڑا کرتی تھی” دیکھ مجھے تیرا یہ گووندا کا کھیل بالکل پسند نہیں ہے۔تو کوئی بھی دوسرا کھیل کھیل ۔دوسرے کھیل میں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگالیکن تو جب ہنڈی پھوڑنے کے لیے ایک دوسرے کے کاندھے پر ایک کے اوپر ایک کھڑے لڑکوں کے اوپر چڑھ کررسی سے لٹکی ہنڈی کی رسی سے لٹک کر ہنڈی پھوڑنے کی کوشش کرتا ہے تو اس منظر کو دیکھ کر میرا کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔میں ایسا کلیجہ تھام کر رہ جاتی ہوں کہ ہے بھگوان! اگر رسی ٹوٹ گئی یا پھر تیرا ہاتھ چھوٹ گیا تو تیرا کیا ہوگا؟“

اس پر راجو ہنس کر جواب دیتا” ماں تو اتنی سی بات کے لیے اتنی فکر کرتی ہے۔ارے یہ کوئی فکر کی بات ہی نہیںہے۔مان لے اگر ہنڈی پھوڑتے ہوئے میرا ہاتھ چھوٹ بھی گیا یاپھر جس رسی سے ہنڈی بندھی ہوتی ہے اور میں جس رسی سے لٹکا ہوا ہوتا ہوں وہ ٹوٹ بھی گئی اور میںاتنی اوپر سے گر بھی گیا تو مجھے کچھ نہیں ہوگا۔اوپر سے گرنے پر نیچے مجھے سینکڑوں لوگ بانہوں میں پکڑ کر لپک لینے کے لیے تیار ہوتے ہیںاور وہ اتنے ماہر ہوتے ہیں کہ اوپر سے گرنے والا گلاس بھی ان سے بچ کر زمین پر نہیں گرسکتاتو میں تو ایک موٹاتازہ انسان ہوںاور اس کھیل کی ہم مہینوں مشق کرتے ہیں۔جب کہیں جاکر ہنڈی پھوڑنے کے لیے نکلتے ہیںاور پھر ہنڈی پھوڑناتومیراپسندیدہ کھیل ہے۔یہ مردوں کا کھیل ہے۔ مردوں کو اپنی مردانگی ، طاقت اور ہمت دکھانے کا موقع ملتا ہے۔“راجو اس سے کہتاتھا۔

” ارے تجھے یہ کھیل پسند ہے تو تو دوسرے لوگوں کی طرح ایک دوسرے کے کاندھے پر پیر رکھ کر صف بنانے والوں میں شامل ہوجا۔ مجھے کوئی اعتراض نہیںہوگالیکن جب تو ان کھڑے ہوئے لوگوں کی صفوں پر بندروں کی طرح چڑھتاہانڈی تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے تو میری تو جان نکل جاتی ہے۔ “ لکشمی اس سے کہتی تھی۔

” ماں توتو جانتی ہے یہ تہوار میرے لیے کتنا اہم ہے۔ ہمارا گروپ شہر کی مختلف ہنڈیوں کو پھوڑ کر اچھی خاصی رقم اکٹھا کرلیتا ہے اور میرے حصے میں جو رقم آتی ہے اس رقم سے میں سال بھر اپنی پڑھائی کرتا ہوں۔اپنی پڑھائی کاخرچ چلاتا ہوں۔اپنی پڑھائی کا بوجھ تم پر اور بابا پر نہیں ڈالتاہوں۔اگر میں حصہ نہ لوں تو میری پڑھائی کس طرح ہوگی؟ کیا بابااور تم میری پڑھائی کا بوجھ اٹھا سکیں گے؟ “ راجو جب اس سے سوال کرتا تو وہ لاجواب ہوجاتی تھی۔

” بیٹا تو پڑھ رہا ہے۔تیری تعلیم پر سارے گھر والوں کی امیدیں لگی ہیں کہ پڑھ لکھ کر توکسی قابل ہوجائے گا۔کہیں کسی اچھی نوکری سے لگ جائے گا تو اس گھر کی غریبی دور ہوجائے گی۔لیکن جب تواس طرح کے خطرناک کھیلوں میں حصہ لیتا ہے تو ہمیں ڈر لگنے لگتا ہے کہ کہیں تجھے کچھ ہوگیا ، کہیں تجھے کوئی چھوٹی موٹی چوٹ ہی لگ گئی تو پھر تیری پڑھائی کاکیا ہوگا؟ ہمارے اس گھر والوں کے ان سپنوں کاکیا ہوگاجو ہم دیکھ رہے ہیں۔ اس امید کا کیا ہوگا جو ہم نے تجھ سے لگا رکھی ہے؟“

” ماں فکر نہ کیا کرو۔مجھے کچھ نہیں ہوگا۔میں تمھاری وہ ساری امیدیں پوری کروں گا جو تم نے مجھ سے لگا رکھی ہے۔گھر والوںکے وہ سارے خواب پورے کروں گا جو وہ مجھ سے امید لگاکر دیکھ رہے ہیں۔مجھے کچھ نہیں ہوگااور کوئی بھی کھیل ہو ، کھیل میں تھوڑا بہت خطرہ تو مول لینا ہی پڑتا ہے تو سمجھ لو یہ میرا بھی کھیل ہے” گوونداآلا رے آلا“ ہنستا ہوا راجو بھاگ جاتاتھااور وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جاتی تھی۔

بات سچ بھی تھی۔ہنڈیاں پھوڑنے سے راجو کے گروپ کوجو رقم ملتی تھی اور اس میں سے جو رقم راجو کے حصے میںآتی تھی بھلے ہی وہ اس کا ایک پیسہ گھر میں نہیں دیتا تھا لیکن وہ ان پیسوں سے سال بھر وہ اپنی پڑھائی کرتا تھا ۔وہ پیسے وہ اپنی پڑھائی پر خرچ کرتا تھا۔

اور اس سال تو اس کے دماغ میں ایک ہی دھن لگی تھیصاحب راﺅ کی ہنڈی پھوڑنے کی دھن

نہ صرف راجو بلکہ اس کے سارے گروپ نے طے کرلیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے اس بار کی صاحب راﺅ کی ہنڈی ان کا گروپ ہی پھوڑے گا۔ان کے گروپ کی طرف سے راجو ہی رسی پر لٹک کر ہنڈی پھوڑے گا۔اس سال کی صاحب راﺅ کی ہنڈی سارے شہر میں بحث کا موضوع بنی ہوئی تھی۔

صاحب راﺅ ایک پارٹی کاسیاسی لیڈر تھا۔اس پارٹی اور لوگوں میں اپنا اثر ورسوخ قائم رکھنے کے لیے وہ ہر سال اپنی ہنڈی باندھتاتھا اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اس کی ہنڈی پھوڑنے کاانعام شہر میں سب سے زیادہ ہوتا تھا۔ہنڈی پر لگے انعام کی مناسبت سے ہنڈی کی اونچائی بھی ہوتی تھی۔چھ اور بعدمیں سات تھر(صفوں)کی ہنڈی صاحب راﺅ ہی باندھتا تھا۔

اس سال اس نے سات صفوں والی ہانڈی باندھی تھی اور اس ہنڈی پھوڑنے پر ایک لاکھ گیارہ ہزار ایک سو گیارہ روپیہ انعام رکھاتھا۔ شہر کے تمام ہنڈی پھوڑنے والے گروپوں اور اکھاڑوںکی نظر صاحب راﺅ کی ہنڈی پر تھی۔ اگر اس ایک ہنڈی کو ہی پھوڑ دیاگیاتواتنی بڑی رقم ہاتھ میں آتی کہ دوسرے کسی ہنڈی کو پھوڑنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔

لیکن صاحب راﺅ کی ہنڈی سات صفوں کی تھی جو ایک مشکل کام تھا۔چار سے پانچ صف تک لگانے میں ان کاہی نہیں ہر گروپ کا میاب ہوجاتا ہے۔لیکن چھٹی اور ساتویں صف لگاکر آخری آدمی کے کاندھے پر سوارہوکر رسی پر لٹک کر ہنڈی پھوڑنا بہت مشکل کام تھا۔لیکن صاحب راﺅ نے انعام اور صفوںکا بھی اعلان کردیا تھااور یہ اعلان کافی پہلے کردیاتھا۔اس لیے ہنڈی پھوڑنے والے گروپوں کو چھ سات صف لگانے کی مشق کرنے کا موقع بھی مل گیاتھا۔ہر گروپ چھ سات صفیں لگانے کی مشق کررہاتھااور اپنے گروپ میں ایسے لڑکے تیار کررہا تھا جو نہ صرف سات صفیں لگائیں بلکہ ان پر چڑھ کر ہنڈی پھوڑنے میں بھی کامیاب ہوسکیں۔راجو کے گروپ کی بھی پوری تیاریاں تھیں۔گروپ میں راجو ہی سب سے زیادہ طاقتور اور پھرتیلالڑکا تھا۔زیادہ تر مقامات پر وہی اوپر چڑھ کررسی سے لٹک کر ہنڈی پھوڑتا تھا۔اس لیے راﺅ صاحب کی ہنڈی پھوڑنے کی ذمہ داری بھی راجو کو سونپی گئی۔

گوکل اشٹمی کے دن جب صاحب راﺅ کی ہنڈی بندھی تو اسے دیکھ کر ہر کوئی طرح طرح کی باتیں کرنے لگا

” صاحب راﺅ صرف اپنے نام ونمود کے لیے ایک لاکھ گیارہ ہزار روپیے کاانعام رکھا ہے کیونکہ اس نے ہنڈی اتنی اونچائی پر باندھی ہے کہ شاید ہی کوئی وہاں تک پہنچ کر ہنڈی پھوڑنے کی کوشش کرے۔“

”ارے یہ تہوار نہیں ہوااپنے نام ونمود کے لیے لوگوں کی جانوں سے کھیلنا ہواہے۔اتنی اونچائی سے اگر کوئی گراتو نہ وہ زندہ بچ سکتا ہے اور نہ اس کے ہاتھ پیر سلامت رہ سکتے ہیں۔“

” ارے ہنڈی پھوڑنے کے لیے جو صفیں باندھی جائیں گی وہ بار بار پھسل کر گریںگے ۔اس میں کئی لوگوں کے ہاتھ پیر ٹوٹ سکتے ہیں یا انھیںموچ آسکتی ہے۔“

”اپنی نا م ونمودکے لیے لوگوں کی جانوں سے کھیلنے کی کیا ضرورت ہے؟“

” یہ کھیل تہوار نہیںہوا ایک وحشیانہ کھیل ہوگیا۔“

اخبارات اور میڈیامیں بھی صاحب راﺅ کی ہنڈی کاکافی ذکر تھا۔کچھ اخبارات راﺅ صاحب کی فیاضی کے قصیدے پڑھ رہے تھے تو کچھ لوگ اسے راﺅ صاحب کاوحشیانہ کھیل قرار دے رہے تھے۔راﺅ صاحب اپنے نام کے لیے لوگوںکی جانوں سے کھیلنے کا کھیل کھیل رہے ہیں اور اس کھیل کا تماشہ لوگوں کو دکھانا چاہ رہے ہیں۔اگر سچ مچ راﺅ صاحب دہی ہنڈی کسی جذبے کے ساتھ منانا چاہتے ہیںتوانھیں اتنی اونچائی پر دہی ہنڈی باندھنا نہیں چاہیے ، نہ اتنے بڑ ے انعام کا لالچ دے کر لوگوںکو اس وحشیانہ کھیل کو کھیلنے پر مجبور کرناچاہیے۔

گوکل اشٹمی کے دن سارے شہر میں جشن کاماحول تھا۔کئی ٹولیاں شہرمیں گھوم گھوم کر مختلف جگہوں پر بندھی دہی ہنڈیا پھوڑ رہی تھیں۔ لیکن ہر کسی کاایک ہی نشانہ تھاراﺅ صاحب کی ہنڈیآخرمیںوہ اسی طرف چل دیتے تھے۔

جس مکان پر راﺅ صاحب کی دہی ہنڈی بندھی ہوئی تھی اس جگہ لاکھوں کا مجمع جمع تھا۔ ایک بڑا سا اسٹیج بناتھا جس پر راﺅ صاحب براجمان تھے۔ان کے ساتھ شہر کی کئی بڑی بڑی سماجی اور سیاسی ہستیاں بھی موجود تھیں۔ہر گروپ کو ۵۱ منٹ کاوقت دیا گیاتھا۔اگر وہ گروپ ۵۱ منٹ میں ہنڈی پھوڑنے میں کامیاب نہیں ہوتا تو وہ مقابلے سے دستبردار ہوجاتاتھااور دوسرا گروپ یہ کام کرنے لگتاتھا۔

اب تک کسی کو کامیابی نہیں مل سکی تھی ۔چار پانچ تک صف لگتیںاور پھر پھسل کر گر جاتی تھیں۔جس کی وجہ سے گروپ میں شامل لوگ زخمی بھی ہوتے۔ان کے ہاتھ پیرمیںموچ بھی آتی۔سچ مچ راﺅ صاحب کی ہنڈی بہت اونچائی پر تھی۔آخر میں راجو کے گروپ کی باری آئی۔ دوبار راجو کے گروپ نے چھ صف لگانے میںکامیابی حاصل کی ۔آخر میں اس کا گروپ ساتویں صف لگانے میں کامیاب ہوگیا۔

اب راجو کی باری تھی۔وہ ساتویں صف کے ہر شخص کے کاندھے پر کھڑا ہوکر رسی سے لٹک جائے اور ہانڈی پھوڑے۔ بندروں کی طرح راجو آخری صف والوں کے کاندھے تک پہنچ گیا۔لوگوں کی دل کی دھڑکنیں رک گئیں اور ان کے منہ سے طرح طرح کی جوش ،حیرت اور خوف بھری آوازیں نکلنے لگیں۔


اور پھر لوگوں نے وہ منظر دیکھا جس کی وجہ سے مجمع کے منہ سے خوشیاں بھری چیخیں نکل گئی تھیں۔راجو رسی پر لٹک گیاتھااور ہنڈی کی طرف بڑھ رہاتھا۔اس درمیان لگی ہوئی صفوں کا توازن بگڑ گیااور وہ دھڑام سے زمین پر گرگئے۔راجو کا ان کے گرنے سے ایک لمحہ کے لیے دھیان بھٹکااور اسی وقت وہ حادثہ ہوگیا۔

جس رسی سے ہنڈی بندھی تھی وہ رسی ٹوٹ گئی۔رسی ٹوٹتے ہی راجو کا یہ کام تھا کہ اسے فوراً رسی چھوڑ دینی چاہیے تھی۔ اسے اوپر سے نیچے گرنے پر کیچ کرنے والے نیچے سینکڑوں لوگ تھے لیکن راجو نے رسی نہیں چھوڑی۔وہ رسی کوتھامے جھولتا ہواتیزی سے جاکر سامنے والی بلڈنگ کی دیوار سے ٹکرایااور اس کے منہ سے ایک بھیانک دردبھری چیخ نکلی۔اس کے ہاتھ سے رسی چھوٹ گئی اور وہ دھڑام سے اونچائی سے نیچے کانکریٹ کی سڑک پر گرا۔پہلے وہ بلڈنگ کی دیوار سے زور سے ٹکرایاتھااور اس کے بعد پوری طاقت سے نیچے سیمنٹ کانکریٹ کی سڑک پر گرکر اس سے ٹکرایاتھا۔اس کی ہڈی پسلیاں سرمہ بن گئی تھیں۔اس کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی اور وہ بے ہوش ہوگیا۔

اسے اسپتال لے جایا گیا۔اسے اسپتال میں دیکھنے کے لیے سارا شہر ٹوٹ پڑامگر وہ کوما میںجاچکاتھا۔ اس کے علاج پر دل کھول کر خرچ کیا گیا۔اس کے گروپ نے انعا م میں جیتی ساری رقم اس کے علاج پر لگادی۔کچھ لوگوں نے بھی مدد کی۔

اس کے ماں باپ نے اپنی ساری جمع پونجی اس کے علاج پر لگادی۔

وہ بچ گیالیکن نیم مردہ سا۔

اس بات کو پھر ایک سال ہوگیاتھا۔پھر گوکل اشٹمی کاتہوار آیا تھا۔

چاروں طرف ماحول میں ”گووندا آلارے آلا“کا شور تھا۔

اس بار پھر راﺅ صاحب کی ہنڈی کا شور تھا جس کا انعام ڈھائی لاکھ تھااور اسے پھوڑنے کے لیے آٹھ صفیں لگانی تھی۔

لکشمی سویرے سے راﺅ صاحب کو گالیاں دے رہی تھی۔

ا س با ربھی اس نے اپنی امارت ،شان وشوکت جتانے کے لیے خونی کھیل رچاتھا۔

پتہ نہیں آج پھر کس لکشمی کے راجو کی جان خطرے میںتھی۔


٭
 
Top