افسانہ --- گلیشیئر

زیف سید

محفلین
’یہ جو سامنے درختوں کا جھنڈ نظر آ رہا ہے، بس اس کے پیچھے ہی گبرال ہے۔‘ ایک چرواہے نے مجھے اطلاع دی۔

تھکاوٹ اور بھوک سے برا حال تھا۔ مجھے شمالی صوبہ سرحد کی تحصیل الائی کے قصبے بنہ سے دشوار پیدل سفر شروع کیے ہوئے دس گھنٹے گزر گئے تھے۔ میں لڑکھڑاتا ہوا کیچڑ آلود راستے پر چلتا گیا۔ پانچ منٹ بعد میں نے درختوں کی آڑ سے جھانک کر دیکھا۔

آمنے سامنے کے پہاڑوں کے بیچوں بیچ اونچی اونچی گھاس اور سرکنڈوں سے ڈھکا ہوا وسیع و عریض میدان پھیلا ہوا تھا، جس کی چوڑائی دو ڈھائی سو گز سے زیادہ نہیں ہو گی لیکن لمبائی میں یہ پہاڑوں کے ساتھ ساتھ بل کھاتا ہوا دونوں طرف میلوں دور تک چلا گیا تھا۔ میدان میں جگہ جگہ پیلے اور سفید پھولوں کے تختے اور قسم قسم کی شکلوں کے پتے ہلکی ہلکی ہوا میں ڈول رہے تھے۔ پھولوں کی پتیاں خوب موٹی موٹی اور تولیہ نما تھیں۔ ایسے پھول اور پودے میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ سامنے والے پہاڑ کے پہلو میں ایک چھوٹا سا گہرے نیلے رنگ کا دریا اپنے راستے میں حائل بڑی بڑی چٹانوں سے پہلو بچاتا بہا چلا جا رہا تھا۔ دریا پر رسوں کا بنا ہوا پل جھول رہا تھا۔ دور چند خیموں سے بل کھاتا ہوا دھواں فضا میں بلند ہو رہا تھا۔

یہ گبرال کا مشہور سبزہ زار تھا۔

میدان کے ایک کونے میں پہاڑ سے بہہ کر آتے ہوئے چشمے کے قریب دو چھوٹے چھوٹے ڈھارے بنے ہوئے تھے۔ مقامی زبان میں ڈھارے سے مراد بے ڈھنگے پتھروں سے بنا ہوا ٹیڑھا میڑھا سا جھونپڑا ہے جس کی چھت پر لکڑیاں ڈال کر گھاس پھونس بچھا دیا جاتا ہے۔ ڈھارا مستقل عمارت نہیں ہے بلکہ اسے پہاڑوں میں عارضی رہائشی ضروریات پورا کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔

اس جگہ کا نام ‘جَبّی’ تھا۔ صبح سویرے جب میں سفر پر روانہ ہوا تھا تو مجھے بتایا گیا تھا کہ یہاں ایک ہوٹل ہے جو گبرال میں مسافروں کے لیے رات گزارنے کا واحدٹھکانا ہے۔

یہ معلومات درست نکلیں۔ جبی کے دو ڈھاروں میں سے ایک نے مشترکہ طور پر ہوٹل اور ریستوران کے فرائض اپنے ناتواں کندھوں پر سنبھالے ہوئے تھے۔ ہوٹل کے ڈھارےکی لمبائی اور چوڑائی دس ضرب آٹھ فٹ سے زیادہ نہیں تھی۔ اس کی صرف تین دیواریں ہی پوری بنی ہوئی تھیں، اور مستری نے کوئی ضروری کام یاد آنے یا پھر پتھروں کا ذخیرہ ختم ہو جانے کے باعث چوتھی دیوار بیچ ہی میں چھوڑ دی تھی۔ میں بے دھیانی میں اندر گھسا تو میرا سر چھت سے ٹکرا گیا اور مٹی کے ذرے زمین پر گر گئے۔ ڈھارے کے اندر چیڑ کے سوئی دار خشک پتوں کا فرش بچھا ہوا تھا۔ یہ پتے بھی غالباً نئے نئے بچھائے گئے تھے کیوں عام طور کثرتِ استعمال سے چیڑ کے پتے خاصے نرم ہو جاتے ہیں، اور پیروں میں چبھتے نہیں، جب کہ یہاں یہ کیفیت تھی کہ گویا قرونِ وسطیٰ کے زمانے میں اپنی بے گناہی کا امتحان دینے کے لیے انگاروں پر چل رہے ہیں۔ خوش قسمتی سے میں نے گھر سے نکلتے وقت اپنے بیگ میں ایک گرم چادر رکھ لی تھی، وہ یہاں بہت کام آئی اور میں اسے سوئیوں کے فرش پر بچھا کر دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔

ہوٹل کے پروپرائیٹر دو بھائی تھے، علی جان اور گورخمان۔ علی جان بڑا بھائی تھا۔ اس کی عمر پینتالیس کے قریب ہو گی۔ گورخمان کا اصل نام شاید گل رحمٰن رہا ہو گا۔ وہ اپنے بھائی سے چار پانچ سال چھوٹا ہو گا۔ چوڑی جفاکش ہڈیاں، چہرہ تیز کوہستانی دھوپ کی حدت میں جھلسا ہوا۔ اس کی چھوٹی چھوٹی متجسس آنکھوں نے بڑے تپاک سے میرا جائزہ لیا۔ اس کی بے ترتیب داڑھی میں دو طرح کی سفیدیاں نظر آ رہی تھیں، ایک تو بالوں میں کہیں کہیں قدرتی سفیدی اور دوسری غالباً حال ہی میں چولہے میں پھونکیں مارنے کی وجہ سے داڑھی پر کہیں کہیں جمی ہوئی راکھ۔ چولہے اور آگ سے گورخمان کی رغبت کا مزید ثبوت یہ تھا کہ اس کے سر پر اٹکی ہوئی اونی ٹوپی جو اچھے وقتوں میں کریم رنگ کی ہوگی، اس وقت دھویں اور میل کے مشترکہ عمل کی وجہ سے شام رنگ ہو چلی تھی۔

میں نے مینیو کی تفصیل مانگی تو گورخمان نے لکڑیاں اکٹھی کرتے ہوئے اطلاع دی کہ کدو پکے ہوئے ہیں۔ ‘کدو؟ صرف کدو ہی کیوں؟ کچھ اور نہیں؟’ میں نے حیرت اور تشویش سے پوچھا۔

‘ایک ہفتے سے بازار جانا نہیں ہوا، اس لیے سودا سلف ختم ہو گیا ہے۔ آپ بنہ بازار سے آئے ہیں تو آپ کو چاہیئے تھا کہ ساتھ مرغی یا گوشت لے آتے۔’ گورخمان نے گیند میرے کورٹ میں ڈال دی۔

‘گورخمان بھائی میں معافی چاہتا ہوں،لیکن یہ بتاؤ کہ کدو ہی کیوں، کچھ اور نہیں ہے، کوئی دال وال، کوئی اور سبزی؟’

‘کدو ہمارے اپنے ہی ہیں۔ ہوٹل کے پیچھے کدو کی بیلیں ہیں، ان کے تازہ تازہ کدو آج ہی اتارے ہیں، یہ دیکھیں بالکل دیسی گھی کی طرح !’ گورخمان نے مجھے ہلکے سبز رنگ کے گدرائے ہوئے کدوؤں کے دو نمونے دکھاتے ہوئے کہا۔

‘وہ تو ٹھیک ہے لیکن انڈے بھی نہیں ہیں تمہارے پاس؟’

مجھے بچپن ہی سے کدوؤں سے نفرت ہے اور میں انہیں کھانے سے بھوکا رہنے کو ترجیح دیتا آیا ہوں، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان پہاڑوں میں بھوکا رہنے کی گنجائش نہیں تھی۔ قریب تھا کہ میں کدوؤں کے آگے گھٹنے ٹیک دیتاکہ بڑے بھائی علی جان صاحب ریستوران کے اندر تشریف لے آئے۔

‘انڈے؟ کیوں نہیں ہیں انڈے؟ گورخمان، نیلی کلَس میں کل سے ایک نیا اَجّڑ آیا ہوا ہے۔ میں نے ان کے پاس ایک مرغی دیکھی تھی۔ ضرور انڈوں والی ہو گی۔ دوڑتے ہوئے جاؤ اور جتنے انڈے ان کے پاس ہوں، لے آؤ۔ ارے کم بخت، بھاگا کہاں جا رہا ہے، صاحب سے پیسے تو لیتا جا۔’

اَجڑ کا مطلب ہے ریوڑ، اور اجڑی، ریوڑ والا، یعنی خانہ بدوش۔ گبرال بستی ہے انہی اجڑوں کی جو پنجاب کے تپتے ہوئے میدانوں سے نکل کر اپنی بھیڑوں اور بکریوں کے ریوڑ ہنکا کر یہاں لاتے ہیں اور گرمیوں کے تین مہینے گبرال کی ٹھنڈی شاداب وادی میں گزارتے ہیں۔ ان تین مہینوں میں ان سبزہ زاروں میں خوب رونق ہوتی ہے اور گورخمان علی جان ہوٹل خوب چلتا ہے۔ گبرال کا بیشتر علاقہ الائی کے خان کی ملکیت ہے اور اس کے کارندے سیزن میں آ کر ہر اجڑ سے دودھ، گھی یا ایک آدھ بکری یا بھیڑ کی شکل میں ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ اگرچہ یہاں سالہاسال سے اجڑ آتے ہیں لیکن اس کے باوجود گبرال میں کسی اجڑ کی جگہ مخصوص نہیں، بلکہ اجڑی پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر اچھی جگہوں پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ کچھ اجڑی اپنے لیے عارضی ڈھارے تعمیر کر تے ہیں جب کہ زیادہ تر خیموں یا پھر کھلے آسمان تلے وقت بسر کرتے ہیں۔

لیکن ہر میلے کی طرح گبرال کا یہ میلہ بھی لمحاتی ہوتا ہے۔ پت جھڑ کے شروع ہونے سے پہلے ہی اجڑ ایک ایک کر کے یہاں سے رخصت ہونے لگتے ہیں، حتیٰ کہ اگست کے آخر میں یہ علاقہ مکمل طور پر ویران ہو جاتا ہے۔ علی جان نے بتایا کہ نویں مہینے کے وسط میں یہاں برف باری شروع ہو جاتی ہے اور اس وقت اگر کوئی یہاں پھنس گیا تو چاروں طرف فلک بوس پہاڑوں کی وجہ سے چھ مہینے بعد برف پگھلنے تک یہاں سے نکل نہیں سکتا۔ ان کا ڈھارا بھی گزوں برف کے نیچے دب کر ڈھے جاتا ہے اور وہ ہر سال گرمیوں کے شروع میں آ کر اسے ازسرِنو تعمیر کرتے ہیں۔

رات کے کھانے کے بارے میں ابھی مذاکرات چل ہی رہے تھے کہ ہمارے ہوٹل کے آگے سے تین چار اجڑی خواتین سروں پر گھڑے اٹھائے ہوئی کسی اجنبی کھردرے لہجے میں باتیں کرتی ہوئی گزریں۔ پتلے لیکن مضبوط بدن، تیکھے نقوش، گہرے گندمی چہرے، بال متعدد چوٹیوں میں گندھے ہوئے،کانوں میں چاندی کی پتلی پتلی بالیاں۔ انہوں نے سروں پر دونوں ہاتھوں سے المونیم کے گھڑے اٹھائے ہوئے تھے جو سورج کی آخری کرنوں میں دمک رہے تھے۔ایک عورت نے اپنی پشت پر چادر باندھی ہوئی تھی جس میں سے ایک ننھے سے بچے کی صحت مند ٹانگیں جھانک رہی تھیں۔ یہ عورتیں راستے کے کنکروں پر سے ننگے پیر اس سہولت سے چلتی گئیں جیسے کوئی دبیز قالین پر چہل قدمی کرتا ہے۔

ہوٹل میں میرے علاوہ ایک اور مسافر بھی تھا۔ معلوم ہوا کہ دینا بھی اجڑی ہے اور کل اور آج سارا دن چل کر یہاں تک پہنچا ہے۔ اس کا اجڑ ابھی تین چار گھنٹے کے فاصلے پر تھا، لیکن شام پڑ جانے کی وجہ سے وہ اس ہوٹل میں رکنے پر مجبور ہو گیا۔ دینے کی عمر بیس بائیس سے زیادہ نہیں ہو گی۔ شیو کئی دن کی بڑھی ہوئی تھی اور اس نے گہرے نیلے رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں، ایسا لگتا تھا جیسے اسے ہلکا ہلکا بخار ہو۔ دینے کے پاس پلاسٹک کے کالے شاپنگ بیگ میں لپٹی ہوئی سوکھی روٹیاں تھیں، سفر کے دوران اس کا یہی زادِ راہ تھا۔ میں نے اسے انڈوں کے سالن میں شرکت ہونے کی دعوت دی تو وہ بلاتکلف شریک ہو گیا۔ انڈے تو ویسے ہی انڈے ہیں، چاہے جیسے بھی بنائیں اچھے لگتے ہیں۔ ساتھ میں علی جان نے نہایت عمدہ پراٹھے تیار کیے تھے، جن کی وجہ سے ڈنر کا لطف دوبالا ہو گیا۔

اونچے پہاڑوں کی وجہ رات اس طرح پھیلی جس طرح ساون کی گھنگو ر بدلیاں گِھر کر آتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وادی اندھیرے میں شرابور ہو گئی۔ میرے پاس ایک چھوٹا سا ریڈیو تھا۔ میں نے بی بی سی لگا دیا۔ خبریں نشر ہو رہی تھیں:

‘کراچی کے ساحل کے قریب ایک یونانی تیل ٹینکر کو حادثہ پیش آ گیا ہے۔ ٹینکر سے ہزاروں بیرل تیل بہہ کر سمندر کی سطح پر پھیل گیا ہے، اور ابھی مزید تیل خارج ہو رہا ہے۔ ہمارے نمائندے کی اطلاع کے مطابق اس حادثے سے سمندری حیات کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔’

علی جان کسی زمانے میں کراچی ہو آیا تھا۔ اس نے اس خبر میں گہری دل چسپی کا اظہار کیا:

‘قدرت کے کام دیکھو، اِدھر تیل کتنا مہنگا ہو گیا ہے اور اُدھر سمندر میں بہہ رہا ہے۔’

گورخمان پیچھے نہ رہ سکا اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا، ‘حکیم صاحب ایک بات تو بتاؤ، تیل پانی کے اوپر تیرتا ہے نا؟۔۔۔’

اس علاقے میں اب تک جو بھی ملا تھا وہ یہی سمجھا تھا کہ میں حکیم ہوں اور یہاں جڑی بوٹیاں اکٹھی کرنے آیا ہوں۔ میں نے کئی بار سمجھایا کہ میرا مقصد محض سیر و تفریح ہے لیکن کسی نے اس پر یقین نہیں کیا۔ کیا کوئی ایسا سرپھرا بھی ہو سکتا ہے جو سیر کرنے کے لیےاتنی مصیبت اٹھا ان بے رونق پہاڑوں کا رخ کرے؟ سیر تو شہروں کے بازاروں کی رونق کی جاتی ہے۔

میں نے گورخمان کی بات کی تصدیق کی تو اس نے کہا، ‘اگر کوئی اس تیل میں جلتی تیلی پھینک دے تو کیا ہو گا؟ پوری کراچی بھک سے اڑ نہیں جائے گی؟’

اس سے پہلے کہ میں جواب دینے کے لیے الفاظ ڈھونڈتا، علی جان کا قہقہہ بلند ہوا۔

‘اس کم عقل کو دیکھو۔ سمندر میں کوئی تیلی پھینک دے تو کراچی بھک سے اڑ جائے گی؟’ علی جان نے اپنے چھوٹے بھائی کی نقل اتارتے ہوئے کہا۔ ‘تم مانسہرہ سے آگے تو گئے نہیں، باتیں کر رہے ہو کراچی کی۔’

‘یہ کون سی کتاب میں لکھا ہے کہ کسی جگہ کے بارے میں بات کرنے کے لیے وہاں جانا ضروری ہے؟ میں یہاں بیٹھ کر کراچی کی بات نہیں کر سکتا؟’ گورخمان نے تنک کر کہا۔

‘بالکل نہیں کر سکتے۔’

‘تو تم کونسا کراچی کے گورنر لگے ہوئے تھے؟ چھ مہینے جوتیاں چٹخائیں، کام نہیں ملا تو واپس پہاڑوں میں بھاگ آئے۔’

اس سے پہلے کہ ان برادرانِ یوسف میں تکرار مزید طول پکڑتی، میں نے گورخمان سے قہوے کی فرمائش کر دی، اور وہ بڑبڑا تا ہوا کمر پھیر کر کچن کی طرف متوجہ ہو گیا۔ کچن کی صورتِ حال کچھ یوں تھی کہ ٹوٹی ہوئی دیوار کے ساتھ ایک کونے میں تین پتھر رکھ کر ان کے اوپر دیگچی رکھ دی گئی تھی، جس کا رنگ کالک سے بالکل سیاہ پڑ گیا تھا۔ دیوار کے اوپر مسالے کے ڈبے اور چائے کا سامان رکھا ہوا تھا، جب کہ ایک طرف پتھر پر لالٹین اٹکی ہوئی تھی۔ اندھیرا پھیلتے ہی اچھی خاصی خنکی پھیل گئی تھی، اس لیے چولہے کی قربت بھلی معلوم ہو رہی تھی۔

اسی دوران تیز ہوا چلنا شروع ہو گئی تھی، جس کی تیز دھاریں ٹوٹی ہوئی دیوار کو پھلانگ پھلانگ کر بدن کاٹ رہی تھیں۔ ادھر فرشی سوئیوں نے الگ ناطقہ بند کر رکھا تھا کہ پہلو بدلنے پر چادر کے اندر سے چبھتی تھیں۔ میں آدھی چادر نیچے بچھا ،آدھی اوڑھ کر سونے کی کوشش کرنے لگا۔ گبرال پہنچنے کے لیے کئی ہزار فٹ بلند پہاڑ پر چڑھنے اور پھر دوسری طرف اترنے کی وجہ ایسے پٹھے بھی کام میں لانا پڑے تھے جو عام چلنے میں استعمال نہیں ہوتے۔ اوپر سے سخت فرش اور ٹھنڈ کی وجہ سے الگ بے آرامی تھی۔ بہت دیر تک آدھے سوئے آدھے جاگتے ذہن میں طرح طرح کے خیالوں کی تتلیاں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتی، ایک دوسرے سے چہلیں کرتی رہیں۔ موٹے موٹے کدوؤں کا سالن۔۔۔ کراچی میں آئل ٹینکر کا حادثہ۔۔۔ اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو۔۔۔ اگر کوئی ماچس کی تیلی پھینک دے تو؟۔۔۔ آگ کا دریا۔۔۔ یہ عشق نہیں آساں۔۔۔ چیخیں۔۔۔ کسی عورت کی درد بھری فریادیں۔۔۔ کرب میں لپٹی ہوئی آہیں۔۔۔

یا خدایا یہ ماجرا کیا ہے؟ یہ فریادوں کی آواز کہاں سے آ رہی ہے؟ ابھی اس صورتِ حال کا ادراک نہیں ہو پایا تھا کہ ڈھارا کئی لوگوں سے بھر گیا۔ پسینے سے لتھڑے ہوئے، تھکن سے نڈھال بے ہنگم بدن ہمارے آس پاس آڑے ترچھے ہو کر لیٹ گئے۔ ہوٹل کے سوئی دار فرش پر پہلے ہی جگہ کم تھی، ان لوگوں کی وجہ سے مجھے ٹانگیں مزید سکوڑنا پڑیں۔ ادھر ہوٹل کے باہر گورخمان اور علی جان کی آوازیں بھی آتی رہیں لیکن بات چیت کا مفہوم واضح نہ ہو سکا۔ اسی دوران ساتھ والے ڈھارے سے عورت کی سسکیاں جاری رہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد یہ آوازیں بھی مدھم پڑتی چلی گئیں اور رفتہ رفتہ فضا میں صرف قریب بہتے ہوئے دریا کی سرسراہٹ اور ہوا کی سرگوشیاں باقی رہ گئیں۔ اور پھر غنودہ ذہن دوبارہ نیند کی آغوش میں گم ہو گیا۔

صبح اٹھ کر مائع برف سے منھ بھگوتے ہوئے اچانک مجھے رات کا واقعہ یاد آ گیا۔ میں نے گورخمان سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ رات چند اَجڑی ایک بیمار عورت کو علاج کے لیے چارپائی پر اٹھا کر لائے تھے، منھ اندھیرے ہی واپس چلے گئے۔ ’علاج کے لیے؟ لیکن یہاں علاج کہاں؟‘ معلوم ہوا کہ ساتھ والے ڈھارے میں میڈیکل سٹور ہے اور وہاں ایک کمپاؤنڈر کا بسیرا ہے۔

میں نے رات ہوٹل سے ملحق دوسرا ڈھارا دیکھ کر فرض کر لیا تھا کہ شاید یہ ہوٹل ہی کا حصہ ہو گا، لیکن اب جا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ واقعی یہاں ایک میڈیکل سٹور قائم ہے۔ اندر درمیانی عمر اور نسبتاً بھاری بدن کا ایک باریش شخص بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے سر پر ہلکے بھورے رنگ کا پکول پہنا ہوا تھا اور بدن سیاہ رنگ کی گرم چادر میں لپیٹا ہوا تھا۔ میں نے جا کر اس سے علیک سلیک کی تو اس کے منھ سے نسوار کا بھپکا آیا۔ یہ ولی محمد تھا، جو بٹہ گرام کا رہنے والا تھا۔ گبرال کے دوسرے لوگوں کے برعکس ولی محمد ہندکو یا گوجری نہیں بلکہ پشتو بولتا تھا۔ اس کے لہجے میں کسی حد تک احساسِ تفاخر پایا جاتا تھا جیسے وہ اس علاقے میں رہنے والے دوسرے لوگوں سے کسی قدر بلند سطح پر واقع ہو۔ وہ بٹہ گرام میں ایک میڈیکل سٹور میں کام کرتا تھا اور سیزن کے دوران گبرال کے میدانوں میں عارضی طور پر آنے والے سینکڑوں اجڑیوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے کی خاطر تین مہینے یہاں گزارتا تھا۔

میڈیکل سٹور لکڑی کے ایک شیلف پر مشتمل تھا، جس کا بیشتر حصہ نسوار کی چھوٹی چھوٹی تھیلیوں، سستے سگریٹوں، ماچسوں، ٹافیوں، چائے اور بسکٹوں کے رنگ برنگے ڈبوں نے گھیرا ہوا تھا۔ ایک طرف چینی کی ادھ کھلی بوری پڑی تھی، جس کے سامنے لکڑی کے چھوٹے سے شیلف پر ترازو رکھا ہوا تھا۔ ترازو کے اوپر ستلی کے سہارے بسکٹوں، نمکو اور پاپڑوں کے چھوٹے چھوٹے پیکٹوں کی میلی جھالر لٹک رہی تھی۔ ایک طرف کچھ ادویات بھی نظر آئیں، پیراسٹامول، ڈسپرین، السر کی ادویات، کھانسی کے شربت، اینٹی بیاٹکس۔ میں نے ولی محمد سے دریافت کیا کہ رات آنے والی عورت کو کیا بیماری تھی؟

اس نے ادھر ادھر دیکھ کر رازدارانہ لہجے میں بتایا کہ اسے زنانہ تکلیف تھی۔

‘زنانہ تکلیف؟ کون سی زنانہ تکلیف؟ اور وہ چیخیں؟’

‘ابارشن کیس تھا، خون بہت ضائع ہو گیا تھا۔’

‘ابارشن کیس؟ میرے خدا!کہاں سے آئے تھے وہ لوگ؟’

‘رانگڑ قبیلے کے اجڑی تھے، اسے شیر والی رَکھ سے اٹھا کر لائے تھے، اُدھر اس پہاڑ کے پیچھے ہے شیر والی رکھ۔’ ولی محمد نے نسوار کی ڈبیا کھول کر چٹکی بناتے ہوئے بتایا۔

‘کتنی دور ہے شیر والی رَکھ یہاں سے؟’

ولی محمد نے مجھے دکان کے باہر ایک ہموار پتھر پر بیٹھنے کی پیش کش کی۔ ‘کل شام کو سورج ڈھلے چلے تھے وہ لوگ۔ ساری رات چارپائی پر اٹھا کر چلتے رہے تب کہیں چار بجے صبح یہاں پہنچے۔ راستا مشکل ہے، ہٹے کٹے پہاڑوں کے عادی اجڑی چور چور ہو گئے تھے۔’

‘تو تم نے کیا علاج کیا اس کا؟’

ولی محمد نےپہلو بدلا۔ ‘بس درد ختم کرنے کے لیے ڈِکلوران کا ٹیکا لگا دیا۔ میرے پاس تو بس یہ عام سی دوائیں ہیں۔ اسے ہسپتال کی ضرورت تھی، لیڈی ڈاکٹر کی ضرورت تھی، اور قریب ترین لیڈی ڈاکٹر ستر کلومیٹر دور بٹہ گرام میں ہے اور وہ بھی ہفتے میں تین دن آتی ہے۔’

ڈکلوران؟ میں نے کسی زمانے میں کچھ طبی کتابیں شوقیہ طور پر پڑھی تھیں اس لیے اس نام سے ذہن میں گھنٹی سی بجی، جیسے کوئی لفظ زبان پر آتے آتے دماغ میں اٹک جائے۔ میں نے ولی محمد سے ڈسپرین کی دو گولیاں خریدیں تو اس نے پیسے لینے سے انکار کر دیا۔

‘آپ بھی حکیم ہیں اس لیے اپنی ہی برادری کے ہیں اور پھر مہمان بھی ہیں۔ آپ سے پیسے نہیں لوں گا۔’

اتنے میں گورخمان نے آواز لگائی کہ ناشتا تیار ہے۔ آدھے گھنٹے بعد میں اپنا بیگ اٹھا کر جبّی سے روانہ ہو گیا۔ مجھے دوپہر تک گبرال کے ہرے بھرے سبزہ زاروں میں چلنے کے بعد موسیٰ کا مصلاکی چوٹی کے شمالی پہلو پر چڑھ کر اس وادی سے باہر نکلنا تھا۔ گبرال کے لمبوترے میدان میں جگہ جگہ قائم اجڑیوں کے ڈھاروں ، خیموں اور بکریوں اور بھیڑوں کے باڑوں کے بیچ چلتے ہوئے مجھے ایسا لگا جیسے میں دس ہزار سال پہلے کے زمانے میں پہنچ گیا ہوں، کیوں کہ زراعت کے فروغ سے پہلے دنیا بھر کے تمام انسان گبرال کے ان باسیوں کی طرح اجڑی تھے۔ جب دس ہزار سال پہلے انسان نے زراعت دریافت کی تو زراعت نے انسان سے خانہ بدوشی ترک کروا کر اسے زمین کے کھونٹے سے باندھ دیا اور انسان مجبور ہو گیا کہ وہ اپنے کھیتوں کے گرد مستقل بستیاں آباد کرے۔ یہی بستیاں رفتہ رفتہ شہروں اور پھر تہذیبوں میں ڈھل گئیں، جب کہ اس دوران سخت کوش اجڑی پرانی زندگی کے ڈھرے پر چلتے رہے، اور آج تک چل رہے ہیں۔

تاہم لگتا ہے کہ گبرال کے اجڑی مکمل طور پر ’ہرڈر گیدرر‘ (Herder-Gatherer) نہیں رہے، کیوں کہ میدان میں چلتے چلتے مجھے چند کھیتیاں بھی نظر آئیں۔ یہ الگ بات کہ ان کھیتیوں کا بغور جائزہ لینے پر انکشاف ہوا کہ ان میں فصلوں کی بجائے از قسمِ کدو سبزیاں اگائی گئی تھیں۔ اور ویسے بھی یہاں اجڑیوں کے مختصر قیام، بڑے مویشیوں کی عدم دستیابی اور شدید موسم کی وجہ سے باقاعدہ فصلیں اگانا ممکن نہیں ہے۔

میں اجڑیوں کے تمدن کے بارے میں سوچتا ہوا چلتا گیا کہ اچانک پگڈنڈی برف سے لدے ہوئے ایک چھوٹے سے میدان میں پہنچ کر ختم ہو گئی۔ یہ دراصل ایک گلیشیئر کا دامن تھا۔ میں نے خیالی دستار تھام کر اوپر پہاڑ کی طرف دیکھا۔ گلیشیئر پہاڑ کی چوٹی سے جھاگ اڑاتی آبشار کی طرح بہتا ہوا نیچے تک آ رہا تھا۔

صبح علی جان نے بتایا تھا کہ منڈی کے ریسٹ ہاؤس تک پہنچنے کا سب سے آسان راستا ‘چَھری’ سے ہو کر جاتا ہے۔ ہندکو اور گوجری زبانوں میں چھری کا مطلب تودہ گرنے کے بعد جمع ہونے والی مٹی ہے۔ آپ نے شاید شاہ راہِ قراقرم پر گرنے والی چھریاں دیکھ رکھی ہوں جو سڑک کو شدید نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ بعض اوقات نیچے سے گزرنے والی بدقسمت گاڑیوں کو بھی دھکیل کر دریائے سندھ کے سپرد کر دیتی ہیں۔

‘کیا یہ وہ چھری ہے جس کا ذکر علی جان کر رہا تھا؟’ میں نے سوچا۔ ’لیکن چھری تو مٹی کی ہوتی ہے؟’ لیکن اب یہ معلوم ہوا کہ چھری کسی بھی ایسی چیز کی ہو سکتی ہے جو ڈھلوان سے لڑھک کر نیچے گرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ ‘تو کیا میں اس گلیشیئر کے اوپر سے چڑھ کر جاؤں؟ لیکن گلیشیئر پر چلنا بہت خطرناک ہوتا ہے، کچھ پتا نہیں اس کے اندر کہاں برف بُھربھری ہو اور بندہ دھڑام سے دراڑ میں چلا جائے؟’

چھری پر قدموں کے تازہ نشان نظر آ رہے تھے، جس کا مطلب ہے کہ لوگ یہیں سے آتے جاتے ہیں۔ پانی کی ایک پتلی سی دھار گلیشیئر کے ایک طرف سے نکل کر ایک ننھی منی سی ندی کا روپ دھار کر نیچے وادی کی طرف جا رہی تھی۔

میں نے دوبارہ پہاڑ کا جائزہ لیا لیکن نظریں ڈھلوانی گھنے جنگل میں کسی راستے کا سراغ نہ پا کر ایک بار پھر چھری کی طرف لوٹ آئیں۔ رات کی بے آرامی اور نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے برا حال تھا۔ میں نے گلیشیئر کے قدرتی نلکے سے پانی کی بوتل بھری اور وہیں ایک پتھر پر بیٹھ کر بنہ بازار سے خریدے ہوئے بسکٹ کھانے لگا۔

اسی دوران برف سے دو چرواہے اترتے نظر آئے۔ ایک کے ہاتھ میں چادر تھی جس کے دوسرے سرے سے اس نے دو بکریاں باندھ رکھی تھیں اور وہ انہیں بھی ساتھ گھسیٹتا ہوا لا رہا تھا۔ اس نے بھی تصدیق کی کہ منڈی کا یہی راستا ہے۔

میں نے ایک طرف پڑی ہوئی ایک سوکھی ٹہنی اٹھائی اور اسے لاٹھی کی طرح ہاتھ میں پکڑ کر چھری پر یوں چڑھا جیسے کوئی کسی سرکش گھوڑے پر سوار ہوتا ہے۔ سخت برف پر قدم رکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ دراڑوں کے خطرے کے علاوہ یہاں پھسلنے کا بھی پورا پورا احتمال موجود ہے۔ تاہم تھوڑی دیر کے بعد میں نے چلنے کا درست طریقہ دریافت کر لیا۔ اور وہ یہ تھا کہ برف پر قدم رکھنے سے پہلے آپ اپنی ‘واکنگ سٹک’ کی مدد سے ٹھونک بجا کر دیکھ لیں کہ نیچے کہیں دراڑ تو نہیں۔ اس کے بعد آپ ایک پنجہ برف پر رکھیں، پھر پورا پیر گھما کر ایڑی جمائیں، ساتھ ہی ساتھ واکنگ سٹک کو برف میں کھبو کر اس کا سہارا لیتے ہوئے دوسرا قدم اٹھائیں، تاکہ پھسلنے کا خطرہ کم سے کم ہو جائے۔ شاید بارودی سرنگیں صاف کرنے والے سپاہی بھی کسی ’نو گو ایریا‘ میں اتنی احتیاط سے قدم نہیں رکھتے ہوں گے جتنے انہماک سے میں اس گلیشیئر پر چل رہا تھا۔

چلتے چلتے اچانک جھپاکا سا ہوا۔ ’ڈکلوران؟ ڈکلوران تو اسپرین کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ وہ ادویات ہیں جو خون کو جمنے سے روکتی ہیں اسی لیے ان کا استعمال ایسے مریضوں میں منع ہے جنہیں اندرونی خون بہنے کی کوئی بیماری ہو، مثال کے طور پر اَلسر، کیوں کہ اس سے السر پھٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اور اس قصائی نے مِس کیرج کی مریضہ کو ڈکلوران کا انجیکشن لگا دیا؟‘

’تو کیا میں واپس جا کر اس کمپاؤنڈر کو بتا دوں کہ اس نے کیا حماقت کی ہے؟‘

’لیکن اگر میں یہاں سے پلٹا تو کم از کم پانچ چھ گھنٹے ضائع ہو جائیں گے اور کیا پتا رات جنگل میں گزارنا پڑے۔ چرواہے کہتے ہیں کہ مُنڈی ابھی بہت دور ہے۔‘

نہیں نہیں، میں اس قصائی کو کیسے کھلی چھٹی دے سکتا ہوں؟ میں واپس جا کر سب کے سامنے اس کا پول کھول دوں گا۔‘

میں وہیں رک گیا اور اپنی لاٹھی سے ٹیک لگا کر سوچنے لگا۔

گلیشیئر نے صدیوں کے عمل سے پہاڑ کے پہلو میں خاصی گہری گزرگاہ کھود ڈالی تھی، میرے دونوں طرف گزوں اونچے کنارے تھے، جن کی وجہ سے ایسا لگتا تھا جیسے میں اندرونِ شہر کی کسی گلی میں چل رہا ہوں۔ صاف ظاہر تھا کہ یہ گلیشیئر صدیوں پرانا ہے۔ بلکہ عین ممکن ہے یہ اس وقت بھی موجود ہو جب دنیا بھر کے تمام انسان گبرال کے باسیوں کی طرح اجڑی تھے۔

’لیکن دوسری طرف یہ بھی تو سوچو کہ وہ کمپاؤنڈر اس علاقے کے لوگوں کے لیے امید کی واحد کرن ہے۔ اگر وہ بھی چھن گئی تو اس ویرانے کے لوگوں کے لیے کیا باقی بچے گا؟ اور کیا وہ لوگ میری بات کا یقین کر لیں گے، اور یقین کر بھی لیا تو وہ کیا کریں گے، کیا ولی محمد کو گبرال سے بے دخل کر دیں گے؟‘

’دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ میری چھٹی پرسوں ختم ہو رہی ہے۔ میں آج رات منڈی نہ پہنچا تو کسی صورت واپس اسلام آباد نہیں پہنچ پاؤں گا۔ نئی نئی نوکری ہے، اور باس بدمزاج۔‘

تھوڑی ہی دیر بعد بلند پہاڑی علاقے کی تیز دھوپ اور مسلسل چڑھائی کی وجہ سے حلق میں کانٹے پڑنا شروع ہو گئے اور ماتھے سے پسینہ بہہ نکلا۔ ادھر بوتل کا پانی زیادہ دیر تک ساتھ نہ نبھا سکا۔ میں نے لاٹھی کی مدد سے سطح کی میلی کچیلی برف کرید کر صاف برف ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن اندر کی برف باہر سے زیادہ گندی نکلی۔

’اگر ولی محمد کو کھلی چھوٹ دے دی گئی تو وہ کل کسی اور کو موت کے گھاٹ اتار دے گا۔ نیم حکیم کہیں کا۔۔۔‘

’لیکن ولی محمد اور کرتا بھی کیا؟ کیا وہ اس عورت کو واپس بھیج دیتا؟ وہاں سے مایوس ہو کر اجڑی کہاں جاتے؟ اگر دو دن سفر کے بعد وہ ہسپتال پہنچ بھی جاتے تو علاج کے لیے پیسا کہاں سے آتا؟‘

گلیشیئر کے نیچے دور کہیں سے جھر جھر پانی بہنے کی آواز آ رہی تھی لیکن اس تک رسائی کی کوئی صورت نہیں تھی۔ اس وقت صورت یہ تھی کہ میں جمے ہوئے پانی کے ڈھیر پر چلا جا رہا تھا لیکن پانی کی ایک بوند تک ندارد تھی۔ سمندر میں رہے پیاسے کے پیاسے۔

’اور ولی محمد ویسے بھی لالچی شخص نہیں لگتا۔ آخر اس نے اِس بیابان میں بھی مجھ سے پیسے لینے سے انکار کر دیا تھا۔‘

گلیشیئر میری توقع سے کہیں زیادہ طویل نکلا۔ ایک گھنٹا گزرا، دو، پھر تین گھنٹے بیت گئے لیکن اب بھی پہاڑ کی چوٹی کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ کئی بار محسوس ہوا کہ جیسے اگلا موڑ مڑتے ہی چوٹی سامنے آ جائے گی، لیکن اس موڑ تک پہنچ کر بھی افق اتنا ہی دور لگتا تھا جتنا آدھ گھنٹا پہلے دکھائی دیا تھا۔

میں سر جھکائے گزوں گہرے کناروں کے درمیان برف پر چلتا رہا۔ اس دوران اجڑی عورت کی فریادیں میرے کانوں میں گونجتی رہیں، اور میں سوچتا رہا کہ شاید مجھے کبھی بھی معلوم نہیں ہو سکے گا کہ اس رات وہ زندہ بچی یا نہیں۔
 
Top