افسانہ گردش از:- ایم مبین

mmubin

محفلین
افسانہ گردش از :۔ ایم مبین
Urdu Short Story

Gardish



By M.Mubin



بیل بجانےپر حسبِ معمول بیوی نےہی دروازہ کھولا ۔اس نےاپنی تیز نظریں بیوی کےچہرےپرمرکوز کردیں جیسےوہ بیوی کےچہرےسےآج پیش آنےوالےکسی غیر معمولی واقعہ کو پڑھنےکی کوشش کررہا ہو۔
بیوی کا چہرہ سپاٹ تھا ۔ اس نےایک گہری سانس لی اسےمحسوس ہوا کہ جیسےاس کےدل کا ایک بہت بڑا بوجھ ہلکا ہوگیا ہے۔
بیوی کےچہرےکا سکوت اس بات کی گواہی دےرہا تھا کہ آج ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا جو تشویش ناک ہو یا جو اس کےدل کےان خدشات کو صحیح ثابت کردےجن کےبارےمیں وہ راستےبھر سوچتا آیا تھا ۔ اتنےدنوں میں وہ بیوی کےچہرےکی کتاب پڑھنا اچھی طرح سیکھ گیا تھا‘ بیوی کےچہرےکےتاثرات سےوہ اندازہ لگا لیتا تھا کہ آج کس قسم کا واقعہ پیش آیا ہوگااس سےپہلےکہ بیوی اس واقعہ کےبارےمیں اسےبتائےوہ خود کو نفسیاتی طور پراس واقعہ کو جاننےکےبعد خود پر ہونےوالےردِّ عمل کےلئےتیار کرلیتا تھا ۔
اپنا سر جھٹک کر ا س نےاپنی قمیض اتار کربیوی کی طرف بڑھا دی اور بیوی کےہاتھ سےلنگی لےکر اسےکمر کےگرد لپیٹ کر اپنی پتلون اتارنےلگا ۔ پھر واش بیسن کےپاس جاکر اس نےٹھنڈےٹھنڈےپانی کےچھینٹےاپنےچہرےپر مارےان چھینٹوں کےچہرےسےٹکراتےہی اس کےسارےجسم میں فرحت کا ایک جھونکا سا سرایت کرگیا ۔ پھر وہ دھیرےدھیرےمنہ ہاتھ دھونےلگا ۔
تولیہ سےمنھ ہاتھ پونچھتا وہ اپنی کرسی پر آبیٹھا اور بیوی سےپوچھنےلگا ۔ ” گڈو کہاں ہے؟ “
” شاید ٹیوشن کےلئےگیا ہے۔“ بیوی نےجواب دیا ۔
” جھوٹ بولتا ہےوہ “ بیوی کی بات سنتےہی وہ پھٹ پڑا ۔ ” وہ ٹیوشن کا بہانہ کرکےاِدھر اُدھر آوارہ گردی کرتا پھرتا ہے‘ ابھی راستےمیں ‘ میں اسےکیپٹول کےپاس اس کےدوچار آوارہ دوستوں کےساتھ دیکھ چکا ہوں ‘ اس کی ٹیوشن کلاس ناز کےپاس ہے‘ وہ کیپٹول کےپاس کس طرح پہنچ گیا ؟ “
” ہوسکتا ہےٹیوشن جلدی چھوٹ گئی ہو اور وہ دوستوں کےساتھ گھومنےنکل گیا ہو۔“ بیوی نےبیٹےکی طرف داری کی ۔
” اگر ٹیوشن کلاس سےجلدی چھٹی ہوگئی تو اسےگھر آنا چاہئیےتھا ‘ دوستوں کےساتھ آوارہ گردی کرنےکےلئےجانا نہیں چاہیئےتھا ‘ میں تو کہتا ہوں کہ اس کی ٹیوشن سراسر فراڈ ہے‘ ٹیوشن کےبہانےوہ آوارہ گردی کرتا ہوگا اور ٹیوشن کی فیس دوستوں کےساتھ اڑا دیتا ہوگا ۔ “
” اگر بیٹےپر بھروسہ نہیں ہےتو خود کسی دن ٹیوشن کلاس میں جاکر پتہ کیوں نہیں لگا لیتی؟“ بیوی نےتیز لہجےمیں کہا تو اس نےموضوع بدلا ۔
” منی کہاں ہے۔ ؟ “
” اپنی ایک سہیلی کےساتھ شاپنگ کےلئےگئی ہے۔ “
” اس لڑکی کا باہر نکلنا اب کم کردو ۔ اب وہ چھوٹی بچی نہیں رہی ‘ بڑی ہوگئی ہی۔ سویرےجب میں ڈیوٹی پر جارہا تھا تو وہ کھڑکی میں کھڑی برش کررہی تھی اور نیچےدو تین لڑکےاسےدیکھ کر مسکرا رہےتھے‘ بھّدےریمارکس پاس کر رہےتھے۔ یہ محلہ شریفوں کےرہنےکےلائق ہی نہیں ........ “ وہ بڑبڑانےلگا ۔
” چلو کھانا کھالو ۔ “ بیوی نےاس کا موڈ بدلنےکےلئےموضوع بدلنےکی کوشش کی ۔
” ارےہاں چھوٹا کہاں ہےدکھائی نہیں دےرہا ہے۔ “
” اپنےدوستوں کےساتھ کھیلنےگیا ہے۔ “
” کہاں کھیلنےگیا ہوگا ؟ “ وہ جھنجلا کر بولا ۔ ” بچوں کےکھیلنےکےلائق کوئی جگہ بھی تو نہیں بچی ہے‘ چاروں طرف کانکریٹ کا جنگل آباد ہوگیا ہے۔تمہیں معلوم ہےکہ وہ اپنےدوستوں کےساتھ کرکٹ کھیلنےآزاد میدان جاتا ہے۔ ؟“
” رات کےآٹھ بج رہےہیں ‘ آزاد میدان میں سات بجےاندھیرا ہو جاتا ہےکیا وہ اب تک فلڈ لائٹ میں کرکٹ کھیل رہا ہوگا ۔ ؟ “
” دیکھو تم بچوں کو آنےجانےکےلئےبس یا ٹیکسی کا کرایہ تو نہیں دیتےہو تو ظاہر سی بات ہےکہ آزاد میدان سےوہ پیدل ہی آرہا ہوگا اور آزاد میدان کوئی اتنےقریب نہیں ہےکہ پانچ دس منٹ میں کوئی گھر آجائے۔ “
” سلطانہ ! میں تم سےبار بار کہتا ہوں کہ میں جب گھر آو¿ں تو مجھےبچےگھر میں دکھائی دینےچاہئیےلیکن تم میری اس بات کو سنجیدگی سےلیتی ہی نہیں ہو ‘ آخر تمہارےدل میں کیا ہے‘ تم کیا چاہتی ہو ؟ “
” دیکھو ! تم اگر بچوں کےباپ ہو تو میں بھی بچوں کی ماں ہوں ‘ تم سےزیادہ مجھےبچوں کی فکر رہتی ہےمجھےپتہ ہےاس شہر اور ہمارےاطراف کا ماحول اس قابل نہیں ہےکہ بچےزیادہ دیر گھر سےباہر رہنےپر بھی محفوظ رہیں لیکن کیا کروں بچےکوئی نہ کوئی ایسا کام بتا دیتےہیں کہ مجبوراً مجھےانہیں باہر جانےکی اجازت دینی ہی پڑتی ہے۔ “ بیوی نےجواب دیا ۔ ” اب یہ بےکار کی باتیں چھوڑو اور کھانا کھالو ‘ پتہ نہیں دوپہر میں کب کھانا کھایا ہوگا ؟ “
” ٹھیک ہےنکالو ۔ “ اس نےبھی ہتھیار ڈال دئے۔
وہ بظاہر اطمینان سےکھانا کھا رہا تھا لیکن اس کا سارا دھیان بچوں میں لگا ہوا تھا ۔ یہ گڈو اپنےدوستوں کےساتھ اتنی دیر تک پتا نہیں کیا کیا کرتا پھرتا ہےمنی اپنی سہیلی کےساتھ شاپنگ کرنےگئی ہےابھی تک واپس کیوں نہیں آئی ؟ اسےاتنی رات گئےتک گھر سےباہر نہیں رہنا چاہیئےاور یہ چھوٹےکو کرکٹ کا جنون سا ہےاب کرکٹ کھیلنےکےلئےدو تین کلو میٹر دور آزاد میدان میں اور وہ بھی پیدل جانےمیں کوئی تُک ہے؟
جب وہ گھر سےباہر ڈیوٹی پر ہوتا تھا تو بھی ایک لمحہ کےلئےگھر اور بچوں کا خیال اس کےذہن سےجدا نہیں ہوپاتا تھا ۔ گھر آنےکےبعد بھی اسےاس اذیت سےنجات نہیں مل پاتی تھی ۔ اگر بچےگھر میں اس کی نظروں کےسامنےبھی ہوتےتو وہ انہی کےبارےمیں سوچا کرتا تھا ۔
گڈو پڑھنےلکھنےمیں کافی اچھا ہے‘ کافی ذہین ہے۔ بارہویں پاس کرلےتو کوئی اچھی لائن میں ڈالا جاسکتا ہے‘ ڈاکٹر بنانےکی استطاعت تو اس میں نہیں ہے‘ ہاں کسی پالی ٹیکنک میں بھی داخلہ مل جائےتو وہ اسےپڑھا سکتا ہے۔ منی کی تعلیم کا سلسلہ ختم کردینا اس کی مرضی کےخلاف تھا لیکن اس کےعلاوہ کوئی راستہ بھی نہیں تھا ‘ تیسری مرتبہ وہ میٹرک میں فیل ہوئی تھی پڑھنےلکھنےمیں وہ یوں ہی ہے۔ ہاں خوبصورتی میں وہ ماں سےبڑھ کر ہےاس کی شادی کی عمر ہےوہ جلد سےجلد اس کی شادی کرکےایک بڑےفرض سےسبکدوش بھی ہونا چاہتا ہےلیکن کیا کریں منی کےلئےکوئی اچھا لڑکا ملتا ہی نہیں ۔ ایک دو رشتےآئےبھی لیکن نہ تو وہ منیّ کےمعیار کےتھےنہ برابری کےاس لئےاس نےانکار کردیا ۔
چھوٹا پڑھنےمیں تیز تھا لیکن کرکٹ .... اُف ! یہ کرکٹ اسےبرباد کرکےرکھ دےگا ۔ جہاں تک سلطانہ کا سوال تھا دن بھر گھر کےکام خود اکیلی کرتی تھی ۔ گھر کےسارےکام ‘ بچوں کےکام اس کےبعد ایمبرائیڈری مشین پر بیٹھ جاتی تھی تو کبھی کبھی رات کےدو بج جاتےتھے۔
وہ اسےسمجھاتا تھا ۔ اسےدو بجےرات تک آنکھیں پھوڑنےکی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اتنا کما لیتا ہےکہ ان کا گذر ہوجائےلیکن وہ بھڑک کر جواب دیتی ۔
” تمہاری عقل پر تو پردہ پڑا ہوا ہے۔ اگر میں تھوڑی محنت کرکےدو پیسےکما لیتی ہوں تو اس میں برائی کیا ہے؟ گھر میں جوان بیٹی ہےمیں اس کےلئےپیسےجمع کررہی ہوں ۔ بیٹی کی شادی کو معمولی کام مت سمجھو شادی تو ایک ایسا کاج ہےجس کےلئےسمندر کےپانی جیسی فراخی بھی کم پڑی۔“
آفس میں کام کرتےہوئےوہ سب سےزیادہ سلطانہ کےبارےمیں سوچتا تھا ۔ گھر میں اکیلی ہوگی اس نےدروازہ تو بند کر رکھا ہوگا ........ یا پھر کسی اجنبی کی دستک پر دروازہ کھول کر مصیبت میں پھنس جائےگی ۔
ایک دن پولس ایک مجرم کا تعاقب کرتی ان کےمحلےتک آگئی تھی ۔ مجرم پناہ لینےکےلئےان کی بلڈنگ میں گھس گیا ۔ اس نےان کےگھر پر دستک دی اور بےخیالی میں سلطانہ نےدروازہ کھول دیا ۔ اس مجرم نےفوراً چاقو نکال کر اس کےنرخرےپر رکھ دیا اور اسےدھمکاتا گھر میں گھس گیا ۔
” خاموش ! اگر زبان سےذار سی آواز بھی نکلی تو گلا کٹ جائےگا ۔ “
وہ بہت دیر تک سلطانہ کا منھ دبائےاس کےگلےپر چاقو لگائےگھر میں چھپا رہا تھا ۔ پولس ساری بلڈنگ میں اسےڈھونڈتی رہی تھی۔ سلطانہ ایک دو بار مچلی تو تیز چاقو اس کےجسم سےلگ گیا اور جسم پر ایک دو جگہ زخم ہوگئےجن سےخون بہنےلگا ۔ بعد میں جب اس بدمعاش کو محسوس ہوا کہ پولس جاچکی ہےتو وہ سلطانہ کو چھوڑ کر بھاگا ۔ اسی وقت سلطانہ نےچیخنا شروع کردیا ........ سلطانہ کی چیخیں سن کر نیچےسےگزرتےپولس والےچوکنا ہوگئےاور انھوں نےاس بدمعاش کو گولی کا نشانہ بنا دیا ۔
بعد میں پولس کو پتہ چلا کہ وہ بدمعاش ان کےگھر میں چھپا ہوا تھا تو انہوں نےپنچ نامےمیں سلطانہ کا نام بھی درج کرلیا سلطانہ کےساتھ اسےکئی بار پولس اسٹیشن کےچکر کاٹنےپڑے۔ پولس الٹےسیدھےسوالات کرتی ۔
” وہ بدمعاش گھر میں گھسا تو آپ چیخی کیوں نہیں ؟ وہ بدمعاش تمہارےہی گھر میں کیوں گھسا ؟ کیا تم لوگ اس کو پہلےسےجانتےہو ؟ اس بدمعاش نےتمہارےساتھ کیا ‘ کیا کیا ؟ یہ جسم پر زخم کس طرح آئےتم نےمزاحمت کیوں نہیں کی ؟ تب سےروزانہ خدشہ لگا رہتا تھا کہ آج بھی پھر اسی طرح کی کوئی واردات نہ ہوجائے۔
ایک بارمحلہ میں ہی پولس کا دن دہاڑےکسی گینگ سےانکاو¿نٹر ہوگیا ۔ دونوں طرف سےگولیاں چل رہی تھیں ۔ لوگ خوف زدہ ہوکر اِدھر اُدھر بھاگ رہےتھے۔ اس وقت چھوٹا اسکول سےآیا بےخیالی میں وہ اس علاقےمیں داخل ہوگیا جہاں تصادم چل رہا تھا اس سےپہلےکہ صورت حال کا اسےعلم ہوتا اور وہ وہاں سےکسی محفوظ مقام کی طرف بھاگتا ایک گولی اس کےبازو کو چیرتی ہوئی گذر گئی ۔
خون میں لہو لہان ہو کر وہ بےہوش ہوکر زمین پر گر پڑا ۔ تصادم ختم ہوا تو کسی کی نظر اس پر پڑی اور اسی نےانہیں خبر کی اور اسےاسپتال لےجایا گیا ۔
گولی گوشت کو چیرتی ہوئی گذری تھی ‘ شکر تھا ہڈیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا ‘ پھر بھی وہ دس دنوں تک اسپتال میں رہا اور بازو کا زخم بھرنےمیں پورا ایک مہینہ لگ گیا ۔
چھوٹا اچھا ہوگیا تھا لیکن اتنا کمزور اور دبلا ہوگیا تھا کہ پورےایک سال تک اس کی پرانی صحت واپس نہ آسکی ۔
ایک دن ترکاریاں خرید کر واپس آتی منی کو کسی غنڈےنےچھیڑ دیا اس وقت گڈو اسکول سےواپس آرہا تھا اس سےبرداشت نہیں ہوسکا اور وہ غنڈےسےالجھ پڑا ۔
گڈو بھلا اس غنڈےکا مقابلہ کیا کرتا غنڈےنےاسےزخمی کردیا کچھ لوگ اس کی مدد کو بڑھےتو غنڈہ بھاگ کھڑا ہوا لیکن گڈو زخمی ہوگیا تھا ۔
اس کےبعد پتا نہیں کیا بات اس کےذہن میں بیٹھ گئی کہ اس نےمحلےکےآوارہ بدمعاش لڑکوں سےدوستی کرلی اور اسکول سےآنےکےبعد وہ زیادہ تر انہی کےساتھ رہنےلگا ۔ ایک دوبار اس کےسمجھانےپر وہ اس سےبھی الجھ پڑا ۔
” ابا ! آج کےزمانےمیں اپنی اور اپنےگھر والوں کی حفاظت کےلئےایسےلوگوں کےساتھ رہ کر ان کی مدد لینا بہت ضروری ہے۔ شرافت ‘ غنڈےاور بدمعاشوں سےہماری حفاظت نہیں کرسکتی ۔“
گذشتہ چند سالوں میں کچھ ایسےواقعات ہوئےتھےکہ وہ ایک طرح سےٹوٹ سا گیا تھا ۔ گڈو رات کو دیر سےگھر آتا تھا ۔ دیر رات تک وہ آوارہ بدمعاش قسم کےلڑکوں کےساتھ رہتا تھا ۔ وہ اسےروکتا تو وہ الجھ پڑتا ........ صرف اطمینان کی بات یہ تھی کہ وہ اسکول باقاعدگی سےجاتا تھا اور پڑھائی میں بھی پہلےکی طرح دلچسپی لیتا تھا ۔
منی کو آوارہ بدمعاش لڑکےاس کےسامنےچھیڑتے‘ فقرےکستےتھے۔ سلطانہ بھی دبےلفظوں میں کئی بار اس سلسلےمیں اس سےکہہ چکی تھی جب وہ اپنےپڑوسیوں سےاپنےگھر کا مقابلہ کرتا تواسےکچھ اطمینان محسوس ہوتا تھا کہ اس کےبچےپڑوسیوں کےمقابلےکہیں زیادہ سیدھی راہ پر ہیں ۔
پڑوسیوں کےبچوں کا برا حال تھا ۔ کئی اچھےلڑکےتعلیم چھوڑ کر بری صحبت میں پڑنےکی وجہ سےغلطراستوں پر چل نکلےتھے۔ گلی میں کہیں چوری چھپےنشہ آور اشیاءبکتی تھیں کئی بچےان نشہ آور اشیاءکےعادی بن چکےتھے۔ کم عمری میں ہی کچھ لڑکےطوائفوں کےاسیر بن کر اپنی زندگی اور جوانیاں برباد کررہےتھے۔ غنڈہ گردی کےگلیمر نےکئی لڑکوں کو پھانس لیا تھا اور وہ اخلاقیات کےسارےدرس بھول کر مادہ پرستی کا شکار ہوگئےتھے۔
لڑکیوں کی ایک عجیب ہی دنیا تھی ۔ زیادہ تر لڑکیاں گلیمر کا شکار تھیں اور اس گلیمر کو حاصل کرنےکےلئےبھٹک چکی تھیں اس بھٹکنےمیںبھی انہیں کوئی ندامت نہیں محسوس ہوتی تھی ۔ جیسےاخلاقیات ‘ اقدار اب ایک داستان پارینہ ہو ۔
جب وہ اپنےماحول پر نظر ڈالتا تو کبھی کبھی یہ سوچ کر کانپ اٹھتا تھا وہ اور اس کےبچےبھی اسی ماحول میں رہ رہےہیں ۔ اس کےبچےبھی کبھی بھی ا س ماحول کےاسیر بن کر ان برائیوں کا شکار بن سکتےہیں ۔ جب کبھی تصور میں وہ اس بارےمیں سوچتا تو اسےاپنےسارےخواب ٹوٹ کر بکھرتےمحسوس ہوتےتھے۔ اس سلسلےمیں سلطانہ بھی اس کی طرح فکر مند تھی اور وہ اکثر اس سےدبےلفظوں میں کہا کرتی تھی ۔
” سلیم ! خدا کا شکر ہےہمارےبچےآج تک اس گندےماحول سےبچےہوئےہیں لیکن ڈرتی ہوں اگر اس ماحول نےانہیں بھی اپنی لپیٹ میں لےلیا تو ؟ اس کا کیا علاج ہوسکتاہے؟ “
” ایک ہی علاج ہے‘ ہم یہ جگہ چھوڑدیں ۔ “
” کہاں جائیںگے؟ہمیں اس شہر میں تو سر چھپانےکےلئےکوئی جگہ ملنےسےرہی ہمارےپاس اتنےپیسےبھی نہیں ہیں کہ ہم کہیں دور کوئی جگہ لےسکیں ۔ “
” کہیں بھی چلو ۔ چاہےوہ جگہ جہاں ایسا ماحول نہ ہو شہر سےپچاس کلو میٹر دور ہو ‘ مجھےکوئی شکایت نہیں ہوگی لیکن اپنی اولاد کی بھلائی کےلئےاب یہ ہجرت لازمی ہوگئی ہے۔ مسئلہ تمہاری نوکری کا ہےتمہیں آنےجانےمیںتھوڑی تکلیف تو ہوگی لیکن کیا اپنی اولادکی بھلائی کےلئےتم اتنی تکلیف نہیں اٹھا سکتی؟ “
” میں اپنی اولاد کی بھلائی کےلئےہر تکلیف اٹھاسکتا ہوں ۔ “
” پھر کچھ سوچو ‘ اس ماحول سےنکلنےکےلئےکوئی قدم اٹھاو¿ ۔“ بیوی نےکہا ۔
” ہاں میں ضرور کوئی قدم اٹھاو¿ں گا ۔ “ اس نےجواب میں کہا اور سوچ میں ڈوب گیا ۔
ایک دن وہ آیا تو بہت خوش تھا ۔ آتےہی سلطانہ سےکہنےلگا ۔ ” سلطانہ ! اپنی اولاد کی بھلائی کےلئےہمیں جو قدم اٹھانا چاہیئےتھا اس راہ میں میں نےپہلا قدم رکھ لیا ہے‘ میں نےایک جگہ فلیٹ بک کرلیا ہےوہ جگہ یہاں سےپچاس کلو میٹر دور ہےلیکن وہاں پر یقیناً یہاں سی گندگی نہیں ہوگی ۔ “ یہ کہتےہوئےوہ سلطانہ کو ساری بات سمجھانےلگا ۔
بہت بڑی کالونی بن رہی ہےمعمولی رقم پر وہاں فلیٹ بک ہوگیا ہے۔ پیسےقسطوں میں ادا کرنےہیں ابھی پوری کالونی تیار ہونےمیں دو سال لگیں گے۔ تب تک ہم پیسےادا کردیں گےیا جو باقی پیسےہوں گےاس کمرےکو فروخت کرکےبےباق کردیں گے۔
دونوں کی آنکھوں کےسامنےایک خوبصورتبستی کا خواب تھا ۔ خوبصورت عمارتیں ‘ چاروں طرف پھیلی ہریالی ‘ مسجد ‘ مدرسہ ‘ باغ ‘ اسکول ‘ کشادہ صاف سڑکیں اور کھلی کھلی آب و ہوا جن میں گھٹن کا نام و نشان نہیں ۔
انہوں نےبچوں کو بھی اس بستی کےبارےمیں بتایا تھا ۔ بچوں نےان کےاس خواب کےبارےمیں اپنا کوئی ردِّ عمل ظاہر نہیں کیا تھا ۔
ایک دوبار سلطانہ نےدبےلفظوں میں کہا بھی تھا ۔
” بچےیہاں پیدا ہوئےپلےبڑھےہیں ۔ انہیں اس جگہ سےانسیت ہوگئی ہےممکن ہےوہ یہاں سےجانےسےانکار کردیں ۔ آخر ان کےدوست احباب تو یہاں رہتےہیں ۔“
” بچوں کو ہر حال میں یہاں سےجانا ہوگا ۔ آخر یہ سب ہم اپنی خوشی کےلئےنہیں ان کی بھلائی کےلئےکر رہےہیں ۔ “
ان دنوں وہ جس اذیت کا شکار تھا ۔ اس کےآفس میں کام کرنےوالا اکبر بھی دو سال قبل اسی اذیت کےدور سےگذر رہا تھا ۔ اکبر کا بھی وہی مسئلہ تھا جو اس کا مسئلہ تھا ۔ اکبر نےبھی وہی حل اور راستہ نکالا تھا جو اس نےنکالا تھا ۔
کچھ دنوں قبل وہ بھی شہر سےدور نئی آباد ہونےوالی بستی میں جا بسا تھا ۔ اس جگہ آباد ہونےکےبعد وہ بہت خوش تھا ۔
” سلیم بھائی ساری فکروں اور خدشات سےنجات مل گئی ہے۔ سمجھ لیجئےاب بچوں کا مستقبل محفوظ ہوگیا ہے۔ “
اس کےذہن میں بار بار اکبر کی وہ بات گونجتی تھی ۔جب بھی وہ اکبر کی اس بات کےبارےمیں سوچتا تھا ۔ یہ سوچ کر اپنا دل بہلاتا تھا کہ ایک سال بعد تواسےبھی اکبر کی طرح ایک نئی آباد ہونےوالی بستی میں بسنا ہے۔ ایک سال بعد اس کےہونٹوں پر بھی وہی کلمات ہوں گے۔ بس ایک سال اور اس جہنم میں گذار کر خود کو اس جہنم سےمحفوظ رکھنا ہے۔
دن گذر رہےتھے۔ اور اچھےدن قریب آرہےتھے۔ اس جگہ سےہجرت کرنےکےدن جیسےجیسےقریب آرہےتھےویسےویسےبچوں ، گھر ، بیوی کےبارےمیں اس کی فکریں زیادہ ہی بڑھتی جا رہی تھیں وہ ان کےبارےمیں کچھ زیادہ ہی سوچنےلگا تھا ۔
اس دن آفس کینٹن میں اکبر کےساتھ لنچ لیتےہوئےاس نےاکبر کو متفکر پایا تو پوچھ بیٹھا ۔
” کیا بات ہےاکبر بہت پریشان لگ رہےہو ؟ “
” کیا بتاو¿ں سلیم بھائی ! ساری تدبیریں اور منصوبےغلط ثابت ہوگئےہیں ۔ “
” کیا بات ہےتمہیں کس بات کی فکر ہے؟ “
” جن بچوں کےمستقبل کو بچانےکےلئےشہرسےدور سکونت اختیارکی تھی وہاں جانےکےبعد بھی بچوں کا مستقبل محفوظ نہیں ہوسکا ہے۔ یہاں کےماحول سےوہ بچ گئےتو وہاں پرایک نئےاور عجیب ماحول میں رم رہےہیں ‘ اونچےخواب ‘ اونچی سوسائٹی کےعادات و اطوار ‘ اسی سوسائٹی میں ڈھلنےکی کوشش ۔ بنا یہ جانےکہ ہماری اس سوسائٹی کےطور طریقوں میں ڈھل کر رہنےکی بساط نہیں ہے۔ کنزیومر کلچر ان پر حاوی ہورہا ہے‘ سیٹیلائٹ کلچر اور اس کےذریعہ پھیلنےوالےافکار کےوہ مرید بن رہےہیں ‘ مادہ پرستی ان میں بڑھتی جاری ہے‘ اقدار کا ان میں فقدان ہورہا ہے‘ پہلےوہ جن افکار میں ڈھلنےوالےتھےوہ افکار مجھےپسند نہیں تھےاس لئےمیں انہیں اس جگہ سےدور لےگیا لیکن وہاں وہ جن افکار میں ڈھل رہےہیں مجھےوہ بھی پسند نہیں ہے۔ “
وہ اکبر کی بات سن کر سناٹےمیں آگیا ۔
ایک سال بعد اسےبھی تو وہاں جانا ہے۔ اگر وہاں اس کےساتھ بھی ایسا ہوا تو اس کی اس ہجرت کا کیا فائدہ ؟
اسےمحسوس ہوا جیسےوہ ایک مدار پر گردش کررہا ہی۔ کسی ناپسندیدہ مقام سےوہ چاہےکتنی دور بھی جانا چاہےلیکن اسےواپس لوٹ کر اسی جگہ آنا ہے۔

پتہ:۔
ایم مبین
303۔کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی 421302
ضلع تھانھ مہاراشٹر انڈیا
موبائل:۔ 09372436628
 
Top