افسانہ کتنے پل صراط از:- ایم مبین

mmubin

محفلین
افسانہ
کتنےپل صراط
از:ایم مبین
سویرےجب وہ گھر سےنکلی تھی تو بشریٰ بخار میں تپ رہی تھی ۔ ” امی !مجھےچھوڑ کر مت جاو ¿ ‘ امی آج اسکول مت جاو ¿ مجھےبہت ڈر لگ رہا ہے۔“ جب وہ جانےکی تیاری کررہی تھی تو بشریٰ کی آنکھ بھی کھل گئی تھی اور وہ اسےآج اسکول نہ جانےکےلئےضد کرہی تھی ۔ ” نہیں بیٹے! “ پیار سےاسےسمجھانےکےلےجب اس نےاس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا تو کانپ اٹھی ۔ بشریٰ کی پیشانی بخار سےتپ رہی تھی ۔ ” امی سےاس طرح کی ضد نہیں کرتے۔ “ یہ کہتےہوئےاس کی زبان لڑکھڑا گئی تھی ۔ ”آج امی کا اسکول جانا بےحد ضروری ہے۔ کل چاہےروک لینا ۔ تم کہوگی تو کل سےہم آٹھ دنوں کےلئےاسکول نہیں جائیں گےتمہارےپاس ہی رہیں گے۔ آج ہمیں جانےدو ۔“ ” امی رک جاو ¿ ناں ! مجھےاچھا نہیں لگ رہا ہے۔ “ بشریٰ رونےلگی تھی ۔ ” نہیں روتےبیٹے! “ بشریٰ کو روتا دیکھ کر اس کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئےتھے۔ لیکن بڑی مشکل سےاس نےاپنےآنسوو ¿ں کو روکا تھا اور بھرائی ہوئی آواز پر قابو پانےکی کوشش کی تھی ۔ ” ہم آج جلدی گھر آجائیں گےپھر تمہارےابا تو تمہارےپاس ہی ہیں ناں بیٹا ۔ڈرنےکی کوئی بات نہیں ہے۔ “ دوسرےکمرےمیں طارق اور عوف بےخبر سو رہےتھے۔ تھوڑی دیر سسکتےرہنےکےبعد بشریٰ کی بھی آنکھ لگ گئی تھی ۔ اس نےاپنا پرس کاندھےپر لٹکایا اور جاکر دھیرےسےطارق کو ہلانےلگی ۔ ” آں ! کیا بات ہے؟ “ طارق نےآنکھ کھول دی ۔ ” میں جارہی ہوں ۔ “ وہ بولی ۔ ” بشریٰ کو سخت بخار ہےاسےڈاکٹر کےپاس لےجانا ۔ نوکرانی سےکہہ دینا کہ اس کا اچھی طرح خیال رکھے۔ اگر ممکن ہو تو آج آپ چھٹی کرلیں ۔ ویسےمیں آج جلد آنےکی کوشش کروں گی لیکن کہہ نہیں سکتی کہ یہ ممکن ہوسکےگا بھی یا نہیں کیونکہ آج انسپکشن ہے۔ اگر انسپکشن نہ ہوتا تو آج جاتی ہی نہیں ۔ “ ” ٹھیک ہے۔ “ طارق نےاٹھتےہوئےجماہی لی ۔ وہ جب گھر سےباہر آئی تو چاروں طرف گہرا اندھیرا تھا ۔ سردیوں کےدنوں میں سات بھی بج جاتےہیں تو اندھیرا ہی چھایا رہتا ہےدن نہیں نکلتا اور اس وقت تو صرف ساڑھےپانچ ہی بجےتھے۔ پوری گلی سنسان تھی ۔ راستےپر اکا دکا لوگ آجارہےتھے۔ ایسےعالم میں کسی عورت کےگھر سےنکلنےکا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ وہ روزانہ اسی وقت اکیلی اس گلی سےگذر کر رکشا اسٹینڈ تک جاتی جو لوگ سویرےجلدی جاگنےکےعادی تھے۔ انہیں علم تھا کہ وہ اس وقت گھر سےاسکول جانےکےلئےنکلتی ہے۔ شناسا لوگ اس سےدو باتیں کرلیا کرتےتھے۔ ” بیٹی اسکول جارہی ہو ۔ “ ” ہاں بابا ۔ “ وہ جواب دیتی ۔ ” بھابی اکیلی اندھیرےمیں روزانہ اتنےسویرےجاتی ہو تمہیں ڈر نہیں لگتا ؟ “ ” اب تو عادت ہوگئی ہے۔ “ وہ مسکرا کر کہتی ۔ سبھی شناسا اور اچھےنہیں ہوتے۔ کبھی کبھی کوئی اجنبی اور بدمعاش بھی مل جاتا ہے۔ اکیلےمیں اس وقت کسی اجنبی عورت کو دیکھ کر وہ جو کچھ کرسکتا ہےوہ کرنےسےنہیں چوکتا تھا ۔ کبھی کوئی بھدا سا فقرہ منہ سےنکال دیتا ۔ کبھی کوئیناگوار بات کہہ دیتا ۔ اور کوئی تو جسارت کرکےدھکا دےکر آگےبڑھ جاتا اور اپنی کسی نفسانی خواہش کی تسکین کرلیتا ۔ ایسی صورت میں اس کا ردِ عمل سوائےخاموشی کےاور کچھ نہیں ہوتا تھا ۔ نہ تو وہ اس سےالجھ سکتی تھی نہ شور مچا کر اپنی مدد کےلئےکسی کو بلا سکتی تھی ۔ الجھتی تو نقصان اسی کا ہوتا ۔ اکیلی عورت جو ٹھہری ۔ کسی کو مدد کےلئےبلاتی تو ممکن نہیں تھا کہ کوئی اس کی مدد کو آتا ۔ اتنےسویرےکوئی اپنی لاکھوں روپوں کی میٹھی نیند خراب کرتا ہے؟ اگر کوئی آئےبھی تو اس بدمعاش سےتو اسےنجات مل جاتی لیکن مدد کرنےوالوں کےجملوں سےشاید زندگی بھر نجات نہیں ملتی ۔ ” اتنی رات گئےاکیلی گھر سےنکلی ہو ۔ شریف عورتوں کےکیا یہی چال چلن ہیں ؟ “ ” اگر عزت کا اتنا ہی پاس ہےتو اکیلی اتنےسویرےگھر سےکیوں نکلتی ہو ۔ گھر میں رہا کرو ۔ چھوڑ دو یہ نوکری ۔ “ غرض وہ ایسی باتوں سےکترانےکےلئےاپنےساتھ ہوئےجارہےبےجا سلوک کو نظر انداز کرکےآگےبڑھ جاتی تھی ۔رکشا اسٹینڈ سےایس ٹی کےلئےاسےپانچ منٹ میں رکشا مل جاتا تھا۔ کبھی کبھی تو اسےرکشا تیار مل جاتا تھا کبھی دو چار منٹ رکشا کا انتظار کرنا پڑتا تھا ۔ کچھ رکشا والوں کو معلوم تھا وہ اس وقت وہاں سےایس ۔ ٹی اسٹینڈ جانےکےلئےنکلتی ہےتو وہ اس کےانتظار میں وہاں پہونچ جاتےتھے۔ اس میں بھی ان لوگوں کی نیت کےدو پہلو ہوتےتھے۔ کچھ شریف لوگ اپنی روزی دھندےکےلئےاس کی سیٹ حاصل کرنےکےلےوہاں پہونچتےتھے۔ کچھ بدمعاش ذہنیت والےصرف اس لذت کےلئےوہاں پہونچتےتھےکہ ایک اکیلی تنہا خوبصورت جوان لڑکی کو اکیلےرکشا میں ایس ۔ ٹی اسٹینڈ تک پہنچانےکا موقع ملےگا ۔ اس سےکچھ ایسی بھی باتیں ہوسکتی ہیں جو ان کےلئےنفسانی لذت کا باعث ہوں ۔ ایسی حالت میں وہ خاموش رہ کر سفر کرنےکو ترجیح دیتی تھی ۔ ان کا کوئی جواب نہیں دیتی تھی یا اگر دیتی بھی تو ایسا جواب دیتی کہ اس کی ساری امیدوں اور ارادوں پر پانی پھر جائے۔ ایسی حالت میں جو حادثہ ممکن تھا وہ ایک بار ا س کےساتھ ہوچکا تھا ۔ سناٹےاور اندھیرےکا فائدہ اٹھا کر ایک رکشا والےنےاسےغلط راستےپر لےجانا چاہا ۔ اس نےچیخ کر اسےروکا جب اس نےنہیں سنا تو چلتےرکشےسےکود گئی ۔ اسےمعمولی چوٹیں آئیں لیکن اس کی خوش قسمتی یہ تھی کہ سامنےپولس کھڑی تھی اور اس نےاسےرکشا سےکودتےدیکھا تو دوڑ کر اس کےپاس پہنچے۔ ” کیا بات ہیمیڈم ‘ کیا آپ رکشا سےگر گئیں ؟ “ ” نہیں ! وہ رکشا والا مجھےاکیلی دیکھ کر غلط راستےپر لےجارہا تھا ۔ “ ” ایسی بات ہے؟ “ یہ سنتےہی دو پولس والےگاڑی لےکر بھاگے۔ تھوڑی دیر بعد ہی وہ اس رکشا والےکو مارتےہوئےاس کےپاس لےآئےانہوں نےشاید اسےبری طرح مارا تھا ۔ اس کےماتھےسےخون بہہ رہا تھا ۔ ” بہن جی مجھےمعاف کردو ! اب زندگی بھر ایسی غلطی نہیںکروں گا ۔ “ وہ اس کےپیروں پر گر کر گڑگڑانےلگا تو اس نےپولس والوں سےکہا کہ اس کےخلاف کوئی کاروائی نہ کرےاسےچھوڑ دے۔ اس واقعہ کو تو اس نےاپنےتک ہی محدود رکھا تھا لیکن رکشا والوں میں شاید اس واقعہ کی تشہیر ہوگئی تھی کیونکہ اس کےبعد اس کےساتھ ایسا کوئی حادثہ پیش نہیں آیا تھا ۔ اس واقعہ سےوہ خود بہت ڈر گئی تھی ۔ اس نےسوچا تھا کہ وہ اپنا تبادلہ دوپہر کی شفٹ میں کرالےگی ۔ اس کےلئےاس نےکافی ہاتھ پیر بھی مارےتھے۔ لیکن بات نہیں بن سکی تھی ۔ تبادلےکرنےوالےاتنی قیمت مانگ رہےتھےجتنی دینا اس کی بساط کےباہر تھا ۔ ویسےدوپہر کی شفٹ اس کےاور اس کےگھر والوں کےحق میں بھی مناسب نہیں تھی ۔ دوپہر کی شفٹ کرنےکےلئےاسےسویرےنو دو بجےگھر سےنکلنا ہوگا اور واپسی شام سات آٹھ دس بجےتک ممکن ہی نہیں ہوسکےگی ۔ ایسی صورت میں گھر ، عوف اور بشریٰ کا کون خیال رکھےگا ۔ طارق ڈیوٹی دیکھےگا یا گھراور بچوں کو ؟ اس لئےاس نےدوسری شفٹ لینےکا ارادہ بدل دیا تھا ۔ سویرےکی شفٹ کےلئےاسےساڑھےپانچ بجےکےقریب گھر سےنکلنا پڑتا تھا ۔ اس طرح سےوہ ٹھیک وقت پر اسکول پہنچ بھی جاتی تھی ۔ اسکول سےوہ دو ڈھائی بجےکےقریب واپس گھر آجاتی تھی۔ طارق دس گیارہ بجےتک گھر میں ہی رہتا تھا اس کےبعد نوکرانی آجاتی اس کےآنےتک نوکرانی گھر اور بچےسنبھالتی تھی ۔ ساڑھےپانچ بجےگھر چھوڑنےکےلئےاسےچار بجےجاگنا پڑتا تھا ۔ جاگنےکےبعد وہ اپنےاور بچوں کےلئےسویرےکا ناشتہ اور کبھی کبھی دوپہر کا کھانا بناتی تھی ہاں ! کبھی دیر ہوجاتی تو یہ ذمہ داری نوکرانی پر ڈالنی پڑتی ۔ سارےکام کرکےوہ ٹھیک وقت پر گھر سےنکل جاتی تھی ۔ نکلتےوقت وہ ہلکا سا ناشتہ کرلیتی تھی لیکن اسکول میں اسےبھوک لگ ہی جاتی تھی ۔ تعطیل میں اسےہلکا ناشتہ کرنا ضروری ہوجاتا تھا ۔ اس کےبعد وہ گھر آکر ہی کھانا کھاتی تھی ۔ بس اسٹینڈ پہونچنےکےبعد اسےپونےچھ بجےکی بس مل جاتی تھی ۔ یہ بس بھی ایک معمہ تھی ۔ کبھی بالکل خالی ہوتی تھی تو کبھی اتنی بھیڑ کہ پیر رکھنےکےلئےبھی مشکل سےجگہ ملتی تھی ۔ بس خالی ہو یا اس میں بھیڑ اسےاسی سےسفر کرنا ضروری ہوتا تھا ۔ اگر وہ بس چھوٹ جائےتو مقررہ وقت پر اسکول پہونچنا نا ممکن تھا ۔ کیونکہ ٠٢ کلومیٹر کا پل صراط سا سفر اسی بس کےذریعہ مقررہ وقت میں طےکرنا ممکن تھا ۔ ورنہ بھیونڈی تھانہ کا سفر ؟ خدا کی پناہ ۔ بھیونڈی سےنکلےلوگ ناسک پہونچ جائیں لیکن تھانہ جانےکےلئےنکلےراستےمیں ہی پھنسےرہے۔ خراب راستہ ، ٹریفک ، مسافروں ، بس کنڈکٹر ، ڈرائیور کےجھگڑے۔ صبح کےوقت ٹریفک کم ہوتی تھی بھیڑ کم ہونےکی وجہ سےکنڈکٹر کا موڈ بھی اچھا ہوتا تھا ۔ اس لئےیہ سفر معینہ وقت میں پورا ہوجاتا تھا ۔ اس کےبعد تھانےسےآدھےگھنٹےکا لوکل ٹرین کا سفر ۔ اس میں بہت کم پریشانی ہوتی تھی ۔ دوچار منٹ میں کوئی تیز یا دھیمی لوکل مل جاتی تھی ۔ سویرےکا وقت ہونےکی وجہ سےلوکل میں بھیڑ نہیں ہوتی تھی ۔ کبھی جنرل ڈبےمیں جگہ مل جاتی تھی تو کبھی لیڈیز ڈبےمیں ۔ ہاں ! کسی مجبوری کےتحت بھیڑ ہونےکی وجہ سےکھڑےہوکر سفر کرنا بھی بھاری نہیں پڑتا تھا ۔ لیڈیز ڈبےمیں کھڑےہوکر سفر کرنےمیں تو کوئی دشواری پیش نہیں آتی تھی لیکن جنرل ڈبےمیں کھڑےہوکر سفر کرنا ایک عورت کےلئےعذاب سےکم نہیں ہوتا ہے۔ دھکےجسم کی ہڈی پسلیاں ایک کردیتےہیں ۔ اور ایک عورت کو تو کچھ زیادہ ہی دھکےلگتےہیں اور خاص طور پر نازک مقامات پر ۔ ایسا محسوس ہوتا ہےجیسےکئی گدھ اپنی نوکیلی چونچوں سےاس کا گوشت نوچ رہےہیں ۔ کبھی راحت بھرا آرام تو کبھی عذاب بھرا یہ سفر طےکرنےکےبعد کچھ قدموں کا پیدل سفر اور اس کےبعد اسکول ۔ کیسی عجیب بات تھی ۔ تیس چالیس کلومی

Contact:-
M.Mubin
303-Classic Plaza,Teen Batti
BHIWANDI_421 302
Mob:-09372436628
 
Top