افسانہ: ڈرپوک

افسانہ: ڈرپوک
مصنف: جمیل اختر
.
صاحبو، زندگی انسان کو کبھی کبھی ایسا موقع دیتی ہے کہ ذرا سی کوشش کی جائے تو سب کچھ بدل جائے اور ساری مشکلیں ختم ہوجائیں ۔
۔
یہ شیرا ڈاکو جو کل کو گاوں میں چھوٹی چھوٹی چوریاں کرتا تھا لیکن اب وہ ایسا مشہور ڈاکو بن گیا ہے کہ سرکار نے اسکے پکڑنے والے کو ۱ لاکھ کا انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔۔۔
سچ ہے کہ برے کام کو شروع میں ہی ترک کرنا آسان ہوتا ہےبعد میں تو کام عادت بن جاتی ہے۔۔ اس سے پہلے کہ گناہ عادت بنے اسے ترک کردو۔ اسی میں آسانی ہے اور اسی میں نجات۔
.
یہ کہانی اسی گاوں کی ہے لیکن یہ کہانی شوکت کی ہے۔۔۔
شوکت پیشے کے اعتبار سے موچی تھا اسکی معاشی حالت بالکل ایسی ہی تھی جیسی کہ ایک موچی کی ہوتی ہے۔ روز بروز اسے اپنے غریب ہونے کا احساس برھتا جا رہا تھا۔ اس کی دو وجوہات تھیں ۔ ایک روز بروز برھتی مہنگائی اور دوسری اسکی بیوی کہ وہ طعنے ۔۔۔۔
اسکی صبح کچھ ان جملوں کیساتھ ہوتی تھی۔۔۔
" وے شوکت میں کہتی ہوں تو کوئی اور کام کیوں نہیں کرتا؟؟؟"
"نی نیک بخت یہ ہنر ہے ہنر۔۔۔ مجھے اسکے علاوہ آتا ہی کیا ہے۔۔۔"
ہاں ہاں تمیہں اور بھلا کیا کام آتا ہے۔۔۔
"میں نے تو روکھی سوکھی کھا کے تمہارے ساتھ گزارہ کر لیا ہے لیکن دیکھ بیٹی کے سسرال والے جہیز مانگتے ہیں جہیز۔۔۔"
"نی نیک بخت کچھ نہ کچھ سبب بن جائے گا تو پریشان نہ ہو۔۔۔
تمہاری جتنی کمائی ہے اس سے پیٹ کی دوزخ بھریں کہ جہیز بنائیں۔۔۔"
.
یہ اب ایسے مکالمے روز ہی کی بات تھی۔۔۔ اسے سمجھ نہ آتی تھی کہ وہ کہاں سے پیسے لائے کہ بانو بٹیا کا جہیز بن جائے۔۔۔
.
جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ زندگی انسان کو حالات بدلنے کا کوئی نہ کوئی موقع ضرور دیتی ہے۔۔۔۔۔۔اب یہ انسان پر ہے کہ وہ اس موقع سے کتنا فائدہ اٹھاتا ہے۔۔۔۔
.
۔ جب سے شوکت نے سنا تھا کہ شیرے ڈاکو پہ ۱ لاکھ کا انعام ہے۔۔۔ اس نے اس خبر کو موقع ہی سمجھا تھا۔ قسمت بدلنے کا موقع۔۔۔۔ اب اسے ایک لاکھ روپے چند قدموں پر پڑے نظر آرہے تھے۔۔۔۔ حالانکہ اس نے شیرے کو آخری بار ۱۰ سال پہلے ہی دیکھا تھا۔جب شیرا چھوٹی چھوٹی چوریاں کرتا اس وقت بھی گاوں کے لوگ اس سے ڈرتے تھے۔لیکن پھر شیرے کا دل چھوٹی چھوٹی چوریوں سے بھر گیا۔ ہر چیز شروع میں آسانی سے ترک کی جا سکتی ہے اسی طرح خواہش بھی۔
،
پھرایک دن شیرا جانے کہاں روپوش ہوگیا۔ کسی کو اسکی خبر نہ تھی۔پھراسکے بعد وہ تو کبھی گاوں نہ آیا لیکن اسکی خبریں آتیں رہیں۔وہ اب مشہور ڈاکو بن گیا تھا۔۔۔۔
،
لوگ کہتے تھے کہ وہ جنگل میں رہتا ہے اور اسکے اور بھی بہت سے ساتھی ہیں جو کہ چوریاں اور ڈاکے ڈالتے ہیں۔
،
۱۰ سال میں وہ گاوں نہ آیا لیکن اسکی دہشت پہلے سے زیادہ ہوگئی تھی۔سارا گاوں اس سے ڈرتا تھا۔۔۔
اور سچ تو یہ ہے کہ ڈرتا شوکت بھی تھا لیکن جب سے اس نے انعام کا سنا تھا اس نے ارادہ کر لیا تھا کہ یہی وہ موقع ہے جس سے قسمت بدلی جاسکتی ہے
.
شوکت کا خیال تھا کہ اگر یہ ایک لاکھ اسے مل جائے تو نہ صرف بانو کا جہیز بن جائے بلکہ شادی کے اخراجات بھی پورے ہوسکتے ہیں۔
،
لیکن اصل مسئلہ یہ تھا کہ وہ شیرے کو پکڑے گا کیسے؟؟؟؟
یہ وہ سوال تھا جس کا جواب اسے نہیں مل رہا تھا۔۔۔۔ شوکت کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا کہ جسکی زور پہ وہ شیرے کو گرفتار کر لیتا اور نہ اسکے پاس اتنی رقم تھی کہ کوئی ہتھیار خرید سکے۔۔۔
بہت سوچ بچار کے بعد آخر اس نے ایک رسی اور ڈنڈے کا انتخاب کیا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ ڈنڈے سے شیرے کے سر پر ضرب لگائے گا اور پھر اسے اس رسی سے باندھ کر سیدھا پولیس سٹیشن پہنچے گا اور پھر پولیس کو انکی امانت دے کے وہ ان سے اپنی امانت یعنی ایک لاکھ روپے وصول کر لے گا۔۔
.
منصوبہ بن چکا تھا۔ ہتھیاروں کا انتظام ہو چکا تھا۔ اب بس شیرے کو ڈھونڈنا تھا۔۔۔۔بس اب اتنی سی بات تھی۔۔۔۔۔

شوکت کی چال ڈھال بدل چکی تھی۔ رسی کو وہ اب ہمیشہ کمر کے گرد لپیٹے رکھتا اور ایک ہاتھ میں ڈنڈا۔
چھوٹے چھوٹے علاقوں میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں بھی لوگ بہت زیادہ محسوس کرتے ہیں اور یہاں تو شوکت صاحب کے انداز ہی بدل گئے تھے۔
,
"خیر تو ہے شوکت آجکل ہاتھ میں ڈنڈا لیے پھرتے اور یہ رسی؟؟؟ "ایک دن ماسٹر عنایت نے شوکت سے پوچھ ہی لیا۔۔۔۔
,
"وہ جی وہ آجکل کتے بہت ہوگئے ہیں ، حفاظت تو کرنی پڑتی ہے نا ماسٹر صاحب۔۔۔"
لیکن کتے تو بہت پہلے سے گاوں میں کافی تھے۔۔۔ لیکن وہ اب سارے گاوں کو تو اپنے منصوبے کے بارے بتا نہیں سکتا تھا۔ آخر راز بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
.
وہ سہ پہر کو ہی کام ختم کرتا ڈنڈا ہاتھ میں تھامے اور رسی کمر کے گرد لپیٹے گاوں سے باہر جوجنگل تھا اسکے باہر ہی بیٹھ جاتا۔۔۔ کیونکہ لوگ کہتے تھے کہ شیرا اسی جنگل میں ہی روپوش ہے۔۔۔ شوکت باہر ہی ایک جھاڑی کے ساتھ چھپ کے بیٹھ جاتا پتہ نہیں وہ کس سے چھپ کے بیٹھتا تھا حالانکہ وہاں نہ بندہ نہ بندے کی ذات والا معاملہ تھا۔۔۔
،
کئی روز گزر گئے اسے شیرا دکھائی نہ دیا۔۔۔۔ جنگل میں جانے کی اسے ہمت نہیں تھی۔۔۔۔ اسکا خیال تھا کہ جنگل میں شیرے کے اور ساتھی بھی ہونگے جو اس پر حملہ کر دیں گے سو وہ جھاڑی کے پیچھے ہی چھپا رہتا ، اور جونہی سورج ڈوبتا۔۔۔ اسکا دل بھی ڈوبنے لگتا اور وہ تقریبا بھاگتے بھاگتے گاوں پہنچتا،،، اندھیرے میں کیا معلوم شیرا حملہ کر دے۔۔۔۔۔۔
، لیکن دن پر دن گزر گئے شیرا نظر نہ آیا۔۔۔۔
کام کم کرنے کی وجہ سے گھر میں اب فاقوں کی نوبت تھی۔۔۔۔
پھر ایک روز اسکی بیوی لڑ جھگڑ کر میکے چلی گئ اور بچوں کو بھی اپنے ہمراہ لے گئی ۔۔۔
.
شوکت نے یہ سوچ کر صبر کیا کہ بس چند ہی روز کی بات ہے صرف چند روز کی پھر جب وہ شیرے کو پکڑلے گا تو سارے مسئلے حل ہوجائیں گے۔۔۔۔۔
،
زندگی انسان کو ایک نہ ایک موقع ضرور دیتی ہے۔۔۔۔۔
،
اور پھر ایک روز جب وہ اپنے صحن میں چارپائی پر لیٹا شیرے کو پکڑنے کے نئے منصوبے سوچ رہا تھا۔۔ کہ گلی میں شور اٹھا کچھ لوگ بھاگ رہے تھے۔۔۔ پھر اچانک اسکے صحن میں کوئی کود پڑا۔ اس نے چارپائی کے ساتھ پڑا ڈندا اٹھایا۔۔۔
اور ڈرتے ڈرتے پوچھا۔۔۔
" ککککک کون ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟"

"میں شیرا ہوں اور یہ میرا ساتھی ۔۔۔۔ پولیس ہمارے پیچھے ہے۔۔۔۔ اور۔۔۔۔اور۔۔۔۔".
.
دھپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"استاد۔۔۔۔یہ کیوں گر گیا ہے؟؟؟؟
پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے اسے؟؟؟ شیرے نے حیرت سے جواب دیا
ختم شد
 

loneliness4ever

محفلین
واہ بہت خوب، میں آخر تک سمجھتا رہا کہ یہ خود شیرا بن جائیں گے مگر جی
یہ تو دھب دھب ہو گئے .... بہت خوب جناب لکھتے رہیں اور محفل سجاتے رہیں

اللہ آباد و بے مثال رکھے آپکو .........آمین
 
واہ بہت خوب، میں آخر تک سمجھتا رہا کہ یہ خود شیرا بن جائیں گے مگر جی
یہ تو دھب دھب ہو گئے .... بہت خوب جناب لکھتے رہیں اور محفل سجاتے رہیں

اللہ آباد و بے مثال رکھے آپکو .........آمین
بہت شکریہ جناب کہ آپ خاکسار کے افسانوں کے لیئے وقت نکالتے ہیں ، اس پسندیدگی کا شکریہ

خوش رہیں آباد رہیں
 
Top