افسانہ میزان از:۔ایم مبین

mmubin

محفلین
افسانہ میزان از:۔ایم مبین



”ادھرم کو روکنا بھی دھرم ہے۔ ادھرم روکنےکےلئےجان بھی دینی پڑےیا کسی کی جان بھی لینی پڑےتو یہ دھرم ہے، یہ دیش بھی ہمارا دھرم ہے، اس دیش کےخلاف جو بھی کام کرتا ہےوہ ادھرمی ہیں اور ایسےادھرمی کا سروناش کرنا دھرم ہے۔ جو اس دیش کےقانون ، کامن سول کوڈ کو نہیں مانتے۔ وندےماترم کا گان نہیں کرتے، گئو کا احترام نہیں کرتےوہ سب ادھرمی ہیں اور ایسےادھرمیوں کےخلاف تلوار اُٹھانےکا وقت آگیا ہے۔ جو لوگ ہمارےرام للّا کا مندر بنانےکا وِرودھ کرتےہیں ایسےادھرمیوں کا سنہار کرنےکےلئےاُٹھ کھڑےہوجاو

¿ اُٹھ کھڑےہوجاو

¿ ہر ہر مہادیو جےبھوانی جےشیواجی جےمہاکالی سوامی مہاراج کی جے۔ “
سوامی جی کی آواز لاو

¿ڈ اسپیکر سےچاروں طرف پھیل رہی تھی ۔ پھر ان کی آواز اشتعال انگیز جوشیلےنعروں کےدرمیان ڈوب کر رہ گئی تھی ۔ لاو

¿ڈ اسپیکر سےنفرت انگیز ، نعرےہی اُبل رہےتھے۔
پل پر کھڑےکھڑےمیں نےنیچےمیدان پر نظر ڈالی ۔
لاکھوں کی بھیڑ ہوگی ، ہر فرد مٹھیاں بھینچےنعرےلگا رہا تھا ۔ ان نعروں سےمجھےخوف محسوس ہورہا تھا ۔
مجھےایسا محسوس ہورہا تھا ، وہ نعرےلگاتی بھیڑ بےقابو ہوگئی ہے، ان کےہاتھوں میں ہتھیار آگئےہیں اور وہ سڑکوں پر اُتر آئی ہے۔ دوکانوں کو لوٹ رہی ہے، جلا رہی ہے، لوگوں کو مار کاٹ رہی ہےاور اس بھیڑ کےدرمیان کئی چہرےمسکرا رہےہیں ، ان میں ایک چہرہ سوامی جی کا بھی ہے۔
کیا وہ سوامی جی کا چہرہ ہوسکتا ہے؟
وشنو پنت سوامی کا چہرہ ؟
دُنیا چاہےکچھ بھی کہےمیرا دِل یہ ماننےکو تیّار نہیں تھا کہ یہ باتیں سوامی جی کےدِل سےنکل رہی ہیں ۔ سوامی جی اشتعال پھیلانا چاہتےہیں ‘ تاکہ یہ اشتعال خونریزی میں تبدیل ہوجائے۔
سڑکیں آگ اور خون میں نہا جائیں
راستےلاشوں سےپٹ جائیں
ساری دُنیا کہتی ہےسوامی جی کا یہی منشا ہے۔
مگر میرا دِل یہ ماننےکو تیّار نہیں ۔
لاو

¿ڈ اسپیکر سےجو تقریر نشر ہورہی تھی میرا دِل تو اس پر بھی یقین کرنےکو تیّار نہیں تھا ۔ لیکن میں اچھی طرح جانتا تھا یہ سوامی جی کی ہی آواز ہے۔ سوامی جی کی آواز کو میں جتنی اچھی طرح پہچانتا ہوں شاید ہی کوئی اور پہچانتا ہوگا ۔
جس پل کےکنارےمیں کھڑا تھا اُسی فلائےاوور پر میرےسر پر ایک بڑی سی ہورڈنگ تھی ۔ جس پر زعفرانی لباس میں دونوں ہاتھ جوڑےسوامی جی کی بڑی سی تصویر تھی ۔
شعلہ بیان ، دھرم ویر ، دھرم سرکھشک سوامی جی وشنو پنت کا بیان ۔
جگہ وہی تھی وقت وہی تھا ۔
آج شاید تیسرا دِن تھا ۔ ابھی آٹھ دس روز اور وہ پروگرام چلےگا ۔ سوامی جی کی زہریلی تقریر سےلاکھوں افراد کےذہن پراگندہ ہوں گےاور اس کا انجام کیا ہوسکتا ہےاس کےتصور سےہی میں کانپ اُٹھتا ہوں ۔
میرا مکان ریلوےلائن کی دیوار سےلگ کر ہے۔ اس کےبعد کچےمکانوں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔
اگر چلتی ٹرین سےکوئی ایک آگ کا گولہ بھی اس بستی کی طرف اُچھال دےتو آگ ساری بستی کو جلا کر راکھ کرسکتی ہےاور میرا مکان بھی محفوظ نہیں رہ سکتا ۔
اس تصور سےہی میرےجسم میں ایک جھرجھری سی آگئی ۔
سوامی جی کا بھاشن ختم ہوگیا تھا ۔
میدان سےنکل کر بھیڑ برج کی طرف بڑھ رہی تھی ۔ بھیڑ کی وجہ سےبرج پر ٹریفک متاثر ہورہی تھی ۔ کچھ لوگ تو آگےاپنی منزل کی طرف بڑھےجارہےتھے۔ کچھ لوگ پل کےکنارےقطار لگا کر کھڑےہوئےتھے۔ شاید اس پل پر سےسوامی جی کی کار گذرنےوالی تھی اور وہ لوگ شاید سوامی جی کا درشن کرنا چاہتےتھے۔
لوگ میرےآگےپیچھےکھڑےہوگئےاور میں کب اِس قطار کا حصہ بن گیا مجھےپتہ بھی نہیں چل سکا ۔
اب صورتِ حال یہ تھی کہ نہ میں قطار چھوڑ سکتا تھا نہ قطار میں شامل رہنےکےلئےمیرا دِل چاہ رہا تھا ۔
سوامی جی کی کار پل پر نمودار ہوئی تھی ۔ لوگ سر جھکا کر اُنھیں سلام کررہےتھےاور سوامی جی ہاتھ اُٹھاکر اُنھیں آشیرواد دےرہےتھے۔
کار جیسےجیسےقریب آرہی تھی ‘ سوامی جی کا چہرہ واضح ہوتا جا رہا تھا ۔
کار میرےسامنےآئی تو بےاختیار میرےہاتھ بھی سلام کےلئےاُٹھ گئے۔
میری اور سوامی جی کی نظریں ٹکرائیں ۔ ان کےچہرےپر حیرت کےتاثرات اُبھرے‘اُنھوں نےاِشارےسےڈرائیور کو رُکنےکےلئےکہا ۔
” ارےاکبر بابو آپ ! اتنےدِنوں کےبعد دِکھائی دئے؟ آئیے! اندر آئیے“ سوامی جی نےآواز لگائی تو میں دفعتاً ساری بھیڑ کی توجہ کا مرکز بن گیا ۔
سوامی جی مجھےآوازیں دےرہےتھے۔ اُنھوں نےمیرےلئےکار کا دروازہ کھول رکھا تھا ۔ بےساختہ میں آگےبڑھ گیا ۔
کار میں داخل ہوکر سوامی جی کےپہلو میں جابیٹھا ۔ اُنھوں نےدروازہ بند کیا اور لوگوں کو درشن دےکےاپنا سفر جاری رکھا ۔
تھوڑی دیر بعد درشن لینےوالوں کی بھیڑ ختم ہوگئی تو اُنھوں نےکار کےشیشےچڑھا دئے۔ ایئر کنڈیشن کار میں مجھےسردی محسوس ہونےلگی ۔
کار فراٹےبھرتی تارکو ل کی چکنی سڑک پر آگےبڑھی جارہی تھی ۔
” کہیئےاکبر بابو ! گھر میں سب مزےمیں تو ہیں نا ؟بھابھی جی کیسی ہیں ؟ راشد اور اشرف کیسےہیں ‘ سارہ تو اب کافی بڑی ہوگئی ہوگی نا ؟ “ اُنھوں نےایک ساتھ کئی سوالات کرڈالے۔
” ہاں سب مزےمیں ہیں ۔ “ میں نےجواب دیا ۔ ” سارہ اخباروں میں آپ کی تصویر دیکھ کر اپنی سہیلیوں کو بڑےفخر سےبتاتی پھرتی ہےکہ یہ میرےسوامی انکل ہیں ۔ میں ان کی گود میں کھیلتی تھی ۔ “
” معصوم بچی ۔ “ سوامی جی کےمنہ سےنکلا اور وہ کہیں کھوگئے۔
مجھےاس بات کی قطعی توقع نہیں تھی کہ ہزاروں کی بھیڑ میں سوامی جی مجھےاتنی آسانی سےپہچان لیں گےاور بلا کر اپنی کار میں بٹھالیں گےاور پھر مجھ سےاس طرح باتیں کریں گےجیسےوہ کبھی میری زندگی سےجدا تھےہی نہیں ۔
” آپ اب بھی وہیں اسی لائن کےکنارےوالےمکان میں رہتےہیں نا ؟ “ سوامی جی نےپوچھا ۔
” ہاں اور کہاں جاسکتےہیں ؟ اِس بڑےشہر میں مکان تبدیل کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ “میں نےجواب دیا ۔
” میں جس جھونپڑےمیں رہتا تھا ‘ وہ ہے؟ “ اُنھوں نےپوچھا ۔
” ہاں ‘ ‘ میں نےجواب دیا ۔ ” پوتیا ( جھونپڑےکےمالک ) نےجس شخص کو کرایےپر دیا ہےوہ اب وہاں دیسی شراب کا غیر قانونی اڈّہ چلاتا ہے۔ “
میری بات سن کر سوامی جی کےچہرےپر سخت تاثرات اُبھر آئے۔ اُن کےذہن میں شاید اُن کےاس ماضی کی یاد تازہ ہوگئی تھی جو اُنھوں نےاس میں گذارا تھا ۔
” میں آپ کو اپنےگھر لےجارہا ہوں ۔ آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہےیا گھر جانےمیں دیرتو نہیں ہوگی ؟ سوامی جی نےپوچھا ۔
” بھلا مجھےکیا اعتراض ہوسکتا ہےسوامی جی ؟ “ میں نےہنس کر کہا ۔ ” اور جہاں تک تاخیر کی بات ہےگھر والےمیرےتاخیر سےآنےکےعادی ہیں ۔ “
” سچ پوچھئےتو بہت دِنوں بعد مجھےکوئی میرا اپنا ملا ہے۔ اِس لئےدِل کھول کر آج میں آپ سےباتیں کرنا چاہتا ہوں ۔ “ سوامی جی بولے۔
” یہ آپ کی ذرّہ نوازی ہےسوامی جی ! ورنہ میں کس قابل ؟ “ میں نےہنس کر جواب دیا ۔
میں نےکبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ کبھی سوامی جی سےسامنا ہوگا تو میرےسامنےبرسوں پرانےسوامی جی ہوں گےجو میرےمکان کےبازو میں ریلوےلائن کی دیوار سےلگ کر ایک تنگ و تاریک گندی کھولی میں رہتےتھے۔ جن کا زیادہ تر وقت میرےاور میرےبچوں کےساتھ گذرتا تھا ۔
میرا خیال تھا سوامی جی مجھےپہچان کر بھی انجان بن جائیں گےاور آگےبڑھ جائیں گے۔ کیونکہ میں اُن کا تلخ ماضی ہوں ۔ آج اُن کےپاس تابناک حال اور روشن مستقبل ہےپھر بھلا وہ اپنےتلخ ماضی کےبارےمیں کیوں سوچیں گے۔ ؟
میرےمکان کےاطراف جو بھی سوامی جی کو جانتا تھا ان سب کی سوامی جی کےبارےمیں اچھی رائےنہیں تھی ۔
” سالا کل تک دانےدانےکو محتاج تھا ، آج اَن داتا بنا پھر رہا ہے، کل تک لوگوں کی بھیک پر زندہ تھا ، آج دونوں ہاتھوں سےدولت لوٹ رہا ہے، لوگ اُس پر دولت کی بارش کررہےہیں ۔ “
” سوامی سےپولیٹیکل سوامی بن گیا ۔ کل تک مندر میں جب پروچن کرتا تھا تو کتےبھی اس کےپروچن کو سننےنہیں آتےتھے۔ آج جب گرگٹ کی طرح رنگ بدلا ہے، دھرم کو سیاست کےساتھ ملا کر بھاشن دیتا ہےتو اس کےبھاشن کو سننےلاکھوں لوگ آتےہیں ۔ “
سب کےخیالات اس سےبھی گرےہوئےتھے۔
جہاں تک میرا خیال تھا سوامی جی کےاس رویّےپر مجھےخود بےحد دُکھ ہوتا تھا ۔
میں نےسوامی جی کو بہت قریب سےدیکھا تھا ۔ اُن کو میں اچھی طرح جانتا تھا ، اس وجہ سےکبھی میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ سوامی جی اس طرح گرگٹ کی طرح رنگ بدلیں گے۔
کل تک بھائی چارہ ، اخوت ، اپنا پن ، مساوات ، انسانیت کا درس دینےوالےسوامی جی لوگوں کو نفرت بانٹتےپھریں گے۔
اشتعال انگیز تقریروں کےذریعہ لوگوں کےدِلوں میں نفرت کا یہ بیج بوکر اُنھیں ایک دُوسرےکےخون کا پیاسا بنائیں گے۔
لیکن یقین نہ کرنےکی کوئی وجہ ہی نہیں تھی ۔
روزانہ اخبارات میں سوامی جی کےجلسوں کی رپورٹیں تصویروں کےساتھ شائع ہوتی تھیں اُن کی زہریلی تقریروں کو نمایاں انداز میں شائع کیا جاتا تھا ۔
یہاں تک یہ بات مشہور ہوگئی تھی ۔
سوامی جی نےجس شہر میں تقریر کردی اُس شہر میں فرقہ ورانہ فساد ہونا لازمی ہوجاتا تھا ۔
گذشتہ دو سالوں میں میں نےخود سوامی جی کےدو تین جلسوں میں شرکت کی تھی ۔ لیکن میں سوامی جی کی پوری تقریر نہیں سن سکا ۔ جو جو زہر اُنھوں نےاس تقریر میں اُگلا تھا ‘ میں کوئی شنکر نہیں تھا جواس زہر کو اپنےحلق کےنیچےاُتار لیتا ۔
میں چپ چاپ جلسہ سےاُٹھ آیا ۔
آج بھی اس مقام پر میں سوامی جی کےجلسےمیں شریک ہونےکےلئےنہیں آیا تھا ۔
بلکہ اس پل سےگذر رہا تھا تو اس ہورڈنگ پر نظر پڑی ۔ اور نیچےمیدان میں لگےلاو

¿ڈ اسپیکروں سےسوامی جی کی آواز سنائی دی تو رُک گیا ۔
اور اب جب سوامی جی کی کار میں ان کےساتھ ایک انجان منزل کی طرف جارہا تھا تو سوامی جی سےکیا بات کروں میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا ۔
میری آنکھوں کےسامنےایک سیدھا سادہ برہمن گھوم رہا تھا جو میرےپڑوس میں رہتا تھا ۔
اس علاقےکےایک غنڈےنےریلوےلائن کےقریب کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کرکےایک جھونپڑ پٹی بسائی تھی ۔
اس میں میرا بھی ایک کرایےکا مکان تھا ۔ جس کا میں باقاعدگی سےاس غنڈےپوتیا کو کرایہ دیتا تھا ۔ پھر اس نےمیرےمکان اور ریلوےلائن کی دیوار کےدرمیان جو تھوڑی سی جگہ بچی تھی اس جگہ بھی ایک



جھونپڑابنا دیا۔ دودن بعد اس میں ایک نیاکرایہ دار بھی آگیا ۔
یہ کوئی بنارس کا پنڈت تھا ۔
سوامی وشنو پنت اور ان کی بیوی ۔
بنارس کےگھاٹوں پر پوجا پاٹ کرکےوہ اپنا اور اپنےخاندان والوں کا گذر بسر کرتےتھے۔ بنارس میں اچھا مکان تھا ۔ بال بچےتھےجو پڑھ رہےتھے۔ لیکن پوجا پاٹھ سےاتنا پیسہ نہیں ملتا تھاکہ جس سےاپنا اور اپنےخاندان والوں کاپیٹ بھر سکے۔
کسی نےمشورہ دیا ۔ ” پنڈت جی آپ ممبئی کیوں نہیں چلےجاتے؟ بہت بڑا شہر ہےلوگ اتنےدھارمک تو نہیں ہیں لیکن دھرم کےکاموں میں بےانتہا پیسہ خرچ کرتےہیں ۔ ان کےپاس دھرم کےکام کرنےکےلئےوقت نہیں ہے۔ ہاں پیسہ دےکر وہ کام ضرور کرواتےہیں ۔
اپنی پوجا پاٹھ سےاچھی آمدنی کا خواب لےکر سوامی جی بنارس سےممبئی آئےتھےاور اس گندی بستی میں رہنا بھی قبول کرلیا تھا ۔
سویرےسورج نکلنےسےپہلےہی گھر چھوڑ دیتےتھے۔ تو رات دیر گئےواپس گھر آتےتھے۔
پنڈتائن گھر میں اکیلی رہتی تھی ۔اس کا زیادہ تر وقت ہمارےگھر میں میری بیوی اور بچوں کےساتھ گذرتا تھا ۔
سوامی جی دِن بھر شہر کےمندروں کی خاک چھانتےپھرتےتھے۔ شاید کسی مندر میں اُنھیں مستقل طور پر پوجا پاٹ کا کام مل جائے۔ لیکن اس خاک نوردی سےانھیں پتا چلا تھا کہ ان مندروں پر پہلےہی دو دو تین تین پجاریوں نےقبضہ کررکھا ہےاور وہ کسی اور کی دال گلنےنہیں دیتےہیں ۔
ایسےمیں وہ ایسےگاہک ڈھونڈتےتھےجو اُنھیں گھر لےجاکر ان سےپوجا پاٹ کرائے۔
دِن میں ایک آدھ گاہک مل جائےتو اتنا مل جاتا تھا کہ دونوں اپنا پیٹ بھر سکے۔
” زمانہ بہت خراب آگیا ہےاکبر بابو ! ‘ ‘وہ روزانہ مجھےدِن بھر کی رُوداد سناتےتھے۔ ” لوگوں کا اب دھارمک کاموں میں وشواس اور شردھا نہیں رہی ہے۔ بڑےسےبڑےپاٹھ کی دکھشنا ٥ اور ١١ روپیہ دیتےہیں ۔ سمجھ لیجئےبنارس سےبرا حال یہاں ہے، مجھےلگ رہا میں نےممبئی آکر غلطی کی ہے۔ “
میں سوامی جی کا شاگرد بن گیا تھا ۔ سوامی جی ایسی باتیں بتاتےتھےجو میں ساری عمر نہیں جان پاتا ۔ میرا دِل چاہتا تھا سوامی جی کہتےرہیں اور میں سنتا رہوں ۔
اس لئےاکثر اتوارکو جب مجھےچھٹی ہوتی تھی میں سوامی جی کےساتھ مندر جاتا تھا ۔
مسلمان ہونےکےناطےمندر میں تو نہیں جاسکتا تھا ‘ مندر کےباہر گھنٹوں بیٹھ کر مندر میں ہوتا سوامی جی کا پاٹھ سنتا تھا ۔ سوامی جی کی محبت ،بھائی چارے، اُخوت ، مساوات ، انسانیت کا سبق دینےوالی باتیں ۔ مجھےوہ انسان کےرُوپ میںفرشتہ محسوس ہوتےتھے۔
اُنھوں نےایک سال ہمارےپڑوس میں گذارا ہوگا ۔ لیکن اُن کی حالت غیر رہی ۔ کسی دوکان کےافتتاح کی پوجا ہو یا کسی کا شرادھ ، تین چار گھنٹےپوجا کرنےپر بھی ١١ روپیہ یا ١٥ روپیہ ہی ملتا تھا ۔ اس میں سوامی جی اپنا خرچ بھی چلاتےاور اپنےبچوں کو بھی پیسہ بھیجتےجو بنارس میں تھے۔
ہر روز کہیں نہ کہیں کسی موضوع پر پاٹھ دیتےلیکن ان کےمطابق اس پاٹھ کو سننےوالےدس بارہ لوگ بھی نہیں ہوتےہیں ۔
ایک دِن اُنھیں ایک نئی قسم کی پیش کش ملی۔
ایک سیاسی پارٹی نےگئو رکشا کےموضوع پر ایک جلسہ رکھا تھا ۔ اُنھیں اِس جلسہ میں اِس موضوع پر بولنا تھا۔ سیاسی پارٹی والوں نےان سےکہا تھا کہ وہ دھرم کےساتھ ساتھ کچھ سیاست پر بھی بولیں۔ اِس جلسےمیں وہ بولےاور سیاسی پارٹی کےافکار کےمطابق بولے، جلسےمیں تالیاں بجتی رہیں اور وہ لوگوں پر چھاگئے۔ سیاسی پارٹی والوں کو لگا کہ اس آدمی کےذریعہ وہ اپنی سیاسی دوکان چلا سکتےہیں ۔ انھوں نےاسےایک نیا نام سوامی وشنو پنت جی دیتےہوئےان سے٠١ ، ٢١ جلسےکرائے۔
تمام جلسےکامیاب رہے‘ ہر جلسےمیں سوامی جی کی تقریر کا انداز جارحانہ ہوتا جاتا تھا ۔ اور لوگوں کی بھیڑ بڑھتی جارہی تھی اور مقبولیت بھی ۔
چند مہینوں کےاندر وہ ایک مشہور و معروف شخصیت بن گئے۔ اور اپنا پرانا مکان چھوڑ کر ایک مشہور علاقےمیں رہنےچلےگئے۔ اس کےبعد سوامی جی نےاس پارٹی کےلئےصرف اشتعال انگیز تقاریر کیں ۔
کار ایک بہت بڑےبنگلےمیں جاکر رُکی تھی ۔ میں کار سےاُترا تو اِس بنگلےکی شان و شوکت دیکھ کر میری آنکھیں چوندھیا گئیں ۔
” یہ میرا بنگلہ ہے۔ “ سوامی جی فخر سےبولے۔ ” ملک کےکئی حصوں میں اس طرح کےمیرےکئی بنگلےہیں ، میرےبچےبڑےبڑےکالجوں میں پڑھتےہیں ، میرےکئی دھندےہیں ۔ “
میں صوفےپر بیٹھ کر سوامی جی کی امارت کا اندازہ لگانےکی کوشش کرتا رہا ۔
” اکبر بابو ! آج اگر میں کسی کی دوکان یا بزنس کا افتتاح کرتا ہوں تو اسےبہت بڑی سعادت سمجھتا ہےاور اس کےبدلےمیں مجھےلاکھوں روپیہ دیتا ہے۔ بڑےبڑےلوگ اپنےمردہ رشتےداروں کےدھارمک کاریہ مجھ سےکروانےمیں فخر سمجھتےہیں اور اس کےبدلےمجھےلاکھوں روپیہ دیتےہیں ۔ جس جگہ میرا جلسہ ہوتا ہےلوگ مجھےپیسوں میں تولتےہیں ۔ کل ان ہی کاموں کےبدلےمجھےدس روپیہ مشکل سےمل پاتےتھے۔ آج میرےچاروں طرف دولت رہتی ہے۔ “ سوامی جی بولے۔
” فرق صرف اتنا ہوا ہےکہ میں لوگوں کےمیزان کےمطابق بولتا ہوں اور عوام کا میزان کیا ہے‘ جانتےہو ؟ جب میں لوگوں کو اخوت ، بھائی چارے، انسانیت اور دھرم کا اُپدیش دیتا تھا تو میری باتوں کو سننےوالےدس بیس آدمی نہیں ہوتےتھےاور میں کوڑی کوڑی کا محتاج تھا ۔ لیکن آج جب میں لوگوں کو فرقہ پرستی ، نفرت ، اشتعال انگیزی کی ترغیب دیتا ہوں تو لاکھوں لوگ میرےجلسوں میں شریک ہوتےہیں ۔ میرےماننےوالےکروڑوں ہیں ۔ میرےایک ایک بول کےبدلےمجھےلاکھوں روپیہ دیا جاتا ہے، کل میں ایک ایک لفظ اپنےدِل سےبولتا تھا تو کوڑی کوڑی کا محتاج تھا ۔ آج جب ایک ایک لفظ اپنےدِماغ سےبولتا ہوں تو کروڑوں میں کھیلتا ہوں ۔ “ سوامی جی کی بات سن کر میں کسی سوچ میں ڈوب گیا ۔
” کس سوچ میں ڈوب گئےاکبر بابو ! “ سوامی جی نےپوچھا ۔
” دُنیا کےمیزان کےبارےمیں سوچ رہا ہوں سوامی جی ‘ جس پرآپ تُلےہیں ۔ “

٭٭٭




پتہ:۔

ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔٢٠ ٣١٢٤
ضلع تھانہ(مہاراشٹر)
 
Top