افسانہ مسیحائی از:۔ایم مبین

mmubin

محفلین
افسانہ مسیحائی از:۔ایم مبین
” شاید آپ لوگوں کو مریض کی جان کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ “ ڈاکٹر بابوجی کوچیک کرکےاُن پربھڑک اُٹھا ۔” اِن کو ایڈمٹ کرنا بےحد ضروری ہے۔ اِن کا فوراً خون ، شُوگر ، یورین ٹیسٹ کیجئے، سٹی اسکین کرنےکی ضرورت ہے۔ بدن کی سونو گرافی اور چھاتی کےایکسرےکی رپورٹ آنےکےبعد صحیح طور پر علاج کرنا ممکن ہوگا ۔ میں ابتدائی علاج شروع کروادیتا ہوں ۔ “ڈاکٹر نےکہتےہوئےدو تین پُرزےاُن کی طرف بڑھا دئے۔ اور مڑ کر اپنےپاس کھڑی نرسوں کو ہدایتیں دینےلگا ۔ نرسوں نےوارڈ بوائز کو آواز دی اور اِس کےبعد وارڈ بوائز کی ہلچل شروع ہوگئی ۔ وہ ایک اسٹریچر لےآئےاور پیروں پر چل کر اسپتال آنےوالےبابوجی کو اسٹریچر پر ڈال کر لےجایا جانےلگا ۔ ” ڈاکٹر جنرل وارڈ میں جگہ نہیں ہے۔ “ ایک نرس نےآکر اطلاع دی ۔ ” ٹھیک ہےمریض کو کسی پرائیویٹ روم میں شفٹ کردو ۔ “ ڈاکٹر نےحکم دیا ۔ ” افسوس ڈاکٹر کوئی پرائیویٹ روم بھی خالی نہیں ہے۔ “ نرس بولی ۔ ” اوہو ! مریض کو ایڈمٹ کرکےاس کا علاج کرنا بہت ضروری ہے‘ ٹھیک ہے! کسی اے۔ سی روم میں ہی شفٹ کرد و ۔ “ ڈاکٹر بولا ڈاکٹر کی بات سن کر نرس اُس کا منہ دیکھنےلگی ۔ ” اِس طرح میرا منہ کیوں دیکھ رہی ہو ؟ “ ڈاکٹر چِڑ کر بولا ۔ ” اے۔ سی روم کےچارجز ! آپ مریض کےرشتہ داروں سےبھی تو پوچھ لیجئے ! “نرس رُک رُک کر بولی ” اب پوچھنےکی کیا ضرورت ہے؟ “ ڈاکٹر غصہ سےبولا ۔ ” مریض میرا ہے‘ میں مریض کی پوزیشن اچھی طرح سمجھتا ہوں ۔ یہ لوگ مریض کا علاج کرنےکےلئےیہاں آئےہیں ۔ اگر وہ فوراً اِس سلسلےمیں کوئی فیصلہ نہیں کرتےہیں تو مریض کی جان کو خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔ “ کہتا وہ تیز تیز قدموں سےایک طرف چل دیا ۔ وہ سب ایک دُوسرےکا منہ دیکھنےلگے۔ اِس درمیان وارڈ بوائز بابوجی کو لےکر پتہ نہیں کہاں چلےگئےتھے۔ ڈاکٹر کےچلےجانےکےبعد اُنھیں ہوش آیا کہ ابھی تک اُنھیں اِس بات کا بھی علم نہیں ہےکہ بابوجی کو کہاں ایڈمٹ کیا گیا ہے۔ تو وہ گھبرا کر ایک طرف دوڑ پڑے۔ اور اُنھوں نےایک نرس کو روک کر پوچھا ۔ ” سسٹر ! ہمارےبابوجی کو کہاں ایڈمٹ کیا گیا ہے؟ “ ” بابوجی کو اوپر والےفلور پر اے۔ سی روم نمبر ٠١ میں ایڈمٹ کیا گیا ہے۔ دو اسپشلسٹ ڈاکٹر آئےہیں اور وہ آپ کےبابوجی کی جانچ کررہےہیں ۔ ابھی آپ اُن سےنہیں مل سکتے، اُن کا علاج شروع ہوچکا ہے۔ “ نرس بولی۔ نرس کی بات سن کر وہ سب ہکّا بکّا رہ گئے۔ ” ہےبھگوان ! اُنھیں کیا ہوگیا ہے؟ ابھی تک تو اچھےبھلےتھے۔“ ماں نےاپنا دِل تھام لیا ۔ اور وہ یہ طےنہیں کرپارہا تھا کہ بابوجی سچ مچ اچھےتھےیا اُن کی حالت اِتنی غیر ہوگئی تھی کہ اگر وہ تھوڑی دیر اور اُنھیں یہاں نہیں لاتےتو اُن کی جان کو خطرہ پیدا ہوجاتا ؟ دو دِن سےبابوجی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی ۔ ویسےوہ جب سےریٹائر ہوئےتھے، تب سےہی اُن کی طبیعت نرم گرم رہتی تھی ۔ اِس بار بھی طبیعت خراب ہوئی تو اِسی ڈاکٹر کی دوائی شروع کی تھی جس کا وہ علاج کرنےآئےتھے۔ سویرےبابوجی نےبتایا ۔ ” اِس بار مجھےکوئی فرق محسوس نہیں ہورہا ہے۔ تکلیف بڑھتی جارہی ہے، سانس لینےمیں دُشواری ہورہی ہے، سر درد سےپھٹا جارہا ہے، بار بار آنکھوں کےسامنےاندھیرا سا چھا جاتا ہےاور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ “ بابوجی کی بات سُن کر اُس نےاُن کا علاج کرنےوالےڈاکٹر سےبات کی ۔ ” دیکھئےعمر کا تقاضہ ہے۔ اِس طرح کی بیماریاں اور شکایتیں تو ہوں گی ، اِس کی وجہ کوئی بڑی بیماری بھی ہوسکتی ہے۔ اچھا ہےآپ کسی بڑےاسپشلسٹ کو دِکھا دیں ۔ میں ایک ڈاکٹر کےنام چٹ لکھ دیتا ہوں ‘ وہ مرض کو بہت جلدی پرکھ لیتاہے۔ “ اور وہ بابوجی کو اُس ڈاکٹر کےپاس لےکر آئےتھے۔ پورےتین گھنٹےتک لائن میں بیٹھ کر اُنھوں نےاپنی باری کا انتظار کیا تھا ۔ جب اُن کا نمبر آیا تو آدھےگھنٹےتک ڈاکٹر نےطرح طرح کےآلات سےبابوجی کو اچھی طرح سےچیک کیا تھا اور اُن سےاور بابوجی سےسیکڑوں سوالات کئےتھے۔اور اِس کےبعد فیصلہ صادر کردیا تھا ۔ بوجھل قدموں سےچلتےوہ اوپر کےفلور پر آئےاور روم نمبر ٠١ کےسامنےایک بنچ پر بیٹھ گئے۔ ماں زار و قطار رو رہی تھی ۔ پونم اور وِدیّا اُسےتسلّی دےرہی تھیں ۔ ” ماںجی ! آپ اپنےآپ کو سنبھالئے، بابوجی کو کچھ نہیں ہوا ہے‘ وہ جلد ٹھیک ہوجائیں گے، اُن کی تکلیف دُور کرنےکےلئےہی تو ہم اُنھیں اسپتال میں لائےہیں ۔ ایک دو دِن میں وہ بالکل ٹھیک ہوجائیں گے۔ “ وہ اور اشوک ایک دُوسرےکا منہ تک رہےتھے۔ چاہ کر بھی ایک دُوسرےسےکچھ کہہ نہیں پارہےتھے۔ سوچا کہ رینوکا اور وِشاکھا کو بھی بابوجی کی حالت سےمطلع کیا جائے۔ لیکن ماں نےاُنھیں منع کردیا ۔ ” بابوجی کی بیماری کی خبر سُن کر دونوں پریشان ہوجائیں گی ۔ اور بال بچوں کو چھوڑ کر دوڑی آئیں گی ۔ وِشاکھا تو خیر ٠١ کلومیٹر دُور رہتی ہے‘ لیکن رینوکا ٠٠١ کلومیٹر دُور رہتی ہے۔ ۔ اُنھیں پریشان نہ کیا جائے۔ “ ” ماں تمہارا کہنا دُرست ہے‘ لیکن بعد میں وہ ہم پر الزام لگائیں گی کہ بابوجی کی طبیعت اِتنی خراب ہوگئی اور ہم نےاُنھیں مطلع بھی نہیں کیا ۔ “ پونم اور وِدیّا بولیں اور اُن کےچہروں کو کچھ اِس طرح تاکنےلگیں ، جیسےاُن سےسوال کرر ہی ہو کہ اِس بات کی روشنی میں وہ دونوں فوراً کوئی فیصلہ لیں ۔ اندر ایک گھنٹےتک پتہ نہیں کیا کیا چلتا رہا ۔ کبھی کوئی نرس باہر آتی تو کوئی اندر جاتی،کبھی کوئی ڈاکٹر کسی نرس کو ہدایتیں دیتا باہر آتا تو کبھی دُوسراکوئی ڈاکٹر نرس سےباتیں کرتا کمرےمیں جاتا ۔ ڈیڑھ گھنٹےکےبعد جب اُنھیں بابوجی کو دیکھنےکی اجازت ملی تو بابوجی کو دیکھ کر اُن کا کلیجہ دھک سےرہ گیا اور ماں تو دہاڑیں مار مار کر رونےلگیں ۔ بابوجی بےہوش پلنگ پر لیٹےتھے۔ اُن کی ناک پر ماسک لگا ہوا تھا ۔ آس پاس ایک دو مشینیں لگی تھیں ‘ جن کےوائر اُن کےدماغ اور دِل کےقریب کےمقامات سےجڑےتھے۔مشینوں پر ایک برقی رو بجلی سی لہرا رہی تھی ۔ دونوں ہاتھوں میں سرنج لگی تھی ۔ ” شش! ماں جی آپ شور مت کیجئے، مریض کو تکلیف ہوگی ، آپ انھیں دیکھ کر چلےجائیے۔ اُن کی دیکھ بھال کرنےکےلئےہم موجود ہیں ۔ “نرس نےماں کو پیار سےڈانٹا ۔ اُنھیں زیادہ دیر بابوجی کےپاس رُکنےنہیں دیا گیا ۔ ایک نرس دواو
¿ں کی ایک لمبی لسٹ اُسےتھما گئی ۔ ” یہ دوائیں فوراً لےآئیے۔ نیچےمیڈیکل میں مل جائیں گی ۔ “ اُس نےوہ لسٹ اشوک کی طرف بڑھادی ۔ اشوک دوائیں لانےکےلئےنیچےچلا گیا ۔ آدھےگھنٹےبعد وہ واپس آیا ۔ ” کیا بات ہے؟ “ اُس نےاشوک سےپوچھا ” دوائیوں کا بل ساڑےچار ہزار روپیہ ہوا ہے۔“ اشوک بولا ۔ ” اور میری جیب میں اِس وقت صرف تین ہزار روپےہی ہیں ۔ “ اُس نےجیب میں ہاتھ ڈال کر پیسےنکالےاور ٥١ سوروپےگن کر اشوک کی طرف بڑھادئےاشوک کےجانےکےبعد ایک نرس ایک چٹھی لےکر آئی ۔ ” آپ مسٹر دیانند بھارگو کےبیٹےہیں ؟ “ ” جی ہاں ! “ ” آپ ٥١ ہزار روپےکیش کاو
¿نٹر پر جمع کرادیں ۔ اِس اسپتال میں مریض کو داخل کرنےکےساتھ ٥١ ہزار روپےپیشگی جمع کرنا ضروری ہوتا ہے۔ “ ” لیکن میں تو اِتنےپیسےلےکر نہیں آیا ہوں ؟ “ وہ ہکلایا ۔ ” تو گھر جاکر لےآئیے۔ ہمار کیش کاو
¿نٹر رات میں ٢١ بجےتک کھلا رہتا ہے۔ “ ” لیکن سسٹر رات کے٠١ بج رہےہیں ‘ اِتنی بڑی رقم گھر میں تو موجود نہیں ہوسکتی جو میں جاکر لےآو
¿ں ؟ کل بینک کھلنےپر رقم میں لاکر جمع کرادوں گا ۔ “ وہ بولا ۔ ” دیکھئے! آپ کا مریض ایڈمٹ کرلیا گیا ہے، اِس لئےاُصولوں کےمطابق پیشگی رقم جمع کرانا بہت ضروری ہے۔ آپ کسی سےاُدھار لےآئیے، سویرےاسےلوٹا دینا ۔ اگر ممکن نہیں ہےتو آپ ڈاکٹر سےبات کریں ۔ “ نرس کہہ کر چلی گئی ۔ نہ تو گھر میں اتنی بڑی رقم تھی اورنہ ہی اِتنی بڑی رقم کا انتظام ممکن تھا ۔ اس نےاِس سلسلےمیں ڈاکٹر سےبات کرنی ہی مناسب سمجھی ۔ ڈاکٹر سےاس نےجب اِس سلسلےمیں بات کی اور یقین دِلایا کہ سویرےگیارہ بجےتک وہ ٥١ ہزار روپےلاکر جمع کرادےگا تو ڈاکٹر نےاُسےرعایت دےدی ۔ ایک گھنٹےکےبعد اُنھیں گھر جانےکےلئےکہا گیا ۔ نرسوں کا کہنا تھا کہ مریض کےپاس کسی کو بھی رُکنےکی ضرورت نہیں ۔ مریض کی دیکھ بھال کےلئےوہ ہیں ۔ لیکن جب اُنھوں نےبہت زیادہ اصرار کیا تو وہ اِس بات کےلئےراضی ہوگئےکہ چاہےتو وہ یا اشوک رات کو اسپتال میں بابوجی کےپاس رُک سکتےہیں ۔ اشوک نےاُسےگھر جانےکےلئےکہا ۔ وہ بابوجی کےپاس رُک گیا ۔ وہ ، پونم ، وِدیّا اور ماں گھر واپس آگئے۔ماں بابوجی کےپاس رُکنےکےلئےضد کررہی تھی ۔ بڑی مشکل سےاُنھوں نےاُسےسمجھایا ۔ دُوسرےدِن ٢١ بجےکےقریب وہ پیسوں کا انتظام کرکےاسپتال گیا ۔ اُ س نے٥١ ہزار روپےکیش کاو
¿نٹر پر جمع کرادئےاور اشوک سےبابوجی کی طبیعت کےبارےمیں پوچھا ۔ ” رات بھر تو بےہوش رہےیا سوتےرہے‘ کچھ سمجھ میں نہیں آسکا ۔ سویرےہوش آیا تو اُن کا سٹی اسکین اور سونو گرافی اور ایکسرےلیا گیا ، خون وغیرہ تو رات میں ہی ٹیسٹ کرلیا گیا تھا ۔ سب کی رپورٹ شام تک آجائےگی ۔ ڈاکٹر نےکہا ہےکہ شام کو وہ ان رپورٹوں کی بنیاد پر صحیح طور پر بتا سکےگا کہ بابوجی کو کیا بیماری ہے؟ “ ”ٹھیک ہےاب تم گھر جاو
¿ ‘ میں بابوجی کےپاس رہتا ہوں ۔ “ اُس نےاشوک سےکہا ۔ ” گھر جاکربھی کیاکروں گا ؟ “ اشوک بولا ۔ ” آج تو آفس سےچھٹی ہی لینی پڑی ۔ دوپہر تک رُکتا ہوں ۔ “ اُسےبھی آفس سےچھٹی کرنی پڑی تھی ۔ جب تک بابوجی اسپتال میں ہیں تب تک آفس جانےکےبارےمیں وہ دونوں سوچ بھی نہیں سکتےتھے۔ سویرےوِشاکھا اور رینوکا کو بھی بابوجی کی بیماری کےبارےمیں مطلع کردیا گیا تھا ۔ شام تک دونوں بھی آگئیں ۔ رات کو ایک بار پھر پورا خاندان اسپتال میں جمع ہوگیا ۔ بابوجی اُس وقت سورہےتھے، دوپہر میں جاگےتھے۔ اُس سےایک دوباتیں بھی کی تھیں لیکن پھر شاید دواو
¿ں کےغلبہ سےپھر اُنھیں نیند آگئی ۔ رات میں ڈاکٹر رپورٹ دینےوالاتھا ۔ دس بجےکےقریب ڈاکٹر اُنھیں خالی ملا تو سب نےاُسےگھیر لیا ۔ ” ہاں مجھےسب رپورٹیں مل گئی ہیں ۔ دراصل آپ کےبابوجی کےدماغ میں ایک گانٹھ ہےجس سےاُن کےدماغ کو خو ن کی سپلائی رُک جاتی ہے۔ اگر اس کا وقت پر علاج نہیںکیا جاتا تو اس سےبرین ہیمریج ہونےکا بھی خطرہ تھا ۔اس کی وجہ سےآپ کےبابوجی کو یہ تکلیفیں تھیں ۔ ہم نےعلاج شروع کردیا ہے۔ بھگوان نےچاہا تو آپ کےبابوجی آٹھ دس دِن یہاں رہنےکےبعد ٹھیک ہوجائیں گے۔ “

اور دو دِن کس طرح گذرےکچھ سمجھ میں نہیں آیا ۔ گھر کا ہر فرد اسپتال کےچکّر لگاتا تھا ۔ بابوجی کبھی بےخبر سوئےرہتےکبھی ہوش میں آتےتو چیخنےلگتے۔” تم لوگوں نےمجھےیہاں کیوں ایڈمٹ کر رکھا ہے؟ میں بالکل ٹھیک ہوں ، مجھےگھر لےچلو ۔ ‘تیسرےدِن نرس نےتین دِنوں کےاخراجات کا بل اُسےتھما دیا ۔ اُس کےمطابق اس وقت تک کل ٩١ ہزار روپےبل ہوچکا تھا ۔ ابھی مریض کو اور آٹھ دس دِن اسپتال میں رہنا تھا ۔ اِس لئےوہ فوراً اور ٥١ ہزار روپےجمع کردیں ۔ اس نےحساب لگایا اس وقت تک ٤٢ ہزار سےزائد خرچ ہوچکا تھا اور آٹھ دس دِن رہنا ہی‘ اُس کےحساب سےجو حاصل جمع خرچ آیا۔ اُسےدیکھ کر اُسےچکّر سےآنےلگے۔ اِدھر بابوجی نےسارا اسپتال اپنےسر پر لےلیا تھا ۔ وہ یہی کہتےتھے۔ ” میں بالکل ٹھیک ہوں ، مجھےکچھ نہیں ہوا ہے۔ تم لوگ میری جان کےدُشمن بنےہوئےہو ، تم مجھےمارنےکےلئےیہاں لےآئےہو ۔ مجھےفوراً یہاں سےنکال کر گھر لےچلو ۔ “ خرچ اور بابوجی کی ضد کو دیکھتےہوئےاُنھوں نےبابوجی کو اسپتال سےگھر لےجانےکا فیصلہ کرلیا ۔ لیکن ڈاکٹر نےصاف کہہ دیا کہ وہ مریض کو ایسی حالت میں گھر لےجانےنہیں دےگا ۔ اگر مریض کو کچھ ہوگیا تو اس کا دمہ دار کون ؟ چِڑ کر اُس نےاشوک سےکہہ دیا کہ ساری ذمہ داری وہ اپنےسر لیتےہیں ۔ اس کےپاس اِتنا مہنگا علاج کرنےکےلئےاور پیسہ نہیں ہے۔ اگر ڈاکٹر نےزبردستی بابوجی کو اسپتال میں رکھا تو وہ اب ایک پیسہ بھی بل ادا نہیں کرسکتے۔ اُن کی دو ٹوک بات سن کر ڈاکٹر نےبابوجی کو اسپتال سےڈسچارج کردیا ۔ بابوجی گھر آئےتو بھلےچنگےتھے۔وہ دونوں اِس بات کا حساب لگارہےتھےکہ بابوجی کےعلاج پر جو پیسہ خرچ ہوا ہے، اُنھوں نےکتنےدِنوں میں ایک ایک پیسہ جوڑ کر جمع کیا تھا ایک دِن پھر بابوجی کی حالت خراب ہوئی ۔ پھر بابوجی کو ایک ڈاکٹر کےپاس لےجانا پڑا ۔ ” شاید آپ لوگوں کو مریض کی جان کی کوئی پرواہ نہیں ہے؟ “ ڈاکٹر بابوجی کو چیک کرکےان پر بھڑک اُٹھا ۔ ” ان کو فوراً ایڈمٹ کرنا بےحد ضروری ہے۔ ان کا فوراً خون ، شوگر ، یورین ٹیسٹ کیجئے۔ سٹی اسکین کرنےکی ضرورت ہے۔ بدن کی سونوگرافی اور چھاتی کےایکسرےکی رپورٹ آنےکےبعد ہی صحیح طور پر علاج کرنا ممکن ہوپائےگا ۔ میں ابتدائی علاج شروع کروادیتا ہوں ! “ ٭٭٭
پتہ:۔ایم مبین٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتیبھیونڈی۔۔٢٠ ٣١٢٤ضلع تھانہ(مہاراشٹر)l




Contact:-
M.Mubin
303-Classic Plaza,Teen Batti
BHIWANDI-421 302
Dist.Thane( Maharashtra,India)
Phone:-(02522)256477
Mob:-09372436628
Email:-mmubin123@gmail.com

http://www.adabnama.tk
 
Top