افسانہ قربتیں فاصلی از:۔ایم مبین

mmubin

محفلین
افسانہ قربتیں فاصلی از:۔ایم مبین
کمپیوٹر اسٹارٹ کرکےاُس نےانٹر نیٹ کا کنکشن شروع کیا ۔ خلاف معمول کنکشن جلد مل گیا ۔ ورنہ اِس وقت کنکشن ملنےمیں کافی دِقّت پیش آتی تھی ۔ کنکشن ملنےکےبعد اس نےمانیٹر پر لگا چھوٹا ساویب کیمرہ درست کیا ۔ کیمرےمیں نظر آنےوالا اپنا عکس اُس نےزاویےسےصحیح کیا ، جب اُسےپورا اطمینان ہوگیا کہ کیمرہ اس کی تصویریں صحیح زاویےسےلےرہا ہےتو اُس نےاپنی پسندیدہ ویب سائٹ اوین کی اور اُس میں چیٹنگ کےآپشن پر کلک کیا ۔ مونیٹر پر سیکڑوں نام اور اُن کےدرمیان چلنےوالی گپ شپ کےنتائج اُبھرنےلگے، اُس نے میسنجر پروگرام میں اپنےساتھی کا نام لکھ کر تلاش کیا ۔ معمول کےمطابق اس سائٹ پر اس کا شوہر جاوید موجود تھا ۔ اس نےجاوید کےنام پر کلک کرکےاُسےخصوصی چیٹ روم میں آنےکی دعوت دی ۔ سامنےمونیٹر پر جاوید کا مسکراتا ہوا چہرا اُبھرا ، کانوں میں لگےمائیکروفون میں اُس کی شوخ آواز گونجنےلگی ۔ ” ہائے! بڑی دیر کی مہرباں آتےآتے؟ “ ” نہیں تو میں نےتو معمول کےوقت کےمطابق کمپیوٹر آن کیا ہے، لگتا ہےآج آپ زیادہ فری تھےجو “ ” ہاں آج آفس کا کام جلد ختم ہوگیا تھا اِس لئےنیٹ پر بیٹھ کر تمہارا انتظار کرنےلگا ۔ “ ” میرا انتظار کرنےلگےیا پھر کسی اور کےساتھ چیٹ کرنےلگے؟ “ اُس نےمسکرا کر پوچھا ۔ ” جب اتنی اچھی اپنےگھر والی چیٹ chatکرنےکےلئےساتھ ہوتو پھر دُوسروں کےپیچھےوقت برباد کرنےسےکیا فائدہ ؟ “ ” رات میں تو آپ کےپاس وقت ہی وقت ہوتا ہےنا ؟ میں تو ایک دو گھنٹےہی آپ کےساتھ ہوتی ہوں میرےآف لائن ہونےکےبعد ؟ “ ” تمہارےآف لائن ہوتےہی گھنٹوں تک ذہن کےپردےپر تمہارا مسکراتا ہوا چہرہ رقص کرتا رہتا ہے، کانوں میں تمہاری سُریلی آواز گونجتی رہتی ہے۔ میں اسی کےتصور میں کھویا رہتا ہوں اور کب نیند آجاتی ہےپتا ہی نہیں چلتا ہےاور کبھی کبھی تو میں ہماری ساری گفتگو ریکارڈ کرلیتا ہوں اور پھر آف لائن گھنٹوں اسےدیکھتا رہتا ہوں ۔ “ ” بہت یاد آتی ہے؟ “ شوہر کی بات سُن کر وہ کچھ جذباتی سی ہوگئی ۔ ” روزانہ تو ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ اس لئےیہ تو کہا نہیں جاسکتا کہ بہت یاد آتی ہےلیکن وہ جو قربت کی چاہ ہےنا کبھی کبھی بےچین کردیتی ہے۔ “ جاوید نےجوا ب دیا ۔ اس کےبعد باتوں کا سلسلہ چل پڑا ۔ ہزاروں طرح کی باتیں تھیں ۔ جاوید نےپہلےبچوں کےبارےمیں پوچھا ۔ اس نےبچوں کی دِن بھر کی سرگرمیوں کی رپورٹ دی ۔ اس کےبعد آس پاس پڑوسیوں کی باتیں ، ملک کےحالات وغیرہ پر گفتگو ۔ یہ روز کا معمول تھا ۔ وہ روزانہ ایک دو گھنٹےانٹرنیٹ پر بیٹھ کر باتیں ضرور کرتےتھے۔ باتیں کرتےہوئےاُسےمحسوس ہوتا تھا جیسےوہ بالکل اُس کےقریب ہے‘ اُس سےہزاروں میل دور نہیں ہے۔ اُس کا چہرہ جاوید کو اپنےکمپیوٹر کےمانیٹر پر دِکھائی دیتا تھا ، مائیک کےذریعہ اُس کی آواز جاوید کےہیڈ فون تک پہونچتی تھی اور اس کےہیڈ فون سےجاوید کی آواز اُس کےکانوں میں اترتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہےجیسےوہ پلنگ پر لیٹےایک دُوسرےسےباتیں کر رہےہیں ۔ فرقت کا احساس جو برسوں تک کچوکےدیتا تھا یک بہ یک ختم سا ہوجاتا تھا ۔ زمانہ کس تیزی سےبدلا اور حالات بھی کتنےبدل گئے۔ سوچیں تو حیرت ہوتی ہے۔ جاوید دس سالوں سےگلف میں ہے۔ دو سال میں ایک بار دو مہینےکےلئےآتا ہےاور اس کےبعد پھر پورےدو سالوں کی جدائی ۔ شادی ہونےکےبعد دونوں کو ساتھ ساتھ رہنےکا زیادہ موقع نہیں مل سکا تھا ۔ جب اُس کا جاوید کےساتھ رشتہ طےہوا تھا اس وقت اس نےجاوید کو دیکھا بھی نہیں تھا ۔ جاوید اس وقت گلف میں تھا ‘ دو مہینےکےلئےوطن واپس آنےوالا تھا ۔ اُس کےماں باپ جاوید کےلئےکسی اچھی لڑکی کی تلاش میں تھے۔ جاوید کےآتےہی آٹھ دس دِنوں میں اُس کی شادی کرنی تھی ۔ شادی کےبعد چھٹیوں میں وہ دو ماہ وطن میں رہ کر واپس گلف جانا چاہتا تھا ۔ کسی نےاُنھیں اس بارےمیں بتایا کہ وہ اس کےگھر رشتہ لےکر آئے۔ اس کےامی ابا کو بھی اس کےلئےجاوید سےمناسب کوئی اور لڑکا نظر نہیں آیا ۔ اِس لئےفوراً رشتہ طےہوگیا ۔ نہ تو اس نےجاوید کو دیکھا اور نہ جاوید نےاس کو ۔ اس نےصرف جاوید کی تصویر دیکھی تھی اور جاوید نےبھی صرف اس کی تصویر دیکھی تھی ۔ چھٹیوں میں جاوید آیا اور آٹھ دِن بعد ان کی شادی ہوگئی ۔ شادی سےپہلےجاوید کےبارےمیں کئی وسوسےاس کےذہن میں تھے۔ اس نےنہ تو جاوید کےبارےمیں کسی سےسنا تھا نہ کبھی دیکھا تھا ۔ پتا نہیں کس طرح کےمزاج کا ہوگا ، اسےپسند کرےگا بھی یا نہیں ؟ ماں باپ نےتو زندگی بھر کا رشتہ باندھ دیا لیکن یہ رشتہ نبھ پائےگا یا نہیں ؟ یہ طےہوا ہےکہ جب تک جاوید پوری طرح سیٹل نہیں ہوجاتا گلف میں نوکری کرتا رہےگا ۔ دوسال بعد دو مہینےکےلئےآتا رہے گا ۔ تو اس کا مطلب ہےاس کا شوہر اسےدوسالوں میں صرف دو ماہ کےلئےملےگا ۔ باقی کے٢٢ مہینےاسےاکیلےرہنا پڑےگا ‘ کیا وہ اکیلی رہ پائےگی ؟ اکیلی رہنےکی کوئی بات نہیں تھی ۔ اس کی سہیلیاں اسےسمجھاتی تھیں ۔ تو ٢٢ مہینےسمجھ لےکہ تیری شادی ہی نہیں ہوئی ہے، وقت اسی طرح گذرےگا جس طرح فی الحال گذر رہا ہے۔ لیکن وہ ذہنی طور پر اس کےلئےبھی تیّار نہیں تھی ۔ اس وقت وہ نئےلوگ نئےرشتے۔ کیا وہ وہاں رہ پائےگی ؟ لیکن شادی کےکچھ دِنوں بعد ہی اس کےسارےخدشات اور وسوسےبےبنیاد ثابت ہوئےاس نےجاوید میں ایسا کچھ بھی نہیں پایا جن خدشات کےبارےمیں وہ سوچتی رہی تھی اور سسرال میں تو اُسےاپنےگھر سےاچھا ماحول ملا ۔ وہاںاسےاپنےگھر سےزیادہ آزادی محسوس ہوئی ۔ شادی کےبعد وہ ایک ماہ تک ہنی مون کےسلسلےمیں سارےہندوستان کی سیر کرتےرہے۔ ٥١ دِنوں تک رشتہ داروں کی دعوتیں اُڑاتےرہےاور ٥١ دِنوں تک گھر میں رہے۔ دو ماہ بعد جاوید واپس چلا گیا ۔ جاوید کےجانےکےبعد اُسےمحسوس ہونےلگا جیسےاُسےکسی محل سےنکال کر قید خانےمیں قید کردیا گیا ہے۔ وہی گھر تھا جہاں وہ رہتی تھی ، وہی لوگ تھےجن کےدرمیان وہ رہتی تھی ۔لیکن ایک جاوید کےنہ ہونےکی وجہ سےاس ماحول میںکتنی زبردست تبدیلی آگئی تھی ۔اُسےلگتا تھا اس کی زندگی کا بہت کچھ اس سےچھین لیا گیا ہے۔ دو مہینےمیں اسےلگتا تھا جسےاسےساری دُنیا کی خوشیاں مل گئی ہیں ۔ لیکن دو ماہ بعد اس سےجیسےاس کی ایک ایک خوشی چھینی جارہی ہے۔ گھنٹوں وہ تنہائی میں بیٹھ کر اِن باتوں کےبارےمیں سوچ سوچ کر آنسو بہاتی رہتی تھی ۔ اس کی سہیلیاں آکر اسےسمجھاتی تھیں لیکن پھر بھی اس کا دِل بہل نہیں پاتا تھا ۔ گلف جانےکے٠١ دِنوں بعد جاوید کا خط آیا ۔ خط اِتنا جذباتی تھا کہ اسےپڑھ کر اُس کا دِل بھر آیا اور ایک نیا احساس اسےکچھ کہنےلگا کہ جو حالت اُس کی ہے‘ جاوید کی بھی وہی حالت ہے۔ جواب میں اُس نےبھی جاوید کو خط لکھا وہ جاوید کےخط سےبھی زیادہ جذباتی تھا ۔ کیونکہ اُس کےجواب میں جاوید نےبھی اِسی طرح کا جذباتی خط لکھا تھا ۔ دو سالوں تک خطوط کا سلسلہ چلتا رہا ۔اِس دوران وہ ایک بچےکی ماں بن گئی ۔ اعراف کےآجانےسےاس کی تنہائی کچھ کم ہوئی تھی ۔ کیونکہ سارا وقت اس کی دیکھ بھال میں گذرتا تھا ۔ لیکن رات میں جاوید کی یاد نہ آئےایسا ہو نہیں سکتا تھا ۔ رات بھر وہ بستر پر کروٹیں بدلتی تھی ۔ اُسےپتا تھا ہزاروں میل دُور جاوید بھی اِسی طرح کروٹیں بدلتا ہےکیونکہ اس کےخطوط سےیہ صاف پتا چلتا ہے۔ دونوں کےدرمیان ہزاروں میل کےفاصلےہیں ۔ دو مہینےکےلئےجاوید چھٹیوں میں واپس وطن آیا تو وہ فاصلےپھر سمٹ کر قربتوں میں تبدیل ہوگئے۔ لیکن وہ قربتیں صرف دو مہینےکی تھیں۔ اور پھر درمیان میں ٢٢ مہینوں کےفاصلےحائل ہوگئے۔ دونوں کےدرمیان خط و کتابت ہی ایک دُوسرےکا حال احوال جاننےکا واحد ذریعہ تھا ۔ ٠١ ، ٥١ دِنوں میں جاوید کا خط آتا تھا ۔ جواب لکھنےکےبعد جاوید کےجواب کا انتظار رہتا تھا روزانہ نگاہیں گلی میں ڈاک تقسیم کرتےپوسٹ مین پر لگی رہتی تھی ۔ اُس کو دیکھتےہی دِل دھڑک اُٹھتا تھا اور دِل میں اُس کی ایک لہر دوڑ اُٹھتی تھی ۔ شاید وہ جاوید کا کوئی پیغام لےآئے۔ لیکن وہ روزانہ پیغام لانےسےتو رہا ۔ جاوید کےخطوط تو ٠١ ، ٥١ دِنوں میں ہی آتےتھے۔ جاوید کےآنےکی تاریخ کا پتا چلتےہی دِل کی حالت عجیب پاگلوں سی ہوجاتی تھی ۔ ایک ایک لمحہ انتظا ر اور منصوبہ بندی میں گذرتا تھا ۔ مہینےدو مہینےکا ایک ایک لمحہ کا پورا شیڈول تیّار کرلیا جائےکہ کب کیا کرنا ہےتاکہ کوئی لمحہ ضائع نہ ہو اور کام ادھورا نہ رہ جائے۔ دو مہینہ کےلئےجاوید آتا تو یہ بات ضرور زیر بحث آتی کہ وہ واپس نہ جائے۔ لیکن جاوید کا جواب ہوتا ۔”ثوبی میں خود واپس جانا نہیں چاہتا ہوں ۔ لیکن یہاں رہ کر کیا کروں گا؟ مجھےیہاں ہزار دو ہزار روپیہ کی نوکری ملنی مشکل ہےیا کسی کام سےبھی اتنی آمدنی مشکل ہے‘ اس میں تو زندگی گذر نہیں سکتی ۔ میں چاہتا ہوں کہ وہاں کام کرکےاتنا پیسہ جمع کرلوں کہ پھر ہم ساری زندگی آرام سےاس کےسہارےگذار دیں پھر ہمیں کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہو ۔ “وہ کہتی ‘ وہ جتنا لاکر دےگا اُسی میں گذارا کرلےگی لیکن واپس نہ جائے۔ تو اُسےسمجھاتا کہ اس طرح زندگی نہیں گذر سکتی ۔ ان کےسامنےپوری زندگی ہے، اپنےبچوں کا مستقبل ہے۔ اسےہتھیار ڈالنےپڑتےاور جاوید واپس چلا جاتا ۔ پھر وہی فاصلے، وہی خطوط کےذریعہ فاصلوں کو کم کرنےکی ناکام سعی ۔کچھ دِنوں بعد پڑوس میں فون آگیا تھا تو یہ آسانی ہوگئی تھی کہ جاوید دو تین مہینےمیں ایک آدھ بار فون کرلیتا تھا ۔ یا وہی کبھی کبھی جاوید سےفون پر بات کرلیتی تھی ۔ لیکن فون کا بل اتنا آتا تھا ۔ زیادہ دیر اور بار بار باتیں کرنا ممکن نہیں تھا ۔ لیکن اس وجہ سےیہ آسانی تو ہوگئی تھی کہ کم سےکم اُنھیں ایک دُوسرےکی شناسا آواز تو سنائی دیتی تھی ۔ اس کےبعد جاوید آکر گیاتو سفینہ آگئی ۔ اب اسے دو دو بچوں پر دھیان دینا پڑتا تھا ۔ اس لئےجاوید کی یادوں کےلئےوقت کم ملتا تھا ۔اس دوران اُنھوں نےاپنےگھر میں فون لگا لیا ۔ اب جاوید کےفون کےلئےاُسےپڑوسی کےگھر جانا نہیں پڑتا تھا ۔ گھر میں ہی اطمینان سےبیٹھ کر جاوید سےباتیں کرلیتی تھی ۔ یا اگر دِل میں آتا اور اسےمحسوس ہوتا تو جاوید اس وقت مل سکتا ہےتو جاوید کو خود ہی فون کرلیتی ۔ اب خطوط کا تبادلہ کچھ کم ہوگیا تھا ۔کبھی کبھار وہ ایک دُوسرےکو خط لکھتےتھے۔ ایسی باتیں جو ٹیلی فون پر نہیں ہوپاتی یا پھر ٹیلی فون بند ہونےکی وجہ سےرابطہ نہیں ہوسکا تو خطوط کےذریعہ آدھی ملاقات کی پرانی رسم نبھائی جاتی ۔
اب کی بار جاوید آکر گیا تو ملاقات کا ایک اور ذریعہ وجود میں آگیاتھا ۔وہ اسےایک سائبر کیفےلےگیا اور اسےای میل کرنا اور چیٹنگ کرنا سکھا گیا ۔ اب ان کی باتیں فون کےساتھ ساتھ ای میل پر بھی ہونےلگی ۔ جاوید بچوں کی تصویریں مانگتا تو وہ تصویر کو اسکین کرکےای میل سےاسےبھیج دیتی ۔ جاوید اپنی تازہ تصویریں ای میل سےاسےروانہ کردیتا تھا ۔ کبھی جاوید ای میل سےاطلاع دےدیتا کہ وہ کس وقت چیٹنگ کی ویب سائٹ پر آن لائن ہوگا ۔ اس وقت کسی سائبر کیفےمیں جاکر وہ سائٹ کھولتی ، جاوید آن لائن ہوتا تو پھر گفتگو شروع ہوجاتی ۔ اور اس گفتگو میں گھنٹوں گذر جاتے۔ وہ ای میل چیک کرنےکےلئےاور جاوید سےچیٹنگ کرنےکےلئےہفتےمیں دو تین بار سائبر کیفےمیں جاتی تھی ۔ اب ٹیلی فون کا اتنا استعمال نہیں ہوتا تھا ۔ کیونکہ انٹرنیٹ سب سےآسان اور سستا ذریعہ تھا ۔ اس بار جاوید واپس گلف گیا تو اسےکمپیوٹر کا تحفہ دےگیا ۔ کمپیوٹر تمام جدید آلات اور سہولیات سےلیس تھا ۔ اب اسےچیٹنگ میں کی بورڈ سےٹائپ نہیں کرنا پڑتا تھا ۔ مونیٹر پر لگےکیمرےسےاس کی تصویر جاوید کو دِکھائی دیتی تھی ۔ جاوید کی تصویر اُس کےمونیٹر پر اُبھرتی تھی ۔ مائیک کےذریعہ اُس کی آواز جاوید کےکانوں تک پہونچتی تھی اور جاوید کی آواز اُس کےکانوں تک ۔ جب وہ آن لائن ہوتےتو ایسا محسوس ہوتا ۔ سارےفاصلےسمٹ گئےہیں یا فاصلےسمٹ کر قربتوں میں تبدیل ہوگئےہیں ۔ روزانہ کا ایک معمول بن گیا ہے۔ روزانہ وہ ایک دو گھنٹہ انٹرنیٹ کےذریعہ ملاقات کرلیتےہیں ۔ اس طرح اُنھیں احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ ایک دُوسرےسےہزاروں میل دور ہیں اور کئی سالوں سےنہیں ملےہیں۔ اسےپتا ہوتا جاوید نےآج کون سا کپڑاپہنا ہے۔ ، آج کیا کھایا ہے۔ تو جاوید کو علم ہوتا تھا کہ آج گھر میں کیا پکا ہے، بچےکب اسکول گئےاور اُنھوں نےآج کیا کیا شرارتیں کیں ۔ اس دِن بھی معمول کےمطابق گفتگوہوتی رہی ۔ باتوں میں جاوید نےکہا ۔ ” میری چھٹیوں کےدِن نزدیک آرہےہیں ۔ کمپنی والےکہتےہیں اگر اِس بار میں نےچھٹیاں نہیں لی تو کام کی دوگنا تنخواہ دیں گے۔ دوگنا تنخواہ اور آنےجانےکا خرچ بھی بچےگا ۔ لاکھوں کی بچت ہوسکتی ہے کہو کیا ارادہ ہے؟ “ ” اگر لاکھوں کی بچت ہوسکتی ہےتو آپ اِس بار مت آئیے۔ “ اُس کےمنہ سےبےساختہ نکلا ، ویسےبھی یہاں اب کچھ نہیں جو آپ یہاں آکر جاننا اور دیکھنا چاہتےہیں ۔ روزانہ ایک دُوسرےکےحالات کا پتہ تو چل ہی جاتا ہے۔ “ ” ہاں ‘ میں بھی سوچتا ہوں اِس بار وطن نہیں آو ¿ ں۔ “ جاوید نےجواب دیا ۔ کمپیوٹر بند کرکےجب اُس نےاپنےجواب پر غور کیا تو سوچ میں پڑگئی ۔ کہاں وہ جاوید کےآنےکےلئےایک ایک لمحہ گنتی تھی ۔ کہ کب یہ فاصلےسمٹے۔ اور آج خود کہہ رہی ہےآنےکی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ فاصلےقُربتیں بن گئےہیں ‘ قُربتوں میں بھی فاصلوں کا احساس جاتا رہا ہے۔ ٭٭٭
پتہ:۔ایم مبین٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتیبھیونڈی۔۔٢٠ ٣١٢٤ضلع تھانہ(مہاراشٹر)
Contact:-
M.Mubin
303-Classic Plaza,Teen Batti
BHIWANDI-421 302
Dist.Thane( Maharashtra,India)
Phone:-(02522)256477
Mob:-09372436628
Email:-mmubin123@gmail.com
 
Top