افسانہ انکاونٹر از ایم مبین دوسرا حصہ

mmubin

محفلین
’’ پنکی بھابی.....یہ کیا غضب کرتی ہو...... دامو نے اسے سمجھایا ۔اگر کسی کو پتہ چل گیا کہ دیا گھاٹے مرگیا ہے اور اس بلڈنگ میں اس کی لاش پڑی ہے ، وہ تمھارا پتی تھا تو ہنگامہ مچ جائے گا ۔تم اپنے آپ پر کچھ دیر قابو رکھو۔میں ڈاکٹر کو چھوڑ کر آتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ ڈاکٹر کو چھوڑنے چلا گیا......اوروہ گھر میں اکیلی رہ گئی.... اس کے سامنے دیاکی لاش پڑی تھی۔وہ کیا کرے ،اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا...... اس کی زندگی کا سہارا تو ٹوٹ ہی چکا تھا لیکن اب اس کا انتم سنسکار بھی اس کے لیے مسئلہ بنا ہوا تھا۔وہ اس ادھیڑ بن میں تھی کہ اچانک دروازے کی گھنٹی بجی۔’’ دامو واپس آیا ہوگا‘‘ سوچتے ہوئے اس نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔دروازہ کھولتے ہی اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ دروازے میں چار پانچ پولیس والے کھڑے تھے۔ا ن میں سے ایک نے پستول نکال کر اس کے ماتھے پر رکھ دی۔
’’ ہمیں پتہ چل گیا ہے کہ اس فلیٹ میں دیا گھاٹے ہارٹ اٹیک میں مرگیا ہے۔ اس کی لاش کہاں ہے؟ بتاؤ۔‘‘
وہ چپ چاپ بیڈ روم میںآئی جہاں پلنگ پر دیا کی لاش تھی ۔انسپکٹر نے اس کے ساتھ پستول ہٹائی اور دیا کے جسم کو چھو کر دیکھنے لگاپھر مایوسی میں گردن ہلادی۔’’ دیکھو.... ہمیں سب پتہ ہے کہ تم دیا کی تیسری بیوی پنکی ہو....اگر یہ کیس بنتا ہے تو ہمیں تمھیں حراست میں لینا پڑے گا اور تم سے ساری باتیں اگلوانی پڑے گی۔ ممکن ہے ہم تمھیں دیا کے تمام جرائم میں برابر کا شریک بھی بنائے۔‘‘انسپکٹر کی بات سن کر وہ ڈر گئی۔اس بارے میںتو اس نے کبھی سوچا بھی نہیںتھا۔
دروازے کی گھنٹی بجی اور تمام پولیس والے چوکنا ہوگئے۔اسے پتہ تھا داموآیا ہوگا۔ایک پولیس والے نے بڑھ کر دروازہ کھولا اور فوراً اپنی پستول آنے والے پر تان دی۔
وہ دامو ہی تھا۔سب نے دامو کو اپنی اپنی پستولوں کے گھیرے میں لے لیا۔
’’اچھا ! دامو تو یہ تم ہو.....‘‘ انسپکٹر نے پوچھا۔
’’انسپکٹر صاحب! آپ کو بھائی کی موت کا پتہ چل گیا۔‘‘
’’ ہمیں دیا کے پل پل کی خبر تھی....‘‘ انسپکٹر مسکرا کر بولا۔’’ تم دیا کے قریبی آدمی رہے ہو۔ تمھیں اس بات کا اچھی طرح پتہ ہے ۔‘‘ انسپکٹر دامو سے بولاکہ ہم اگر دیا کی موت کا کیس بھی بنائیں گے تو ہم تمھیں اور پنکی کو حراست میں لے لیں گے۔ ارتھی میں جو بھی شامل ہوگا اس پر نظر رکھیں گے اور بعد میں اسسے پوچھ تاچھ کی جائے گی۔ ان سب سے بچنے کاایک طریقہ ہے۔‘‘
’’ وہ کیا طریقہ ہے صاحب؟ ‘‘ دامو نے پوچھا۔
’’ دیا کی لاش ہمارے حوالے کردو‘‘۔ انسپکٹر بولا۔

’’ دیا کی لاش آپ کے حوالے۔آپ بھائی کی لاش کا کیا کریںگے؟‘‘
’’ تمھیں پتہ نہیںہے پولیس نے دیا کے سرپر لاکھوں کا انعام رکھا ہے۔اور دیا کو پکڑنے یامارنے والے انسپکٹر کو ترقی دی جائے گی۔ ہم دیا کی لاش سڑک پر پھینک دیں گے اور اس کے بعد سر پر صرف ایک گولی مارکر انکاؤنٹر کس کیس بنادیں گے۔اس انکاؤنٹر کے کیس کی وجہ سے مجھے انعام بھی مل جائے گا اور ترقی بھی ملے گی۔ تم بھی قانونی جھنجھٹوں سے بچ جاؤ گے۔پوسٹ مارٹم کے بعد لاش تمھارے حوالے کردی جائے گی۔تم لوگ پھر آرام سے اس کا نتم سنسکار کرو۔پولیس کسی کو کچھ نہیںکرے گی۔‘‘
انسپکٹر کی ظالمانہ بات سن کر اس کا خون کھول اٹھا۔ جی میںآیااسی وقت انسپکٹر کی پستول چھین کر اس کا انکاؤنٹر کردے۔ اف ! کتنی ذلیل ظالمانہ بات ہے...... ایک لاش کا انکاؤنٹر.....
لیکن دامونے اسے سمجھایا۔
’’بھابی ! اسی میں تمھاری اور ہم سب کی بھلائی ہے۔بھائی کی موت کو پولیس کو انکاؤنٹر بنانے دو۔ پوسٹ مارٹم کے بعد لاش تو ہمیں مل جائے گی۔پھر ہم آرام سے اس کا کریا کرم بے خوف ہوکر کریں گے۔‘‘
دامو کی بات سن کر اس کی آنکھوںمیں آنسو آگئے۔پولیس دامو کے ساتھ دیا کی لاش کو اٹھا کر لے کر چلی گئی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوسکی کہ اس کے گھر اتنی بڑی واردات ہوچکی ہے۔
ان سب کے جانے کے بعد وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اور سویرے تک جاگتی رہی۔سویرے دامو کا فون آیا....
’’ بھابی! سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے۔ پولیس نے ایک جگہ سڑک پر بھائی کی لاش کے سر میں گولی مارکر انکاؤنٹر کا کیس بنایا ہے اور لاش پوسٹ مارٹم کو بھیج دی ہے۔
۱۱! بجے تک لاش ہمیں مل جائے گی۔ میں بھائی کے دوسرے رشتہ داروں اور ساتھیوں کو مطلع کرتا ہوں اور ان کے انتم سنسکار کاانتظام بھی کرتا ہوں۔ تم بھی آجانا.....‘‘

٭ ختم شد÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷
 
Top