افسانہ انکاونٹر از ایم مبین حصہ اول

mmubin

محفلین
(افسانہ)
انکاونٹر

از : ایم مبین

دکھ اور خوف کے ملے جلے جذبات کے طوفان نے اسے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ اس کا دل چاہ رہاتھاکہ وہ دہاڑیں مارمار کر اتنی زور سے روئے کہ ساری سوسائٹی جاگ جائے اور آکر اس کے کمرے میں جمع ہوجائے۔ آخر اس ماتم کا اسے حق تھا۔ یہ اس کا فرض تھا کیوںکہ اس کے سامنے اس کے شوہر کی لاش پڑی تھی۔
وہ شوہر جو دوگھنٹہ قبل اس کے سامنے جیتا جاگتا ہوا تھا، اس سے ہنسی مذاق کررہا تھا ،اس کے جسم سے کھیل رہاتھا،اسے میٹھے میٹھے سپنے دکھارہاتھا۔اسے اس کی آنے والی حسین زندگی کی جھلک دکھا رہاتھا اوراس وقت ایک لاش کی صورت میں بے جان اس کے پلنگ پر پڑا ہوا ہے۔ لیکن اندر کا خوف اسے ایسا کرنے سے روک رہاتھااور اس کے احساسات اور جذبات کاگلا گھونٹے اس کے حلق سے ابلنے کے لیے بیتاب چیخوںکا گلااس کو اپنے حلق میںہی گھونٹنے کے لیے مجبور کررہا تھا۔ کیوںکہ جیسے ہی لوگوںکو پتہ چلے گا کہ اس کا پتی مرگیاہے،ساری دنیا جان جائے گی کہ بدنام زمانہ مشہور انڈر ورلڈ سے تعلق رکھنے والا....بین الاقوامی انڈر ورلڈ کے ایک سرغنہ کا سب سے اہم مہرا دیا گھاٹے مارا گیا ہے، ہنگامہ مچ جائے گا۔یہ کالونی پولیس چھاؤنی میں تبدیل ہوجائے گی۔لوگ تو طرح طرح کی باتیں بناکر اپنا من بہلا لیں گے لیکن اس کے لیے لوگوں کی باتوں کاجواب دینااور پولیس کو جواب دینا مشکل ہوجائے گا۔ اس کی شناخت پولیس پرتو عیاں ہوجائے گی اور لوگوں کو بھی پتہ چل جائے گا کہ وہ پولیس کو مطلوب انڈر ورلڈ کے شوٹر دیا گھاٹے کی بیوی ہے۔ہوسکتا پولیس اسے دیا گھاٹے کے راز اگلوانے کے لیے حراست میںلے لیں۔اس لیے وہ چاہ کربھی رو نہیں پارہی تھی۔
رات گیارہ بجے کے قریب دیا اس کے پاس آیا تھا۔اسکے کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ اس سے لپٹ گئی تھی اور اس سے شکایت کرنے لگی تھی ۔ کتنے دنوں کے بعد آ رہے ہو؟ کیا مجھے بھول گئے یا اب مجھ میں دلچسپی کم ہوگئی ہے؟ کہیںاور دل لگالیا ہے؟
’’ میری جان ! تم میں دلچسپی کیا کم ہوسکتی ہے۔تم ہی تو میری آرزوہو جو مجھے جوان رکھتی ہو۔میں بھلا تمھیں کیسے بھول سکتا۔جہاںتک اتنے دنوں کے بعد آنے کی بات ہے، میرا تو دل چاہتا ہے روز تمھارے پاس آؤں۔ لیکن تم تو جانتی ہو .... میری زندگی چوہوں کی سی زندگی ہے۔ ہر آہٹ پر دل دہل جاتا ہے۔ہر آہٹ پر خطرہ محسوس ہوتا ہے، چونکنا پڑتا ہے۔ کبھی پولیس کا خطرہ ..... کبھی انڈر ورلڈ کاخطرہ..... کبھی دشمنوں کا خطرہ.... ان سب سے بچ کر یہ اطمینان کرکے تمھارے پاس آنا پڑتا ہے کہ اب کوئی خطرہ نہیںہے۔‘‘
دیا کی مجبوریوں سے وہ اچھی طرح واقف تھی۔اسے اس بات کا بھی احساس تھا وہ اسے سب سے زیادہ پیار کرتا ہے اور سچ مچ اگر اس کا بس چلے تو ایک لمحہ کے لیے بھی اس کی آنکھوں کے سامنے سے نہیں ہٹے.... لیکن اسے پتہ تھا ....دیا جس پیشے سے وابستہ ہے اس پیشے میں اس کا کسی ایک مقام پر زیادہ دیر رہنا یا بار بار اس مقام پر جانا موت کو دعوت دینے کے مصداق ہے۔اس لیے دیا اس کے پاس با ر بار نہیں آتا تھا اور آتا بھی تھا تو صرف چند گھنٹے کے لیے۔رات کے اندھیرے میں چھپ کر وہ اس کے پاس آتااور دن کا اجالا پھیلنے سے پہلے چپ چاپ چلا جاتا تھا۔ کبھی وہ اس کو مطلع کرکے اس کے پاس آتاتھا تو کبھی کبھی چپ چاپ اس کے پاس آجاتا تھا۔
اس لیے یہ اس کا معمول تھا کہ وہ روزانہ رات دیر گئے تک اس کے آنے کی امید میں اس کی راہ دیکھتی رہتی تھی۔ جب رات کے دو بج جاتے تو اسے یقین ہوجاتا تھا کہ اب وہ نہیں آئے گا،تب وہ سوجاتی تھی کیوں کہ دیا کبھی بھی رات
۲!بجے کے بعد اس کے پاس نہیں آیا۔وہ اسے مطلع کرکے بھی اس کے پاس نہیںآسکتا تھا۔ اس سلسلے میں بھی وہ مجبور تھا۔ کہیں اس کے دشمنوں کواس بات کی خبر مل جائے تو اس کی جان کو خطرہ

پیدا ہوسکتا تھا۔
وہ دیا کی تیسری بیوی تھی۔
اس کی اور دو بیویاں تھیں۔پہلی بیوی کے بچے بڑے ہوگئے تھے۔وہ زیادہ تر غیر ممالک میں تعلیم حاصل کررہے تھے یا مقیم تھے۔ دوسری بیوی کے بچے اسکول جانے لگے تھے۔اس نے اپنی اس سوتن کاصرف نام اور ذکر سنا تھا ،اسے دیکھا نہیں تھا۔وہ اس کی تیسری بیوی تھی ۔ دیا سے اسے ایک لڑکا تھا جو دو سال کاتھا۔وہ دیا کی تیسری بیوی ہے،اس کے لیے یہ کوئی شرم کی بات نہیں تھی۔اس کے لیے تو یہی فخر کی بات تھی کہ دیا نے اسے اپنی بیوی بنایا ہے،ورنہ اس کا تعلق ایسی زندگی سے تھا جہاں کاایک چھینٹا بھی لوگ اپنے دامن پر پسند نہیں کرتے ہیں۔
وہ ایک بار گرل تھی۔
ایک بار میں دیا نے اسے دیکھاتھااور اس پر اس کا دل آگیا تھا۔اس نے اسے رکھ لیاتھا۔اس پاش سوسائٹی میں ایک اچھا فلیٹ دلایا تھا اور اسے خرچ کرنے کے لیے اچھی خاصی رقم دیتا تھااور جب بھی اسے بزنس سے فرصت ملتی تھی اس کے پاس آجاتا تھا۔ایک دن جب اس نے یہ خوش خبری دیا کو سنائی کہ وہ ماں بننے والی ہے تو دیا بہت خوش ہوااور اس سے بولا،’’ ہم اگلے ہفتہ شادی کرلیں گے۔‘‘
’’کیا.....؟‘‘ دیا کی بات سن کر وہ چکراگئی۔
’’ہاں! میری ہونے والی اولاد میری رکھیل کی نہیں ،میری بیوی کی اولاد ہوگی۔‘‘
اور سچ مچ دیا نے اگلے ہفتے اس سے شادی کرلی تھی۔اسے اور کیا چاہیے تھا ۔اسے دنیا کی سب سے بڑی خوشی مل گئی تھی۔اس کی شادی کے بارے میں صرف دیا کا ایک ساتھی دامو بھنکس ہی جانتا تھا۔دامو کو اس کے بارے میں سب پتہ تھا۔کبھی اسے دیا سے رابطہ قائم کرناہوتا تھا تو وہ دامو کے معرفت ہی کرتی تھی۔ دیا اسے کبھی اپنا فون نمبر نہیں دیتا تھا۔ ہاں خود اسے مختلف نمبروں سے فون کیاکرتا تھا۔باتوں باتوں میںوہ اسے اپنے بزنس کے بارے میں بھی بتاتے رہتا تھا۔کسی کو شوٹ کیا....کسی کو شوٹ کرنا ہے..... کسی کو شوٹ کرنے سے کتنی رقم ملی....کسی کام سے کتنی رقم ملنے والی ہے....وغیرہ وغیرہ۔پھر جب اشوین آگیا تو وہ اس کی طرف زیادہ متوجہ ہوگئی اور اس میںاس کا سارا وقت گزر جاتا تھا۔ دیا اگر گھر آتا تو سوتے ہوئے اشوین کوجگا کر اس سے گھنٹوں کھیلتا رہتا تھا۔ دن میں بھی ایک دوبار فون کرکے وہ اشوین کی خیر خیریت پوچھتا رہتا تھا۔ دیا کو اپنی زندگی کے بارے میں علم تھا یہ کبھی بھی اسے دھوکہ دے سکتی ہے ۔ اس کے بعد اسے کوئی تکلیف نہ ہو۔اس کا بیٹاٹھاٹ سے زندگی گذارے ،اس کے لیے اس کے نام پر مختلف بینکوں میں بڑی بڑی رقمیں جمع کررکھی تھی اور اس کے نام کئی بڑی بڑی جائیداد یں لے رکھی تھی۔
’’ پنکی! میرے بعد تیرے کوکو ئی تکلیف نہیں ہوگی۔اس کا میںنے انتظا م کردیا ہے۔‘‘وہ اکثر اسے بتاتارہتا تھا کہ کس سے اس کو خطرہ ہے؟کس نے اس کی سپاری نکالی ہے؟کون سا پولیس آفیسر اس کا دوست ہے؟ کن کن پولیس والوں کو وہ ہفتہ دیتا ہے اور کس پولیس والے سے اسے خطرہ ہے؟‘‘
اس کی سرگرمیا ںا ور دہشت بڑھتی جارہی تھی ۔لوگ اس کے نام سے کانپتے تھے اور بے چوں چراں کیے اس کی ہر مانگ پوری کردیتے تھے۔محکمۂ پولیس نے اعلیٰ سطح سے اس کے لیے ایک آرڈر پاس کررکھا تھا۔وہ جہاں بھی دکھائی دے اس کا انکاؤنٹر کردیا جائے یا پتہ چلے کہ وہ کہاں ہے؟ فوراً اس جگہ پہنچ کراس کا انکاؤنٹر کردیا جائے۔
لیکن آج تک پولیس اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکی تھی۔ پولیس کو اس کے لمحہ لمحہ حرکت اک علم تھا لیکن پولیس اس پر ہاتھ نہیں ڈالتی تھی کیونکہ وہ محکمۂ پولیس کی جیبیں گرم کرتا تھااور ان کے حکم پر کئی غیر قانونی کام بھی کرکے ان کی مدد بھی کرتا تھا۔کبھی کبھی وہ ہنس کر کہتا تھا....’’ پولیس سے مجھے کوئی خطرہ نہیںہے۔پورا محکمۂ پولیس میری مٹھی میںہے۔‘‘ اس دن آیا تووہ کچھ تناؤ میں تھا۔اس نے اپنے تناؤ کی وجہ نہیں بتائی۔اس کے ساتھ
دلجمعی کرکے اپنا تناؤ دور کرنے کی کوشش کرنے لگا۔اچانک وہ اپنا دل پکڑ کر بیٹھ گیا اورمچھلی کی طرح تڑپنے لگا۔اس کا سارا جسم پسینے میں نہا گیا۔
’’ کیا ہوا؟‘‘ وہ گھبرا گئی۔
’’ سینے میں بہت درد ہورہا ہے...... فوراً کسی ڈاکٹر کو بلاؤ......‘‘ وہ تڑپتا ہوا بولا۔
وہ خود تو نہ کسی ڈاکٹر کو جانتی تھی اور نہ کسی ڈاکٹر کو لاسکتی تھی۔ نہ کھلے عا م دیا کو کسی ڈاکٹر کے پاس اسپتال لے جاسکتی تھی۔اس نے دامو کو فون کیا......’’ بھائی کی طبیعت بہت خراب ہے۔فوراً کسی ڈاکٹر کو لے کر میرے گھر آؤ۔‘‘
تب دیا بے ہوش ہوگیا تھا ۔وہ اپنی طور پر اسے ہوش میںلانے کی کوشش کرتی رہی۔دامو کو ڈاکٹر کو لانے میں ایک گھنٹہ لگ گیا۔ڈاکٹر نے آکر دیا کو اچھی طرح چیک کیا پھر مایوسی سے بولا.....’’کوئی فائدہ نہیں۔کسی بڑے تناؤ سے برین ہیمبرج ہوگیااور پھر دل کا دورہ پڑا۔ جس میں بھائی کی جان چلی گئی۔ڈاکٹر کی یہ بات سنتے ہی وہ دہاڑ یںمارمار کر رونے لگی۔
 
Top