افسانہ: انتظار( برائے اصلاح) ا ز سحرش سحر

سحرش سحر

محفلین
افسانہ:انتظار(برائےاصلاح)از سحرش سحر
بازار میں سے گزرتے ہو ئے اسے یا د آیا کہ رفعت نے اسے نعیم کے لیے جوتے لانے کا کہا تھاکیونکہ اس کے جو تے مرمت کر واتے کرواتے بے مرمت ہو گئے تھےاور شمیم نے اسے منجھلی لڑکی سدرہ کے لیے لنڈے سے سویٹر لانے کا کہا تھا۔اسے یہ بھی یاد آیا کہ صدیق کے لیے بخار کی گولیاں بھی تو لانی تھی ۔وہ بے چارہ کل سے بخار میں تپ رہاتھا ۔انہیں خیالات میں غلطا ں و پیچا ں تھا کہ اچانک اس نے گدھا گاڑی روک لی اور اپنی جیب کوٹٹولنے لگا ۔اس نے اپنی جیب سے معمولی سی رقم نکالی اور اسے گننے لگا.....پھر کیا تھا....اس نے تو اپنے بائیں ہاتھ سے اپنا سر ہی پکڑ لیا. ۔ایک نظر بھر کر آسمان کی طرف دیکھا ۔ جیسے وہ آسمان والے سے کچھ کہنا چاہتا ہو.... اسے کچھ بتانا چاہتا ہو ...یا... شاید کچھ پوچھنا چا ہتا ہو۔ پھر اپنی گدھا گاڑی کی طرف دیکھا جو اس کے کنبے کی معاش کا واحد ذریعہ تھا ۔
چل شاکر!خدا کا نام لے ....دیکھتے ہیں کہ کیا بنتا ہے ......آہستہ سے خود سے کہا ۔
چوک میں لوگوں کا ہجو م تھا ۔ کوئی آرہا تھا ‘ کوئی جا رہا تھا ۔۔ کوئی گاہک تھا۔ کوئی بیوپاری ۔ لین دین کا بیو پار چل رہا تھا ۔بازار میں موجود اشیاء خورد ونوش و دیگر ضروریات زندگی کی افراط دیکھ کر وہ اکثر سو چا کرتا تھا کہ اس رازق نے اپنے بندوں کے لیے کیسے رزق کے ڈھیر لگا رکھے ہیں مگر اس کے کنبے کا رزق اتنی مشکل سے اور اتنا کم کیوں ملتا ہے؟ آج بھی وہ یہی سوچ رہا تھا کہ کیا اس کی زندگی میں بھی کبھی اچھے دن آیئں گے ؟.... اس کے کنبے کی حا لت بھی کبھی بدلے گی یا......؟ یہ سوچ کر وہ اچانک چونک گیا جیسے کسی برے سپنے سے جاگا ہو۔ سامنے اسے میڈیکل سٹور نظر آیا۔ گدھا گاڑی کو ایک طرف کھڑا کروا کر گولیاں لینے گیا ۔
" بیٹا بخار کی گولیاں چاہیے تھیں.........اگر سستی سی مل جاٰئیں تو......"
اس نے آہستگی سے کہا' جیسے خود سے کہ رہا ہو ۔
آج اس کی اپنی طبیعت بھی کچھ ناساز تھی
دل بجھا ہوا اور قدم بوجھل تھے۔مگر اسے اپنی کوئی پرواہ نہیں تھی ۔ سٹور سے گولیا ں لے کر سیدھا گدھا گاڑی کی طرف آیا اور بکاؤ مالٹوں کی ٹوکری کا اندازہ لگایا کہ کتنا مال ابھی باقی ہے ۔
"ارے ماشاءاللہ! یہ تو تھوڑے سے ہی رہ گئے ہیں ۔ میرا خیال ہے یہ گولیاں لے کر مجھے جلدی گھر جانا چاہیے ۔ صدیق بخار میں تپ رہا ہو گا۔
رفعت.....شمیم.؟..... بیٹاکہاں ہو سب ؟
۔"السلام علیکم ‘ماموں جان!
“ وعلیکم السلام ..بیٹایہ بتاؤ کہ صدیق کا بخار اب کیسا ہے....اس کے لیے گولیاں لے آیا ہوں..." جیب میں ہاتھ ڈال کر گولیاں نکالتے ہوئے پوچھا۔
"جی ابھی بھی ِ بخار میں تپ رہے ہیں... تھوڑی دیر پہلے ہی آنکھ لگی ہے۔ شاید بخار کی شدت کی وجہ سے...."
"مولیٰ رحم کرے...جا کر ابھی ان گولیوں میں سے اسے ایک ایک دے دو"
"وہ ماموں جان......نعیم کے جوتے اور سدرہ کا سویٹر لے آئے ہیں..."
" اوہو بہو رانی ...وہ تو میں بھول ہی گیا تھا....ابھی جاووں گا تو لےآووں گا ۔"
اصل میں اسے اپنے جگر گوشوں کی ضروریات یاد تھیں مگر مفلسی اجازت نہیں دے رہی تھی ۔
صحن سنسان پا کر اس نے بہو سے پوچھا۔
"یہ بچے کہا ں ہیں؟"
"جی ...وہ باہر کھیلنے گئے ہیں ۔"
"اور بیٹا وہ اللہ لوک کہاں ہیں...کہیں باہر نکلا ہے..؟ "
"جی ماموں ...." یہ کہ کر رفعت اندر کمرے میں چلی گئی ۔
ایک دم سے وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ وہ سوچنے لگا اگر صدیق سڑک حادثے کا شکار نہ ہوتا تو اس کی ریڑھ کی ہڈی اور ٹانگیں سلامت ہوتیں تو وہ اپنی بیوی بچوں کا بوجھ خود ہی سنبھالتا....اور شفیق... کاش اگروہ زہنی توازن نہ کھو بیٹھتا تو وہ بھی اپنی بیوی بچوں کی کفالت خود کرتا.....اور اب تو میں بھی بوڑھا ھو چکا ہوں..کمزور ہوچکا ہوں .....اگر مجھے کچھ ہو گیا تو.........؟اتنے میں چھوٹا نعیم اپنے بابا کے سامنے آ کھڑا ہوا اور بڑی معصومیت سے تقاضا کیا ۔
"بابا میرے نئے جوتے؟؟؟؟"
نعیم کے اس معصوم سے جملے نے اسے جھنجھوڑا....اسے خیالوں کی دنیا سے حقیقت میں لے آیا ۔
"ارے میرا بیٹاآیا ہے"۔ یہ کہ کر اسے تسلی دیتے ہوئے بولا... "ابھی جا کر لے آتا ہوں‘... میں نے ایک دکان پر بہت ہی پیارے جوتے دیکھے ہیں اپنے بیٹے کے لیے۔"
ایک دم سے خیال آیا کہ آج بھی تو اس کی جیب میں اتنے ہی پیسے ہیں کہ اگر جوتے اور سویٹر لے لیا تو گھر کے خرچے کے لیے کچھ نہیں بچے گا ۔
اتنے میں باقی بچے بھی آن دھمکے.اور انھوں نے شور مچانا شروع کر دیاکہ بابا ہمارے لیے کیا لائے ہیں؟
اس نے سب کو پیار سے دیکھا اور شفقت سے کہا اپنے بچوں کے لیے میٹھے میٹھے مالٹے لایا ہوں ۔
اس نے جلدی سے بکاؤ مالٹوں کے ٹوکرے سے نو مالٹے نکال کر ہر ایک کو ایک ایک مالٹا دے دیا ۔ بچے اس ایک ایک مالٹے کو پا کر ایسے خوش ہوئےگویا انھیں جنت مل گئ ہو ۔
شاکر جلدی جلدی گدھا گاڑی لے کر گھر سے نکلا ..... تھوڑی دور ہی گیا ہو گا کہ اس نے سامنے سے اکمل صاحب کی گاڑی کو گزرتے ہوئے دیکھا۔ اکمل صاحب نو دولتیے' خوشحال لوگ تھے ۔ پیسے کی ریل پیل تھی ۔ دو بیٹے انگلینڈ میں تھے جبکہ ایک بیٹا دبئ میں کاروبار کرتا تھا ۔ صدیق معذوری سے پہلے ان کے ہاں ملازم تھا۔
ان کی گاڑی شاکر کے قریب سے گزرتے ہوئے رک گئ ۔
"کیا حال ہے شاکر !"اس نے ونڈو سکرین میں سے اسے دیکھ کر پوچھا ۔
شاکر نے انکساری اور عقیدت سے سینے پر ہا تھ رکھ کر جواب دیا ...سلام اکمل صاحب...اللہ کا کرم ہے آپ کیسے ہیں؟
"اور سناو !صدیق اب کیسا ہے...؟'
"جی...اب تھوڑا بہتر ہے...وہ جی آپ سے ایک عرض کرنا تھی -"
اسنے نہا یت انکساری سے کہا۔
"بولو سن رہا ہوں -"
"وہ جی اپ کو تو معلوم ہی ہے.... میرے دونوں بیٹے...اور گھر کا خرچہ.....اوپر والے کا کرم ہے وہ پورا کر لیتا ہے....آج کل ذرا ہاتھ تنگ ہے...اگر آپ مہربانی فرما کر چار سو روپے ادھار.....آپ فکر نہ کریں میں جلدی ادا کر لوں گا ۔ "اس نے بڑی ملامت سے نہ صرف رقم کا تقاضا کیا بلکہ جلد لوٹا نے کی یقین دہا نی بھی کروا دی ۔"
" ارے شاکر! تمہیں تو معلوم ہے کتنی مہنگائی بڑھ گئی ہے..اور اوپر سے ضروریات زندگی.....بس نہ ہی پوچھو...اب دیکھو نا پچھلے مہینے بیٹے کی شادی پر لاکھوں خرچہ آیا.....اور تو اور پچھلے دنوٰں نئی گاڑی بھی لینی پڑی کیونکہ پرانی گاڑی میاں صاحبزادے کو پسند نہ تھی ۔ تم ہی بتاؤ اب میرے پاس کوئی گنجائش ہو گی ۔لیکن خیر میں کچھ کرتا ہوں..." اکمل صاحب نے بڑی دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے اپنی خود ساختہ مجبوریاں گنوائیں ۔
شاکر ہکا بکا کھڑا یہ سب سن رہا تھا ۔اتنے میں وہ اپنے ڈرائیور سے مخاطب ہوا " ظہور....!" ڈرائیور سمجھدار تھا ۔اس نے اپنی جیب سے دو سو روپے نکالے اور اسے تھما دییے ۔شاکر نے یہ رقم بخوشی چوم چاٹ کر رکھ لی ۔اور تا دیر سینے پر ہاتھ رکھے دعائیں دیتا ہوا کھڑا رہا...یہان تک کہ اکمل صاحب کی گاڑی نظروں سے اوجھل ہو گئی .....۔
آج شاکر کو یہ تھوڑی سی رقم ایسی نعمت معلو م ہوئی جیسے اس کے پوتے پوتیوں کے لیے وہ ایک ایک مالٹا ۔
شاکر خوشی خوشی روانہ ہونے ہی کو تھاکہ اپنے بیٹے شفیق کو آتے ہوئے دیکھا ۔وہ بکھرے بال ' میلے کچیلے کپڑوں مین ملبوس' گریبان چاک 'ناک کی سیدھ میں چلتا ہوا' اپنے باپ کے پاس سے گزر گیا ۔
شاکر نے اسے دیکھا تو اس کی ساری خوشی کافور ہو گئی اور اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے وہ سوچنے لگا کہ میں اپنےبیٹوں کو روؤں یا اپنے پوتون پوتیوں کو ۔
اس نے اپنے انسو خشک کئیے اور روانہ ہو گیا اس نے درد مند دل کے ساتھ آواز لگائی
مالٹے لے لو مالٹے....میٹھے میٹھے مالٹے.....
اتنے میں شام کے سائے پھیلنے لگے ۔ اس نےجلدی سے لنڈے بازار کا رخ کیا تا کہ اپنے جگر گوشوں کے لیے خریداری کر سکے ۔ راستے میں اس نے ایک پھل فروش کو پھلوں کی چانٹی کرتے ہوئے دیکھا ..وہ گلے سڑے پھل الگ کر کے ایک طرف رکھ رہا تھا ۔شاکر نے سوچا کہ کیوں نا باقی بچوں کے لیے پھل لے کر جاؤ۔ خوش ہو جائیں گےکیونکہ وہ سب بھی تو اپنے باباکے منتظر ہوں گے.. لہذا وہ وہاں گیا اور ان گلے سڑے پھلوں میں سے پھل چننے لگا ۔پھل فروش نے اسے دیکھ کر کہا
" او بھائی گدھے نے ہی کھانا ہے ...چانٹی کیسی ...یہ سارا لے جاؤ..."
شاکر نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا......اور دھیرے سے کہا "آپ کی مھربانی.."
پھل ا ٹھا کر گدھا گاڑی میں رکھ لیے اور آگے بڑھا....بازار میں ایک دکان کے پاس رک گیا مگر آج تو اس کے لیے اترنا بہت ہی مشکل ہو گیا تھا ۔وہ بڑی مشکل سے اتر کر ایک دکان پر گیا ۔ اس دکان دار سے اس کی تھوڑی سی جان پہچان تھی ۔ وہ وہان تھوڑا سا بیٹھ گیااور سکون کے لیے آنکھیں بند کر لیں ۔ شام کا اندھییرا اتنا گہرا تو نہیں تھا جتنا اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا ۔ جیسے تیسے کر کے پیسے جوڑے اور خریداری کر لی...مگر جیسے ہی سلام کر کے واپس پلٹا ...غش کھا کر گر پڑا ۔
ارد گرد سے لوگ جمع ہو گئے ۔اس کی نبض دیکھی کہ شاید بے ہوش ہو گیا ہو مگر وہ تو......
اس کی میت سویٹر اورجوتوں سمیت جلدازجلد گھر پہنچا دی گئی کیونکہ آج اس کے جگر گوشے بڑی شدت سے اپنے بابا کا انتظار کر رہے تھے ۔
'
 

با ادب

محفلین
کہانی کا موضوع دردناک ضرور ہے لیکن پڑھنے کے بعد آنکھ میں آنسو نہیں آئے نہ ہی دل.کانپا ....یہ ایک مصنف کی کمزوری قرار پاتی ہے اگر اسے قلم پہ گرفت نہ ہو کہ وہ پڑھنے والوں کو رلا.نہ سکے ... کہانی کے لیے موضوعات سبھی پرانے ہی ہوتے ہیں لیکن یہ.انداز بیان ہی ہوتا ہے جو قاری کو باندھ لیتا ہے .. کوشش جاری رکھیے
 

با ادب

محفلین
کہانی کا موضوع دردناک ضرور ہے لیکن پڑھنے کے بعد آنکھ میں آنسو نہیں آئے نہ ہی دل.کانپا ....یہ ایک مصنف کی کمزوری قرار پاتی ہے اگر اسے قلم پہ گرفت نہ ہو کہ وہ پڑھنے والوں کو رلا.نہ سکے ... کہانی کے لیے موضوعات سبھی پرانے ہی ہوتے ہیں لیکن یہ.انداز بیان ہی ہوتا ہے جو قاری کو باندھ لیتا ہے .. کوشش جاری رکھیے
 

سحرش سحر

محفلین
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
با ادب صاحبہ! بہت بہت شکریہ ..۔۔۔ائندہ آپ کو ہنسانے یا رلانے کی بھر پور کوشش کروں گی ۔ ان افسانوں کو پرھنے اور کمنٹس دینے کا ایک بار پھر شکریہ
 
Top