اعتبار ساجد اعتبار ساجد کی غزل

مخلص انسان

محفلین
یہ نہیں کہ میری محبتوں کو کبھی خراج نہیں ملا
مگر اتفاق کی بات ہے ، کوئی ہم مزاج نہیں ملا
مجھے ایسا باغ نہیں ملا ، جہاں گل ہوں میری پسند کے
جہاں زندہ رہنے کا شوق ہو مجھے وہ سماج نہیں ملا
کسی داستان قدیم میں ، میرے دو چراغ بھی دفن ہیں
میں وہ شاہ زادہ بخت ہوں جسے طاق و تاج نہیں ملا
میں ایک ایسی موت ہوں جس کے سوگ میں کام بند نہیں ہوئے
کوئی شورِ گریہ نہیں اٹھا کہیں احتجاج نہیں ملا
کوئی آس کوئی اُمید ہو کہیں اُس کی کوئی نوید ہو
کئی دن ہوئے میرا خوش خبر میرا خوش مزاج نہیں ملا
تیری گفتگو میں نہیں ملی وہ مٹھاس پیار کے شہد کی
سو ، قرار جیسا قرار بھی میرے دل کو آج نہیں ملا
 
Top