اصول ترجمہٴ قرآن کریم
علامہ مولانا محمد عبدالحکیم شرف قادری علیہ الرحمة
علامہ مولانا محمد عبدالحکیم شرف قادری علیہ الرحمة
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ کَفٰی وَ الصَّلوٰةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفےٰ خُصُوْصاً عَلٰی اَفْضَل الخلق وَ سَیِّدُ الرُّسل مُحَمَّدٍ ن النَبِی الاُمِیِّ الَّذِی اولی القرآن والسبع المثانِی وَعَلٰی آلِہ وَاَصحَابِہ اَجْمَعِیْنَ o
اصل موضوع پر گفتگو کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم، تفسیر اور ترجمہ کے معانی اور تعریفات ذکر کردی جائیں تاکہ اصل مطلب کے سمجھنے اور سمجھانے میں آسانی رہے۔
قرآن کریم:
عربی لغت میں قرآن، قراء ت کا ہم معنی مصدر ہے، جس کا معنی پڑھنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ عَلَیْنَا جَمَعَہ وَقُرْاٰنَہ فَاِذَا قَرَاْنَاہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہ (76/18- 17)
”بے شک اس کا محفوظ کرنا اور پڑھنا ہمارے ذمہ ہے، تو جب ہم اسے پڑھ چکیں اس وقت پڑھے ہوئے کی اتباع کرو“ (کنزالایمان)
پھر معنی مصدری سے نقل کر کے اللہ تعالیٰ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیے ہوئے مُعجزِ کلام کا نام قرآن رکھا گیا، یہ مصدر کا استعمال ہے مفعول کے معنی میں جیسے خلق بمعنی مخلوق عام طور پر آتا ہے۔[1]
تفسیر:
عربی زبان میں تفسیر کا معنی ہے ”واضح کرنا اور بیان کرنا“ اسی معنی میں کلمہٴ تفسیر سورہٴ فرقان کی اس آیت میں آیا ہے:
وَلَا یَاْ تُوْنَکَ بِمَثَلٍ اِلاَّ جِئْنٰکَ بِا لْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا
(الفرقان 25/ 33)
”اور کوئی کہاوت تمہارے پاس نہ لائیں گے مگر ہم اس سے بہتر بیان لے آئیں گے“
اصطلاحی طور پر تفسیر وہ علم ہے جس میں انسانی طاقت کے مطابق قرآن پاک سے متعلق بحث کی جاتی ہے کہ وہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی مراد پر دلالت کرتا ہے۔
جب یہ کہا گیا کہ تفسیر میں قرآن کریم سے بحث ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی مراد پر دلالت کرنے کے اعتبار سے تو اس قید سے درج ذیل علوم خارج ہوگئے انہیں تفسیر نہیں کہا جائے گا۔
علم قراء ت:
اس علم میں قرآن کریم کے احوال ہی سے بحث ہوتی ہے لیکن قرآن پاک کے کلمات کے ضبط اور ان کی ادائی کی کیفیت پیش نظر ہوتی ہے۔
علم رسم عثمانی:
اس علم میں قرآن کریم کے کلمات کی کتابت سے بحث کی جاتی ہے۔
علم کلام:
اس علم میں بحث کی جاتی ہے کہ قرآن پاک مخلوق ہے یا نہیں۔
علم فقہ:
اس علم میں بحث کی جاتی ہے کہ حیض و نفاس اور جنابت کی حالت میں قرآن پاک کا پڑھنا حرام ہے ۔ (2)
علم صرف:
اس علم میں کلمات کی ساخت سے بحث ہوتی ہے۔
علم نحو:
اس میں کلمات کے معرب (اعراب لگانا) و مبنی ہونے اور ترکیب کلمات سے بحث ہوتی ہے۔
علم معانی:
اس میں کلام فصیح کے موقع محل کے مطابق ہونے سے بحث کی جاتی ہے۔
علم بیان:
اس میں ایک مطلب کو مختلف طریقوں سے بیان کرنے کی بحث ہوتی ہے۔
علم بدیع:
اس میں وہ امور زیر بحث آتے ہیں جن کا تعلق الفاظ کے حسن و خوبی سے ہوتا ہے غرض یہ کہ صرف علم تفسیر ہی وہ علم ہے جس میں طاقت انسانی کے مطابق قرآن پاک کے ان معانی اور مطالب کو بیان کیا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ تعالیٰ کی مراد ہیں۔
طاقتِ انسانی کی قید کا مطلب یہ ہے کہ متشابہات کے مطالب اور اللہ تعالیٰ کی واقعی مراد کا معلوم نہ ہونا علم تفسیر کے خلاف نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی مراد اسی حد تک بیان کی جائے گی جہاں تک انسانی طاقت اور علم ساتھ دے گا۔
وہ علوم جن کی مفسّر کو حاجت ہے:
علما اسلام نے مفسر کے لیے درج ذیل علوم میں مہارت لازمی قرار د ی ہے:
(1) لغت (2) صرف (3) نحو
(4) بلاغت (5) اصول فقہ (6) علم التوحید
(7) قصص ( ناسخ و منسوخ (9)علم وہبی
(10) اسباب نزول کی معرفت
(11) قرآن کریم کے مجمل اور مبہم کو بیان کرنے والی احادیث
وہبی علم، عالمِ با عمل کو عطا کیا جاتا ہے، جس شخص کے دل میں بدعت، تکبر، دنیا کی محبت یا گناہوں کی طرف میلان ہو اسے علم وہبی سے نہیں نوازا جاتا۔
ارشاد ربانی ہے:
سَاَصْرِفُ عَن آیَاتِیَ الَّذِینَ یَتَکَبَّرُوْنَ فِی الاَرْضِ بِغَیْرِ الحَقِّ (نوح 7/146)
”اور میں اپنی آیتوں سے انہیں پھیر دوں گا جو زمین میں ناحق بڑائی چاہتے ہیں۔“ (کنزالایمان)
امام شافعی فرماتے ہیں:
شَکوتُ اِلیٰ وَکِیعٍ سُوءَ حِفْظِی
فَاَرشَدَنِیْ اِلیٰ تَرکِ الْمَعَاصِیْ
وَاَخبَرَنِیْ بِاَنَّ الْعِلْمَ نُوْر
وَنُورُ اللّٰہِ لَا یُھْدٰی لِعَاصِی
میں نے امام وکیع کے پاس حافظے کی خرابی کی شکایت کی تو انہوں نے مجھے گناہوں کے ترک کرنے کی ہدایت فرمائی۔
اور مجھے بتایا کہ علم نور ہے اوراللہ تعالیٰ کا نور گناہگار کو عطا نہیں کیا جاتا۔
یہ علوم اور ان کے علاوہ دیگر شرائط تفسیر کے اعلیٰ مراتب کے لیے ضروری ہیں۔ عمومی طور پر اتنا علم کافی ہے جس سے قرآن پاک کے مطالب اجمالی طور پر سمجھے جاسکیں اور انسان اپنے مولائے کریم کی عظمت اور اس کے پیغام سے آگاہ ہوسکے۔
تفسیر کے اعلیٰ مراتب کے لیے چند امور نہایت ضروری ہیں:
1۔ قرآن کریم میں واقع کلمات مفر دہ کی تحقیق، لغت عربی کے استعمالات کے مطابق کی جائے، کسی بھی محقق کو چاہیے کہ کلماتِ قرآن کی تفسیر ان معانی سے کرے جن میں وہ کلمات نزول قرآن کے زمانے میں استعمال ہوتے تھے۔ بہترین طریقہ یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ یہ لفظ قرآن پاک کے مختلف مقامات میں کن معانی میں استعمال ہوا ہے، پھر سیاق و سباق اور موقع محل کے مطابق اس کا معنی بیان کیا جائے، قرآن پاک کی بہترین تفسیر وہ ہے جو خود قرآن پاک سے کی جائے۔
2۔ بُلَغاء کے کلام کا وسیع اور گہرا مطالعہ کرکے ان کے کلام کے بلند پایہ اسالیب، نکات اور محاسن کی معرفت حاصل کی جائے اور متکلم کی مراد تک رسائی حاصل کی جائے، اس طریقے سے ہم اللہ تعالیٰ کی مراد مکمل طور پر سمجھنے کا دعویٰ تو نہیں کرسکتے، تاہم کلام الٰہی کے مطالب تک اس قدر رسائی حاصل کی جاسکتی ہے جس سے ہم ہدایت حاصل کرسکیں۔ اس سلسلے میں علم نحو، معانی اور بیان کی حاجت ہے، لیکن صرف ان علوم کے پڑھ لینے سے کام نہیں چلے گا بلکہ ان علوم کی روشنی میں بُلَغاء کے کلام، قرآن کریم اور حدیث شریف کا وسیع مطالعہ بہت ضروری ہے۔
3۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب میں مخلوق کے بہت سے احوال اور ان کی طبیعتوں کا بیان کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا طریقہ ان کے بارے میں کیا رہا؟، سابقہ امتوں کے بہترین واقعات اور ان کی سیرتیں بیان کیں، اس لیے قرآن پاک کا مطالعہ کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ سابقہ قوموں کے ادوار اور اطوار سے واقف ہو اور اسے معلوم ہو کہ طاقتور کون تھا اور کمزور کون؟ اس طرح عزت کس کو ملی اورذلت کسے نصیب ہوئی؟ علم اور ایمان کس کے حصے میں آیا اور کفر و جہل کس کو ملا؟ نیز عالم کبیر یعنی عناصر (آگ، ہوا، پانی اور مٹی) اور افلاک کے احوال سے باخبر ہو، اس مقصد کے لیے بہت سے فنون درکار ہیں، ان میں سے اہم علم تاریخ اپنے تمام شعبوں سمیت ہے۔
قرآن پاک میں امم سابقہ، سننِ الٓہیہ اور اللہ تعالیٰ کی ان آیات کا اجمالاً ذکر کیا گیا ہے جو آسمانوں اور زمین، آفاق اور نفوس میں پائی جاتی ہیں، یہ اس ہستی کا بیان کردہ اجمال ہے جس کا علم ہر شے کو احاطہ کیے ہوئے ہے، اس نے ہمیں غور و فکر اور زمین میں سیر کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ ہم اس کے اجمال کی تفصیل کو سمجھ کر ترقی کے زینے طے کرسکیں، اب اگر ہم کائنات پر ایک سر سری نظر ڈالنا ہی کافی جان لیں تو یہ ایسے ہی ہوگا جیسے کہ ایک شخص کسی کتاب کی جلد کی رنگینی اور دلکشی کو دیکھ کر خوش ہوجائے اور اس علم و حکمت سے غرض نہ رکھے جو اس کتاب میں ہے۔
4۔ فرض کفایہ ادا کرنے والے مفسر پر لازم ہے کہ وہ یہ حقیقت معلوم کرے کہ قرآن پاک نے تمام انسانوں کو کس طرح ہدایت دی ہے، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تمام انسان خواہ وہ عربی ہوں یا عجمی، کس حال میں تھے؟ کیونکہ قرآن پاک کا اعلان ہے کہ سب لوگ گمراہی اور بدبختی میں مبتلا تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کی ہدایت و سعادت کے لیے مبعوث ہوئے تھے، اگر مفسر اس دور کے انسانوں کے حالات (عقائد و معمولات) سے کماحقہ، آگاہ نہیں ہوگا تو قرآن حمید نے ان کی جن عادتوں کو قبیح قرار دیا ہے انہیں مکمل طور پر کیسے جان سکے گا؟
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جو شخص احوال جاہلیت سے جس قدر زیادہ جاہل ہے اس کے بارے میں اتنا ہی زیادہ خوف ہے کہ وہ اسلام کی رسی کو تار تار کردے، مطلب یہ ہے کہ جو شخص اسلام کی آغوش میں پیدا ہوا، پلا بڑھا اور اسے پہلے لوگوں کے حالات معلوم نہیں ہیں تو اسے پتا نہیں چلے گا کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت و عنایت نے کس طرح انقلاب برپا کیا اور کس طرح انسانوں کو گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کے جگ مگ راستے پر کھڑا کر دیا؟
5۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا وسیع مطالعہ ہونا چاہیے، نیز صحابہٴ کرام رضی اللہ عنھم کی سیرتوں سے بخوبی آگاہ ہونا چاہیے اور پتہ ہونا چاہیے کہ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنھم علم و عمل کے کس مرتبے پر فائز تھے اور دنیاوی و اخروی معاملات کس طرح انجام دیتے تھے؟ (3)
ترجمہ۔۔۔۔۔ عربی لغت کی روشنی میں :
عربی زبان میں لفظ ”ترجمہ“ چار معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے:
1۔ کلام کا اس شخص تک پہنچانا جس تک کلام نہیں پہنچا۔
ایک شاعر نے لفظِ ترجمہ اسی معنی میں استعمال کیا ہے:
اِنَّ الثَّمَانِیْنَ …… وَ بَلَغْتُھَا
قَد اَحْوَجَت سَمعِی اِلیٰ تَر جُمَان
”بے شک میں اسّی سال کی عمر کو پہنچ چکا ہوں اس عمر نے مجھے ترجمان کا محتاج بنا دیا ہے“
(یعنی مجھے مخاطب کی بات سنائی نہیں دیتی، اس لیے میں ایسے شخص کا محتاج ہوں جو خاص طور پر مجھے وہ بات سمجھائے)
2۔ کلام جس زبان میں ہے اسی زبان میں اس کی تفسیر کرنا۔
اسی معنی کے اعتبار سے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو ”ترجمان القرآن“ کہا جاتا ہے۔
3۔ کسی دوسری زبان میں کلام کی تفسیر کرنا۔
لسان العرب اور قاموس میں ہے کہ ترجمان : کلام کے مفسر کو کہتے ہیں، شارح قاموس نے جوہری کے حوالے سے بیان کیا کہ تَرجَمَہ و تَرجَمَ عَنْہُ کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص کسی کے کلام کا مطلب دوسری زبان میں بیان کرے۔
البتہ تفسیر ابن کثیر اور تفسیر بغوی سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ ترجمہ، عربی زبان میں مطلقاً بیان کرنے کو کہتے ہیں خواہ اسی زبان میں ہو جس میں اصل کلام ہے یا دوسری زبان میں۔
4۔ کلام کو ایک زبان سے دوسری زبان کی طرف نقل کرنا۔
لسان العرب میں ترجمان پہلے حرف پر پیش یا زبر، وہ شخص ہے جو کلام کو ایک زبان سے دوسری زبان کی طرف نقل کرے
قاموس سے معلوم ہوتا ہے کہ ترجمان کا تلفظ تین طرح کیا جاسکتا ہے۔
تاء اور جیم دونوں پر پیش (تُرجُمان)
دونوں پر زبر (تَرجَمان)
تاء پر زبر اور جیم پر پیش (تَرجُمان)
چونکہ ان چاروں معنوں میں بیان پایا جاتا ہے، اس لیے وسعت دیتے ہوئے ان چار معنوں کے علاوہ ہر اس چیز پر ترجمہ کا اطلاق کردیا جاتا ہے جس میں بیان ہو، مثلاً کہا جاتا ہے۔
تَرجَمَ لِھٰذَا البَاب بکَذَا، مصنف نے اس باب کا یہ عنوان مقرر کیا۔
تَرجَمَ لِفَلاَنٍ، فلاں شخص کا تذکرہ لکھا۔
تَر جَمَةُ ھٰذَا البَابِ کذا، اس باب کا مقصد اور خلاصہ یہ ہے ۔ [4]
یاد رہے کہ تَرجَمَة رباعی مجرد کے باب فَعْلَلَةٌ سے ہے، اس لیے ترجمہ کرنے والے کو مُتَرْجِم اور قرآن پاک کو مُتَرْجَم کہا جائے گا مُتَرَجِّم اور مُتَرَجَّم میں جیم کو مشدد پڑھنا غلط ہے۔
ترجمہ کا عرفی معنی :
لغوی اعتبار سے لفظ ترجمہ چار معنوں میں استعمال ہوتا ہے، جن کا ذکر ابھی ابھی کیاگیا ہے۔ عرف عام میں لفظ ترجمہ سے چوتھا معنی مراد لیا جاتا ہے یعنی ایک کلام کا معنی کسی دوسری زبان میں بیان کرنا۔
علامہ محمد عبد العظیم زرقانی کہتے ہیں کہ ترجمہ کا عرفی معنی یہ ہے کہ کلام ایک زبان میں ہو، اور اُس کا مطلب دوسری زبان میں اس طرح بیان کیا جائے کہ اس کلام کے تمام معانی اور مقاصد بھی ادا کردیے جائیں۔ (5) اور ظاہر ہے کہ کسی بھی کلام کا اور خاص طور پر قرآن مجید کا ایسا ترجمہ نہیں کیا جاسکتا جس میں اصل کلام کے تمام معانی اور مقاصد ادا کردیے جائیں۔ اسی لیے علامہ محمد عبد العظیم زرقانی قرآن پاک کے ترجمہ کو ناجائز قرار دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ تفسیر میں اصل کلام کے تمام معانی کا ادا کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ بعض مقاصد کا ادا کرنا کافی ہے، اس لیے قرآن پاک کی تفسیر تو کی جاسکتی ہے ترجمہ نہیں کیا جاسکتا۔
دنیا بھر کی مختلف زبانوں میں قرآن پاک کا ترجمہ کیاگیا ہے اور کوئی بھی ترجمہ کرنے والا یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں نے قرآن مجید کے تمام معانی اور مقاصد کو اپنی زبان میں منتقل کردیا ہے، اور یہ بھی نہیں ہوسکتا، تو اس بحث کی حاجت ہی نہیں رہتی کہ ایسا ترجمہ جائز ہے یا نہیں؟، اس سے پہلے لسان العرب اور شرح قاموس کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ ترجمہ کا مطلب ایک کلام کے معنی کو دوسری زبان میں بیان کرنا ہے، یہ قید علامہ زرقانی نے اپنے طرف سے لگائی ہے کہ اصل کلام کے تمام معنی اور مقاصد بھی ادا کیے جائیں، ظاہر ہے کہ اس قید کے اضافے میں ا ن سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا، جو شخص بھی قرآن مجید کا ترجمہ کرے گا وہ بعض معانی اور مقاصد ہی کو بیان کرے گا، اگر ایسے ترجمہ کو تفسیری ترجمہ کہا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
اقسام ترجمہ:
عرفی معنی کے لحاظ سے ترجمہ کی دو قسمیں ہیں:
(1) لفظی (2) تفسیری
لفظی ترجمہ میں اصل کلام کے کلمات کی ترتیب کو ملحوظ رکھا جاتا ہے اور ایک ایک کلمہ کی جگہ اس کا ہم معنی لفظ رکھ دیا جاتا ہے، جیسے شاہ رفیع الدین محدث دہلوی اور”تفسیر نعیمی“ میں مفتی احمد یار خاں نعیمی اور ”تفسیر الحسنات“ میں علامہ ابو الحسنات سید محمد احمد قادری نے کیا ہے، اس ترجمہ کو حرفی ترجمہ بھی کہا جاتا ہے۔
تفسیری ترجمہ میں تحت اللفظ ایک ایک کلمہ کا ترجمہ نہیں کیا جاتا بلکہ مطالب و معانی کو بہتر اور موٴثر انداز میں پیش کیا جاتا ہے، اسے معنوی ترجمہ اور تفسیری ترجمہ کہا جاتا ہے، یہ ترجمہ تفسیر تو نہیں ہے جیسے کہ آیندہ سطور میں بیان کیا جائے گا، لیکن مقاصد کو بہتر انداز میں پیش کرنے کے اعتبار سے تفسیر کے مشابہ ضرور ہے۔
ترجمہ اور تفسیر میں فرق:
ترجمہ لفظی ہو یا تفسیری، وہ تفسیر سے الگ چیز ہے، ترجمہ اور تفسیر میں متعدد وجوہ سے فرق ہے۔
1۔ ترجمہ کے کلمات مستقل حیثیت رکھتے ہیں، یہاں تک کہ ان کلمات کو اصل جگہ رکھا جاسکتا ہے، جب کہ تفسیر ہمیشہ اپنے اصل سے متعلق ہوتی ہے، مثلاً ایک مفرد یا مرکب لایا جاتا ہے پھر اس کی شرح کی جاتی ہے اور شرح کا تعلق اصل کے ساتھ ایسے ہوتا ہے جیسے خبر کا مبتدا کے ساتھ، پھر دوسری جز کی اسی طرح شرح کی جاتی ہے، ابتدا سے انتہا تک یہی سلسلہ جاری رہتا ہے، تفسیر اپنے اصل سے اس طرح متعلق ہوتی ہے کہ اگر تفسیر کو اصل سے جدا کردیا جائے تو وہ بے معنی ہو کر رہ جائے گی، اسے اصل کی جگہ نہیں رکھا جاسکتا۔
2۔ ترجمہ میں اضافہ نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ ترجمہ تو ہو بہو اصل کی نقل ہے، اس لیے دیانت داری کا تقاضا ہے کہ نقل کسی کمی بیشی کے بغیر اصل کے مطابق ہو، بر خلاف تفسیر کے کہ اس میں ا صل کی وضاحت ہوتی ہے، مثلاً بعض اوقات مفسر کو الفاظ لغویہ کی شرح کی ضرورت پیش آئے گی، خصوصاً اس وقت جب کہ ان کے وضعی معانی مراد نہ ہوں، اسی طرح کہیں دلائل پیش کیے جائیں گے اور کہیں حکمت بیان کی جائے گی۔
یہی وجہ ہے کہ اکثر تفسیروں میں لغوی، اعتقادی، فقہی اوراصولی مباحث بیان کی جاتی ہیں، کائناتی اور اجتماعی مسائل زیر بحث لائے جاتے ہیں، اسبابِ نزول اور ناسخ و منسوخ کا ذکر کیا جاتا ہے جبکہ ترجمہ میں ان مباحث و مسائل کی گنجائش نہیں ہوتی۔
3۔ عرفی ترجمہ میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اصل کلام کے تمام معانی اور مقاصد بیان کر دیے گئے ہیں (یہ علامہ محمد عبد العظیم زرقانی کی ذاتی رائے ہے)، لیکن تفسیر میں صرف وضاحت مقصود ہوتی ہے،
… خواہ اجمالاً ہو یا تفصیلاً،
… تمام معانی اور مقاصد پر مشتمل ہو یا بعض پر،
اس کا دارومدار ان حالات پر ہے جن میں مفسر گزر رہا ہے اور ان لوگوں کی ذہنی سطح پر ہے جن کے لیے تفسیر لکھی گئی ہے۔
4۔ عرف عام کے مطابق ترجمہ میں اس اطمینان کا دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مترجم کے نقل کردہ تمام معانی اور مقاصد، اصل کلام کے مدلول ہیں اور قائل کی مراد ہیں۔ تفسیر میں یہ دعویٰ نہیں کیا جاتا، بعض اوقات مفسر دلائل کے پیش نظر اطمینان اور وثوق کا دعوٰی کرتا ہے اور جب اسے قوی دلائل میسر نہیں ہوتے تو وہ اطمینان کا دعویٰ نہیں کرتا، کبھی وہ بعض احتمالات کا ذکر کرتا ہے، کبھی چند احتمالات ذکر کردیتا ہے جن میں سے بعض کو ترجیح حاصل ہوتی ہے، بعض اوقات وہ تصریح یا ترجیح سے گریز کرتا ہے اور کبھی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ کسی کلمے یا جملے کے بارے میں کہہ دیتا ہے کہ اس کا قائل ہی بہتر جانتا ہے کہ اس سے مراد کیا ہے؟ جیسے کہ بہت سے مفسرین حروف مقطعات اور قرآنی متشابہات کے بارے میں کہ دیتے ہیں۔ [6]
اس جگہ اس موقف کا اعادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قرآن پاک کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کرنے والے علما کا یہ موقف ہرگز نہیں ہوتا کہ ہم قرآن پاک کے تمام معانی اور مطالب کو دوسری زبان میں منتقل کر رہے ہیں، کیونکہ ایسا ترجمہ کرنا ممکن ہی نہیں ہے اور انسانی طاقت سے باہر ہے۔
وہ چند امور جن کے بغیر ترجمہ نہیں کیا جاسکتا:
ا س سے پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ مفسر کے لیے کن علوم میں دسترس ضروری ہے؟ قرآن حمید کے ترجمہ کے لیے بھی ان علوم میں مہارت لازمی ہے، ان کے علاوہ مترجم کے لیے جو امور ضروری ہیں ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
1۔ مترجم کے لیے ضروری ہے کہ وہ جس زبان میں ترجمہ کر رہا ہے اس زبان اور عربی لغت کے معانی و ضعیہ سے آگاہ ہو، اسے معلوم ہو کہ کونسا لفظ کس معنی کے لیے وضع کیا گیا ہے؟
2۔ اسے دونوں زبانوں کے اسالیب اور خصوصیات کا بھی پتا ہو۔
3۔ کسی آیت کے متعدد مطالب ہوں تو ان میں سے راجح مطلب کو اختیار کرے۔
4۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت کو پیش نظر رکھے اور ترجمہ میں کوئی ایسا لفظ نہ لائے جو بارگاہِ الٰہی کے شایان شان نہ ہوں، مثلاً اس آیت کا ترجمہ کیا جاتا ہے:
اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ (النساء/ 142)
”البتہ منافق دغا بازی کرتے ہیں اللہ سے اور وہی ان کو دغا دے گا“
اللہ تعالیٰ کی طرح دغا کی نسبت کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے، اس لیے اس آیت کاترجمہ یہ ہے:
”بے شک منافق لوگ اپنے گمان میں اللہ تعالیٰ کو فریب دیا چاہتے ہیں اور وہی انہیں غافل کر کے مارے گا“ (کنزالایمان)
منافقین اللہ تعالیٰ کو دغا نہیں دے سکتے کیونکہ وہ تو عالم الغیب و الشھادة ہے، وہ ہر ظاہر اور مخفی امر کو جانتا ہے، اسے کون دھوکہ دے سکتا ہے؟ ہاں منافقین دھوکہ دینے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں، اگرچہ انہیں اس میں کامیابی نہیں ہوسکتی، وَھُوَ خَادِعُھُمْ کا کتنا عمدہ اور صحیح ترجمہ ہے؟ کہ:
”وہی انہیں غافل کرکے مارے گا“
یہ معنی نہیں کہ ”وہی ان کو دغا دے گا“۔
5۔ مقام انبیا علیھم السلام کی عظمت اور تقدس کو ملحوظ رکھا جائے، ارشاد ربانی ہے:
حَتّٰی اِذَا اسْتَیئسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ قَدْ کُذِبُوْا
(یوسف 12/110)
اس آیت کا ترجمہ بعض لوگوں نے یہ کیا:
”یہاں تک کہ جب ناامید ہوگئے رسول اور خیال کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ کہا گیا تھا“
اس ترجمہ میں دوباتیں قابلِ غور ہیں:
1۔ رسولان گرامی کی طرف مایوسی کی نسبت کی گئی ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اِنَّہٓ لَا یَا یْئَسُ مِن رَّوحِ اللّٰہ اِلَّا الْقَومُ الْکٰفِرُونَ
(یوسف 12/ 87)
”بے شک اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہوتے مگر کافر لوگ“
2۔ اللہ تعالی کے رسولوں کی نسبت کہا گیا:
اور خیال کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ کہا گیا تھا“
معاذ اللہ! انبیا کرام علیھم السلام معصوم ہیں ان کے گوشہٴ خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی کہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کہا گیا تھا وہ جھوٹ تھا۔
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اپنی خالہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا وَظَنُّوْا اَنَّھُمْ قَدْ کُذِبُوا (الآیة)
”کیا رسولوں نے یہ گمان کیا کہ انھیں جھوٹ کہا گیا تھا“؟
انہوں نے فرمایا:
مَعَاذَاللّٰہِ لَمْ تَکُنِ الرُّسُلُ تَظُنُّ ذٰلِکَ بِرَبِّھَا، وَظَنَّتِ الرُّسُلُ اَنَّ اَتبَاعَھُمْ قَدْ کَذَّبُوْھُمْ (
”اللہ کی پناہ! رسولان گرامی اپنے رب کے بارے میں یہ گمان کرسکتے تھے، رسولوں نے گمان کیا کہ اُن کے پیروکاروں نے انہیں جھٹلادیا ہے“۔
حضرت ام الموٴمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی قراء ت قَد کُذِّبُوْا ہے ذال مشدّد مکسور کے ساتھ۔ اس صورت میں معنی یہ ہے کہ رسولوں نے گمان کیا کہ انہیں ان کی قوم کی طرف سے جھٹلادیا گیا ہے، دوسری قرأت میں قَد کُذِبُوا ہے اب اگر ظَنُّوا کی ضمیر رسولوں کی طرف راجع کریں تو معنی یہ ہوگا کہ رسولوں نے گمان کیا کہ انہیں جھوٹ کہا گیا، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ رسولوں کے خیال میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں جو کچھ کہا گیا تھا وہ جھوٹ تھا، اسی مطلب کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت ام الموٴمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:
”معاذاللہ! اللہ تعالیٰ کے رسول اپنے رب کی نسبت یہ گمان نہیں کرسکتے“
ام الموٴمنین کا انکار اسی صورت سے متعلق ہے جب کہ ظنُّوا کی ضمیر رسولوں کی طرف راجع کی جائے، ورنہ امام حفص کی قرأت میں قَد کُذِبُوْا ذال کی تخفیف کے ساتھ ہے، اس قرأت کے مطابق ظنُّوا کی ضمیر رسولوں کی طرف نہیں بلکہ ان کی قوم کے افراد کی طرف راجع ہے، اب ترجمہ یہ ہوگا کہ لوگوں نے گمان کیا کہ انہیں (رسولوں کی طرف سے) جھوٹ کہا گیا تھا۔ اور اس ترجمہ میں کوئی حرج نہیں ہے۔
امام احمد رضا بریلوی قدس سرّہُ العزیز نے اِس آیت کا جو ترجمہ کیا ہے اہل علم اسے پڑھ کر داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے، ملاحظہ ہو۔
”یہاں تک جب رسولوں کو ظاہری اسباب کی امید نہ رہی اور لوگ سمجھے کہ رسولوں نے ان سے غلط کہا تھا“
(کنزالایمان)
یعنی رسولوں کی مایوسی ظاہری اسباب سے نہ تھی نہ کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے، اور لوگوں نے گمان کیا کہ انہیں عذاب وغیرہ کے بارے میں جھوٹ کہا گیا تھا، انبیا کرام علیھم السلام کا دامنِ عصمت اس خیال سے ہرگز داغ دار نہ تھا۔
6۔ اسلام کے قطعی اور یقینی عقائد کو ملحوظ رکھا جائے اور انہیں ذرا سی ٹھیس بھی نہ لگنے دی جائے۔ ارشاد ربانی ہے:
فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقدِرَ عَلَیْہِ (الانبیا 21/ 87)
اس کا ترجمہ یہ کیا گیا:
”پھر سمجھا نہ پکڑ سکیں گے اس کو“
اس آیت میں سیدنا یونس علیہ السلام کا ذکر ہے، ترجمہ میں ان کی طرف اس امر کی نسبت کی گئی ہے کہ انہوں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں نہ پکڑ سکے گا، اور یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا انکار ہے جس کی نسبت حضرت یونس علیہ السلام کی طرف کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں ہے، مغالطہ اس لیے پیدا ہوا کہ قَدَرَ یَقْدِرُ کا استعمال دو معنوں میں ہوتا ہے۔
… قادر ہونا
… تنگی کرنا
مترجم نے سمجھا کہ اس جگہ پہلا معنی مراد ہے جو قطعاً غلط ہے اس موقع اور عصمتِ انبیا کے مطابق صرف دوسرا معنی ہے۔
علامہ محمد بن مکرم افریقی فرماتے ہیں:
جس شخص نے اس آیت میں قدر کو قدرت سے ماخوذ مان کر کہا کہ حضرت یونس علیہ السلام نے یوں گمان کیا کہ اللہ تعالیٰ ان کو نہ پکڑ سکے گا، تو یہ ناجائز ہے اور اس معنی کا گمان کرنا کفر ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ظن کرنا شک ہے اور اس کی قدرت میں شک کرنا کفر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا علیہھم السلام کو اس قسم کے گمان سے محفوظ اور معصوم رکھا ہے، ایسی تاویل وہی کرے گا جو عرب کے کلام اور اُن کی لغات سے جا ہل ہوگا۔ [8]
اس تفصیل کے بعد امام احمد رضا بریلوی کا ترجمہ دیکھیے ایمان تازہ ہوجائے گا:
”تو گمان کیا (یونس علیہ السلام نے) کہ ہم اس پر تنگی نہ کریں گے۔“
ایک دوسری آیت کریمہ دیکھیے!
وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا لِرُسُلِھِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِّنْ اَرْ ضِنَا اَوْ لَتَعَوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا (ابراہیم 14/ 13)
اس کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے:
”ان کفار نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم تم کو اپنی زمین سے نکال دیں گے یا یہ کہ تم ہمارے مذہب میں لوٹ آوٴ“۔
”لوٹ آوٴ“ کا واضح مطلب یہ ہے کہ حضرات رسولانِ گرامی علیھم السلام معاذ اللہ! پہلے کافروں کے مذہب میں شامل تھے، حالانکہ انبیا کرام علیھم السلام کبھی بھی کافروں کے مذہب میں شامل نہیں ہوتے۔ اس جگہ مغالطے کی وجہ یہ ہے کہ عَادَ یَعُودُ کا استعمال دو طرح ہوتا ہے:
فعل تام، اس وقت اس کا معنی لوٹنا ہوگا۔
فعل ناقص، اس وقت یہ صَارَ کے معنی میں ہوگا اورہوجانے کے معنی پر دلالت کرے گا۔
ترجمہ کرنے والے کے سامنے نحو کے مسائل و قواعد مستحضر ہوں تو وہ غور کرے گا کہ اس جگہ پہلا معنی مناسب ہے یا دوسرا؟ ظاہر ہے کہ مذکورہ ترجمہ میں پہلا معنی مراد لینے کے بنا پر غلطی ہوئی ہے، جب کہ اس جگہ دوسرا معنی مراد اور موزوں ہے، اسی لیے امام احمد رضا بریلوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:
”اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا ہم ضرور تمہیں اپنی زمین سے نکال دیں گے یا تم ہمارے دین پر آجاوٴ“ (کنزالایمان)
7۔ قرآن پاک عربی زبان کا وہ شاہکار ہے جو مرتبہٴ اعجاز پر فائز ہے، کسی بھی مترجم کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اس کا ترجمہ معجزانہ کلام سے کرے، تاہم علم معانی اور بیان کے مسائل و مباحث سے باخبر ایسا ترجمہ تو کر ہی سکتا ہے، جس سے اعجاز قرآنی کی جھلک دکھائی دے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْہِ (البقرہ 2 / 2)
عام طور پر اس آیت کا ترجمہ کچھ اس طرح کیاجاتا ہے کہ:
”یہ کتاب اس میں کوئی شک نہیں ہے“
اس ترجمے پر دو سوال وارد ہوتے ہیں:
ذٰلِکَ کی وضع بعید کی طرف اشارہ کرنے کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کرتے ہوئے ”وہ کتاب“ کہنا چاہیے تھا نہ کہ ”یہ کتاب“
”اس میں کوئی شک نہیں“ واقع کے خلاف ہے، کیونکہ قرآن کریم میں بہت سے لوگوں نے شک کیا اور آج بھی ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔
امام احمد رضا بریلوی رحمہ اللہ تعالیٰ کا ترجمہ دیکھیے جو اعجازِ قرآن کو واضح طور پر آشکارا کرتا ہے:
”وہ بلند رتبہ کتاب (قرآن) کوئی شک کی جگہ نہیں“ (کنزالایمان)
اس ترجمہ پر پہلا سوال تو ظاہر ہے کہ وارد ہی نہیں ہوتا، دوسرے سوال کا جواب بھی دے دیا کہ اگرچہ قرآن پاک کے بارے میں بہت سے لوگوں نے شک کیا ہے لیکن وہ کوئی شک کی جگہ نہیں ہے، کوئی بھی منصف عاقل، عربی زبان کے اسلوب اور نزاکتوں سے واقف اس کا مطالعہ کرے تو اسے ماننا پڑے گا کہ یہ ربانی کلام ہے کسی انسان کے فکر کا نتیجہ نہیں ہے۔
8۔ جس زبان میں ترجمہ کیا جائے اس کے اسلوب اور مزاج کو پیشِ نطر رکھا جائے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَمَرْیَمَ بْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِیْ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا (التحریم 66 / 12)
اس کاترجمہ یوں کیا گیا!
”اور مریم بیٹی عمران کی جس نے روکے رکھا اپنی شہوت کی جگہ کو“
یہ امر محتاج بیان نہیں ہے کہ اس ترجمہ میں اردو زبان کی شائستگی اور مزاج کو ملحوظ نہیں رکھا گیا، اس کی بجائے یہ ترجمہ کتنا دلکش ہے۔
”اور عمران کی بیٹی مریم جس نے اپنی پارسائی کی حفاظت کی“
9۔ قرآن پاک میں بیان کردہ کسی بھی واقعے کی واقعی تفصیلات سے آگاہی ضروری ہے ورنہ ترجمہ کرتے وقت کہیں بھی غلطی واقع ہوسکتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَقَالَ اِنِّیْٓ اَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَیْرِ عَنْ ذِکْرِ رَبِّیْ ج حَتیّٰ تَوَارَتْ بالْحِجَابِo وقفة رُدُّوْھَا عَلَیَّ ط فَطَفِقَ مَسْحاًم بِاالسُّوْقِ وَالْاَعنَاقِ o
(ص 38 /32 تا 33)
عام طور پر مترجمین نے تَوَارَت باِلحِجَابِ کا ترجمہ یہ کیا ہے:
”سورج چھپ گیا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی نماز عصر قضا ہوگئی، انہوں نے گھوڑوں کو طلب کیا اور ان کی پنڈلیاں اور گردنیں کاٹ دیں۔“
اس ترجمے پر دو سوال وارد ہوتے ہیں:
حضرت سلیمان علیہ السلام گھوڑوں کو ملاحظہ فرمارہے تھے کہ نماز قضا ہوگئی، اس میں گھوڑوں کا کیا قصور تھا؟ کہ انہیں ہلاک کردیا گیا۔
گھوڑوں کی گردنیں اور ٹانگیں کاٹ کر مال کے ضائع کرنے کا کیا جواز تھا؟ یہ بھی تو ہوسکتا تھا کہ تمام گھوڑے خیرات کردیتے۔
امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے:
عَن ذِکْرِ رَبِّیْ مِنْ ذِکرِ طَفِقَ مَسحاً یَمْسَحُ اَعْرافَ الْخَیلِ و عَرَاقِیْبَھَا (9)
یعنی عَن بمعنی مِن ہے، اور طَفِقَ مَسحاً کا معنی یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام گھوڑوں کی ایال (گردن کے بالوں) اور ان کے ٹخنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔
اس اقتباس سے واضح ہوگیا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے گھوڑوں کو ہلاک نہیں کیا تھا، جب یہ حقیقت ہی نظروں سے اوجھل ہو تو ترجمہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے؟ آئیے صحیح ترجمہ ملاظہ فرمائیں:
”تو سلیمان نے کہا مجھے ان گھوڑوں کی محبت پسند آئی ہے اپنے رب کی یاد کے لیے پھر انہیں چلانے کا حکم دیا یہاں تک کہ نگاہ سے پردے میں چھپ گئے۔ پھر حکم دیا انہیں میرے پاس واپس لاوٴ تو ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگا“ (کنزالایمان)
غرض یہ کہ قرآن پاک ایسی عظیم الشان اور لافانی کتاب کا ترجمہ کرنا ہر کس و ناکس اور ہر عالم کا کام نہیں ہے، مترجم کے لیے جو امور ضروری ہیں ان کا مختصر تذکرہ آپ کے سامنے پیش کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن پاک کے پڑھنے، اسے سمجھنے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بحرمة سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم والحمدللہ رب العالمین۔
حوالہ جات
(1) محمد عبدالعظیم زرقانی، علامہ: منابل العرفان (دار احیاء الکتب العربة، مصر) ج 1، ص 7
(2) محمد عبد العظیم زرقانی،علامہ: منابل العرفان، ج 1،
ص 71-470
(3) محمد عبد العظیم زرقانی، علامہ: منابل العرفان (ملخصاً)
ج 1، ص 522-519
(4) محمد عبد العظیم زرقانی، علامہ: منابل العرفان (ملخصاً)
ج 2 / ص 6-5
(5) محمد عبد العظیم زرقانی، علامہ: منابل العرفان، ج 2،
ص 7
(6) محمد عبد العظیم زرقانی، علامہ: منابل العرفان 2/12-10
(7) محمد بن اسماعیل بخاری، امام: بخاری شریف (مطبع رشیدیہ، ہند) ج 2/ ص 680
( محمد بن مکرم افریقی، علامہ امام: لسان العرب (دار صادر، بیروت) ج 5 ص 77
(9) محمد بن اسماعیل بخاری، امام: صحیح بخاری، ج 2/ ص 710
از معارف رضا۔ سالنامہ 2009ء