اصلاحِ سخن : میں گریز پا ہوں، نقشِ پا بھی : محمد بلال اعظم

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میں گریز پا ہوں، نقشِ پا بھی
کہ آشنا بھی بے وفا بھی
سوچوں تو ساتھ ساتھ ہے میرے
دیکھوں تو جدا جدا بھی
سرِ محفل خوشنما سا لگے
پسِ محفل خفا خفا بھی
میرے پیار نے مزاج بگاڑ دیا اس کا
وہ سمجھتا ہے خود کو محبت کا خدا بھی
تضادِ زمانہ عروج پہ ہے
راہزن بنے راہنما بھی
پیٹ کی بھوک نے کیا حال کیا
پھولوں سے چھن گئی انکی قبا بھی
بلال آنسو بہانے سے کچھ نہیں ہوتا
زندگی کے کئی در ہیں وا بھی
(محمد بلال اعظم)
 
بلال بھائی! اساتذہ کی آراء آنے سے پہلے ہم اور آپ کچھ کوشش کرلیں۔ اگر آپ کی اجازت ہو تو۔

میں نقشِ گریزاں مگر نقشِ پابھی
وہ ہے آشنا بھی، مگر بے وفا بھی
مرے پیار نے ہی بگاڑا ہے اسکو
محبت کا سمجھے وہ خود کو خدا بھی
تماشا تضادِ زمانہ کا دیکھا
کہ رہزن جو تھے وہ بنے رہنما بھی
کیا پیٹ کی بھوک نے حال ایسا
کہ پھولوں سے چھینی گئی ہے قبا بھی
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ خلیل، ماشاء اللہ اچھی اصلاح دی ہے۔ بالکل مبتدیوں کو اب تم ہی سنبھال لیا کرو تو اچھا ہے، اس میں کوئی غلطی ہو تو میں دیکھ لوں گا۔ مثلاً اس غزل کا مطلع اب بھی معنی خیز نہیں، یا کم از کم میں اصل معنوں تک نہیں پہنچ سکا۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
الف عین صاحب مطلع کے بارے میں تھوڑی سی وضاحت کر دین، مجھے ا ب خود بھی نقشِ گریز اور نقشِ پا کی سمجھ نہیں آ رہی۔
 

مغزل

محفلین
بلال صاحب میں نے اسے ’’ اصلاحِ سخن کی لڑی ‘‘ میں سمو دیا ہے ، اصلاح کی غرض سے کلام یہاں شامل کیا جاتا ہے ۔ اساتذہ کی آمد کا انتظار آپ کے ساتھ ۔
 
Top