ابن انشا اس بستی کے اِک کُوچے میں۔ ابن انشاء

کاشف رفیق

محفلین
"اس بستی کے اِک کُوچے میں"

اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
اِک نار پہ جان کو ہار گیا، مشہور ہے اس کا افسانہ
اس نار میں ایسا رُوپ نہ تھا، جس رُوپ سے دن کی دُھوپ دبے
اس شہر میں کیا کیا گوری ہے، مہتاب رخِ گلنار لیے
کچھ بات تھی اُس کی باتوں میں، کچھ بھید تھے اُس کے چتون میں
وہی بھید کہ جوت جگاتے ہیں، کسی چاہنے والے کے من میں
اُسے اپنا بنانے کی دُھن میں ہوُا آپ ہی آپ سے بیگانا
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا

نا چنچل کھیل جوانی کے، نا پیار کی الہڑ گھاتیں تھیں
بس راہ میں اُن کا ملنا تھا، یا فون پہ اُن کی باتیں تھیں
اس عشق پہ ہم بھی ہنستے تھے، بے حاصل سا بے حاصل تھا؟
اِک روز بِپھرتے ساگر میں، ناکشتی تھی نا ساحل تھا
جو بات تھی اُن کے دل میں تھی، جو بھید تھا یکسر انجانا
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا

اِک روز اگر برکھا رُت میں، وہ بھادوں تھی یا ساون تھا
دیوار پہ بیچ سمندر کے، یہ دیکھنے والوں نے دیکھا
مستانہ ہاتھ میں ہاتھ دئیے، یہ ایک کگر پہ بیٹھے تھے
یُوں شام ہوئی پھر رات ہوئی، جب سیلانی گھر لوٹ گئے
کیا رات تھی وہ جی چاہتا ہے، اُس رات پہ لکھیں افسانہ
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا

ہاں عمر کا ساتھ نبھانے کے تھے عہد بہت پیمان بہت
وہ جن پہ بھروسہ کرنے میں کچھ سوُد نہیں، نقصان بہت
وہ نار یہ کہہ کر دُور ہوئی "مجبوری ساجن مجبوری"
یہ وحشت سے رنجور ہوئے اور رنجوری سی رنجوری؟
اُس روز ہمیں معلوم ہوا، اُس شخص کا مشکل سمجھانا
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا

گو آگ سے چھاتی جلتی تھی، گو آنکھ سے دریا بہتا تھا
ہر ایک سے دُکھ نہیں کہتاتھا، چُپ رہتا تھا غم سہتا تھا
نادان ہیں وہ جو چھیڑتے ہیں، اس عالم میں نادانوں کو
اس شخص سے ایک جواب ملا، سب اپنوں کو بیگانوں کو
"کُچھ اور کہو تو سُنتا ہوں، اس باب میں کچھ مت فرمانا"
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا

اب آگے کا تحقیق نہیں، گو سُننے کو ہم سُنتے تھے
اُس نار کی جو جو باتیں تھیں، اُس نار کے جو جو قصے تھے
اِک شام جو اُس کو بُلوایا، کچھ سمجھایا بے چارے نے
اُس رات یہ قصہ پاک کیا، کچھ کھا ہی لیا دُکھیارے نے
کیا بات ہوئی کس طور ہوئی؟ اخبار سے لوگوں نے جانا
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا

ہر بات کی کھوج تو ٹھیک نہیں، تم ہم کو کہانی کہنے دو
اُس نار کا نام،مقام ہے کیا، اس بات پہ پردا رہنے دو
ہم سے بھی تو سودا ممکن ہے، تم سے بھی جفا ہوسکتی ہے
یہ اپنا بیاں ہوسکتا ہے، یہ اپنی کتھا ہوسکتی ہے
وہ نار بھی آخر پچھتائی، کس کام کا ایسا پچھتانا؟
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ کاشف صاحب، ابن انشا کی خوبصورت نظم شیئر کرنے کیلیئے!

اور محفلِ ادب میں خوش آمدید، مجھے امید ہے کہ آپ اپنے پسندیدہ کلام سے ہمیں نوازتے رہیں گے، نوازش!
 

عاطف بٹ

محفلین
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا

واہ، بہت ہی شاندار نظم ہے۔
شئیر کرنے کے لئے بہت شکریہ۔
 
اس شام وہ رخصت کا سماں یاد رہے گا
وہ شہر، وہ کوچہ، وہ مکاں‌یاد رہے گا

وہ ٹیس کہ ابھری تھی ادھر یاد رہے گی
وہ درد کہ اٹھا تھا یہاں‌یاد رہے گا

ہم شوق کے شعلے کی لپک بھول بھی جائیں
وہ شمع فسردہ کا دھواں یاد رہے گا

ہاں بزم شبانہ تیری میں ہمیں شوق جو اس دن
ہم تو تری جانب نگراں یاد رہے گا

کچھ میر کے ابیات تھے، کچھ فیض کے مصرعے
اک درد کا تھا، جن میں بیان یاد رہے گا

جان بخش سی اس برگ گل تر کی تراوت
وہ لمس عزیز دو جہاں یاد رہے گا

ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے
تو یاد رہے گا، ہمیں ہاں یاد رہے گا..!
ابن انشاء
 
کل چودہويں کي رات تھي، شب بھر رہا چرچا تيرا
کچھ نے کہا يہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرا تيرا

ہم بھي وہيں موجود تھے ہم سے بھي سب پوچھا کيے
ہم ہنس دئيے ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ تيرا

اس شہر ميں کس سے مليں، ہم سے چھوٹيں محفليں
ہر شخص تيرا نام لے، ہر شخص ديوانہ تيرا

دو اشک جانے کس لئے، پلکوں پہ آکر ٹک گئے
الطاف کي بارش تيري، اکرام کا دريا تيرا

ہم پر يہ سختي کي نظر ہم ہيں فقير رہگزر
رستہ کبھي روکا تيرا دامن کبھي تھاما تيرا

ہاں ہاں تري صورت حسين ليکن تو ايسا بھي نہيں
اس شخص کے اشعار سے شہرہ ہوا کيا کيا تيرا

بے درد سنني ہوتو چل کہتا ہے کيا اچھي غزل
عاشق تيرا، رسوا تيرا، شاعر تيرا، انشا تيرا..!
ابن انشاء
 
ﻓﺮﺽ ﮐﺮﻭ ﮨﻢ ﺍﮨﻞِ ﻭﻓﺎ ﮨﻮﮞ، ﻓﺮﺽ ﮐﺮﻭ ﺩﯾﻮﺍﻧﮯ ﮨﻮﮞ
ﻓﺮﺽ ﮐﺮﻭ ﯾﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺟﮭﻮﭨﯽ ﮨﻮﮞﺍﻓﺴﺎﻧﮯﮨﻮﮞ

ﻓﺮﺽ ﮐﺮﻭ ﯾﮧ ﺟﯽ ﮐﯽ ﺑﭙﺘﺎ ﺟﯽ ﺳﮯ ﺟﻮﮌ ﺳﻨﺎﺋﯽﮨﻮ
ﻓﺮﺽ ﮐﺮﻭ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﻮ ﺍﺗﻨﯽ،ﺁﺩﮬﯽ ﮨﻢ ﻧﮯ ﭼﮭﭙﺎﺋﯽﮨﻮ

ﻓﺮضﮐﺮﻭﺗﻤﮭﯿﮟﺧﻮﺵﮐﺮﻧﮯﮐﮯﮈﮬﻮﻧﮉﮮﮨﻢﻧﮯﺑﮩﺎﻧﮯﮨﻮﮞ
ﻓﺮﺽ ﮐﺮﻭ ﯾﮧ ﻧﯿﻦ ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﺳﭻ ﻣﭻ ﮐﮯ ﻣﯿﺨﺎﻧﮯﮨﻮﮞ

ﻓﺮﺽ ﮐﺮﻭ ﯾﮧ ﺭﻭﮒ ﮨﻮ ﺟﮭﻮﭨﺎ، ﺟﮭﻮﭨﯽ ﭘﯿﺖﮨﻤﺎﺭﯼﮨﻮ
ﻓﺮﺽﮐﺮﻭﺍﺱﭘﯿﺖﮐﮯﺭﻭﮒﻣﯿﮟﺳﺎﻧﺲﺑﮭﯽﮨﻢﭘﮧﺑﮭﺎﺭﯼﮨﻮ

ﻓﺮﺽ ﮐﺮﻭ ﯾﮧ ﺟﻮﮒ ﺑﺠﻮﮒ ﮐﺎ ﮨﻢ ﻧﮯﮈﮬﻮﻧﮓﺭﭼﺎﯾﺎﮨﻮ
ﻓﺮﺽ ﮐﺮﻭ ﺑﺲ ﯾﮩﯽ ﺣﻘﯿﻘﺖ، ﺑﺎﻗﯽﺳﺐﮐﭽﮫﻣﺎﯾﺎﮨﻮ۔

( ﺍﺑﻦِ ﺍﻧﺸﺎﺀ)
 
شامِ غم کی سحر نہیں ہوتی
یا ہمیں کوخبر نہیں ہوتی

ہم نے سب دکھ جہاں کے دیکھے ہیں
بے کلی اس قدر نہیں ہوتی

نالہ یوں نا رسا نہیں رہتا
آہ یوں بے اثر نہیں ہوتی

چاند ہے، کہکشاں ہے تارے ہیں
کوئی شے نامہ بر نہیں ہوتی

ایک جاں سوز و نامراد خلش
اس طرف ہے اُدھر نہیں ہوتی

دوستو، عشق ہے خطا لیکن
کیا خطا درگزر نہیں ہوتی

رات آکر گزر بھی جاتی ہے
اک ہماری سحر نہیں ہوتی

بے قراری سہی نہیں جاتی
زندگی مختصر نہیں ہوتی

ایک دن دیکھنے کو آجاتے
یہ ہوس عمر بھر نہیں ہوتی

حُسن سب کو خدا نہیں دیتا
ہر کسی کی نظر نہیں ہوتی

دل پیالہ نہیں گدائی کا
عاشقی در بہ در نہیں ہوتی
 
انشا جی کیا بات بنے گی ہم لوگوں سے دور ہوئے
ہم کس دل کا روگ بنے ، کس سینے کا ناسور ہوئے
بستی بستی آگ لگی تھی ، جلنے پر مجبور ہوئے
رندوں میں کچھ بات چلی تھی شیشے چکناچور ہوئے
لیکن تم کیوں بیٹھے بیٹھے آہ بھری رنجور ہوئے
اب تو ایک زمانہ گزرا تم سے کوئی قصور ہوئے
اے لوگو کیوں بھولی باتیں یاد کرو ، کیا یاد دلاؤ
قافلے والے دور گئے ، بجھنے دواگر بجھتا ہے الاؤ
ایک موج سے رک سکتا ہے طوفانی دریا کا بہاؤ
سمے سمے کا ایک را گ ہے ،سمے سمے کاا پنا بھاؤ
آس کی اُجڑی پھلواری میں یادوں کے غنچے نہ کھلاؤ
پچھلے پہر کے اندھیارے میں کافوری شمعیں نہ جلاؤ
انشا جی وہی صبح کی لالی ۔ انشا جی وہی شب کاسماں
تم ہی خیال کی جگر مگر میں بھٹک رہے ہو جہاں تہاں
وہی چمن وہی گل بوٹے ہیں وہی بہاریں وہی خزاں
ایک قدم کی بات ہے یوں تو رد پہلے خوابوں کا جہاں
لیکن دورا فق پر دیکھو لہراتا گھنگھور دھواں
بادل بادل امڈ رہا ہے سہج سہج پیچاں پیچاں
منزل دور دکھے تو راہی رہ میں بیٹھ رہے سستائے
ہم بھی تیس برس کے ماندے یونہی روپ نگر ہو آئے
روپ نگر کی راج کماری سپنوں میں آئے بہلائے
قدم قدم پر مدماتی مسکان بھرے پر ہاتھ نہ آئے
چندرما مہراج کی جیوتی تارے ہیں آپس میں چھپائے
ہم بھی گھوم رہے ہیں لے کر کاسہ انگ بھبھوت رمائے
جنگل جنگل گھوم رہے ہیں رمتے جوگی سیس نوائے
تم پر یوں کے راج دلارے ،تم اونچے تاروں کے کوی
ہم لوگوں کے پاس یہی اجڑا انبر ، اجڑی دھرتی
تو تم اڑن کھٹولے لے کر پہنچو تاروں کی نگری
ہم لوگوں کی روح کمر تک دھرتی کی دلدل میں پھنسی
تم پھولوں کی سیجیں ڈھونڈو اور ندیاں سنگیت بھری
ہم پت جھڑ کی اجڑی بیلیں ، زرد زرد الجھی الجھی
ہم وہ لوگ ہیں گنتے تھے تو کل تک جن کو پیاروں میں
حال ہماراسنتے تھے تو لوٹتے تھے انگاروں میں
آج بھی کتنے ناگ چھپے ہیں دشمن کے بمباروں میں
آتے ہیں نیپام اگلتے وحشی سبزہ زاروں میں
آہ سی بھر کے رہ جاتے ہو بیٹھ کے دنیاداروں میں
حال ہمارا چھپتا ہے جب خبروں میں اخباروں میں
اوروں کی تو باتیں چھوڑو ، اور تو جانے کیا کیا تھے
رستم سے کچھ اور دلاور بھیم سے بڑہ کر جودھا تھے
لیکن ہم بھی تند بھپرتی موجوں کا اک دھارا تھے
انیائے کے سوکھے جنگل کو جھلساتی جوالا تھے
نا ہم اتنے چپ چپ تھے تب، نا ہم اتنے تنہا تھے
اپنی ذات میں راجا تھے ہم اپنی ذات میں سینہ تھے
طوفانوں کا ریلا تھے ہم ، بلوانوں کی سینا تھے
ابن انشاء
 

وقار..

محفلین
ﺍﺱ ﺑﺴﺘﯽ ﮐﮯ ﺍِﮎ ﮐُﻮﭼﮯ ﻣﯿﮟ، ﺍِﮎ ﺍﻧﺸﺎﺀ ﻧﺎﻡ ﮐﺎ ﺩﯾﻮﺍنہ
ﺍِﮎ ﻧﺎﺭ ﭘﮧ ﺟﺎﻥ ﮐﻮ ﮨﺎﺭ ﮔﯿﺎ، ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻓﺴﺎﻧﮧ
ﺍﺱ ﻧﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﺭُﻭﭖ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ، ﺟﺲ ﺭُﻭﭖ ﺳﮯ ﺩﻥ ﮐﯽ ﺩُﮬﻮﭖ ﺩﺑﮯ
ﺍﺱ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﮔﻮﺭﯼ ﮨﮯ، ﻣﮩﺘﺎﺏ ﺭﺥِ ﮔﻠﻨﺎﺭ ﻟﯿﮯ
ﮐﭽﮫ ﺑﺎﺕ ﺗﮭﯽ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ، ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯿﺪ ﺗﮭﮯ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﭼﺘﻮﻥ ﻣﯿﮟ
ﻭﮨﯽ ﺑﮭﯿﺪ ﮐﮧ ﺟﻮﺕ ﺟﮕﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﮐﺴﯽ ﭼﺎﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮯ ﻣﻦ ﻣﯿﮟ
ﺍُﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺩُﮬﻦ ﻣﯿﮟ ﮨﻮُﺍ ﺁﭖ ﮨﯽ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺑﯿﮕﺎﻧﺎ
ﺍﺱ ﺑﺴﺘﯽ ﮐﮯ ﺍِﮎ ﮐُﻮﭼﮯ ﻣﯿﮟ، ﺍِﮎ ﺍﻧﺸﺎﺀ ﻧﺎﻡ ﮐﺎ ﺩﯾﻮﺍﻧﺎ
ﻧﺎ ﭼﻨﭽﻞ ﮐﮭﯿﻞ ﺟﻮﺍﻧﯽ ﮐﮯ، ﻧﺎ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﺍﻟﮩﮍ ﮔﮭﺎﺗﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ
ﺑﺲ ﺭﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﺍُﻥ ﮐﺎ ﻣﻠﻨﺎ ﺗﮭﺎ، ﯾﺎ ﻓﻮﻥ ﭘﮧ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ
ﺍﺱ ﻋﺸﻖ ﭘﮧ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﺗﮭﮯ، ﺑﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﺳﺎ ﺑﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﺗﮭﺎ؟
ﺍِﮎ ﺭﻭﺯ ﺑِﭙﮭﺮﺗﮯ ﺳﺎﮔﺮ ﻣﯿﮟ، ﻧﺎﮐﺸﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﻧﺎ ﺳﺎﺣﻞ ﺗﮭﺎ
ﺟﻮ ﺑﺎﺕ ﺗﮭﯽ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯽ، ﺟﻮ ﺑﮭﯿﺪ ﺗﮭﺎ ﯾﮑﺴﺮ ﺍﻧﺠﺎﻧﺎ
ﺍﺱ ﺑﺴﺘﯽ ﮐﮯ ﺍِﮎ ﮐُﻮﭼﮯ ﻣﯿﮟ، ﺍِﮎ ﺍﻧﺸﺎﺀ ﻧﺎﻡ ﮐﺎ ﺩﯾﻮﺍﻧﺎ
ﺍِﮎ ﺭﻭﺯ ﺍﮔﺮ ﺑﺮﮐﮭﺎ ﺭُﺕ ﻣﯿﮟ، ﻭﮦ ﺑﮭﺎﺩﻭﮞ ﺗﮭﯽ ﯾﺎ ﺳﺎﻭﻥ ﺗﮭﺎ
ﺩﯾﻮﺍﺭ ﭘﮧ ﺑﯿﭻ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮐﮯ، ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ
ﻣﺴﺘﺎﻧﮧ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺗﮫ ﺩﺋﯿﮯ، ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﮐﮕﺮ ﭘﮧ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺗﮭﮯ
ﯾُﻮﮞ ﺷﺎﻡ ﮨﻮﺋﯽ ﭘﮭﺮ ﺭﺍﺕ ﮨﻮﺋﯽ، ﺟﺐ ﺳﯿﻼﻧﯽ ﮔﮭﺮ ﻟﻮﭦ ﮔﺌﮯ
ﮐﯿﺎ ﺭﺍﺕ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﺟﯽ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ، ﺍُﺱ ﺭﺍﺕ ﭘﮧ ﻟﮑﮭﯿﮟ ﺍﻓﺴﺎﻧﮧ
ﺍﺱ ﺑﺴﺘﯽ ﮐﮯ ﺍِﮎ ﮐُﻮﭼﮯ ﻣﯿﮟ، ﺍِﮎ ﺍﻧﺸﺎﺀ ﻧﺎﻡ ﮐﺎ ﺩﯾﻮﺍﻧﺎ
ﮨﺎﮞ ﻋﻤﺮ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﺒﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺗﮭﮯ ﻋﮩﺪ ﺑﮩﺖ ﭘﯿﻤﺎﻥ ﺑﮩﺖ
ﻭﮦ ﺟﻦ ﭘﮧ ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺳﻮُﺩ ﻧﮩﯿﮟ، ﻧﻘﺼﺎﻥ ﺑﮩﺖ
ﻭﮦ ﻧﺎﺭ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺩُﻭﺭ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﺠﺒﻮﺭﯼ ﺳﺎﺟﻦ ﻣﺠﺒﻮﺭﯼ
ﯾﮧ ﻭﺣﺸﺖ ﺳﮯ ﺭﻧﺠﻮﺭ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﻧﺠﻮﺭﯼ ﺳﯽ ﺭﻧﺠﻮﺭﯼ
ﺍُﺱ ﺭﻭﺯ ﮨﻤﯿﮟ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ، ﺍُﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﺎ ﻣﺸﮑﻞ ﺳﻤﺠﮭﺎﻧﺎ
ﺍﺱ ﺑﺴﺘﯽ ﮐﮯ ﺍِﮎ ﮐُﻮﭼﮯ ﻣﯿﮟ، ﺍِﮎ ﺍﻧﺸﺎﺀ ﻧﺎﻡ ﮐﺎ ﺩﯾﻮﺍﻧﺎ
ﮔﻮ ﺁﮒ ﺳﮯ ﭼﮭﺎﺗﯽ ﺟﻠﺘﯽ ﺗﮭﯽ، ﮔﻮ ﺁﻧﮑﮫ ﺳﮯ ﺩﺭﯾﺎ ﺑﮩﺘﺎ ﺗﮭﺎ
ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﺳﮯ ﺩُﮐﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺘﺎﺗﮭﺎ، ﭼُﭗ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻏﻢ ﺳﮩﺘﺎ ﺗﮭﺎ
ﻧﺎﺩﺍﻥ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺟﻮ ﭼﮭﯿﮍﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﺱ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﺩﺍﻧﻮﮞ ﮐﻮ
ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﻼ، ﺳﺐ ﺍﭘﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﯿﮕﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ
ﮐُﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻮ ﺗﻮ ﺳُﻨﺘﺎ ﮨﻮﮞ، ﺍﺱ ﺑﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻣﺖ ﻓﺮﻣﺎﻧﺎ
ﺍﺱ ﺑﺴﺘﯽ ﮐﮯ ﺍِﮎ ﮐُﻮﭼﮯ ﻣﯿﮟ، ﺍِﮎ ﺍﻧﺸﺎﺀ ﻧﺎﻡ ﮐﺎ ﺩﯾﻮﺍﻧﺎ
ﺍﺏ ﺁﮔﮯ ﮐﺎ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﻧﮩﯿﮟ، ﮔﻮ ﺳُﻨﻨﮯ ﮐﻮ ﮨﻢ ﺳُﻨﺘﮯ ﺗﮭﮯ
ﺍُﺱ ﻧﺎﺭ ﮐﯽ ﺟﻮ ﺟﻮ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ، ﺍُﺱ ﻧﺎﺭ ﮐﮯ ﺟﻮ ﺟﻮ ﻗﺼﮯ ﺗﮭﮯ
ﺍِﮎ ﺷﺎﻡ ﺟﻮ ﺍُﺱ ﮐﻮ ﺑُﻠﻮﺍﯾﺎ، ﮐﭽﮫ ﺳﻤﺠﮭﺎﯾﺎ ﺑﮯ ﭼﺎﺭﮮ ﻧﮯ
ﺍُﺱ ﺭﺍﺕ ﯾﮧ ﻗﺼﮧ ﭘﺎﮎ ﮐﯿﺎ، ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎ ﮨﯽ ﻟﯿﺎ ﺩُﮐﮭﯿﺎﺭﮮ ﻧﮯ
ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﺲ ﻃﻮﺭ ﮨﻮﺋﯽ؟ ﺍﺧﺒﺎﺭ ﺳﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﺎﻧﺎ
ﺍﺱ ﺑﺴﺘﯽ ﮐﮯ ﺍِﮎ ﮐُﻮﭼﮯ ﻣﯿﮟ، ﺍِﮎ ﺍﻧﺸﺎﺀ ﻧﺎﻡ ﮐﺎ ﺩﯾﻮﺍﻧﺎ
ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﮐﮭﻮﺝ ﺗﻮ ﭨﮭﯿﮏ ﻧﮩﯿﮟ، ﺗﻢ ﮨﻢ ﮐﻮ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮐﮩﻨﮯ ﺩﻭ
ﺍُﺱ ﻧﺎﺭ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ،ﻣﻘﺎﻡ ﮨﮯ ﮐﯿﺎ، ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﮧ ﭘﺮﺩﺍ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ
ﮨﻢ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺳﻮﺩﺍ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ، ﺗﻢ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺟﻔﺎ ﮨﻮﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﯿﺎﮞ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺘﮭﺎ ﮨﻮﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ
ﻭﮦ ﻧﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﺁﺧﺮ ﭘﭽﮭﺘﺎﺋﯽ، ﮐﺲ ﮐﺎﻡ ﮐﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﭘﭽﮭﺘﺎﻧﺎ
ﺍﺱ ﺑﺴﺘﯽ ﮐﮯ ﺍِﮎ ﮐُﻮﭼﮯ ﻣﯿﮟ، ﺍِﮎ ﺍﻧﺸﺎﺀ ﻧﺎﻡ ﮐﺎ ﺩﯾﻮﺍﻧﺎ

- ﺍﻧﺸﺎﺀ
 
معذرت چاہتا ہوں کچھ غلطی ہے کیا ؟؟؟
آپ شاید موبائل سے آنلائن ہیں. کمپیوٹر پر ٹیکسٹ درست نظر نہیں آتا. اس ٹول میں پوسٹ کر کے کنورٹ کر لیں تو درست ٹیکسٹ حاصل ہو جائے گا. جو نستعلیق فونٹ میں نظر آ سکے گا. :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اس طرح کے ٹیکسٹ کے لئے پوسٹ کرنے سے پہلے یہ ٹول استعمال کر لیا کریں۔ :)
معذرت چاہتا ہوں کچھ غلطی ہے کیا ؟؟؟
اگر گوگل کروم کے ذریعے پیسٹ کریں تو "پیسٹ ایز پلین" ٹیکسٹ کر دیا کریں۔
اس سے بھی فونٹ درست نستعلیق آجاتا ہے۔
 
ميں کنورٹا مار کے وقار بھائی کے مراسلے کو دوبارہ دے رہا ہوں۔۔۔اب کے ٹھیک دکھائی دے رہا ہے کہ نہیں۔۔۔

اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانہ
اِک نار پہ جان کو ہار گیا، مشہور ہے اس کا افسانہ
اس نار میں ایسا رُوپ نہ تھا، جس رُوپ سے دن کی دُھوپ دبے
اس شہر میں کیا کیا گوری ہے، مہتاب رخِ گلنار لیے
کچھ بات تھی اُس کی باتوں میں، کچھ بھید تھے اُس کے چتون میں
وہی بھید کہ جوت جگاتے ہیں، کسی چاہنے والے کے من میں
اُسے اپنا بنانے کی دُھن میں ہوُا آپ ہی آپ سے بیگانا
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
نا چنچل کھیل جوانی کے، نا پیار کی الہڑ گھاتیں تھیں
بس راہ میں اُن کا ملنا تھا، یا فون پہ اُن کی باتیں تھیں
اس عشق پہ ہم بھی ہنستے تھے، بے حاصل سا بے حاصل تھا؟
اِک روز بِپھرتے ساگر میں، ناکشتی تھی نا ساحل تھا
جو بات تھی اُن کے دل میں تھی، جو بھید تھا یکسر انجانا
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
اِک روز اگر برکھا رُت میں، وہ بھادوں تھی یا ساون تھا
دیوار پہ بیچ سمندر کے، یہ دیکھنے والوں نے دیکھا
مستانہ ہاتھ میں ہاتھ دئیے، یہ ایک کگر پہ بیٹھے تھے
یُوں شام ہوئی پھر رات ہوئی، جب سیلانی گھر لوٹ گئے
کیا رات تھی وہ جی چاہتا ہے، اُس رات پہ لکھیں افسانہ
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
ہاں عمر کا ساتھ نبھانے کے تھے عہد بہت پیمان بہت
وہ جن پہ بھروسہ کرنے میں کچھ سوُد نہیں، نقصان بہت
وہ نار یہ کہہ کر دُور ہوئی مجبوری ساجن مجبوری
یہ وحشت سے رنجور ہوئے اور رنجوری سی رنجوری
اُس روز ہمیں معلوم ہوا، اُس شخص کا مشکل سمجھانا
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
گو آگ سے چھاتی جلتی تھی، گو آنکھ سے دریا بہتا تھا
ہر ایک سے دُکھ نہیں کہتاتھا، چُپ رہتا تھا غم سہتا تھا
نادان ہیں وہ جو چھیڑتے ہیں، اس عالم میں نادانوں کو
اس شخص سے ایک جواب ملا، سب اپنوں کو بیگانوں کو
کُچھ اور کہو تو سُنتا ہوں، اس باب میں کچھ مت فرمانا
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
اب آگے کا تحقیق نہیں، گو سُننے کو ہم سُنتے تھے
اُس نار کی جو جو باتیں تھیں، اُس نار کے جو جو قصے تھے
اِک شام جو اُس کو بُلوایا، کچھ سمجھایا بے چارے نے
اُس رات یہ قصہ پاک کیا، کچھ کھا ہی لیا دُکھیارے نے
کیا بات ہوئی کس طور ہوئی؟ اخبار سے لوگوں نے جانا
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
ہر بات کی کھوج تو ٹھیک نہیں، تم ہم کو کہانی کہنے دو
اُس نار کا نام،مقام ہے کیا، اس بات پہ پردا رہنے دو
ہم سے بھی تو سودا ممکن ہے، تم سے بھی جفا ہوسکتی ہے
یہ اپنا بیاں ہوسکتا ہے، یہ اپنی کتھا ہوسکتی ہے
وہ نار بھی آخر پچھتائی، کس کام کا ایسا پچھتانا
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا

- انشاء​
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانہ
اِک نار پہ جان کو ہار گیا، مشہور ہے اس کا افسانہ
اس نار میں ایسا رُوپ نہ تھا، جس رُوپ سے دن کی دُھوپ دبے
اس شہر میں کیا کیا گوری ہے، مہتاب رخِ گلنار لیے
کچھ بات تھی اُس کی باتوں میں، کچھ بھید تھے اُس کے چتون میں
وہی بھید کہ جوت جگاتے ہیں، کسی چاہنے والے کے من میں
اُسے اپنا بنانے کی دُھن میں ہوُا آپ ہی آپ سے بیگانا
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
نا چنچل کھیل جوانی کے، نا پیار کی الہڑ گھاتیں تھیں
بس راہ میں اُن کا ملنا تھا، یا فون پہ اُن کی باتیں تھیں
اس عشق پہ ہم بھی ہنستے تھے، بے حاصل سا بے حاصل تھا؟
اِک روز بِپھرتے ساگر میں، ناکشتی تھی نا ساحل تھا
جو بات تھی اُن کے دل میں تھی، جو بھید تھا یکسر انجانا
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
اِک روز اگر برکھا رُت میں، وہ بھادوں تھی یا ساون تھا
دیوار پہ بیچ سمندر کے، یہ دیکھنے والوں نے دیکھا
مستانہ ہاتھ میں ہاتھ دئیے، یہ ایک کگر پہ بیٹھے تھے
یُوں شام ہوئی پھر رات ہوئی، جب سیلانی گھر لوٹ گئے
کیا رات تھی وہ جی چاہتا ہے، اُس رات پہ لکھیں افسانہ
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
ہاں عمر کا ساتھ نبھانے کے تھے عہد بہت پیمان بہت
وہ جن پہ بھروسہ کرنے میں کچھ سوُد نہیں، نقصان بہت
وہ نار یہ کہہ کر دُور ہوئی مجبوری ساجن مجبوری
یہ وحشت سے رنجور ہوئے اور رنجوری سی رنجوری
اُس روز ہمیں معلوم ہوا، اُس شخص کا مشکل سمجھانا
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
گو آگ سے چھاتی جلتی تھی، گو آنکھ سے دریا بہتا تھا
ہر ایک سے دُکھ نہیں کہتاتھا، چُپ رہتا تھا غم سہتا تھا
نادان ہیں وہ جو چھیڑتے ہیں، اس عالم میں نادانوں کو
اس شخص سے ایک جواب ملا، سب اپنوں کو بیگانوں کو
کُچھ اور کہو تو سُنتا ہوں، اس باب میں کچھ مت فرمانا
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
اب آگے کا تحقیق نہیں، گو سُننے کو ہم سُنتے تھے
اُس نار کی جو جو باتیں تھیں، اُس نار کے جو جو قصے تھے
اِک شام جو اُس کو بُلوایا، کچھ سمجھایا بے چارے نے
اُس رات یہ قصہ پاک کیا، کچھ کھا ہی لیا دُکھیارے نے
کیا بات ہوئی کس طور ہوئی؟ اخبار سے لوگوں نے جانا
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
ہر بات کی کھوج تو ٹھیک نہیں، تم ہم کو کہانی کہنے دو
اُس نار کا نام،مقام ہے کیا، اس بات پہ پردا رہنے دو
ہم سے بھی تو سودا ممکن ہے، تم سے بھی جفا ہوسکتی ہے
یہ اپنا بیاں ہوسکتا ہے، یہ اپنی کتھا ہوسکتی ہے
وہ نار بھی آخر پچھتائی، کس کام کا ایسا پچھتانا
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا

- انشاء
 
7KIg8c.png

Xm6lhR.png
 
Top