اسٹوری آف دی فور سینٹس

ظفری

لائبریرین
“سامع“ کافی دن سے حیران و پریشان تھا کہ یہ چاروں درویش آخر کہاں غائب ہوگئے ہیں ۔ واقعات اور شواہدات کے مطابق تو یہ چاروں درویش کسی گوند لگی ہوئی جگہ پر اس طرح بیٹھے رہے تھے کہ جب ان کو محشر کے آنے کی آمد کا کہا گیا تو وہ چاروں کچھ اس طرح سے زمین سے بلند ہوئے تھے کہ لگتا تھا وہ کسی توپ کے دھانے سے فائر ہوئے ہیں اور ان کی ٹانگیں زمین پر آلتی پالتی مارنے کی وجہ سے حساب کے “ بریکیٹ“ کی طرح ہوگئیں تھیں ۔ اور بچے فٹبال کھیلنے کے دوران ان میں سے گیند گذارا کرتے تھے ۔ یعنی کہ گول پوسٹ بنایا ہوا تھا ۔ ایک فٹبال کا میچ اور چار چار گول پوسٹ ۔۔۔ بڑی عجیب سی بات تھی ۔

خیر ۔۔۔ سامع ۔۔ ان درویشوں کی مسلسل تلاش میں تھا کہ ایک دن اس کو خبر ملی کہ وہ چار درویش ڈیپورٹ ہوکر واپس اپنے وطن پہنچ چکے ہیں ۔ صیح نہیں معلوم ہوسکا کہ ڈیپورٹ ہونے کی کیا وجہ تھی ۔۔ مگر اتنا معلوم ہوا کہ ایک درویش کسی مفتی کے فتوے پر اتنا خوش ہوا کہ سب مجمع کے سامنے اپنی کوٹ کی جیب سے بیلک لیبل کی بوتل نکال کر مفتی کو پیش کردی ۔ اور پھر پچاس پچاس کوڑوں کے سزا کھا کر عمر بھی کے شناختی نشان کے ساتھ واپس ملک واپس ہوا ۔ اور ساتھ ساتھ وہ تینوں درویش بھی ڈیپورٹ ہوئے کہ انہوں نے اس درویش کے ہاتھ سے بلیک لیبل کی بوتل لے کر اس کو چند گھونٹ میں خالی کردیا تھا کہ یہ تو مفتی صاحب کو خالی بوتل پیش کررہا ہے ۔اب یہ نہیں پتا کہ وہ اس ممنوع چیز کی وجہ سے ڈیپورٹ ہوئے یا پھر مفتی کے اس غصے کی وجہ سے کہ بوتل ان کے ہاتھ کیوں نہیں لگی ۔

لیکن سامع وہاں پہنچ ہی گیا جہاں یہ چاردرویش پھر سے چوکڑی جما کر بیٹھے تھے ۔ وہ سبزی منڈی کے پیچھے والی ایک تنگ سی بستی تھی جہاں گلیاں اتنی چھوٹی تھیں کہ مستورات اور مرد حضرات کے لیے گلی سے گذرنے کے اوقات الگ الگ مقرر تھے ۔

سامع نے دیکھا کہ چاروں درویش انتہائی غور وفکر کی حالت میں تھے اور یہ حالت ان کے چہرے سے اتنی نمایاں تھی کہ لگتا تھا وہ بھی واپڈا کی کسی لوڈشینڈنگ کا شکار ہیں ۔ بلآخر ایک درویش نے وہ المناک خاموشی توڑی اور ایک سرد آہ بھری ( جیسا کہ ہر درویش بھرتا ہے ) مگر یہ آہ اتنی سرد تھی کہ درجہ حرارت نقطہِ انجماد سے گر گیا اور صحن میں رکھے ہوئے سارے مٹکوں کا پانی جم گیا ۔

(جاری ہے )
 
سامع“ کافی دن سے حیران و پریشان تھا کہ یہ چاروں درویش آخر کہاں غائب ہوگئے ہیں ۔ واقعات اور شواہدات کے مطابق تو یہ چاروں درویش کسی گوند لگی ہوئی جگہ پر اس طرح بیٹھے رہے تھے کہ جب ان کو محشر کے آنے کی آمد کا کہا گیا تو وہ چاروں کچھ اس طرح سے زمین سے بلند ہوئے تھے کہ لگتا تھا وہ کسی توپ کے دھانے سے فائر ہوئے ہیں اور ان کی ٹانگیں زمین پر آلتی پالتی مارنے کی وجہ سے حساب کے “ بریکیٹ“ کی طرح ہوگئیں تھیں ۔ اور بچے فٹبال کھیلنے کے دوران ان میں سے گیند گذارا کرتے تھے ۔ یعنی کہ گول پوسٹ بنایا ہوا تھا ۔ ایک فٹبال کا میچ اور چار چار گول پوسٹ ۔۔۔ بڑی عجیب سی بات تھی ۔

خیر ۔۔۔ سامع ۔۔ ان درویشوں کی مسلسل تلاش میں تھا کہ ایک دن اس کو خبر ملی کہ وہ چار درویش ڈیپورٹ ہوکر واپس اپنے وطن پہنچ چکے ہیں ۔ صیح نہیں معلوم ہوسکا کہ ڈیپورٹ ہونے کی کیا وجہ تھی ۔۔ مگر اتنا معلوم ہوا کہ ایک درویش کسی مفتی کے فتوے پر اتنا خوش ہوا کہ سب مجمع کے سامنے اپنی کوٹ کی جیب سے بیلک لیبل کی بوتل نکال کر مفتی کو پیش کردی ۔ اور پھر پچاس پچاس کوڑوں کے سزا کھا کر عمر بھی کے شناختی نشان کے ساتھ واپس ملک واپس ہوا ۔ اور ساتھ ساتھ وہ تینوں درویش بھی ڈیپورٹ ہوئے کہ انہوں نے اس درویش کے ہاتھ سے بلیک لیبل کی بوتل لے کر اس کو چند گھونٹ میں خالی کردیا تھا کہ یہ تو مفتی صاحب کو خالی بوتل پیش کررہا ہے ۔اب یہ نہیں پتا کہ وہ اس ممنوع چیز کی وجہ سے ڈیپورٹ ہوئے یا پھر مفتی کے اس غصے کی وجہ سے کہ بوتل ان کے ہاتھ کیوں نہیں لگی ۔

لیکن سامع وہاں پہنچ ہی گیا جہاں یہ چاردرویش پھر سے چوکڑی جما کر بیٹھے تھے ۔ وہ سبزی منڈی کے پیچھے والی ایک تنگ سی بستی تھی جہاں گلیاں اتنی چھوٹی تھیں کہ مستورات اور مرد حضرات کے لیے گلی سے گذرنے کے اوقات الگ الگ مقرر تھے ۔

سامع نے دیکھا کہ چاروں درویش انتہائی غور وفکر کی حالت میں تھے اور یہ حالت ان کے چہرے سے اتنی نمایاں تھی کہ لگتا تھا وہ بھی واپڈا کی کسی لوڈشینڈنگ کا شکار ہیں ۔ بلآخر ایک درویش نے وہ المناک خاموشی توڑی اور ایک سرد آہ بھری ( جیسا کہ ہر درویش بھرتا ہے ) مگر یہ آہ اتنی سرد تھی کہ درجہ حرارت نقطہِ انجماد سے گر گیا اور صحن میں رکھے ہوئے سارے مٹکوں کا پانی جم گیا ۔

اس آہ بے پروا کے اثر سے مٹکوں کا پانی تو جم گیا مگر اسکی آنکھوں سے چلنے والا فوارا نہ رک سکا کہ وہ درویش دل کے کرب کو آنکھوں سے ظاہر ہونے سے نہ روک پا رہا تھا ۔ اسے احساس تھا کہ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کا زمانہ ہے اور اس کی غیر حاضری کو اتنی بڑی محفل میں سے صرف دو شخص محسوس کر پائے گو کہ وہ اپنے اشغال ہائے تجارت نو میں ایسا مگن ہوا تھا کہ فی الحال نہ اسے گھر آنے کا ہوش تھا اور نہ ہی اپنے محبوب موقع کی زیارت کا موقع مل پایا ۔ تین ماہ کی جدائی کے بعد کہیں اور کسی کام سے گیا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ محفل کا رنگ و روپ ہی اور ہو چکا تھا ۔ ماورا بٹیا اب منفرد ہو چکی تھی ۔ شمشار صاحب اب اور ہی رنگ میں تھے ۔ لیکن ابھی بھی وہ محبت کی سوندھی سی خوشبو جو اس محفل کا خاصہ تھی وہیں تھی ۔ اس کے پاس چند منٹ جو تھے ان میں اس نے ایک مناسب سے دھاگے کو چن کر اس میں چند حرف لکھے اور عزیزان کے لئے یہ پیغام چھوڑا


مرے عزیز دوستو
عزیز بہن بھائیو


میں آجکل وہاں نہیں جہاں پہ آپ سے ملا
مگر جہاں جہاں بھی ہوں نہیں ہوں آپ سے بلا

اتنا کہ کر وہ درویش اٹھا اور اٹھ کر کہنے لگا

اچھا لگتا ہے
جب کوئی محبت سے مجھے یاد کرتا ہے
اچھا لگتا ہے بہت اچھا لگتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے سامبھا کتنے آدمی تھے


جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!



(میں یہاں سے فرار نہیں ہوا ہوں بس کہ نیا کاروبار شروع کر کے کچھ زیادہ ہی مصروف کو گیا ہوں ۔ بہرحال چیک کرتا رہتا ہوں وقتاََ فوقتاََ مگر جواب نہیں دے پاتاوقت کی کمی کی وجہ سے

سب کو میرا سلام
ظفری درویش کی کہانی آگے بڑھانا بہت اچھا لگا ۔ شکریہ)
 

ماوراء

محفلین
وعلیکم السلام بھیا،

آ کر چلے بھی گئے اور پتہ بھی نہیں چلا۔ اتنی مصروفیت اچھی نہیں ہوتی۔اور سب ہی آپ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ یہاں تذکرہ نہیں کرتے۔ :(

میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ اللہ آپ کے کاروبار میں برکت دے اور تھوڑی سی فرصت بھی مل جائے تاکہ آپ ہمیں بھی کچھ وقت دے سکیں۔ آمین۔
 

ماوراء

محفلین
یہ درویشنی کس کو کہا؟؟ :twisted:

او پیارے اللہ میاں۔۔ مجھ پر رحم کر دے۔ یہ لوگ مجھے پتہ نہیں کیا سے کیا بنا دیتے ہیں۔ :cry:
 

شمشاد

لائبریرین
اے اللہ ہم درویشوں کی بھی سن لے۔ اس کو کسی نے کیا بنانا ہے یہ تو پہلے ہی بنی بنائی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
توبہ اللہ میری توبہ

فیصل بھائی یہ کیا؟

اس کو کسی نے تنگ کر کے یہاں کیسے رہنا ہے؟
 

ماوراء

محفلین
فیصل عظیم نے کہا:
ہماری ماورا جیسا ہے کوئی تو بتائے۔
اتنی اچھی بٹیا ہے ہماری اور آپ اسے بھی تنگ کرنے سے باز نہیں آتے
فیصل بھیا، جس کا اتنا اچھا بھائی ہو اس کو بھلا کوئی تنگ کر سکتا ہے کیا۔
050.gif
 

شمشاد

لائبریرین
فیصل بھائی جہاں اس کا ذکر آئے میں تو فوراً کانوں کو ہاتھ لگا لیا کرتا ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
ڈرنا ہی پڑتا ہے، تمہارا کیا اعتبار تم اٹھا کے فون کر دو اور گھر بدر مجھے ہونا پڑے۔ اسی لیے تو تم سے بنا کر رکھتا ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
کوئی لڑائی شڑائی تو نہیں ہو گی، مجھے تو کوئی علم نہیں ہے۔ یا پھر تنخواہ نہیں ملی ابھی تک؟
 

رضوان

محفلین
بھائیو اس بلیک لیبل کا کیا بنا؟؟؟؟
سب ہی اپنی اپنی ڈفلی بجارہے ہو اور مفتی صاحب ٹُن پڑے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
پہلے درویش کے جاگنے کا انتظار کر رہے ہیں، وہ خلائی شٹل کو روانہ کر کے سوئے تھے، ابھی تک آنکھ نہیں کھلی۔
 
Top