اسم اعظم کیا ہے ؟

اسم اعظم کیا ہے ؟

مقبول احمد سلفی

ویسے تو سارے مسلمانوں میں اسم اعظم کا شہرہ ہے اور کیوں نہ ہوجبکہ اس کا ذکر صحیح احادیث میں آیا ہے مگر برصغیر ہندوپاک میں جس طرح اس کا شہرہ اور استعمال ہے دنیا کے کسی کونے میں نہیں ہے بطور خاص پیشہ ورانہ جھاڑ پھونک،دم وتعویذ اور جناتی وسفلی علوم جاننے والوں کے درمیان ہے تاہم اس کی اصل حقیقت سے اکثرعوام وتمام جعلی عاملین نابلد ہیں ۔ جعلی عاملین سمجھتے ہیں کہ ہم ہی اسم اعظم کی حقیقت جانتے ہیں اور اس زعم میں اس اسم اعظم کے نام پہ عوام کو مختلف طریقے سے ہیبت میں ڈالے ہوئے ہیں ۔ ان کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ عوام کی ہر پریشانی کو جناتی اثرات کا نام دے کران کے دل میں ڈر پیدا کرتے ہیں اور پھران سے من مرضی کامال وصول کرتے ہیں ۔بچہ بیمار ہوجائے تو جنات کا اثر، جانور مر جائے تو جنات کا اثر، گھر میں چوری ہوجائے تو جنات کا اثر، سفر سے لوٹنا پڑجائے تو جنات کا اثر، کام نہ بنے تو جنات کا اثر یا کوئی انہونی واقعہ ہوجائے تو جنات کا اثر۔اس طرح عوام ڈر جاتی ہے اور عاملوں کا سہارا لیتی ہے۔اس قسم کی ڈری سہی عوام کے اندر یہی خیال عام ہے کہ اسم اعظم،کوئی الہی جادو یا خاص قسم کا سفلی یا کشف وکراماتی علم ہے جسے عاملوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ اسی سبب آج یہاں آپ کو مختصر انداز میں اسم اعظم کی حقیقت بتانا چاہتا ہوں تاکہ کسی سے دھوکہ نہ کھائیں اور آپ خودبھی اس کا صحیح استعمال کریں اور فائدہ اٹھائیں ۔

سب سے پہلے اسم اعظم سے متعلق چند احادیث پیش کرتا ہوں ۔

پہلی حدیث : عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَدْعُو وَهُوَ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ قَالَ فَقَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ سَأَلَ اللَّهَ بِاسْمِهِ الْأَعْظَمِ الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ وَإِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى(صحيح الترمذي:3475)
ترجمہ: بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو ان کلمات کے ساتھ : '"اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ الأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ"دعاکرتے ہوئے سنا تو فرمایا:' قسم ہے اس رب کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! ا س شخص نے اللہ سے اس کے اس اسم اعظم کے وسیلے سے مانگا ہے کہ جب بھی اس کے ذریعہ دعا کی گئی ہے اس نے وہ دعا قبول کی ہے، اور جب بھی اس کے ذریعہ کوئی چیز مانگی گئی ہے اس نے دی ہے۔

دوسری حدیث: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا يَعْنِي وَرَجُلٌ قَائِمٌ يُصَلِّي فَلَمَّا رَكَعَ وَسَجَدَ وَتَشَهَّدَ دَعَا فَقَالَ فِي دُعَائِهِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّ لَكَ الْحَمْدَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْمَنَّانُ بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ إِنِّي أَسْأَلُكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ تَدْرُونَ بِمَا دَعَا قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ دَعَا اللَّهَ بِاسْمِهِ الْعَظِيمِ الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ وَإِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى(صحيح النسائي:1299)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا تھا اور ایک آدمی کھڑا نماز پڑھ رہا تھا۔ جب اس نے رکوع اور سجدہ کر لیا اور تشہد بھی پڑھ لیا تو اس نے دعا کی اور اپنی دعا میں کہا: [اللھم! انی اسئلک بان لک الحمد……… الخ] ’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس بنا پر کہ تیرے لیے ہی تعریف ہے۔ تیرے سوا کوئی (حقیقی) معبود نہیں۔ تو بہت احسان کرنے والا ہے۔ آسمانوں اور زمینوں کو بلا مادہ پیدا کرنے والا ہے۔ اےبزرگی و عزت والے! اے زندہ و جاوید! اے سب کو قائم رکھنے والے! بے شک میں تجھ سے سوال کرتا ہوں۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: ’’تم جانتے ہو اس نے کن لفظوں سے دعا کی؟‘‘ انھوں نے کہا: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول بخوبی جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس نے اللہ تعالیٰ کے اس اسم اعظم کے ساتھ دعا کی ہے کہ جب اس کے ساتھ اللہ کو پکارا جائے تو وہ ضرور جواب دیتا ہے اور جب اس کے ساتھ کچھ مانگا جائے تو ضرور عطا فرماتا ہے۔‘

تیسری حدیث : عَنِ الْقَاسِمِ قَالَ: اسْمُ اللَّهِ الْأَعْظَمُ الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ فِي سُوَرٍ ثَلَاثٍ: الْبَقَرَةِ، وَآلِ عِمْرَانَ، وَطه(صحيح ابن ماجه:3124)
ترجمہ:حضرت قاسم بن عبد الرحمٰن دمشقی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: اللہ کا عظیم ترین نام (اسم اعظم) جس کےساتھ اللہ سے دعا کی جائے تو وہ قبول فرماتا ہے، تین سورتوں میں ہے: سورۂ بقرہ، سورۂ آل عمران اور سورۂ طہٰ میں۔

ابن ماجہ کی دوسری روایت میں دوسورتوں کی آیت کی بھی تحدید ہے ، سورہ بقرہ " وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ " (آیت:163)، سورہ آل عمران " اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ " (آیت:2)

وہ حدیث اس طرح سے ہے :

عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اسْمُ اللَّهِ الْأَعْظَمُ فِي هَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ: {وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ} [البقرة: 163] ، وَفَاتِحَةِ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ (صحيح ابن ماجه:3123)
ترجمہ: حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ کا عظیم ترین نام (اسم اعظم) ان دو آیتوں میں ہے: (وَاِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ لَّا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنٌ الرَّحِيْمُ) تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے۔ اور سورۂ آل عمران کے شروع میں (یعنی) (الٓمّ اللهُ لآ اِلٰهَ اَلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّوْمُ)۔

اور تیسری سورت طہ کی آیت علماء یہ آیت " وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ " (آیت:111) بتلاتے ہیں ۔

اسم اعظم کیا ہے ؟

اسم عربی لفظ ہے جو ایک اکیلے نام کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس کے ساتھ اعظم یہ بتلاتا ہے کہ اس نام سے مراد عظیم نام ہے ۔ وہ نام کوئی ایک ہی ہوگا جیساکہ لفظ سے واضح ہے۔اوپر چند احادیث گزری ہیں جو اسم اعظم سے متعلق ہیں ۔اب یہاں اختلاف پایا جاتا ہے کہ اسم اعظم کون سا کلمہ ہے ؟ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس سے متعلق فتح الباری میں چودہ اقوال ذکر کئے ہیں ۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی نظر میں "الحی القیوم "ہےجوتین مواقع پر مذکور ہوا ہےایک جگہ آیہ الکرسی میں ، دوسری جگہ شروع آل عمران میں اور تیسری جگہ سورہ طہ آیت نمبر 111 میں ۔

میری نظر میں اسم اعظم لفظ جلالہ یعنی اللہ ہے ۔ اللہ ہی وہ نام ہے جو اللہ کے ناموں میں سب سے عظیم ہے اسی کواسم اعظم کہا جاتاہے ۔ اس قول کو بہت سے علماء نے بھی اختیار کیا ہے ۔ اللہ اسم اعظم ہے اس کی متعدد وجوہات ہیں جن میں سے چند کو یہاں بیان کرتا ہوں ۔

(1) قرآن کریم میں اساسی طور پر اور کثرت کے ساتھ لفظ جلالہ اللہ کا ذکر ہوا ہے جو تقریبا ڈھائی ہزار سے زائد بار ہے۔

(2) نبی ﷺ نے جتنی دعائیں کی ہیں ان میں سب سے زیادہ اللہ کا ہی استعمال ہوا ہے اور کثرت سے اللھم کا بھی استعمال ہوا ہے جو یا اللہ کے معنی میں ہے ۔

(3) ہر کام کی ابتداء اللہ کے لفظ سے اور قرآن کی ہرسورت کا آغاز لفظ اللہ سے ہوا ہے ۔

(4) اللہ وہ جامع لفظ ہے جس میں خالق ومالک کی تمام حمدوثنا، اور تمام صفات وخصوصیات جمع ہیں ۔

(5)لفظ اللہ کا کوئی بدل نہیں اور نہ ہی کسی زبان میں یہ لفظ استعمال ہوکرذرہ برابرمتاثر ہی ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ جب پکار کے لئے حرف ندا لگاتے ہیں تب اللہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی یعنی شروع کا الف لام محفوظ رہتا ہے جبکہ دیگر تمام اسمائے الہی کے آگے "یا" لگانے سے الف لام گرجاتا ہے مثلا یا رحمن ، یارحیم، یا غفار وغیرہ

(6) اگر اللہ کے علاوہ اسم اعظم ہوتا تو نبی ﷺ اپنی دعاؤں میں ضرور اکثر ان الفاظ کا ذکر کرتے بطور خاص جب آپ کو اپنے لئے یا امت کے لئے نازک موڑ پر رب سے دعا کرنی پڑی ۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب لفظ اللہ ہی اسم اعظم ہے تو پھر اسم اعظم سے متعلق دوسرے الفاظ کا کیا حکم ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اوپر مذکور تین احادیث میں اسم اعظم سےاصل اللہ ہی مقصود ہے ۔ پہلی حدیث میں " اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ" میں اللھم اور اللہ کا ذکرآیا ہے ، دوسری حدیث میں " اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ" اللھم آیا ہے اور تیسری حدیث میں سورہ طہ کے علاوہ میں بھی لفظ جلالہ کاذکر آیا ہے۔

اسم اعظم کا حاصل کلام :

یہ علم رکھتے ہوئے کہ اسم اعظم اللہ ہے ،یہ علم بھی رکھیں کہ جو الفاظ اسم اعظم والی احادیث میں آئے ہیں انہیں بھی دعا سے پہلے پڑھا جائے تو بہتر ہے کیونکہ اللہ اور اس کے رسول کےسنہرے الفاظ کا دعاؤں میں اہتمام کرنا اولی ہے ۔ وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔

1- اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ۔

2- اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّ لَكَ الْحَمْدَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْمَنَّانُ بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ إِنِّي أَسْأَلُكَ۔

3- وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ۔

4- الٓمّ اللهُ لآ اِلٰهَ اَلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّوْمُ۔

5- وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ۔

ان الفاظ کے بعد کثرت سے اسم اعظم یا اللہ کے ذریعہ سوال کیا جائے ۔

اسم اعظم کے ذریعہ دعا کس طرح کی جائے ؟

پہلے تین باتیں ذہن نشیں کرلیں ، پہلی بات یہ کہ کچھ لوگ صرف اللہ اللہ کا ورد کرتے ہیں اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگااور نہ ہی یہ ذکرکاطریقہ ہے اور نہ دعا کا طریقہ کیونکہ اس قسم کا کوئی ذکر یا دعا رسول اللہ ﷺ سے وارد نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دعا میں شرکیہ الفاظ ، غیراللہ کا واسطہ اور ناجائز مراد نہ ہو۔ تیسری بات یہ ہے کہ دعا کرنے والا حلال کمائی کھانے والا اللہ پر پختہ ایمان ویقین رکھنے والا ہو۔

دعا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے رب ذوالجلال کے حضور ثنا بجالائے، پھر نبی ﷺ پر درود پاک پڑھاجائے، اس کے بعد اوپر مذکور اسم اعظم سے متعلق کلمات پڑھنا چاہیں تو پڑھ لیں پھر اللہ کے ذریعہ یا اسمائے حسنی کے واسطہ سے اپنے خالق کے سامنے اپنی حاجات وضروریات رکھیں ۔
 
Top