اسلم صاحب جے راج پوری :: تعارف و نظریات کے آئینے میں

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

باذوق

محفلین
بحوالہ :
آئینۂ پرویزیت - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی
حصہ اول : باب - معتزلہ سے طلوع اسلام تک
ص: 126-127

اسلم صاحب جے راج پوری
1299ء میں جیراج پور ، ضلع اعظم گڑھ (ریاست اُتر پردیش ، بھارت) میں پیدا ہوئے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد سن 1906ء میں علی گڑھ یونیورسٹی میں لکچرار لگ گئے۔ بعد میں جامعہ ملیہ دہلی میں تاریخ اسلام کے استاد مقرر ہوئے۔
آپ کی قابل ذکر تصانیف میں یہ کتب ہیں ۔۔۔
تاریخ القرآن
تاریخ امت (8 جلدوں میں)
اور الوارثہ فی الاسلام


منکرین حدیث میں بعض وجوہ سے آپ کا مقام بلند ہے۔ غلام احمد پرویز صاحب نے انہیں کے فکرِ قرآنی سے فیض حاصل کیا ہے۔
جےراجپوری صاحب کی نظر میں "حدیث" کی اہمیت تاریخ سے کچھ زیادہ نہیں۔ بالفاظ دیگر ۔۔۔
کوئی شخص بھی موجودہ مجموعہ احادیث میں سے اگر کوئی حدیث قبول کرنا چاہے تو وہ محض اس کی پسند اور مرضی پر منحصر ہے اور اگر ردّ کر دیتا ہے تو بھی چنداں مضائقہ نہیں۔
چنانچہ حافظ اسلم صاحب {[ARABIC]الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ[/ARABIC]} کی تفسیر لکھتے ہوئے احادیث پر ان الفاظ میں تبصرہ فرماتے ہیں :

حافظ اسلم صاحب کا نظریۂ حدیث :
اس تکمیل کے بعد اب دین میں کمی کیا رہ گئی ہے جو روایتوں سے پوری کی جائے؟ اس لیے روایتوں کی اپنی جگہ تاریخ کی الماری ہے ، ان سے تاریخی اور علمی فائدے حاصل کئے جا سکتے ہیں اور فقہ اسلامی یعنی قوانین و ضوابط کے استنباط میں کام لیا جا سکتا ہے۔
حدیثوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ، اعمال اور احوال بیان کیے گئے ہیں اور اسی کا نام تاریخ ہے۔
بےشک قرآن کے احکام مثلاً نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰة وغیرہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عمل کر کے دکھایا اور امت کو سکھایا اور جو سلسلہ بہ سلسلہ متواتر چلا آ رہا ہے وہ یقینی اور دینی ہے کیونکہ تواتر یقینیات کے اقسام میں داخل ہے اور اسی کے متعلق قرآن نے کہا ہے:
[ARABIC]ولَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ[/ARABIC]
(طلوع اسلام : ستمبر-1955ء)

اس تبصرہ پر جناب غلام احمد پرویز صاحب فٹ نوٹ میں لکھتے ہیں کہ:
"تواتر بھی وہی یقینی ہے جو قرآن کے مطابق ہو" [1]
[1] اور قرآن وہ ہے جو پرویز صاحب نے سمجھا۔ یعنی تواتر بھی وہی یقینی ہے جو آنجناب کی قرآنی بصیرت کے مطابق ہو۔

انکارِ حدیث کے بعد علامہ عنایت اللہ مشرقی اور ڈاکٹر غلام جیلانی برق تو انگریز قوم کے دلدادہ بن گئے تھے مگر آپ ان کے برعکس روس نوازی اختیار فرماتے ہیں۔ لکھتے ہیں :
" اس میں شک نہیں کہ اس زمانے میں سوویت روس میں اہل مذاہب اور مسلمانوں پر مظالم ہوتے ہیں لیکن جو لوگ قرآنی زاویہ نگاہ رکھتے ہیں وہ دیکھ رہے ہیں کہ عالم میں جو کچھ حرب و ضرب ، شورش و انقلاب ، تغیر و تبدل ہو رہا ہے ، وہ سب تکمیل دین اور اتمام نور کے لئے ہو رہا ہے اور اسلام کے واسطے زمین تیار کی جا رہی ہے کیونکہ انسانیت کو ایک نہ ایک دن ان حقائق ثابتہ پر پہنچنا لازم ہے۔"
(نوادرات ، ص:114)

پھر آپ نے فرمایا :
" جملہ مذاہب (نہ کہ دین) اشخاص پرستی سے پیدا ہوئے ہیں۔ ان کی تاریخ میں سوائے تفرقہ اندازی ، سفک وم اور عداوت پیدا کرنے کے اور کچھ نہیں۔ اس کا مٹانا اسلام کا فریضہ ہے اور یہی روسیوں نے کیا ہے۔ یہی نفی [ARABIC]لا[/ARABIC] ہے۔"
(نوادرات ، ص:115)

اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ حقائقِ ثابتہ جو قرآن میں مذکور ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھے؟ یا نہیں ؟
اگر معلوم تھے تو کیا انہوں نے اسی طرح دوسرے مذاہب پر مظالم ڈھا کر اسلام کے لئے زمین ہموار کی جس طرح موجودہ دور میں روس میں ہو رہا ہے؟ اور نفی [ARABIC]لا[/ARABIC] کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہی مطلب سمجھا تھا جو آپ سمجھ رہے ہیں؟

آپ کے روس نوازی کے قرآنی فکر کی بنیاد پر آگے چل کر پرویز صاحب نے "قرآنی نظام ربوبیت" ایجاد فرمایا اور تمام منکرین حدیث پر آپ کا احسان یہ ہے کہ آپ نے "مرکز ملت کا تصور" اختراع کر کے ان حضرات کو ایک بہت بڑی پریشانی سے نجات دلائی۔
حافظ اسلم صاحب کے مزید عقائد و نظریات کی تفصیل اس کتاب میں مل جائے گی۔ بالخصوص اس کتاب کا حصہ "دوام حدیث" میں آپ ہی کے ارشادات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ پھر آپ نے بعض ایسے مسائل کا بھی انکار کیا جن کے اشارات قرآن کریم میں ملتے تھے مگر ان کی وضاحت احادیث میں مذکور تھی اور وہ متفقہ طور پر مسلمانوں میں تسلیم کیے جاتے تھے۔
ان میں کچھ مسائل ایسے بھی تھے جن کی داغ بیل سرسید احمد خان ڈال چکے تھے۔ مثلاً حج کے موقع پر کھانے پینے کی ضرورت سے زیادہ قربانی آپ کے خیال میں ایک لغو فعل تھا۔ سید صاحب تعدد ازواج کے بھی قائل نہیں تھے۔ قرآن کریم میں کسی طرح کے نسخ کے بھی قائل نہیں تھے۔ وہ بینکوں کے سود اور تجارتی سود کو جائز قرار دیتے تھے (اس مسئلہ میں غلام احمد پرویز صاحب کا ادارہ طلوع اسلام ، سید صاحب سے اختلاف رکھتا ہے)۔ نیز وہ وصیت کے لیے کسی شرط کے بھی قائل نہ تھے۔
حافظ اسلم صاحب نے ان مسائل کو شرح وبسط سے پیش کیا اور کچھ مزید مسائل کا اضافہ بھی کیا ، مثلاً :
عذابِ قبر سے انکار اور اطاعت والدین کی نفی وغیرہ وغیرہ۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
میں نے مذہبی تعلیمات کو موڈریشن کے تحت لے آیا ہوں تو اب مباحث والے تھریڈ دوسرے سیکشنز پر منتقل ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ اگر آپ کو کسی مراسلے سے تکلیف پہنچتی ہے تو برائے مہربانی آپ اس کے بارے میں رپورٹ کریں، اور خود سے اس کا رد کرنے کی زحمت نہیں کریں۔
شکریہ۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top