اسلام کو بدنام کرنے کی سازش ۔ جاوید چوہدری کا آرٹیکل

نوید

محفلین
اِسلام کو قابلِ نفرت بنانے کی عالمگیر مہم ۔ ۔ ۔ این کاؤنٹرٹو​
"این کاؤنٹر" ( اسے پیرس ریویو بھی کہتے تھے) دوسری جنگ عظیم کے فورا بعد دنیا میں کمیونزم کا سب سے بڑا نقیب بن کر طلو ع ہوا۔ آفسٹ پیپر پر جدید ترین پرنٹنگ سسٹم کے تحت شائع ہونے والا یہ رسالہ پیرس کی بندرگاہوں، ایئرپورٹس اور ریلوے اسٹیشنوں سے نکلتا اور پھر چند ہی روز میں دنیا بھر کے ٹی ہاؤسز، کافی شاپس اور شراب خانوں میں پہنج جاتا، جہاں نہ صرف اس کی ایک ایک سطر کو الہام سمجھ کر پڑھا جاتا بلکہ ایمان کا درجہ دے کر اس پر عملدرآمد بھی شروع کر دیا جاتا۔ یہ سچ ہے کہ اگر ہم مار کسی نظریات، مارکسزم کے پیروکاروں کے حلیوں اور ان کے متشدد نظریات کے تاریخ کھود کر نکالیں تو ہمیں "این کاؤنٹر" ہی ملے گا، جس نے پوری دنیا میں بھوک کو مضبوط ترین فلسفہ بنا دیا۔ یہ این کاؤنٹر ہی تھا جس سے متاثر ہو کر لوگوں نے بال بڑھا لئے، غسل کرنے کے عادت ترک کر دی، مارکسی لٹریچر کو مقدس سمجھ کر ایک ایک لفظ رٹ لیا، بیویوں کو طلاقیں دے دیں اور بچوں کو "ان امیروں کو لوٹ لو" کا درس دینا شروع کر دیا۔

رسالے کے پیچھے کروڑوں روبل تھے، دنیا کے ذہین ترین مار کسی دماغ تھے، ماہر صحافی تھے، انتہائے زیرک نقاد اور دانشور تھے، لہذا اس دور میں اس سے بڑھ کر معیاری، جامع اور پراثر جریدہ دنیا میں کوئی نہیں تھا۔ معیار کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ سپیڈر، آڈن اور مارلو جیسے دانشور اس کے ایڈیٹوریل بورڈ میں شامل تھے۔ اس کے علاوہ ایک بین الاقوامی مجلس ادارت تھی، جو دنیا بھر سے موصول ہونے والے مضامین، تجزیوں اور تبصروں کا کڑی نظر سے جائزہ لیتی، انہیں مار کسے کسوٹی پر پرکھتی، زبان و بیان کے غلطیوں کی نشاندہی کرتی، اعداد و شمار اور حقائق کی صحت کا اندازہ لگاتی۔ تسلی کے بعد یہ مضامین سیلف ڈیسکوں پر چلے جاتے، جہاں اپنے وقت کے ماہرین ان کا انگریزی میں ترجمہ کرتے، ان کی نوک پلک سنوارتے۔ اس کے بعد ایک اور شعبہ اس ترجمے کا جائزہ لیتا، اس میں پائی جانے والی جھول، سقم اور لفظی کوتاہیاں درست کرتا۔ آخر میں جب اشاعت کا مرحلہ آتا تو انتظامیہ انگریزی ٹیکسٹ کے ساتھ ساتھ اصل متن ( جو مختلف زبانوں میں ہوتا) بھی چھاپ دیتی، تاکہ اگر ترجمے میں کوئی غلطی رہ گئی ہو تو قارئین اصل مضمون دیکھ کراسے درست کر لیں۔ اس کڑے معیار، انتخاب اور عرق ریزی کے باعث ناقدین "این کاؤنٹر" کو کمیونزم کی ترویج میں وہ مقام دیتے تھے جو شاید کارل مارکس اور لینن کو بھی نصیب نہیں تھا۔

لیکن قارئین کرام! المیہ دیکھئے "این کاؤنٹر" کی اشاعت کے دس پندرہ برس بعد انکشاف ہوا کہ جسے دنیا کمیونزم کی بائبل سمجھ رہی تھی، دراصل سی آئی اے کا منصوبہ تھا اور امریکی خفیہ اِدارے کے ہیڈ کوارٹر کے ایک چھوٹے سے کمرے سے ڈپٹی سیکرٹری رینک کا ایک امریکی، دو کلرک اور ایک چپڑاسی چند فائلوں، ٹیلکس کے چند پیغامات اور کچھ خفیہ ٹیلیفون کالز کے ذریعے برسوں تک پوری اشتراکی دنیا کو بیوقوف بناتے رہے، ان کے نظریات میں زہر گھولتے رہے، یہاں تک کہ کمیونزم کے ٹارگٹ ممالک میں مقامی سطح پر کمیونزم کے خلاف مزاحمت شروع ہو گئی۔

عرصے بعد جب این کاؤنٹر پراجیکٹ کا چیف، ثقافتی یلغار کے ایک سیمینار میں شرکت کے لئے پیرس گیا تو شرکاء نے اٹھ کر اس کا استقبال کیا۔ بوڑھے ریٹائرڈ امریکی نے ہیٹ اتار کر سب کا شکریہ ادا کیا اور پھر جھک کر سیٹ پر بیٹھ گیا۔ پوچھنے والوں نے پوچھا "سر! آپ نے یہ سب کچھ کیسے کیا؟" بوڑھا امریکی مسکرایا اور پھر مائیک کو انگلی سے چھو کر بولا: "ینگ میں ویری سمپل، ہم نے کمیونزم کو اتنا کڑا، سخت اور غیر لچک دار بنا دیا کہ لوگوں کے لئے قابلِ قبول ہی نہ رہا"۔ ایک اور نوجوان اٹھا اور بوڑھے سے مخاطب ہو کر بولا: "لیکن جریدے کے سارے منتظمیں تو کمیونسٹ تھے اور جہاں تک ہماری معلومات ہیں، سی آئی اے کا ان سے کوئی براہ راست رابطہ نہیں تھا"۔

بوڑھے نے قہقہ لگایا اور پھر دوبارہ مائیک کو چھو کر بولا: "نوجوان ہاں، ہمارا این کاؤنٹر کی انتظامیہ، اس کے ایڈیٹوریل بورڈ اور اس کے کمیونسٹ ورکرز سے کوئے تعلق نہیں تھا، لیکن دنیا کے مختلف کونوں سے این کاؤنٹر تک پہنچنے والے مضامیں تو ہم لوگ ہی لکھواتے تھے"۔ ایک اور نوجوان کھڑا ہوا اور بوڑھے کو ٹوک کر بولا: "لیکن اس سے کیا ہوتا ہے؟" بوڑھا آہستہ سے مسکرایا اور پھر مائیک چٹکی میں پکڑ کر بولا: "بہت کچھ ہوتا ہے، ینگ مین! تم خود فیصلہ کرو، جو بائبل ایسے احکامات دے جو انسانی فطرت سے متصادم ہوں، جو انسان کو آزادی سے سوچنے، بولنے اور عمل کرنے سے روکتے ہوں، جو لوگوں کو بدبودار کپڑے پہننے، شیو نہ کرنے، دانت گندے رکھنے، اور گالے دینے کا درس دیتی ہو، وہ لوگوں کے لئے قابلِ قبول ہو گی؟ ہم نے یہی کیا۔ این کاؤنٹر کے پلیٹ فارم سے اشتراکی نظریات کے حامل لوگوں کو بے لچک، متشدد اور سخت مؤقف کے حامل افراد ثابت کر دیا جس کے بعد تیسری دنیا میں ان لوگوں کے خلاف مزاحمتی تحریکیں اٹھیں اور ہمارا کام آسان ہو گیا"۔ یہاں پہنچ کر پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ بوڑھا نشست سے اٹھا، دوبارہ ہیٹ اتار کر ہوا میں لہرایا، سینے پر ہاتھ رکھا اور سٹیج کے اداکاروں کی طرح حاضرین کا شکریہ ادا کرنے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں جب بھی محفلوں میں "پڑھے لکھے" خواتیں و حضرات کے منہ سے علماء کرام کے خلاف "فتوے" سنتا ہوں، نوجوانوں کو اسلام کو (نعوذ باللہ) قدیم، فرسودہ اور ناقابلِ عمل نظام قرار دیتے دیکھتا ہوں، شائستہ، خاموش طبعہ اورذکر اللہ سے جھکے ہوئے لوگوں کو "مولوی" کے نام سے مخاطب ہوتا دیکھتا ہوں، ہاں! میں جب مسجد کے سامنے کلاشنکوف بردار گارڈ دیکھتا ہوں، مختلف مذہبی رہنماؤں کو کیل کانٹے سے لیس باڈی گارڈز کے ساتھ دیکھتا ہوں۔ اخبارات، رسائل و جرائد کی پھیلائی ڈس انفارمیشن پرمدرسوں کے معصوم بچوں کو سڑکوں پر توڑ پھوڑ کرتے دیکھتا ہوں، تو میں سوچتا ہوں کہیں سی آئی اے ہیڈ کوارٹر کے کسی کمرے میں بیٹھا کوئی ڈپٹی سیکرٹری، دو کلرک اور ایک چپڑاسی چند فائلوں، ٹیلکس کے چند پیغامات اور ٹیلی فون کی کچھ کالز کی مدد سے اسلام کو اسلامی دنیا میں اجنبی بنا رہے ہوں، اسے فرسودہ، ناقابلِ عمل اور انسانی فطرت کے خلاف نظام ثابت نہ کر رہے ہوں؟

قارئین کرام! اگر آپ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں تو آپ مجھ سے پورا اتفاق کریں گے کہ اسلام کے خلاف جتنی نفرت اسلام کے ذریعے پھیلائی گئی، مولوی کو جتنا مولوی کے ذریعے ناقابلِ برداشت بنایا گیا، مدرسے کو مدرسے کے ذریعے جتنا قابلِ نفریں ثابت کیا گیا اور مسجد کو مسجد کے ذریعے جتنا بدنام (نعوذ باللہ) کیا گیا، اتنا پچھلے دو تین سو برسوں میں یہودیوں، عیسائیوں اور ہندوؤں کے بیانات، خطبات اور تحریروں نے نہیں کیا۔

یقین کیجئے، جب کوئی نوجوان بڑی نفرت سے کہتا ہے یہ "مولوی" تو فوراً میرے دماغ میں ایک بوڑھے امریکی کی تصویر اُبھر آتی ہے، جو مائیک کو چٹکی میں پکڑ کر کہتا ہے " ویری سمپل، ہم نے اسلام کو اتنا کڑا، سخت اور غیر لچک دار بنا دیا کہ وہ لوگوں کے لئے قابلِ قبول ہی نہ رہا" اور بوڑھا کہتا ہے: " ہم نے دنیا پر ثابت کر دیا کہ جس مذہب میں ایک مولوی دوسرے مولوی کے پاس بیٹھنے کا روادار نہیں، وہ مذہب جدید دنیا کے انسانوں کے لئے کیسے قابل قبول ہوسکتا ہے۔ ہاں ہم نے ثابت کر دیا کہ جو لوگ معمولی سا اختلاف برداشت نہیں کرسکتے، اپنی مسجد میں کسی دوسرے مسلمان کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے، وہ جمہوری روایات کی پاسداری کیسے کرسکتے ہیں؟ ہاں ہم نے ثابت کر دیا کہ مسلمان پتھر کے زمانے کے لوگ ہیں، جو ہر سوال کا جواب پتھر سے دیتے ہیں"۔
ہاں، رات کے آخرے پہر جب گلی کی ساری بتیاں کہر کی چادر اوڑھے سو چکی ہیں، میں سوچ رہا ہوں کہ عالم اسلام میں کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں جو "این کاؤنٹر پراجیکٹ ٹو" کی فائل پڑھ سکے۔

(جاوید چودھری)
 

سید ابرار

محفلین
پوسٹ مارٹم

اِسلام کو قابلِ نفرت بنانے کی عالمگیر مہم ۔ ۔ ۔ این کاؤنٹرٹو​

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں جب بھی محفلوں میں "پڑھے لکھے" خواتیں و حضرات کے منہ سے علماء کرام کے خلاف "فتوے" سنتا ہوں، نوجوانوں کو اسلام کو (نعوذ باللہ) قدیم، فرسودہ اور ناقابلِ عمل نظام قرار دیتے دیکھتا ہوں، شائستہ، خاموش طبعہ اورذکر اللہ سے جھکے ہوئے لوگوں کو "مولوی" کے نام سے مخاطب ہوتا دیکھتا ہوں، ہاں! میں جب مسجد کے سامنے کلاشنکوف بردار گارڈ دیکھتا ہوں، مختلف مذہبی رہنماؤں کو کیل کانٹے سے لیس باڈی گارڈز کے ساتھ دیکھتا ہوں۔ اخبارات، رسائل و جرائد کی پھیلائی ڈس انفارمیشن پرمدرسوں کے معصوم بچوں کو سڑکوں پر توڑ پھوڑ کرتے دیکھتا ہوں، تو میں سوچتا ہوں کہیں سی آئی اے ہیڈ کوارٹر کے کسی کمرے میں بیٹھا کوئی ڈپٹی سیکرٹری، دو کلرک اور ایک چپڑاسی چند فائلوں، ٹیلکس کے چند پیغامات اور ٹیلی فون کی کچھ کالز کی مدد سے اسلام کو اسلامی دنیا میں اجنبی بنا رہے ہوں، اسے فرسودہ، ناقابلِ عمل اور انسانی فطرت کے خلاف نظام ثابت نہ کر رہے ہوں؟

قارئین کرام! اگر آپ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں تو آپ مجھ سے پورا اتفاق کریں گے کہ اسلام کے خلاف جتنی نفرت اسلام کے ذریعے پھیلائی گئی، مولوی کو جتنا مولوی کے ذریعے ناقابلِ برداشت بنایا گیا، مدرسے کو مدرسے کے ذریعے جتنا قابلِ نفریں ثابت کیا گیا اور مسجد کو مسجد کے ذریعے جتنا بدنام (نعوذ باللہ) کیا گیا، اتنا پچھلے دو تین سو برسوں میں یہودیوں، عیسائیوں اور ہندوؤں کے بیانات، خطبات اور تحریروں نے نہیں کیا۔
یقین کیجئے، جب کوئی نوجوان بڑی نفرت سے کہتا ہے یہ "مولوی" تو فوراً میرے دماغ میں ایک بوڑھے امریکی کی تصویر اُبھر آتی ہے، جو مائیک کو چٹکی میں پکڑ کر کہتا ہے " ویری سمپل، ہم نے اسلام کو اتنا کڑا، سخت اور غیر لچک دار بنا دیا کہ وہ لوگوں کے لئے قابلِ قبول ہی نہ رہا" اور بوڑھا کہتا ہے: " ہم نے دنیا پر ثابت کر دیا کہ جس مذہب میں ایک مولوی دوسرے مولوی کے پاس بیٹھنے کا روادار نہیں، وہ مذہب جدید دنیا کے انسانوں کے لئے کیسے قابل قبول ہوسکتا ہے۔ ہاں ہم نے ثابت کر دیا کہ جو لوگ معمولی سا اختلاف برداشت نہیں کرسکتے، اپنی مسجد میں کسی دوسرے مسلمان کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے، وہ جمہوری روایات کی پاسداری کیسے کرسکتے ہیں؟ ہاں ہم نے ثابت کر دیا کہ مسلمان پتھر کے زمانے کے لوگ ہیں، جو ہر سوال کا جواب پتھر سے دیتے ہیں"۔
(جاوید چودھری)

ملاحظہ فرمائیے حضرات؛ کیا ”زور بیانی “ ہے اور کیا ”انداز استدلال“ ، کہ لگتا ہے کہ اگر کوئی ”سادہ لوح“ اس کا مطالعہ کرلے تو شاید فورا ہی ”ایمان“ لالے ، اور اس کی صداقت پر شک کرنے والوں کو فورا ”کافر “ قرار دیدے ،
موصوف نے مارکس ازم کا ایک ماضی قریب کا ایک ”دلچسپ واقعہ“ بڑے ہی اچھے انداز میں‌سنایا ، لیکن پتہ نہیں کیسے موصوف نے ”زمانہ حال کے اسلام“ پر اس کو لاکر فٹ کردیا، ذرا غور فرمائیں کہ موصوف کا ”دعوی“ ہے کہ اسلام اسلامی دنیا میں آہستہ آہستہ اجنبی بن رہا ہے ، نیز اسلامی نظام ایک فرسودہ ، ناقابل عمل اور انسانی فطرت کے خلاف نظام بن چکا ہے ،اور یہ کہ اس سارے چکر میں‌ سی ، آئی ، اے نے علماء کو استعمال کیا ہے ،چاہے ناداستہ طور پر ہی سہی ،

ایسے ”دعوی“ ہانکنے والوں‌کی آج کل کمی نھٰیں‌ ہے ،
بقول کسے ، بے وقوفوں کی کمی نھیں غالب ، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں
اور یہ بے چارے ایسے دعوی اس بنا پر بھی کرتے ہیں کہ چونکہ ”عملی اسلام “ سے ان کا زیادہ تعلق ہوتا نھیں ہے اور ان کی پوری زندگی مغربیت کا ایک نمونہ ہوتی ہے ، اس لئے اپنی زندگی میں 100 فیصد اسلام لانے کی باتیں ، جو یہ بے چارے مولوی کرتے ہیں ، اس کو نہ صرف فرسودہ ،ناقابل عمل اور انسانی فطرت کے خلاف قرار دیتے ہیں ،بلکہ اپنے موقف کو دلائل سے ثآبت کرنے کی ناکام کوششیں بھی کرتے ہیں‌ ،

پتہ نہیں ”موصوف“ کس دنیا میں رہتے ہیں ، بھر حال ہم جس دنیا میں رہتے ہیں ، اس دنیا کی کھانی تو یہ ہے اسلامی نظام ہی واحد ایسا نظام ہے جو مغربی نظام کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کررہا ہے بلکہ پوری دنیا کے ان لوگوں کے لئے جو ”سکون کے متلاشی ہیں ؛ ایک ”گوشہ سکون وعافیت “ بن چکا ہے اور اس پوری مھم کے سرخیل اور قائد الحمد للہ ہمارے علماء کرام ہیں جو مکمل جانفشانیوں اور قربانیوں‌کے ساتھ اسلامی نظام کو تمام ”نظاموں“ پر غالب کرنے کے لئے محنتیں کررہے ہیں ؛یھی وجہ ہے کہ آج کے سنگین اور خطرناک حالات کے باوجود لاکھوں بلکہ کروڑوں مسلمان ہیں جو اپنی زندگی میں‌100 فیصد اسلام کے ساتھ نہ صرف زندہ ہیں بلکہ پورے وقار کے ساتھ اسی معاشرہ میں جی رہے ہیں‌ ، اور ان کی” قابل رشک زندگی“ دوسروں کے لئے ایک” نمونہ “بن چکی ہے ،
اسلامی لباس ، داڑھی ، سود سے مکمل اجتناب ، مکمل شرعی پردہ نیز حلال و حرام کی مکمل رعایت بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ہر سنت اور اسلامی اخلاق کو ہر حال میں اپنی زندگی میں‌ لانے کی فکر ، ان افراد کے من جملہ دیگر اوصاف میں سے چند اوصاف ہیں ،
اور ان کو اپنے ”نظام “ پر کسی قسم کا کوئی” احساس کمتری“ نھیں ہے بلکہ یہ ”مغربی نظام “ کے زھر سے ڈسے ہوئے لوگوں سے ”احساس ہمدردی “ رکھتے ہیں ، اور نہ صرف ان کے لئے ”ھدایت“ کی دعائیں‌کرتے ہیں بلکہ ”حکمت“ کے ساتھ ، انھیں ”اسلامی نظام“ کو 100 فیصد اپنانے کی ”دعوت“ بھی دیتے ہیں‌،
اور یہ اپنے ہر مسئلہ کے حل کے لئے انھی علماء کرام سے رجوع کرتے ہیں‌؛( جن کو جناب جاوید صاحب نے اپنے مضمون میں سی آئی اے کے دانستہ یا نادانستہ ایجنٹوں‌ یا آلہ کاروں‌ میں‌ شمار کیا ہے )، اور نہ صرف” رجوع “کرتے ہیں‌، بلکہ ان کے بتائے گئے حل پر عمل کرکے ”شاداں و فرحاں “ بھی رہتے ہیں ،
اب پتہ نھیں ان لاکھوں لوگوں کی”عقل مارے گئی ہے “،جو ”دشمن“ کو ”دوست “ سمجھ رہے ہیں‌ یا پھر جاوید صاحب کی، جو ”دوست“ کو ”دشمن“ بتارہے ہیں‌ ، دوسری بات زیادہ قرین قیاس لگتی ہے، اس لئے کہ بھر حال ”جمھوریت “ کا دور ہے ،

یہ تو ”دعوی “ کا پوسٹ مارٹم تھا ؛ موصوف کے ”دلائل “ کا پوسٹ مارٹم بعد میں کریں گے فی الحال اسی کو ”سمجھنے “
کی کوشش کیجئے ،
 

ثناءاللہ

محفلین
محترم سید ابرار صاحب
جب سے آپ نے اپنا پیغام دیا ہے اس دن سے میں آپ کی اگلی پوسٹ کے انتظار میں ہوں
جب آپ یہاں اپنی اگلی پوسٹ کر چکیں تو برائے مہربانی مجھے ذپ کے ذریعے اطلاع دے دیں آپ کا مشکور رہوں
 

رضوان

محفلین
سید ابرار صاحب
کیا واقعی ایسا نہیں ہے کہ ہم اغیار کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہوں؟ کیا یہ سب شدت پسندی اور ایک دوسرے کی گردن شکنی ہم اپنی مرضی سے کر رہے ہیں؟ گویا مسلمان کے ہاتھ سے مسلمان کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قتل نہیں ہورہا؟
خدا کرے میرے اندیشے غلط ہوں۔
 

محمد نعمان

محفلین
جناب ابرار صاحب السلام علیکم۔

بھئی کالم تو خوب ہے جاوید چودھری صاحب کا۔ مگر آپ کے تبصرے کو لے کر کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ جاوید صاحب کی بات میں کوئی اتنا نَقص بھی نہیں کہ ان کے ظاہر کیے گئے خدشے کو یک جنبشِ قلم ہی رد کر دیا جائے۔ ویسے جہاں تک انہوں نے بیان کیا ہے آجکل کے عالم اسلام کے رویے کا اور علماء بلکہ اقبال علیہ رحمہ کی زبان میں مُلّا کا تو وہ تجزیہ بھی آج کے حالات کو دیکھتے ہوئے بالکل فٹ ہی بیٹھتا ہے۔ ویسے جہاں تک آپ نے علماء کی تعریف کی ہے تو اس میں بھی کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیئے، مگر میرا خیال ہے کہ جاوید صاحب نے ان علماء کو جو مُلّا زیادہ ہیں مدنظر رکھ کر بات کی ہے۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميں نے يہ بات پہلے بھی کئ بار کہی ہے کہ نا تو امريکہ ہر عيب سے عاری ہے اور نہ ہی امريکی تاريخ غلطيوں سے پاک ہے۔ ليکن ايک تعميری تجزيہ صرف اسی صورت ميں ممکن ہے جب آپ تصوير کے دونوں رخ ديکھيں۔ مثال کے طور پر اگر آپ اس بات کی نشاندہی کريں کہ کوکلکس کلين امريکی تاريخ کا حصہ ہے تو پھر آپ کو اس حقيقت کو بھی تسليم کرنا چاہيے کہ آج باراک اوبامہ امريکہ کے صدر ہيں۔


جہاں تک "اين کاؤنٹر"، "پيرس ريويو" اور سی –آئ –اے کی ثقافتی جنگ کے حوالے سے جاويد چودھری کے تفصيلی تجزيے کا تعلق ہے تو ميں آپ کی توجہ اس جانب دلواؤں گا کہ يہ حقائق تو 1960 کی دہائ ميں ہی تسليم کر ليے گئے تھے اور اس وقت سے يہ حقائق عوام کی دسترس ميں ہيں۔ اس کی ايک مثال


http://www.amazon.com/s/ref=nb_ss_gw?url=search-alias%3Daps&field-keywords=The+Cultural+Cold+War+%282000%29&x=16&y=20


"اين کاؤنٹر" ايک ثقافتی رسالہ تھا۔ اس بات کا کوئ حتمی ثبوت نہيں ہے کہ کئ سال پہلے اختتام پذير ہونے والے اس پروگرام کے ذريعے اس رسالے کو سياسی عمل پر اثر انداز ہونے يا برسراقتدار افراد کے ايجنڈے کو آگے بڑھانے کے ليے استعمال کيا گيا۔ اس کے برعکس سی –آئ – اے کے اس پروگرام کا حدف نان کميونسٹ ليفٹ کے ممبران تھے۔ اس وقت يورپ کی سوچ پر اثرانداز ہونے کے لیے امريکہ اور سويت يونين دونوں ہی ميدان عمل ميں تھے۔


اس رسالے کی فنڈنگ کے ذريعے ان لکھاريوں اور دانشوروں کو ايک پليٹ فارم مہيا کيا گيا جو کہ امريکی انتظاميہ سے اختلاف رکھنے کے باوجود ثقافتی ايشوز پر نان مارکسٹ نقطہ نظر رکھتے تھے۔


حقيقت يہ ہے کہ سی –آئ – اے کی اس مہم کا مقصد رائے عامہ اور خيالات کو دبانا نہيں بلکہ انھيں اجاگر کرنا تھا۔ يہ درست ہے کہ آج کے دور ميں اس پروگرام پر سخت گير رويہ اختيار کيا جا سکتا ہے ليکن اس دور ميں امريکہ اور سوويت يونين ايک سرد جنگ ميں مد مقابل تھے اور سويت يونين پورے يورپ پر کھلے اور مخفی انداز ميں اپنے اثرورسوخ کو وسيع کرنے کے ليے عملی کوششيں کر رہا تھا۔


ليکن ميں يہ واضح کر دينا چاہتا ہوں کہ 50 برس قبل کے حالات کا اطلاق موجودہ صورت حال ميں نہيں ہوتا۔ امريکہ مسلمانوں اور عالم اسلام کے مدمقابل نہيں ہے، اور اس دعوے کی داعی کوئ ثبوت بھی پيش نہيں کر سکتے۔ جس دشمن کا ہميں آج سامنا ہے، وہ مسلمانوں کے ليے بھی اتنا ہی بڑا خطرہ ہے جتنا کہ خود امريکہ کے ليے ہے۔ يہ ايک حقيقت ہے کہ خود مسلم ممالک ميں ميڈيا مہم، مذہبی بحث اور دانشوروں کی تقارير کے ذريعے دہشت گردی کی مذمت کی جا رہی ہے اور يہ شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ دہشت گردی ايک جرم ہے اور اس کا مذہب سے کوئ تعلق نہيں ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov


http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

ساجد

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ليکن ميں يہ واضح کر دينا چاہتا ہوں کہ 50 برس قبل کے حالات کا اطلاق موجودہ صورت حال ميں نہيں ہوتا۔ امريکہ مسلمانوں اور عالم اسلام کے مدمقابل نہيں ہے، اور اس دعوے کی داعی کوئ ثبوت بھی پيش نہيں کر سکتے۔ جس دشمن کا ہميں آج سامنا ہے، وہ مسلمانوں کے ليے بھی اتنا ہی بڑا خطرہ ہے جتنا کہ خود امريکہ کے ليے ہے۔ يہ ايک حقيقت ہے کہ خود مسلم ممالک ميں ميڈيا مہم، مذہبی بحث اور دانشوروں کی تقارير کے ذريعے دہشت گردی کی مذمت کی جا رہی ہے اور يہ شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ دہشت گردی ايک جرم ہے اور اس کا مذہب سے کوئ تعلق نہيں ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov


http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
یہاں فاختہ اڑانے کا کیا مطلب؟۔ بات کچھ ہو رہی ہے اور جناب اسے کھینچ تان کر کہیں اور فٹ کرنے کی سعی فرما رہے ہیں۔ حضور ، جھوٹ جھوٹ ہی ہوتا ہے خواہ کتنے تواتر سے بولا جائے، وہ سچ نہیں بن جاتا۔
آپ جس عمل کو جرم سے معنون فرما رہے ہیں وہ عمل سب سے زیادہ آپ کے سرپرستوں سے سرزد ہوا اور ہو رہا ہے۔ اس کے ایک نئی قسط اسرائیل کی ایران کو حالیہ دھمکیوں اور آپ کی اس کو آشیر باد سے دنیا کے سامنے پیش ہونے والی ہے۔ ابھی بھی آپ یہ فرمائیں کہ انکل سام عالم اسلام کے مد مقابل نہیں تو اسے تجاہلِ عارفانہ کہا جائے گا۔ آخر آپ امریکی ، اسرائیل کی خوشنودی کے لئیے کہاں تک جا نے کا ارادہ رکھتے ہیں؟۔
 

یوسف-2

محفلین
”این کاؤنٹر پروجیکٹ-2
(جاوید چوہدری کے متذکرہ بالا کالم کا تسلسل)​
haweli1.gif

haweli2.gif

haweli3.gif

haweli4.gif
 

یوسف-2

محفلین
جاوید چوہدری کبھی ”بے پر کی“ نہیں اُڑایا کرتے۔ ان کا تجزیہ مبنی بر حقیقت ہوتا ہے۔ وہ ہر قسم کی سیاسی یا گروہی مفادات سے بالا تر ہوکر لکھنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کے ہرطبقاتی، سیاسی، مذہبی اور لسانی گروہوں کی خامیوں پر برملا قلم اٹھایا ہے۔ وہ ایک محب وطن اور اسلام پسند صحافی ہے اور یہی بات پاکستان و اسلام کے مخالفین کو پسند نہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان میں اسلام کی چادر اوڑھے پاکستان و اسلام دشمنوں کے ایجنٹس کی کمی نہیں اوران میں سے بہت سے تو بر سراقتدار بھی پائے جاتے ہیں۔ جاوید چوہدری نے 2007 میں مذکورہ بالا کالم میں جس ”خدشہ“ کا اطہار کیا تھا، اس کا ایک ثبوت 2010 کے اردو ڈائجسٹ مین شائع شدہ یہ مضمون ہے۔ پچھلے چند دہائیوں سے پاکستان میں ”مذہبی گروہوں“ میں جس تیزی سے اضافہ، شدت پسندی، ایک دوسرے کے خلاف حملوں میں اضافہ ہوا ہے، یہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کفار نے ”بیرونی حملوں“ کی بجائے اُمت کو ”اندرونی طور پر“ ایک دوسرے سے ٹکرا ٹکرا کر ختم یا کمزور کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ عین الیکشن سے قبل علامہ طاہر القادری کی آمد آمد اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ :)
 
جاوید چوہدری کبھی ”بے پر کی“ نہیں اُڑایا کرتے۔ ان کا تجزیہ مبنی بر حقیقت ہوتا ہے۔ وہ ہر قسم کی سیاسی یا گروہی مفادات سے بالا تر ہوکر لکھنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کے ہرطبقاتی، سیاسی، مذہبی اور لسانی گروہوں کی خامیوں پر برملا قلم اٹھایا ہے۔ وہ ایک محب وطن اور اسلام پسند صحافی ہے اور یہی بات پاکستان و اسلام کے مخالفین کو پسند نہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان میں اسلام کی چادر اوڑھے پاکستان و اسلام دشمنوں کے ایجنٹس کی کمی نہیں اوران میں سے بہت سے تو بر سراقتدار بھی پائے جاتے ہیں۔ جاوید چوہدری نے 2007 میں مذکورہ بالا کالم میں جس ”خدشہ“ کا اطہار کیا تھا، اس کا ایک ثبوت 2010 کے اردو ڈائجسٹ مین شائع شدہ یہ مضمون ہے۔ پچھلے چند دہائیوں سے پاکستان میں ”مذہبی گروہوں“ میں جس تیزی سے اضافہ، شدت پسندی، ایک دوسرے کے خلاف حملوں میں اضافہ ہوا ہے، یہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کفار نے ”بیرونی حملوں“ کی بجائے اُمت کو ”اندرونی طور پر“ ایک دوسرے سے ٹکرا ٹکرا کر ختم یا کمزور کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ عین الیکشن سے قبل علامہ طاہر القادری کی آمد آمد اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ :)

اصل مقصد آپکا یہی بیان فرمانا تھا ، جسکے لئے اتنی لمبی چوڑی تمہیدیں باندھنے کا کشٹ اٹھانا پڑا۔۔۔۔;)
طاہر القادری کا جرم یہی ہے کہ یہ اسلام کا نام لیکر مسلمانوں کے گلے کاتنے والے گمراہ مسلمانوں کو برا کہتا ہے، اور اسلام جیسے خوبصورت دین کو اسلام ہی کا نام استعمال کرکے پوری دنیا میں ایک تماشا بنادینے والوں کی آئیڈیالوجی کو برا کہتا ہے۔۔:)
ویسے موضوع کی مناسبت سے لگے ہاتھوں ہمفرے کے اعترافات بھی پڑھتے جائیے گا۔ جو کافی اخبارات میں چھپ چکے ہیں۔۔امید ہے کہ آپ اسے بھی اپنے موقف کی تائید میں یہاں کوٹ کرنا پسند فرمائیں گے۔۔:D
 

ساجد

محفلین
کیا ستم ہے کہ ہم ایک طرف تو اتحاد کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف اس کے خلاف کام کر کے اپنی ہی کاوشوں کا بیڑہ غرق کر لیتے ہیں۔ کوئی موجودہ حالات پر بات کر کے دوسرے کو نیچا دکھاتا ہے تو جواب میں تاریخ کے حوالے سے اس کو ”تصویر کا دوسرا رُخ“ دکھا کر ”اتحاد“ کے عمل کی تکمیل کرتا ہے۔
ارے بھائی ان باتوں سے بالا تر ہو کر ماضی سے اب تک کی گئی غلطیوں سے ہم سب کو سبق سیکھنا ہو گا تبھی ہم اتحاد کی طرف پہلا قدم بڑھا سکیں گے۔
میرے گھر کے ارد گرد 3 مسالک کی 4 مساجد ہیں اور میں بلا تخصیص سبھی میں نماز پڑھنے چلا جاتا ہوں ۔ ایک مسجد میں ایک دن ایک مخالف مکتبہ فکر کے بارے میں فریم شدہ اشتہار لگا ہوا تھا اور مسجد کے خطیب صاحب کی جمعہ کی تقریر اتحاد بین المسلمین پر تھی ۔ اُن کی پوری تقریر میں قرآنی آیات کے حوالہ جات اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان بہت دل نشیں تھا لیکن جب میری نظر مسجد کی انتظامیہ کی طرف سے خصوصی طور پر لگائے اس اشتہار کی طرف جاتی تو میرا دل چاہتا کہ ابھی منبر پر جا کر مولانا صاحب سے اس بارے دریافت کروں کہ یہ قول و فعل کا تضاد کیا ہے؟۔
بالآخر نماز ختم ہوتے ہی میں نے مولوی صاحب سے استفسار کیا تو وہ سٹپٹا گئے بات کو ادھر ادھر گھمانے لگے ان کے اس عمل سے میرے سوالات میں مزید اضافہ ہوتا گیا اور حضرت جی مزید سراسیمہ ہوتے رہے اور جواب نہ دے سکے لیکن اتنا ضرور کہنے لگے کہ ”تمہاری زیادہ تر زندگی چونکہ غیر مسلموں کے ممالک اور افراد کے ساتھ گزری ہے اس لئے تم کسی سازش کے تحت یہاں بھیجے گئے ہو“۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک تو ہم خود اتحاد کے نام پر اختلاف کو فروغ دیتے ہیں اور جھوٹ کے مرتکب ہوتے ہیں دوسرے کہ اگر کوئی اس طرف ہمیں متوجہ کرتا ہے تو ہم اپنی غلطی سدھارنے کی بجائے اس پر الزام تراشی اور اغیار کی سازشوں کا الزام دھر کر ریت میں سر دبا لیتے ہیں۔
جاوید چوہدری اور ڈاکٹر صفدر محمود نے بھی بالا کے کالموں میں ہم سب کو ریت سے سر باہر نکالنے کا ہی مشورہ دیا ہے لیکن ہم پھر سے اس کو ڈاکٹر طاہرالقادری کی سیاست اور عربوں کی قوم پرستی کے تناظر کے علاوہ دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔
اے اللہ ، ہم پر رحم فرما اور آزمائش کو ہم پر سے اٹھا لے۔
 
Top