اسلام میں قدم بوسی کی روایات کا جائزہ

مہوش علی

لائبریرین
اس تھریڈ کے قارئین سے گذارش ہے کہ وہ ویڈیو کا انتظار کریں، اور پھر اسکے بعد منہاج کے کسی ممبر کے جواب کا انتظار کریں کہ وہ ہی طاہر القادری صاحب کا مؤقف بہتر طور پر بیان کر سکتے ہیں۔

از ابن حسن:
مجھے طاہر القادری سے کوئی پرخاش نہیں ہے
اللہ کرے ایسا ہی ہو اور آپ انکے ساتھ انصاف کریں۔

مجھے طاہر القادری صاحب کے متعلق تو علم نہیں کہ انکے اس معاملے میں کیا نظریات ہیں، مگر چند ایک باتیں جنکا مجھے علم ہے، وہ آپ سے ضرور شیئر کرنا چاہوں گی۔

اشعار میں طاہر القادری کو سجدے کرنے کی بات نہیں
پہلی بات یہ کہ یہ اشعار طاہر القادری صاحب کی شان میں نہیں ہیں۔ مجھے حیرت ہو گی اُن لوگوں پر جو ان اشعار کی بنیاد پر یہ الزام لگائیں کہ طاہر القادری اس میں اپنے آپ کو سجدے کرنے کا حکم دے رہے ہیں۔
ہم سب کو اللہ کو جان دینی ہے، اور انصاف بڑی شرط اس جہاں میں۔بات کو فقط وہاں تک رکھا جائے جہاں تک وہ کی گئی ہے۔
کسی نے کہا ہے کہ "طاہر القادری صاحب سے پرخاش نہیں ہے"۔ اور ہم اس امید پر گفتگو کر رہے کہ ہم اللہ کے نام پر انصاف کریں گے۔

سجدہ اور چیز ہے۔۔۔۔۔ مگر ہاتھوں کا بوسہ، گھٹنوں کا بوسہ، قدموں کا بوسہ الگ چیز
یہ بات اکثر برادران کو عجیب لگے گی کیونکہ انہوں یہ پہلے شاید کبھی سنا نہ ہو۔ میں نے بھی جب پہلی مرتبہ یہ چیزیں پڑہیں تو حیرت میں مبتلا ہوئی تھی۔
اگر میں آپ سے کہوں کہ طاہر القادری صاحب تو کسی کھیت کی مولی نہیں، مگر ان سے قبل صحابہ و تابعین کی روایات اور اُن پر بلند پایہ علماء کی اس سلسلے میں رائے یہ ہے کہ یہ چیز شریعت محمدیہ میں حلال ہے۔۔۔۔ تو کیا آپ اس بات پر یقین کرنے کے لیے تیار ہیں؟
چلیں، اس مسئلے پر موجود دلائل اور علمائے سلف کی آراء پر بعد میں آتے ہیں۔ فی الحال اس بات کو سمجھیں کہ اسلام میں "تعظیم" کے فلسفے کی بنیاد کیا ہے۔

تعظیم شعائر اللہ
یہ قرآنی آیت تو ہم نے اکثر سنی ہو گی کہ "[القرآن 22:32] اور جو شعائر اللہ کی تعظیم کرتے ہیں وہ دلوں کے تقوے سے ہیں"
شعائر اللہ کیا ہیں، اس پر بات آگے جا کر کریں گے۔
اور شعائر اللہ کی تعظیم میں جوتیاں اتارنے کا حکم اللہ تعالی اپنے نبی موسی علیہ الصلوۃ و السلام کو دے رہا ہے
[القرآن 20:12]ﯾﻘﯿﻨﺎﹰ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺗﯿﺮﺍ ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﻮﺗﯿﺎﮞ ﺍﺗﺎﺭ ﺩﮮ, ﻛﯿﻮﻧﻜﮧ ﺗﻮ ﭘﺎﻙ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻃﻮی ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ۔

سجدہ تعظیمی
اسلام کی تاریخ (یعنی رسول اللہ ص سے قبل کی انبیاء کی شریعت) میں سجدہ تعظیمی ایک بہت ہی نیک، صالح اور تقوے سے بھرپور عمل تھا۔ اسکی گواہی خود قرآن نے کئی جگہ دی۔

[القرآن 12:4]
(وہ قصّہ یوں ہے) جب یوسف (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے کہا: اے میرے والد گرامی! میں نے (خواب میں) گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے، میں نے انہیں اپنے لئے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے
عربی متن(إِذْ قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ)

اور پھر قرآن کی گواہی کہ حضرت یعقوب علیہ السلام اور انکے بیٹوں نے حضرت یوسف علیہ الصلوۃ و السلام کو سجدہ تعظیمی کیا۔
[القرآن 12:100]
اور احترام سے بٹھایا اپنے والدین کو تخت پر اور گر پڑے سب یُوسف کے آگے سجدے میں۔ (اس وقت) یُوسف نے کہا: ابّا جان! یہ ہے تعبیر میرے خواب کی (جو میں نے دیکھا تھا) پہلے۔ کر دکھایا ہے اسے میرے رب نے سچّا

اور پھر قرآن کی گواہی کی فرشتوں نے حضرت آدم علیہ الصلوۃ و السلام کو اللہ کے حکم سے سجدہ کیا (سوائے لعین ابلیس کے)
[القرآن 2:34] اور (وہ وقت بھی یاد کریں) جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار اور تکبر کیا اور (نتیجۃً) کافروں میں سے ہو گیا

سجدہ تعظیمی یقینا بہت نیک اور تقوے کا عمل تھا۔ مگر شریعت محمدی میں اللہ تعالی نے اس سے منع فرما دیا۔ اس لیے اب آج سجدہ تعظیمی کے نام پر اگر کوئی سجدہ کرتا ہے تو وہ بالکل غلط کام کرتا ہے۔
سجدہ تعظیمی کے حوالے سے لیکن ایک بات اور یاد رکھیں:
1۔ سجدہ تعظیمی شریعت محمدیہ میں "حرام" ہے۔
2۔ مگر کچھ لوگوں نے "اپنی شریعت" جاری کرتے ہوئے اسے "شرک" قرار دے دیا ہے جو کہ پھر غلط چیز ہے۔
جو لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے آج سجدہ تعظمیمی میں مبتلا ہیں، وہ "حرام" کام کر رہے ہیں، مگر اسکی وجہ سے اُن کو مشرک بنا کر اسلام کے دائرے سے نہیں نکالا جا سکتا۔ بہرحال، کچھ لوگ "شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار" بننے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی چکر میں اپنی الگ شریعتیں اور توحیدیں قائم کیے بیٹھے ہیں۔

سجدے کے علاوہ تعظیم کے دیگر تعظیمی افعال شریعت محمدیہ میں حلال ہیں
اوپر آپ نے سجدہ تعظمیمی کے متعلق آیات پڑھیں۔ قرآن کی رو تو نہیں، مگر حدیث اس بات پر بہت صاف ہے کہ سجدہ تعظیمی کو شریعت محمدی میں "حرام" قرار دیا گیا ہے۔
پھر آپ نے تعظیم کے حوالے سے قرآن میں حضرت موسی علیہ السلام کا واقعہ پڑھا کہ اللہ تعالی نے انہیں طوی کے مقدس مقام پر پہنچ کر تعظیم کے لیے جوتے اتار دینا کا حکم دیا۔

مگر تعظیم فقط ان دو افعال تک محدود نہیں۔
اگر آپ آگے بڑھ کر حدیث نبوی پر آئیں، تو آپ کو تبرکات نبوی اور ذات نبوی ص کی تعظیم کے دیگر بہت سے اور طریقے صحابہ میں مستعمل نظر آئیں گے (اور یہ سب طریقے صحیح روایات سے ثابت ہیں جن کا کسی نے بھی انکار نہیں کیا ہے)
مثلا حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ رسول اللہ ص کے بال اور عبا کو پانی میں دھو کر وہ پانی بیماروں کو پلاتی تھیں تاکہ انہیں انکی برکت سے شفا حاصل ہو اور نظر بد کے خلاف بھی وہ اس پانی کا استعمال کرتی تھیں (صحیح مسلم و بخاری)۔ رسول اللہ ص کی چادر کو بطور کفن استعمال کرنا یا پھر دیگر تبرکات نبوی کو قبر میں اپنے ساتھ لے جانا تاکہ ان تبرکات کی برکت سے نفع ہو۔ تبرکات نبوی کو چومنا، انہیں سر پر رکھنا، انہیں بوسہ دینا۔۔۔ یہ سب چیزیں تعظیم کے وہ افعال ہیں جو بالکل جائز اور حلال ہیں اور اللہ تعالی کی طرف سے سوائے سجدہ تعظیمی کے اور بقیہ تعظیم کے افعال کو کبھی حرام قرار نہیں دیا گیا۔
افسوس کہ آج "توحید" کے نام پر بعض لوگ خود "شریعت ساز" بن بیٹھے ہیں اور شریعت محمدیہ کی اُن چیزوں کو بھی اپنی طرف سے حرام قرار دینا شروع ہو جاتے ہیں جو کہ اللہ نے حرام نہیں ٹہرائیں۔

کیا ہاتھ چومنے، گھٹنے چھونے یا قدم بوسی جیسے تعظیمی افعال کی اجازت ہے؟

البانی صاحب نے ہاتھ چومنے پر اعتراض کیا تھا۔ جواب میں شیخ ہاشم نے اس موضوع پر تفصیلی جواب دیا ہے جس میں گھٹنے چھونے اور قدم چھونے کی روایات اور دلائل بھی ساتھ ہی میں نقل ہو گئی ہیں۔ یہ تمام تر روایات، رسول اللہ ص، صحابہ و تابعین اور پھر مایہ ناز علماء کا اس پر اجتہاد آپ کو اس لنک پر مل جائے گا۔

مثال کے طور پر میں اس آرٹیکل سے صرف چند اقتباس نقل کر رہی ہوں۔

ابن حجر العسقلانی قدم بوسی کے موضوع پر

لوگ امام ابن حجر العسقلانی کو عموما جانتے ہیں۔ مختصرا یہ کہ حدیث کے معاملے میں انکا رتبہ امام بخاری جیسا ہی سمجھا جاتا ہے۔

Umar Ibn Khattab kneeling down in front of Rasool Allah (saw)


Tabari narrates it mursal [missing the Companion-link] through al-Suddi in his Tafsir in commenting on verse 5:101:

"Do not ask of things which once shown to you would hurt you" with the wording: "`Umar ibn al-Khattab got up and kissed the foot of Allah's Messenger and said: O Messenger of Allah, we are pleased with Allah as our Lord, with Islam as our religion, and with Muhammad as our Prophet, and with the Qur'an as our Book. Forgive, and Allah will forgive you (fa`fu `afallahu `anka). And he did not cease until the Prophet softened."

The hadith is established as authentic by the following narrations in Bukhari's Sahih:

al-Zuhri said: Anas bin Malik told me: The Prophet came out after the sun passed the mid-point of the sky and offered the Zuhr prayer (in congregation). After finishing it with Taslim, he stood on the pulpit and mentioned the Hour and mentioned there would happen great events before it. Then he said, "Whoever wants to ask me any question, may do so, for by Allah, you will not ask me about anything but I will inform you of it as long as I am at this place of mine." The people were weeping profusely (because of the Prophet's anger). Allah's Apostle kept saying, "Ask Me! " Then a man got and asked, ''Where will my entrance be, O Allah's Apostle?" The Prophet said, "The Fire." Then `Abd Allah ibn Hudhafa got up and asked, "Who is my father, O Allah's Apostle?" The Prophet replied, "Your father is Hudhafa." The Prophet then kept on saying (angrily), "Ask me! Ask me!" `Umar then fell to his knees and said,"We have accepted Allah as our Lord and Islam as our religion and Muhammad as our Apostle." Allah's Apostle became quiet when `Umar said that. Then Allah's Apostle said, "Woe! By Him in Whose Hand my life is, Paradise and Hell were displayed before me just now, across this wall while I was praying, and I never saw such good and evil as I have seen today."

Bukhari narrates it in the third chapter of Kitab al-i`tisam bi al-kitab wa al-sunna, entitled:

"What is disliked in asking too many questions, and those who take on what does not concern them, and Allah's saying: "Do not ask about things which once shown to you would hurt you" (5:101)"
English: Sahih Bukhari, Volume 9, Book 92, Number 397

The Sahih contains other versions of this hadith such as in Kitab al-`ilm, chapter 28:

"On anger during exhortation" and chapter 29: "On kneeling before the Imam or muhaddith."
English: Sahih Bukhari, Volume 1, Book 3, Number 90-93

And in Kitab mawaqit al-salat, chapter 11:

"The time of Zuhr is after the sun passes the zenith."
Sahih Bukhari, Volume 1, Book 10, Number 515

Ibn Hajar in his commentary on the collated accounts of this hadith says (Fath al-Bari 1989 ed. 13:335):

"There is in this hadith [evidence for]:

  • the Companions' acute observation of the states of the Prophet and the intensity of their fear when he became angry, lest it result in a matter that would become generalized and extend to all of them;
  • `Umar's confidence in the Prophet's love (idlal);
  • the permissibility of kissing the foot of a man;
  • the permissibility of anger in exhortation;
  • the student's kneeling in front of the one who benefits him;
  • the follower's kneeling before the one followed if he asks him for a certain need;
  • the lawfulness of seeking refuge from dissension when something occurs which might result in its foreshadowings;
  • the use of pairing [subjects] in du`a in his words: Forgive, and Allah will forgive you (fa`fu `afallahu `anka)."

میرا سوال:
ہم لوگوں نے بات شروع کی تھی "طاہر القادری صاحب سے پرخاش نہیں" اور اللہ کے نام پر انصاف کرنا ہے۔
میرا سادہ سا سوال یہ ہے کہ آپ اب امام ابن حجر العسقلانی پر وہ الزام کیوں نہیں لگا رہے جو کہ آپ نے طاہر القادری صاحب پر اوپر لگایا ہے؟

امام ابن حجر العسقلانی Ultimate Hadith Master سمجھے جاتے ہیں (حافظ حدیث)۔ اب یہ نہ کیجئے گا کہ انکا رتبہ گرانا شروع کر دیں کیونکہ انکا فتوی ہماری تمناؤں کے خلاف ہے۔ بلکہ سمجھئے کہ وہ کون سی وجوہات ہیں جس کی بنا پر وہ یہ اجتہاد فرما رہے ہیں۔

Umm Aban, daughter of al-Wazi` ibn Zari` narrated that her grandfather Zari` al-`Abdi, who was a member of the deputation of `Abd al-Qays, said: "When we came to Medina, we raced to be first to dismount and kiss the hand and foot of Allah's Apostle..."
References:
  • Abu Dawud narrates it in his Sunan, book of Adab.
  • Imam Bukhari relates from her a similar hadith in his Adab al-mufrad: We were walking and someone said, "There is the Messenger of Allah," so we took his hands and feet and kissed them.
  • Ibn al-Muqri' narrates it in his Kitab al-rukhsa (p. 80 #20), al-Tayalisi in his Musnad, al-Bazzar in his Musnad (3:278),
  • Bayhaqi in the Sunan (7:102),
  • and Ibn Hajar in Fath al-Bari (1989 ed. 11:67 Isti'dhan ch. 28 #6265) said: "Among the good narrations in Ibn al-Muqri's book is the hadith of al-Zari` al-`Abdi." It was declared a fair (hasan) hadith by Ibn `Abd al-Barr, and al-Mundhiri confirmed it in Mukhtasar al-sunan (8:86)


اب ذرا اب ذہن کھول کر سوچئیے کہ اگر واقعی یہ چیز "شرک" ہوتی (ُجیسا کہ آپ لوگوں کے دماغ پہلی پوسٹ پڑھ کر ایک منٹ میں شرک یا جاہلیت کے فتوے تک پہنچ گئے) تو پھر کیسے ممکن ہے کہ بلند پایہ ترین محدثین امام ابو داؤد، امام بخاری، ابن حجر العسقلانی، ابن عبدالبر، المنذری، حافظ ہیثمی وغیرہ اس "شرکیہ جہالت" کو اپنی کتابوں میں نقل کر کے اسے "صحیح" قرار دیتے؟
سوال:
کیا آپ اللہ کے نام پر انصاف کرنے آئے ہیں؟ تو کیا آپ ان ائمہ حدیث پر وہی شرکیہ جہالت کا فتوی جاری کریں گے جو آپ طاہر القادری پر کر رہے ہیں؟

اب اگلی روایت دیکھیں:
From Safwan ibn `Asal al-Muradi: "One of two Jews said to his companion: Take us to this Prophet so we can ask him about Musa's ten signs... [the Prophet replied in full and then] they kissed his hands and feet and said: we witness that you are a Prophet..."
Reference:
1. Narrated by Ibn Abi Shayba (Book of Adab, Chapter entitled A Man Kissing Another Man's Hand When He greets Him),
2. Tirmidhi (Book of Adab) who declared it hasan sahih, al-Nasa'i, Ibn Maja (Book of Adab),
3. and al-Hakim who declared it sahih
امام ابن ابی شیبہ استاد تھے امام بخاری کے۔ امام ترمذی کے تعارف کی ضرورت نہیں اور نہ ہی امام نسائی اور امام ابن ماجہ کے تعارف کی ضرورت ہے۔

اگر یہ چیز واقعی ایسی ہی "شرکیہ جہالت" تھی کہ جس پر پہلی پوسٹ پڑھتے ہیں آپ لوگ پہنچ گئے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ یہ ائمہ حدیث اس شرکیہ جہالت تک نہ پہنچ سکے اور ان چیزوں کو اپنی کتب میں نقل کر کے انہیں صحیح بھی قرار دے رہے ہیں؟
صرف ایک مرتبہ ذہن کھول کر سمجھ لیں کہ ان ائمہ حدیث کا جرم فقط یہ ہے کہ یہ اللہ کی شریعت میں کسی چیز کو اپنی طرف سے حرام نہیں بنا رہے ہیں۔ بلکہ وہی کچھ آگے پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں جو ان تک پہنچا ہے۔

امام مسلم اور امام بخاری
درخواست یہ ہے کہ آپ لوگ خود جا کر اوپر والے لنک پر پورا آرٹیکل پڑھ لیں جہاں بے تحاشہ روایات نقل کی گئی ہیں، اور دیگر اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔
اسی آرٹیکل میں آپ کو امام مسلم کا وہ واقعہ بمع ریفرنسز مل جائے گا جس میں امام مسلم نے امام بخاری کے قدم چومے تھے۔

اختلاف رائے؟؟؟
دو چیزیں ہوتی ہیں۔ صحیح یا غلط ہونا۔۔۔۔۔ اور دوسری چیز ہے "اختلاف رائے"۔
ہمیں ابھی یہ ثبوت دیکھنے ہیں کہ یہ حضرات کس بنیاد پر ان چیزوں کو حرام بیان کرتے ہیں۔ بہرحال، پہلا سوال یہ ہے کہ کیا آپ ان ائمہ حدیث کو اختلاف رائے کا حق دیتے ہیں؟ اور دوسرا سوال آپ ان ائمہ حدیث کو چھوڑ کر براہ راست طاہر القادری صاحب پر کیوں معترض ہو رہے ہیں؟
 

مہوش علی

لائبریرین
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے
یہ رسول اللہ ص کی اپنی زبانی بیان کردہ حدیث ہے۔ سوال: کیا رسول ص کی یہ حدیث منسوخ ہو چکی ہے؟
مجھے پہلی حیرت کا سامنا اُس وقت کرنا پڑا جب باذوق صاحب نے اس حدیث رسول ص کا الٹا ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اعمال کا دارومدار "نیت" پر نہیں بلکہ "ظاہر" پر ہے۔ اور ثبوت کے طور پر حضرت عمر کی ایک روایت پیش کی جس میں آپ دوسرے انسانوں سے معاملات پر ظاہر کی بنیاد پر حکم لگا رہے تھے۔
میں نے اُس وقت بھی باذوق صاحب کو یہ فرق واضح کیا تھا کہ دنیا کے کسی انسان کی روایت رسول اللہ ص کی کسی حدیث کی ناسخ نہیں ہو سکتی۔ اور پھر انہیں واضح کیا تھا کہ رسول اللہ ص کی حدیث اور حضرت عمر کی روایت میں کیا بنیادی فرق ہے اور کیوں یہ ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہیں۔ (میں آگے اس فرق کو پھر بیان کروں گی تاکہ واضح ہو سکے کہ حضرت عمر کی روایت کا حدیث رسول سے کوئی ٹکراؤ نہیں)
اور آج پھر دوبارہ میں باذوق صاحب کی طرف سے اس حدیث رسول پر بعینہ وہی اعتراض اس شکل میں دیکھ رہی ہوں جب وہ طلاق کے مسئلے کو بنیاد بنا کر رسول ص کی اس حدیث کا الٹا ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
از باذوق:
ایک اور مثال لے لیں ۔۔۔۔ طلاق دی جاتی ہے زبان سے
اب کوئی شوہر صاحب ، باقاعدہ طلاق کے کوئی سال بھر بعد یہ نعرہ لگاتے ہوئے طلاق یافتہ بیوی سے زبردستی رجوع کرنا چاہیں
میری نیت تو طلاق دینے کی نہیں‌ تھی !!
تو ۔۔۔۔۔ ؟؟
تو غالباَ اُس وقت یہ واقعہ دیکھ کر ہمارے محمود غزنوی صاحب فرمائیں گے :
اقتباس:
نیّتوں کا حال اللہ کے علم کے سپرد کریں تو خالی خولی عمل رہ جاتا ہے
یعنی طلاق محض ایک خالی خولی عمل ہے !!
طلاق کے بعد بھی اگر نیت ٹھیک ہے ۔۔۔۔ تو جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ;)
واہ ! کیا من موجی شریعت نکال رکھی ہے یار دوستوں نے ، سبحان اللہ !! :)

ایمان و عبادات اور انسانوں سے معاملات میں فرق
ایمان و عبادت اللہ سے براہ راست بندے کا معاملہ ہے۔
منافقین بالکل صحیح ظاہری طریقے سے اللہ کی عبادت کرتے تھے، اور ایسا کرتے تھے کہ انکی "ظاہری" زہد و تقوے و عبادت پر لوگ عش عش کیا کرتے تھے۔ مگر دل سے یہ پھر بھی تھے منافق۔

جہاں تک حضرت عمر کی روایت کا تعلق ہے، یا پھر میاں بیوی میں طلاق کا مسئلہ ہے، تو اسکا تعلق اللہ سے براہ راست نہیں بلکہ یہ انسانوں کے مابین "معاملات" کا مسئلہ ہے۔ اور معاملات میں "نیت" نہیں چلتی بلکہ اس میں ظاہر کی بنیاد پر حکم لگایا جاتا ہے۔ اگر کوئی کسی کو قتل کر دے اور کہے کہ اسکی دل کی نیت نیک تھی تو اس بات کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔

یہ ایک بہت آسان سا فرق ہے۔ مگر "انسانی معاملات" کو بنیاد بنا کر رسول اللہ ص کی حدیث کا الٹ ثابت کرنے کی کوشش کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔

ام المومنین حضرت عائشہ اور انکی بہن حضرت اسماء، اور ام المومنین حضرت ام سلمہ کا "نیت" پر مبنی عبادتی عمل
پہلے یہ دو روایات دیکھیں، اور پھر بتلائیں کہ کیا اس پر آپ ظاہر کی بنیاد پر حکم لگائیں گے:
پہلی روایت:
صحیح مسلم، کتاب اللباس و زینت:
حضرت اسماء کے مولیٰ عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر نے کسروانی طیلسان کا جبہ نکالا جس کے گریبان اور چاکوں پر ریشم کا کپڑا لگا ہوا تھا۔ کہنے لگیں: یہ حضرت عائشہ کے پاس تھا۔ جب وہ فوت ہوئیں تو یہ جبہ میرے قبضے میں آ گیا۔ نبی کریم ﷺ اس کو پہنتے تھے۔ اور اب ہم بیماروں کہ لیے اس کو دھوتے ہیں اور اس (پانی) سے بیماروں کے لیے شفاء طلب کرتے ہیں
صحیح بخاری، کتاب اللباس:
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا کہا ہم سے اسرائیل نے، انہوں نے سلیمان بن عبدااللہ وہب سے کہا مجھ کو میرے گھر والوں نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک پیالی پانی کی دے کر بھجوایا، اسرائیل راوی نے تین انگلیاں بند کر لیں۔ یہ پیالی چاندی کی تھی۔ اس میں آنحضرتﷺ کے کچھ بال ڈال دئے گئے۔ عثمان نے کہا کہ جب کسی شخص کو نظرِ بد لگ جاتی تھی یا اور کوئی بیماری ہوتی تو وہ اپنا کنگھال (برتن) پانی کا بی بی ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجتا (اور بی بی ام سلمہ رسول ﷺ کے بالوں سے مس کیا ہوا پانی اس میں ڈال دیتیں)۔ عثمان نے کہا میں نے اس کو جھانک کر دیکھا تو سرخ سرخ بال دکھائی دئیے
کیا اب بھی کوئی ام المومنین جنابِ عائشہ اور ان کی صحابیہ بہن (ابو بکر کی بیٹی) اسماء بنت ابی بکر اور ام المومنین حضرت ام سلمہ کی گواہی کو جھٹلا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ تو ایک طرف، آپ ﷺ کا کرتہ اور آپ ص کے بال تک اتنے بابرکت تھے کہ مدینے کے صحابہ بیماری کی حالت میں اس سے شفا حاصل کرتے تھے (حالانکہ بیماری سے شفا دینا اصل میں اللہ کا کام ہے۔)

  • کیا ام المومنین عائشہ اور اسماء بنت ابی بکر نے رسول اللہ ﷺ کے اس جبہ سے فائدہ طلب کر کے اس کو اللہ کا شریک بنا دیا؟
  • اور انہوں نے اللہ سے براہ ِراست بیماری سے شفا کیوں نہیں مانگ لی؟

خود سوچیے کہ جب انہوں نے جبہ سے بیماری کے خلاف مدد طلب کی تو کیا یہ مدد حقیقی معنوں میں تھی؟ یا پھر انہوں نے یہ مدد حقیقی معنوں میں اللہ سے ہی طلب کی تھی اور جبہ سے مدد مانگنے کا مطلب صرف اور صرف یہ تھا کہ اس کے وسیلے سے رسول اللہ ﷺ کی برکت بھی شامل ہو جائے جس کے بعد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی مقبولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں؟
انتہائی اہم اصول: ظاہری عمل بمقابلہ چھپی ہوئی نیت


اگرچہ کی جنابِ عائشہ اور اسماء بنت ابی بکر نے رسول ﷺ کے جبہ سے شفا طلب کرتے ہوئے اللہ کا نام تک نہیں لیا، مگر پھر بھی تمام مسلمان (بشمول برادران اہلحدیث) یہ یقین رکہتے ہیں کہ ان دونوں نے ایسا کر کے شرک نہیں کیا ہے۔
اس قسم کے اعمال کو سمجھنے کے دو طریقے ہیں:
  • ظاہری عمل کی بنیاد پر فتویٰ دینا کہ شفا حقیقی معنوں میں رسول ﷺ کے جبہ سے طلب کی جا رہی تھی اور شرک کیا جا رہا تھا۔
  • عمل کے پیچھے چھپی ہوئی باطنی نیت کو دیکہنا جو یہ بتا رہی ہے کہ جبہ سے شفا کے لیے مدد مانگنا مجازی معنوں میں تھا اور اصل مدد حقیقی معنوں میں اللہ سے ہی طلب کی جا رہی تھی۔ اور یہ باطنی نیت وہ چیز ہے جسے عمل کے ظاہر پر فوقیت حاصل ہے اور ہر عمل کا دار و مدار اس کے ظاہر پر نہیں ہے بلکہ اس کی نیت پر ہے۔

اسی لئے رسول ﷺ نے فرمایا:

اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے

مگر آج ایک طبقے نے اسکا بالکل الٹ کیا اور یہ عقیدہ گھڑا کہ:

اعمال کا دارومدار اُن کے ظاہر پر ہے
 

مہوش علی

لائبریرین
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی معظم و مکرم ہستی بنی نوع انسان میں آج تک آئی نہ آئے گی۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کو سجدہ نہیں کروایا اور نہ انسان کو سجدہ کرنے کو جائز قرار دیا تو پھر بحث کاہے کی؟
کیا اسلام کا کوئی پہلو تشنہ رہ گیا تھا کہ جس کی ان تعظیمی سجدوں میں تکمیل کی جا رہی ہے؟۔ بغیر کسی معذرت اور ہچکچاہٹ کے میں ان کو غیر شرعی افعال کہوں گا جو گناہ کے زمرے میں آتے ہیں۔ ہمیں اس قسم کی باتوں سے بچنا چاہئیے کہ ہمارا آج کا "تعظیمی سجدہ" آنے والے کل کا "معبودی سجدہ" نہ بن جائے۔
سجدہ ، عبادت کا ایک اہم رکن ہے اور یہ سوائے اللہ کے کسی اور کے آگے نہیں کیا جا سکتا، خواہ تعظیمی ہو یا حقیقی۔

میں ساجد صاحب کے سوال کے ساتھ ساتھ اس تھریڈ کے متعلق اپنے ریمارکس درج کر رہی ہوں۔

1۔ اختلاف رائے اگرچہ کہ ہمیں قابل قبول ہے۔ لیکن اس تھریڈ میں کم از کم ہاتھ و پاؤں چومنے کے حرام ہونے کے متعلق فریق مخالف کی طرف سے "ایک بھی دلیل" پیش نہیں کی گئی ہے۔
ہمارا اصل مسئلہ کیا ہے؟ کیا اصل مسئلہ طاہر القادری صاحب کی شخصیت پر اعتراض کرنا ہے یا پھر اصل مسئلہ قرآن و سنت کو سمجھنا ہے؟
میرے نزدیک اصل مسئلہ "سب سے پہلے" قرآن و سنت کی روشنی میں ان مسائل کو سمجھنا تھا اور ان سے دلائل لانے تھے۔ بہرحال۔۔۔۔۔

2۔ بغیر کوئی دلیل پیش کیے فریق مخالف اس چیز کو شرکیہ جہالت کہہ تو رہا ہے، اور ان عبادتی افعال اور تعظیمی افعال کے درمیان فرق کو سمجھنے سے گریزاں تو ہے (بلکہ تعظیم کا سرے سے توحید کے نام پر انکار کرنے کی روش اپنائی ہوئی ہے) مگر ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچئیے تو یہ چیز آپ کو دو رخا رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر دے گی (یعنی آج تعظیمی افعال پر آپ ہمارے اوپر تو شرکیہ جہالت کا الزام لگائیں گے، مگر یہی چیز جب پلٹ کر رسول اللہ ص اور صحابہ و سلف پر جائے گی تو آپ لوگ مسلسل نظریں چرانے کے کچھ نہ کر سکیں گے)
میری اچھی نصیحت آپ کو یہ ہی ہو گی کہ:
۔ عبادتی افعال کے نام پر آپ اللہ تعالی کی شریعت میں اللہ کی جانب سے حلال کیے جانے والی تعظیمی افعال کو خود سے حرام نہ بنائیے، بلکہ عبادت اور تعظیم میں فرق کیجئے۔
۔ اور آجکل کو چھوڑیں، صرف اس سوال پر غور کریں کہ اللہ تعالی نے یہ تعظیمی سجدہ شروع ہی کیوں کروایا تھا؟ کیا آپ لوگوں نے کبھی اس سوال پر غور کیا؟ کیا آپ کے پاس اسکا کوئی جواب ہے؟

۔ اللہ تعالی کا نظام ہے کہ وہ اپنی عبادت کے ساتھ ساتھ چاہتا ہے کہ شعائر اللہ کی تعظیم بھی ہو۔ جو چیز بھی اللہ سے منسوب ہو جاتی ہے، وہ شعائر اللہ بن جاتی ہے اور اسکی بے حرمتی کرنا منع ہو جاتا ہے (حتی کہ قرآن میں حج کے دوران لائے جانے والے قربانیوں کے جانوروں تک کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ شعائر اللہ بن گئے اور انکی بے حرمتی نہ کرو۔ اس بے حرمتی نہ کرنے کے مزید احکامات آپکو تفاسیر اور دیگر کتب میں مل جائیں گے)۔

۔ "ذکر" اللہ کا ہے۔ بلاشبہ اس میں کوئی شک نہیں۔ مگر ایک متوازی تھریڈ میں ایک صاحب نے اللہ کے علاوہ کسی اور کی تعریف کرنے کو اُسکی عبادت کرنا قرار دیا ہے۔
اللہ تعالی اسی قرآن میں رسول اللہ ص کے متعلق فرما رہا ہے کہ "و رفعنالک ذکرک" کہ اے رسول ہم نے تمہارا ذکر بلند کیا ہے۔
اب بتلائیے کہ ہم قرآن میں موجود اللہ کے حکم کو مانیں یا پھر کچھ شکوک و شبہات میں گھرے اذہان کے پیش کردہ شریعت کو جس میں بہت سے حلال اللہ کو اپنی طرف سے توحید کے نام پر حرام کر دیا گیا ہے؟

۔ اور آخر میں ایک بات اور۔ کیا آپ کو یاد ہے جب رسول اللہ ص اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ بطور تاجر سفر پر تھے اور راہب بحیرہ نے رسول اللہ ص کو دیکھ کر بطور نمائندہ اللہ پہچان لیا تھا اور نشانیوں میں بتلایا تھا کہ وہ چرند پرند و درختوں کو دیکھ رہا ہے کہ وہ رسول اللہ ص کے سامنے سجدہ تعظیمی میں جھکے ہوئے ہیں۔
سجدہ تعظیمی شریعت محمدیہ میں مسلمانوں کے لیے تو حرام قرار دیا گیا ہے، مگر دنیا کی باقی مخلوقات پھر بھی رسول اللہ کے آگے تعظیم میں سجدہ ریز رہیں۔

۔ ایک حدیث رسول کہتی ہے کہ سجدہ تعظمیمی حرام ہے تو ہم اور آپ آگے بڑھ کر اسے مان لیتے ہیں۔
۔ مگر جب حدیث رسول کہتی ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے تو آپ کو اسے ماننے میں پس و پیش ہے۔ کیوں؟
۔ پھر یہی حدیث رسول کہتی ہے کہ تعظیم کے بقیہ افعال ہاتھ وغیرہ چومنا حلال ہیں تو پھر آپ اسکو ماننے میں تذبذب ہیں۔ کیوں؟

طاہر القادری صاحب کی ویڈیو میں مجھے ذاتی طور پر قدم بوسی کے معاملے سے زیادہ اختلاف لوگوں کے اُس طرح ناچنے اور دھمال ڈالنے پر ہوا تھا۔ اگر اس پر آپ نے اعتراض کیا ہوتا تو شاید میں آپکی ہمنوا ہوتی۔ مگر جس غلط طریقے سے طاہر القادری صاحب پر قدم بوسی کے نام پر شرکیہ افعال کے الزامات لگائے گئے ہیں، میں ان سے اپنی براۃ ظاہر کرتی ہوں کیونکہ مجھے اللہ کے بنائے ہوئے نظام میں اسکی مرضی سے عمل کرنا ہے، نہ کہ "توحید" کے نام پر اللہ کی شریعت کے حلال کو حرام بنانا ہے۔
 

باذوق

محفلین
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے
یہ رسول اللہ ص کی اپنی زبانی بیان کردہ حدیث ہے۔ سوال: کیا رسول ص کی یہ حدیث منسوخ ہو چکی ہے؟
مجھے پہلی حیرت کا سامنا اُس وقت کرنا پڑا جب باذوق صاحب نے اس حدیث رسول ص کا الٹا ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اعمال کا دارومدار "نیت" پر نہیں بلکہ "ظاہر" پر ہے۔ اور ثبوت کے طور پر حضرت عمر کی ایک روایت پیش کی جس میں آپ دوسرے انسانوں سے معاملات پر ظاہر کی بنیاد پر حکم لگا رہے تھے۔
میں نے اُس وقت بھی باذوق صاحب کو یہ فرق واضح کیا تھا کہ دنیا کے کسی انسان کی روایت رسول اللہ ص کی کسی حدیث کی ناسخ نہیں ہو سکتی۔ اور پھر انہیں واضح کیا تھا کہ رسول اللہ ص کی حدیث اور حضرت عمر کی روایت میں کیا بنیادی فرق ہے اور کیوں یہ ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہیں۔ (میں آگے اس فرق کو پھر بیان کروں گی تاکہ واضح ہو سکے کہ حضرت عمر کی روایت کا حدیث رسول سے کوئی ٹکراؤ نہیں)
اور آج پھر دوبارہ میں باذوق صاحب کی طرف سے اس حدیث رسول پر بعینہ وہی اعتراض اس شکل میں دیکھ رہی ہوں جب وہ طلاق کے مسئلے کو بنیاد بنا کر رسول ص کی اس حدیث کا الٹا ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
[/b]
مہوش ! آپ یقیناً میری بات کو غلط کوٹ کر رہی ہیں۔
لیکن خیر ۔۔۔۔۔ میں اس پر احتجاج بھی نہیں کروں گا ، کیونکہ مجھے ہی نہیں یہاں تقریباً سب کو علم ہے کہ آپ جب جذباتی ہوتی ہیں تو کیا کیا غلطیاں کر جاتی ہیں۔ :)

یہاں دیکھئے ! میں نے یوں لکھا تھا :
اعمال کا دارومدار نیت پر ہے:
اگرچہ یہ بات سو فیصد درست ہے ، تاہم اس کا مطلب وہ نہیں جو یہاں باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وجہ یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔
بعض اعمال ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں نیت کچھ بھی ہو ، ہمیشہ ظاہر کو ہی دیکھا جاتا ہے۔ مثلا ً طلاق دینے والے کی نیت چاہے کچھ بھی کیوں نہ ہو۔ حتیٰ کہ اگر اس کی نیت طلاق دینے کی نہ بھی ہو، صرف ہنسی مذاق کے طور پر ہی وہ طلاق کے الفاظ کہہ دے تو طلاق ہو جاتی ہے۔
ثابت ہوا کہ "انما الاعمال بالنیات" طلاق کے مسئلے میں لاگو نہیں ہے۔

جبکہ آپ یوں میرے ذمے سارے ہی اعمال لگا رہی ہیں
جب باذوق صاحب نے اس حدیث رسول ص کا الٹا ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اعمال کا دارومدار "نیت" پر نہیں بلکہ "ظاہر" پر ہے۔

مزید ، آپ نے لکھا ہے :
ایمان و عبادات اور انسانوں سے معاملات میں فرق
ایمان و عبادت اللہ سے براہ راست بندے کا معاملہ ہے۔
جہاں تک حضرت عمر کی روایت کا تعلق ہے، یا پھر میاں بیوی میں طلاق کا مسئلہ ہے، تو اسکا تعلق اللہ سے براہ راست نہیں بلکہ یہ انسانوں کے مابین "معاملات" کا مسئلہ ہے۔ اور معاملات میں "نیت" نہیں چلتی بلکہ اس میں ظاہر کی بنیاد پر حکم لگایا جاتا ہے۔ اگر کوئی کسی کو قتل کر دے اور کہے کہ اسکی دل کی نیت نیک تھی تو اس بات کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔
ایمان تو تب تک مکمل نہیں ہوگا جب آپ دل کی نیت کے ساتھ زبان سے بھی اقرار نہ کریں۔ زبان سے اقرار کرنا کیا آپ کا اپنا ظاہری عمل نہیں ہوگا جو سارے لوگ دیکھیں / سنیں گے؟
عبادات میں بھی ظاہری اعمال کی اہمیت ہوگی جیسا کہ فرمانِ نبوی ہے :
اللہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے ۔
صحیح مسلم ، كتاب البر والصلة والآداب ، باب : تحريم ظلم المسلم وخذله واحتقاره ودمه وعرضه وماله ، حدیث : 6708

نماز میں رکوع ، سجود ، قیام ۔۔۔۔۔ کیا یہ سب ظاہری اعمال نہیں ہیں؟ کوئی کسی جگہ ہاتھ باندھے ٹھہرے رہے تو اس کو بھی آپ نمازی کہیں گی اور اس فرد کو بھی جو نماز کے ظاہری ارکان کے ساتھ نماز ادا کر رہا ہو؟؟

اگر کسی بندے کے مذہب کا آپ کو علم نہ ہو اور اگر وہ کسی مندر میں بتوں کے آگے سجدہ ریز نظر آئے تو آپ اس کو "مشرک" اس کے ظاہری عمل کو دیکھ کر کہیں گی یا اس سے اس کے دل کی نیت کو جان کر؟؟

باقی آپ جو تبرکات کی مثالیں ایک عرصہ دراز سے پیش کرتی آ رہی ہیں ۔۔۔۔۔ اس کا ہزار بار جواب دے چکا ہوں میں۔ آپ تبرکاتِ نبوی کو دلیل نہ بنائیں۔ معجزات کبھی شرعی قوانین کی بنیاد نہیں بنتے۔ اگر بنتے تو پھر بئر معونہ کے ستر قاری شہید نہ ہوتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جبہ مبارک کا ایک ایک ٹکڑا اپنی اپنی بانہہ پر باندھ کر جاتے۔
تبرکات کا معاملہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ خاص تھا۔ علامہ البانی علیہ الرحمة کا درج ذیل قول میں پہلے بھی یہاں دے چکا ہوں اور اس پر ہم تفصیل سے بات کر چکے ہیں لہذا یہ ایشو یہاں اٹھائیں ہی مت۔
اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آثار سے تبرک حاصل کرنا ہمارے نزدیک جائز ہے اور ہم اس کا انکار نہیں کرتے ہیں جیسا کہ بعض لوگ ہمارے بارے میں گمان کرتے ہیں۔ لیکن اس تبرک کے لیے کچھ شرطیں ہیں ، ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ ایمان شرعی ہو ، لہذا جو سچا مسلمان نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو اس تبرک سے کوئی چیز عطا نہیں کرے گا۔
دوسری شرط یہ ہے کہ تبرک کا طلب کرنے والا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آثار میں سے کسی اثر کو حقیقت میں پا جائے اور اس کو استعمال کرے ، لیکن ہم یہ بات جانتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) کے آثار جیسے کہ کپڑا ، بال وغیرہ مفقود ہیں اور کوئی یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کپڑا یا بال ہے۔ لہذا ان آثار سے اس زمانے میں تبرک حاصل کرنا بےمعنی اور بےموضوع بات ہے اور یہ صرف ایک خیالی معاملہ ہے ، لہذا اس بارے میں مزید گفتگو مناسب نہیں !
 

باذوق

محفلین
السلام علیکم

اس تھریڈ کے مراسلہ نمبر:11 میں ایک عنوان یوں دیا گیا ہے :
ابن حجر العسقلانی قدم بوسی کے موضوع پر
اور اس کے بعد اس سائیٹ (Kissing the hand of a scholar is Sunna) کا مواد یوں نقل کیا گیا ہے :
***
Umar Ibn Khattab kneeling down in front of Rasool Allah (saw)


Tabari narrates it mursal [missing the Companion-link] through al-Suddi in his Tafsir in commenting on verse 5:101:

"Do not ask of things which once shown to you would hurt you" with the wording: "`Umar ibn al-Khattab got up and kissed the foot of Allah's Messenger and said: O Messenger of Allah, we are pleased with Allah as our Lord, with Islam as our religion, and with Muhammad as our Prophet, and with the Qur'an as our Book. Forgive, and Allah will forgive you (fa`fu `afallahu `anka). And he did not cease until the Prophet softened."

The hadith is established as authentic by the following narrations in Bukhari's Sahih:

al-Zuhri said: Anas bin Malik told me: The Prophet came out after the sun passed the mid-point of the sky and offered the Zuhr prayer (in congregation). After finishing it with Taslim, he stood on the pulpit and mentioned the Hour and mentioned there would happen great events before it. Then he said, "Whoever wants to ask me any question, may do so, for by Allah, you will not ask me about anything but I will inform you of it as long as I am at this place of mine." The people were weeping profusely (because of the Prophet's anger). Allah's Apostle kept saying, "Ask Me! " Then a man got and asked, ''Where will my entrance be, O Allah's Apostle?" The Prophet said, "The Fire." Then `Abd Allah ibn Hudhafa got up and asked, "Who is my father, O Allah's Apostle?" The Prophet replied, "Your father is Hudhafa." The Prophet then kept on saying (angrily), "Ask me! Ask me!" `Umar then fell to his knees and said,"We have accepted Allah as our Lord and Islam as our religion and Muhammad as our Apostle." Allah's Apostle became quiet when `Umar said that. Then Allah's Apostle said, "Woe! By Him in Whose Hand my life is, Paradise and Hell were displayed before me just now, across this wall while I was praying, and I never saw such good and evil as I have seen today."

Bukhari narrates it in the third chapter of Kitab al-i`tisam bi al-kitab wa al-sunna, entitled:

"What is disliked in asking too many questions, and those who take on what does not concern them, and Allah's saying: "Do not ask about things which once shown to you would hurt you" (5:101)"
English: Sahih Bukhari, Volume 9, Book 92, Number 397

The Sahih contains other versions of this hadith such as in Kitab al-`ilm, chapter 28:

"On anger during exhortation" and chapter 29: "On kneeling before the Imam or muhaddith."
English: Sahih Bukhari, Volume 1, Book 3, Number 90-93

And in Kitab mawaqit al-salat, chapter 11:

"The time of Zuhr is after the sun passes the zenith."
Sahih Bukhari, Volume 1, Book 10, Number 515

Ibn Hajar in his commentary on the collated accounts of this hadith says (Fath al-Bari 1989 ed. 13:335):

"There is in this hadith [evidence for]:

* the Companions' acute observation of the states of the Prophet and the intensity of their fear when he became angry, lest it result in a matter that would become generalized and extend to all of them;
* `Umar's confidence in the Prophet's love (idlal);
* the permissibility of kissing the foot of a man;
* the permissibility of anger in exhortation;
* the student's kneeling in front of the one who benefits him;
* the follower's kneeling before the one followed if he asks him for a certain need;
* the lawfulness of seeking refuge from dissension when something occurs which might result in its foreshadowings;
* the use of pairing [subjects] in du`a in his words: Forgive, and Allah will forgive you (fa`fu `afallahu `anka)."
***
اس کے بعد سسٹر مہوش علی "میرا سوال" کے عنوان کے تحت یوں رقمطراز ہیں :
ہم لوگوں نے بات شروع کی تھی "طاہر القادری صاحب سے پرخاش نہیں" اور اللہ کے نام پر انصاف کرنا ہے۔
میرا سادہ سا سوال یہ ہے کہ آپ اب امام ابن حجر العسقلانی پر وہ الزام کیوں نہیں لگا رہے جو کہ آپ نے طاہر القادری صاحب پر اوپر لگایا ہے؟

امام ابن حجر العسقلانی Ultimate Hadith Master سمجھے جاتے ہیں (حافظ حدیث)۔ اب یہ نہ کیجئے گا کہ انکا رتبہ گرانا شروع کر دیں کیونکہ انکا فتوی ہماری تمناؤں کے خلاف ہے۔ بلکہ سمجھئے کہ وہ کون سی وجوہات ہیں جس کی بنا پر وہ یہ اجتہاد فرما رہے ہیں۔
سب سے پہلے تو میری ادباً گذارش ہے کہ کاپی پیسٹ کرنے والوں کے پاس اگر تحقیق کے لیے وقت اور قوت میسر نہیں ہے تو اپنا فلسفہ بیان کرنے سے قبل کم سے کم حوالہ دی گئی کتاب سے اصل متن ہی چیک کرنے کی زحمت اٹھا لیا کریں۔ اس طرح وہ کم سے کم بند آنکھوں کی تقلید کے الزام سے تو بچ جائیں گے۔

خیر۔ قارئین سے میری گذارش ہے کہ بالا اقتباس میں ذرا غور سے شیخ ھشام کی تحقیق سلسلہ وار ملاحظہ فرمائیں۔
1: سب سے پہلے شیخ محترم نے طبری کی مرسل روایت پیش کی
2: اس کے بعد یوں لکھا :
The hadith is established as authentic by the following narrations in Bukhari's Sahih
3: پھر صحیح بخاری کی کتاب الاعتصام ، کتاب العلم اور کتاب مواقیت الصلاة سے احادیث پیش کیں۔
4: اختتام پر یوں نتیجہ برآمد کیا :
Ibn Hajar in his commentary on the collated accounts of this hadith says (Fath al-Bari 1989 ed. 13:335):
5: اور سب سے آخر میں وہ 8 مسائل ذکر کئے جو کہ بقول مہوش علی ، ابن حجر عسقلانی کا فتویٰ ہیں۔

فتح الباری کوئی معمولی کتاب نہیں کہ نیٹ پر مل نہ سکے۔ اس ربط پر فتح الباری کا وہ مواد ملاحظہ فرمائیں جس کا حوالہ شیخ ھشام نے دیا ہے :
[ARABIC]قوله ‏(‏فقال‏:‏ انا نتوب الى الله عز وجل‏)‏ زاد في رواية الزهري ‏"‏ فبرك عمر على ركبته فقال‏:‏ رضينا بالله ربا وبالاسلام دينا وبمحمد رسولا ‏"‏ وفي رواية قتادة من الزيادة ‏"‏ نعوذ بالله من شر الفتن ‏"‏

وفي مرسل السدي عند الطبري في نحو هذه القصة ‏"‏ فقام اليه عمر فقبل رجله وقال‏:‏ رضينا بالله ربا‏"‏‏.‏
فذكر مثله وزاد ‏"‏ وبالقران اماما، فاعف عفا الله عنك فلم يزل به حتى رضي ‏"‏
وفي هذا الحديث غير ما يتعلق بالترجمة،
مراقبة الصحابة احوال النبي صلى الله عليه وسلم وشدة اشفاقهم اذا غضب، خشية ان يكون لامر يعم فيعمهم، وادلال عمر عليه، وجواز تقبيل رجل الرجل، وجواز الغضب في الموعظة، وبروك الطالب بين يدي من يستفيد منه، وكذا التابع بين يدي المتبوع اذا ساله في حاجة، ومشروعية التعوذ من الفتن عند وجود شيء قد يظهر منه قرينة وقوعها، واستعمال المزاوجة في الدعاء في قوله ‏"‏ اعف عفا الله عنك ‏"‏ والا فالنبي صلى الله عليه وسلم معفو عنه قبل ذلك‏.‏
[/ARABIC]
امام زھری کی روایت جس میں انہوں نے کہا :
[ARABIC]فبرك عمر على ركبته فقال‏:‏ رضينا بالله ربا وبالاسلام دينا وبمحمد رسولا[/ARABIC]
حضرت عمر نے دو زانو ہو کر عرض کیا : ہم اللہ کے رب ہونے پر ، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد کے نبی ہونے پر راضی ہیں
صحیح بخاری کتاب الاعتصام میں یہاں دیکھئے
اور قتادہ کے الفاظ :
[ARABIC]نعوذ بالله من شر الفتن[/ARABIC] (ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں فتنوں کے شر سے)
صحیح بخاری کتاب الفتن میں یہاں دیکھیں۔

اس کے بعد امام ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں :
اسی کے ساتھ ملتا جلتا مرسل واقعہ طبرانی میں بھی السدی کے حوالے سے موجود ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو ئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کو چوما اور کہا کہ ہم اللہ کے رب ہونے پر راضی ہو گئے ۔۔۔
اور مزید کہا کہ قرآن کے امام ہونے پر (راضی ہو گئے) آپ مجھ سے درگزر فرمائیے اللہ آپ سے درگزر فرمائے گا ۔ اسی حالت میں ہی رہے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہوگئے ۔

[ARABIC]وفي هذا الحديث غير ما يتعلق بالترجمة[/ARABIC]
اور اس حدیث میں جو باتیں ترجمة الباب سے متعلقہ نہیں ہیں وہ یہ ہیں:
[ARABIC]مراقبة الصحابة احوال النبي صلى الله عليه وسلم وشدة اشفاقهم اذا غضب، خشية ان يكون لامر يعم فيعمهم، [/ARABIC]
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع رہنا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے ہو جائیں تو انکا بہت زیادہ ڈرنا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ کسی عمومی کام کی بناء پر نہ ہو جسکی بنا پر وہ سب سے ناراض ہو جائیں۔
[ARABIC]وادلال عمر عليه، [/ARABIC]
عمر رضی اللہ عنہ کا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کو منانے کی جراءت کرنا
[ARABIC]وجواز تقبيل رجل الرجل، [/ARABIC]
اور قدم بوسی کا جائز ہونا۔
[ARABIC]وجواز الغضب في الموعظة، [/ARABIC]
وعظ کے دوران غضبناک یا جذباتی ہونے کا جواز۔
[ARABIC]وبروك الطالب بين يدي من يستفيد منه، [/ARABIC]
طالب علم کا استاذ کے سامنے ادب کے ساتھ دو زانو ہونا۔
[ARABIC]وكذا التابع بين يدي المتبوع اذا ساله في حاجة،[/ARABIC]
اسی طرح جب ماتحت کسی ضرورت کے بارے میں سوال کرے تو اپنے متبوع کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھے
[ARABIC]ومشروعية التعوذ من الفتن عند وجود شيء قد يظهر منه قرينة وقوعها، [/ARABIC]
مستحب ہے فتنوں سے پناہ طلب کرنا جب کوئی ایسی چیز وجود میں آئے جس سے فتنے کے واقع ہونے کا قرینہ ملے
[ARABIC]واستعمال المزاوجة في الدعاء في قوله ‏"‏ اعف عفا الله عنك ‏"‏ والا فالنبي صلى الله عليه وسلم معفو عنه قبل ذلك‏.‏[/ARABIC]
دعا میں دونوں جانبین کا ذکر کرنا جیسا کہ عمر کا کہنا " اُعْفُ عَفَا اللَّه عَنْك " ورنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو پہلے ہی معفو یعنی بخشے ہوئے ہیں۔

اب فتح الباری کی اوپر والی اصل عبارت کو غور سے دیکھیں اور بتائیں کہ وہ الفاظ کہاں ہیں جس کے ترجمے کے طور پر شیخ ھشام نے یوں لکھا :
The hadith is established as authentic by the following narrations in Bukhari's Sahih:
( یہ حدیث بخاری کی ذیل کی روایات کی بنا پر مصدقہ قرار پاتی ہے )

جبکہ فتح الباری میں تو امام عسقلانی کے الفاظ صرف اتنے ہیں :
[ARABIC]وفي مرسل السدي عند الطبري في نحو هذه القصة[/ARABIC]
اسی کے ساتھ ملتا جلتا مرسل واقعہ طبرانی میں بھی السدی کے حوالے سے موجود ہے

اس بات پر بھی غور کریں کہ امام عسقلانی نے پہلے بخاری کی روایات پیش کیں پھر لکھا کہ اس سے ملتا جلتا مرسل واقعہ الطبری میں بھی ہے

جبکہ شیخ ھشام پہلے طبری کے مرسل واقعے کو پیش کر رہے ہیں اور اس کو معتبر و مستند قرار دینے کے لئے (شائد اپنی طرف سے) کہہ رہے ہیں :
The hadith is established as authentic by the following narrations in Bukhari's Sahih:

کیوں ؟؟
یقیناً اس لیے کہ شیخ ھشام کو معلوم ہے کہ محدثین اور محققین کے نزدیک "مرسل حدیث" ضعیف اور مردود ہوتی ہے۔ یہ علوم حدیث کا وہ عام سا اصول ہے جو ہر طالب علم جانتا ہے۔
یقین نہ آئے تو علوم حدیث پر محمود طحان کی کتاب دیکھ لیں ، جس کا سلیس اردو ترجمہ یہاں آن لائن مہیا کیا گیا ہے ، لکھا ہے :
مرسل حدیث کو مسترد کیا جائے گا۔ محدثین، فقہاء اور اصول فقہ کے ماہرین کی اکثریت کا یہی نقطہ نظر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں صحیح حدیث کی شرائط میں سے اتصال سند کی شرط موجود نہیں ہے۔ جو راوی حذف کیا گیا ہے، ہمیں اس کے حالات کا علم نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ صحابی نہ ہو اور ضعیف ہو۔

ممکن ہے ۔۔۔۔ کوئی اٹھ کر کہہ دے کہ :
مرسل حدیث صحیح ہے اور اس سے نتائج اخذ کیے جائیں گے۔ یہ تین بڑے ائمہ یعنی ابو حنیفہ، مالک اور احمد بن حنبل کا نقطہ نظر ہے۔

تو عرض ہے کہ ان تینوں ائمہ نے مرسل حدیث کی قبولیت اس شرط سے مشروط کی ہے کہ :
مرسل حدیث صرف ثقہ راوی سے ہی روایت کی گئی ہو۔

جبکہ امام عسقلانی طبری کی جو روایت پیش کر رہے ہیں وہ السدی سے مروی ہے۔ جرح و تعدیل کی کتب چھان لیجئے ، ہر جگہ آپ کو یہی لکھا ملے گا کہ السدی محدثین کے نزدیک دجال اور کذاب ہے۔

یہ سب بھی جانے دیں ۔۔۔ آئیے ذرا امام عسقلانی سے ہی معلوم کر لیتے ہیں کہ شیخ ھشام جس "مرسل روایت" کو امام صاحب کے حوالے سے "مستند (authentic)" قرار دینے کی عطیم ترین کوشش فرما رہے ہیں ، خود امام صاحب کے نزدیک "مرسل روایت" کیا معنی رکھتی ہے؟؟

حافظ ابن حجر العسقلانی نے علوم حدیث پر تحریر کردہ اپنے کتابچہ "نخبة الفكر في مصطلح اهل الاثر" میں مرسل روایت کو نہایت واضح طور سے "مردود" کہا ہے۔

اب اس کے بعد بھی کوئی مرسل روایت کو حافظ صاحب کے حوالے سے "مستند" قرار دینے کی کوشش کرے تو یہ بےشرمی اور ہٹ دھرمی ہی نہیں بلکہ ظلم ہے۔

آخر میں مہوش علی کے سوال کا جواب :
میرا سادہ سا سوال یہ ہے کہ آپ اب امام ابن حجر العسقلانی پر وہ الزام کیوں نہیں لگا رہے جو کہ آپ نے طاہر القادری صاحب پر اوپر لگایا ہے؟

امام ابن حجر العسقلانی Ultimate Hadith Master سمجھے جاتے ہیں (حافظ حدیث)۔ اب یہ نہ کیجئے گا کہ انکا رتبہ گرانا شروع کر دیں کیونکہ انکا فتوی ہماری تمناؤں کے خلاف ہے۔ بلکہ سمجھئے کہ وہ کون سی وجوہات ہیں جس کی بنا پر وہ یہ اجتہاد فرما رہے ہیں۔
محترمہ ! حافظ ابن حجر العسقلانی پر الزام ہم اس لیے نہیں لگاتے کہ انہوں نے ایسا کوئی فتویٰ دیا ہی نہیں جس کی بنیاد صحیح احادیث یا آثار پر ہو۔ اگر آپ کی نظر میں حافظ صاحب کا ایسا کوئی فتویٰ ہو جس کی بنیاد صحیح احادیث پر قائم ہوں تو براہ مہربانی پیش فرمائیں۔
اور یہ تو آپ کا ظلم ہے بچارے حافظ صاحب پر ، جو آپ زبردستی چند اقوال کو حافظ صاحب کے فتوے کے طور پر پیش کر رہی ہیں۔

جو محدث ، مرسل حدیث کو قابل احتجاج ہی نہ جانے ، وہ کیسے اس کی بنیاد پر فتویٰ دے سکتا ہے؟؟

ہاں یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ :
جو محدث کسی روایت کو ضعیف سمجھے ، وہ کیونکر اسے پیش کرتا ہے اور کیوں اس سے مسائل اخذ کرتا ہے؟ جیسا کہ پاؤں چومنے کی اس السدی والی روایت کا معاملہ ہے۔

تو اس کا جواب آسان ہے کہ یہ اکثر محدثین کا طرز ہے۔
جب بھی کوئی محدث کسی بھی حدیث پر کسی باب کا عنوان قائم کرتا ہے یا اس حدیث میں مذکور مسائل کا استنباط کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہوتا کہ مستنبط شدہ مسائل یا ترجمة الباب اس محدث کا فتویٰ ہے۔
ذیل میں اس کی دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں :

امام ابوداؤد علیہ الرحمة نے سنن ابی داؤد کی کتاب الطہارة میں ایک روایت یوں پیش کی ہے :
حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء کو جاتے تو انگوٹھی نکال لیتے۔
اور اس روایت پر امام صاحب نے باب کا عنوان دیا ہے :
[ARABIC]باب الخاتم يكون فيه ذكر الله يدخل به الخلاء[/ARABIC]
باب : جس انگوٹھی پر اللہ کا نام ہو بیت الخلا میں اس کو نہ لے جائے

حالانکہ ۔۔۔۔ یہی حدیث بیان کرنے کے بعد امام ابو داؤد خود لکھتے ہیں :
یہ حدیث منکر ہے !

اسی طرح ۔۔۔ امام ترمذی علیہ الرحمة نے، جامع ترمذی کی کتاب الصیام میں ایک روایت یوں دی ہے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کسی قوم کے ہاں مہمان بن کر پہنچے تو ان کی اجازت کے بغیر ہرگز روزہ (نفل) نہ رکھے۔
اور اس روایت پر امام صاحب نے باب کا عنوان دیا ہے :
[ARABIC]باب ما جاء فيمن نزل بقوم فلا يصوم إلا بإذنهم[/ARABIC]
باب : اس بیان میں کہ جو شخص کسی قوم میں اُترے تو ان سے پوچھے بنا روزہ نہ رکھے

مگر ۔۔۔۔ یہی حدیث بیان کرنے کے بعد امام ترمذی خود لکھتے ہیں :
یہ حدیث منکر ہے !

احکام کے جواز اور عدم جواز میں تفریق ، کسی باب کا اثبات اور دوسرے کا ردّ ، کسی روایت کے افضل یا غیر افضل ہونے کا بیان ۔۔۔۔۔۔ ایسی کئی دیگر وجوہات ممکن ہیں جن کے سبب ضعیف روایات پیش کی جاتی ہیں ، ان کے ابواب قائم کئے جاتے ہیں یا ان سے مسائل اخذ کئے جاتے ہیں۔

اب یہ تو ناقد یا طالب علم کی بصیرت پر منحصر ہے کہ وہ اپنے فہم سے اس بات کو سمجھے کہ :
جس دلیل سے قدم بوسی کا جواز نکلتا ہو یا اس سے دیگر مسائل اخذ کئے جا سکتے ہوں ، وہی روایت اگر پایہ ثبوت کو نہ پہنچے تو پھر یہ دلیل اور اس دلیل سے اخذ کئے جانے والے سارے ہی مسائل کالعدم ہیں !!

اور یہ کہنا کہ : کسی ضعیف روایت سے اخذ شدہ مسائل ، محدث کا اپنا فتویٰ ہوتا ہے ، اگر کہنے والے کی لاعلمی یا کم علمی نہیں تو پھر یہ درحقیقت محدثین کی عظیم خدمات پر رکیک اور واہیات الزام ہے !!
 
سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 1656 حدیث مرفوع مکررات 2
عبید اللہ بن معاذ، کہمس، سیار، بن منظور، حضرت بہیسہ رضی اللہ عنہ اپنے والد کے متعلق روایت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کی خدمت میں حاضری کی اجازت چاہی جب آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قمیص اٹھا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بدن مبارک چومنے لگے اور (جوش مسرت میں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لپٹنے لگے پھر عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ کیا چیز ہے جس کا روکنا درست نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پانی، اسکے بعد پھر پوچھا کہ یا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ کیا چیز ہے جسکا روکنا درست نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نمک، اسکے بعد پھر پوچھا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ کیا چیز ہے جسکا روکنا درست نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو جتنی بھی نیکی کرے گا وہ تیرے حق میں بہتر ہی ہوگی۔

سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 81 حدیث مرفوع مکررات 2
عبید اللہ بن معاذ، کہمس، سیار بن منظور، بنی فزارہ، خاتون اپنے والد سے روایت کرتی ہیں کہ میرے والد نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت مانگی، اور اجازت ملنے کے بعد آپ کی قمیص مبارک کے اندر منہ داخل کیا اور آپ کے جسم مبارک کو چومنے اور چاٹنے لگا پھر کہنے لگے اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس چیز کا روکنا نا جائز ہے، فرمایا کہ پانی، پھر کہا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ کون سی چیز ہے جس کا روکنا نا جائز ہے؟ آپ نے فرمایا کہ نمک پھر کہا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کون سی چیز روکنا جائز نہیں ہے؟ آپ نے فرمایا کہ تم جتنی بھی نیکی کرتے رہو اتنا ہی تمہارے لئے بہتر ہے۔

سنن نسائی:جلد سوم:حدیث نمبر 380 حدیث مرفوع مکررات 4
محمد بن العلاء، ابن ادریس، شعبہ، عمرو بن مرة، عبداللہ بن سلمہ، صفوان بن عسال سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ چلو اس نبی کے پاس چلیں (یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس چلیں)۔ دوسرے شخص نے کہا اس کو نبی نہ کہو کیونکہ اگر اس نے (یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے) سن لیا تو ان کی آنکھیں چار ہو جائیں گی (یعنی حد سے زیادہ خوش ہو جائیں گے اور کہیں گے کہ لو اب مجھ کو یہود بھی نبی تسلیم کرنے لگے۔ بہر حال) پھر وہ دونوں حضرات رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا کہ وہ نو آیات کیا ہیں (جو کہ خداوند قدوس نے حضرت موسیٰ کو عطا فرمائی تھیں جیسا کہ فرمایا گیا (وَلَقَد اٰتَینَا مُوسٰی تِسْعِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم خداوند قدوس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور چوری نہ کرو اور زنا نہ کرو اور خداوند قدوس نے جس جان کو حرام کیا ہے (یعنی جس کا خون حرام قرار دیا ہے) اس کو ناحق قتل نہ کرو اور تم بے قصور آدمی کو حاکم یا بادشاہ کے پاس نہ لے جا (اس کو ناحق سزا دلانے کے لیے) اور تم جادو نہ کرو اور سود نہ کھاؤ اور پاک دامن خاتون پر تہمت زنا نہ لگا اور جہاد کے دن راہ فرار اختیار نہ کرو (بلکہ دشمن کا جم کر مقابلہ کرو) یہ احکام نوہیں اور ایک حکم خاص تم لوگوں کے لیے ہے کہ تم ہفتہ والے دن ظلم زیادتی نہ کرو (مراد یہ ہے کہ وہ دن حرمت کا دن ہے اس کی پوری طرح عظمت برقرار رکھو) اور اس روز مچھلیوں کا شکار نہ کرو (کیونکہ ہفتہ کا دن یہود کے شکار کرنے کے واسطے مقرر کیا گیا تھا کتب تفسیر میں اس کی صراحت ہے) یہ باتیں سن کر ان دونوں یہودیوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک چوم لیے اور کہا کہ ہم شہادت دیتے ہیں کہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا تو پھر لوگ میری کس وجہ سے فرماں برداری نہیں کرتے؟ انہوں نے جواب دیا حضرت داؤد نے دعا فرمائی تھی کہ ہمیشہ ان کی اولاد میں سے ہی نبی بنا کریں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت داؤد کی اولاد میں سے نہیں ہیں یہ صرف ایک بہانہ تھا حضرت داؤد نے خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نبی ہونے کی خوش خبری دی ہے اور ہم کو اندیشہ ہے کہ اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کریں گے تو یہود ہم کو قتل کر دیں گے۔

جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 629 حدیث مرفوع مکررات 4
ابوکریب، عبداللہ بن ادریس و ابواسامة، شعبة، عمرو بن مرة، عبداللہ بن سلمة، حضرت صفوان بن عسال فرماتے ہیں کہ ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا کہ چلو میرے ساتھ اس نبی کے پاس چلو۔ اس کے ساتھی نے کہا نبی نہ کہو کیونکہ اگر انہوں نے سن لیا تو خوشی سے ان کی آنکھیں چار ہو جائیں گی۔ وہ دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نو نشانیوں کے متعلق پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ یہ ہیں کہ اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، چوری نہ کرو، زنا نہ کرو، ایسے شخص کو قتل نہ کرو جسے قتل کرنا حرام ہے، بے قصور شخص کو حاکم کے پاس نہ لے جاؤ تاکہ وہ اسے قتل کرے (یعنی تہمت وغیرہ لگا کر) جادو نہ کرو، سود نہ کھاؤ، پاکباز عورت پر زنا کی تہمت نہ لگاؤ، کافروں سے مقابلہ کرتے وقت پیٹھ نہ پھیرو اور خصوصا اے یہودیو تمہارے لیے لازمی ہے کہ ہفتے کے دن حد سے تجاوز (یعنی ظلم و زیادتی) نہ کرو۔ راوی کہتے ہیں پھر انہوں (یعنی یہودیوں) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں چومے اور کہنے لگے کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر کون سی چیز تمہیں میری اتباع سے روکتی ہے۔ راوی کہتے ہیں انہوں نے کہا کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا مانگی تھی کہ نبی ہمیشہ ان کی اولاد میں سے ہوں۔ ہمیں ڈر ہے کہ اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کریں گے تو یہودی ہمیں قتل نہ کر دیں۔ مذکورہ بالا دونوں ابواب کی حدیثوں میں بوسہ کا تذکرہ آیا ہے جبکہ گذشتہ باب مصافحہ میں حضرت انس کی حدیث میں بوسہ کی ممانعت ہے۔ ممانعت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فعل میں مطابقت یوں ہوگی کہ وہ بوسہ ممنوع ہے جو موجب فتنہ ہو یا شہوت کا اس میں شائبہ ہو اور وہ بوسہ جائز ہے جو بطور اعزاز و اکرام ہو۔ ہاتھ پاؤں چومنے کے بارے میں یہ ہے کہ پاؤں کا چومنا بالاتفاق مکروہ وغیرہ غیر درست ہے اور ہاتھ کا چومنا بھی مکروہ ہے لیکن متاخرین نے علماء اور صلحاء کا ہاتھ چومنے کی اجازت دی ہے۔ (درمختار)

مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 53 مکررات 0
" حضرت صفواں بن عسال( صفوان بن عسال مرادی کی نسبت سے مشہور ہیں حضرت علی المرتضیٰ کے دور خلافت میں آپ کا انتقال ہوا۔) فرماتے ہیں کہ (ایک دن) ایک یہودی نے اپنے ایک (یہودی) ساتھی سے کہا کہ آؤ اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلیں! اس کے ساتھی نے کہا! انہیں نبی نہ کہو ، کیونکہ اگر انہوں نے سن یا (کہ یہودی بھی مجھے نبی فرماتے ہیں) تو ان کی چار آنکھیں ہو جائیں گی (یعنی خوشی سے پھولے نہیں سمائیں گے) بہر حال وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نو واضح احکام کے بارہ میں سوال کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! کسی کو اللہ کا شریک نہ ٹھہراؤ، چوری نہ کرو، جس جان کو مار ڈالنا اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس کا ناحق قتل نہ کرو، کسی بے گناہ کو قتل کرانے کے لیے ( اس پر غلط الزام عائد کر کے ) حاکم کے پاس مت لے جاؤ، جادو نہ کرو، سود نہ کھاؤ پاک دامن عورت کو (زنا کی) تہمت نہ لگاؤ، میدان جنگ میں دشمن کو پیٹھ نہ دکھاؤ اور اے یہودیو! تمہارے لیے خاص طور پر واجب ہے کہ یوم شنبہ کے معاملہ میں (حکم الہٰی سے) تجاوز نہ کرو، راوی فرماتے ہیں کہ (یہ سن کر) دونوں یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پیر چوم لیے اور بولے ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واقعی نبی ہیں۔ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، (جب تمہیں میری رسالت پر یقین ہے تو) میری اتباع سے تم کو کون سا امر مانع ہے؟ انہوں نے کہا: حقیقت یہ ہے کہ داؤد علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ ان کی اولاد میں ہمیشہ نبی ہوا کرے لہٰذا ہم ڈرتے ہیں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں تو یہودی ہمیں مار ڈالیں گے۔" (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن نسائی)
 

باذوق

محفلین
یہود کی قدم بوسی اور سنت تقریری ۔۔۔؟!

سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 1656 حدیث مرفوع مکررات 2
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 81 حدیث مرفوع مکررات 2
علامہ البانی علیہ الرحمة کی تحقیق کے مطابق دونوں روایات ضعیف ہیں۔
سنن نسائی:جلد سوم:حدیث نمبر 380 حدیث مرفوع مکررات 4
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 629 حدیث مرفوع مکررات 4
مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 53 مکررات 0
یہ تینوں روایات دراصل ایک ہی روایت ہے جو مختلف طرق سے بیان ہوئی ہیں۔
جب ان روایات پر اعتراض کیا گیا کہ :
چومنے والے تو یہودی تھے۔ ان کا عمل کیسے سنت بن گیا؟؟
تو اس کے جواب میں ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے ایک درس (جو کہ غالباً امام بخاری کی کتاب الادب المفرد پر تھا) میں فرمایا :
نادان اس قسم کا بھی اعتراض کرتے تو میں بھی ان کو جواب دیتا ہوں، کہ آپ کو بغض میں چومنے والے تو دکھائی دیتے ہیں مگر وہ دکھائی نہیں دے رہا جس کے قدم چومے جارہے ہيں؟ اور وہ دکھائی نہیں دے رہا جو منع بھی نہیں کررہا ہے؟
تواس کا مطلب کہ قدم چموا رہے ہیں سنت ہوگئی اور کسے سنت کہتے ہیں؟ پوری مجلس میں صحابہ رضی اللہ عنہم دیکھ رہے ہيں اور منع بھی نہیں کر رہے ہیں تو اس کو سنت نہیں کہتے تو اور کیا کہتے ہیں؟!
اور بالکل یہی بات یہاں پر ترجمان منہاجین نے کچھ یوں تحریر فرمائی ہے :
اتنے اجل محدثین کے اس حدیث کو روایت کرنے اور اس سے استشہاد کرنے کے باوجود بھی کوئی متعصب کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک یہودی کا فعل تھا، ہم اسے کس طرح لازمی شہادت کا درجہ دے سکتے ہیں۔ اس سوچ پر سوائے افسوس کے کیا کہا جا سکتا ہے کہ معترض کو یہودی کا عمل تو نظر آگیا مگر جس کے ساتھ کیا جا رہا ہے وہ بابرکت ہستی نظر نہیں آئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو تقبیل سے منع نہیں فرمایا تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ تقریری ہوا۔
ڈاکٹر صاحب کی علمیت کا احترام سر آنکھوں پر۔ مگر آپ جناب کا دعویٰ ہے کہ آپ حنفی مسلک کے ماننے والے ہیں۔ تو ظاہر ہے کہ اتنی بڑی علمی شخصیت نے حنفی فقہ کی مشہور کتاب "در مختار" تو ضرور پڑھی ہوگی۔ جہاں صاف صاف لکھا ہے :
دوسرے سے ملاقات کے وقت اپنے ہاتھ کو چومنا مکروہ ہے۔ اس (عمل) میں رخصت نہیں اور اپنے دوست سے ملاقات کے وقت اُس کا ہاتھ چومنا بالاجماع مکروہ ہے اور اسی طرح (یہ بھی مکروہ ہے) جو علماء کے سامنے سے زمین کو بوسہ دیتے ہیں ، ایسا کرنے والا اور اس فعل پر راضی ہونے والا دونوں ہی گناہ گار ہیں ، کیونکہ یہ بتوں کی عبادت کے مشابہ ہے۔
اور اگر عبادت و تعظیم کی نیت سے کرے تو کفر ہے اور اگر تحیة کے ارادہ سے کرے تو کفر نہ ہوگا البتہ گنہگار ہو گیا اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا۔
بحوالہ :
درمختار مع فتاوی شامی ، ص:383 ، ج:6 ، کتاب الحظر و الاباحة باب الاستبراء

اب یا تو ڈاکٹر صاحب کو اعلان کر دینا چاہئے کہ وہ اس فقہی عبارت کو نہیں مانتے یا پھر اپنے قول سے رجوع کر لینا چاہئے۔

اب دیکھ لیجئے کہ فقہ حنفی کی معتبر کتاب میں بوسہ دینے کو یہ نہیں کہا گیا کہ "یہ سجدہ کے برابر ہے" بلکہ یوں کہا گیا ہے کہ "بتوں کی عبادت کے مشابہ ہے" ۔۔۔۔ اب ظاہر ہے کسی شیخ محترم کے سامنے گر کر ان کے پاؤں چومنے سے بھی بتوں کی عبادت سے مشابہت نظر آئے گی لہذا یہ بھی درمختار کے فتوی کے مطابق گناہ کبیرہ کا فعل ہوا جس کو یہاں ہمارے بعض معصوم بھائی بہن "مستحب کام" ٹھہرانے پر بضد ہیں۔

خیر۔ دونوں یہودیوں کی طرف سے پیر چومنے والی اس روایت پر کچھ گفتگو مزید ۔۔۔
اصول کی کتابوں میں "سنت تقریری" کی یہ تعریف لکھی ہوئی ہے کہ :
جو کام نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سامنے مسلمان کریں وہ "تقریری سنت" ہے۔
جبکہ روایت مذکورہ میں ہاتھ پاؤں چومنے ([ARABIC]فقبلوا يديه ورجليه[/ARABIC]) والے مسلمان نہیں بلکہ یہودی تھے۔

اب اس مذکورہ روایت پر ذرا سنجیدگی سے غور کیا جائے تو اسی میں وہ اصول مل جائے گا کہ :
کافر کے عمل پر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خاموشی ، "سنت تقریری" نہیں کہلاتی !!

ان دونوں یہودیوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاؤں مبارک چوم لیے اور کہا کہ ہم شہادت دیتے ہیں کہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، اللہ کے رسول ہیں
اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) نے دریافت فرمایا
[ARABIC]فما يمنعكم أن تتبعوني[/ARABIC]
تو پھر لوگ میری کس وجہ سے فرماں برداری نہیں کرتے؟
انہوں نے جواب دیا
[ARABIC]إن ‏ ‏داود ‏ ‏دعا بأن لا يزال من ذريته ...[/ARABIC]
(حضرت) داؤد (علیہ السلام) نے دعا فرمائی تھی کہ ہمیشہ ان کی اولاد میں سے ہی نبی بنا کریں گے ۔۔۔۔

حالانکہ اس حدیث کے تمام ہی شارحین نے بیان کیا ہے کہ :
ان دونوں یہودیوں نے جھوٹ بولا اور داؤد علیہ السلام پر افتراء کیا تھا۔ کیونکہ داؤد علیہ السلام نے ایسی کوئی دعا نہ کی تھی بلکہ یہود تو تورات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا تذکرہ پڑھ چکے تھے۔

اب دیکھئے کہ ڈاکٹر صاحب اور ان کے ترجمان نے اس حدیث سے یہ نتیجہ نکالا کہ :
پاؤں چومنے پر رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) خاموش رہے ! لہذا یہ سنت ہوئی۔

ہم کہنا چاہیں گے کہ :
حضور عالی ! نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) تو داؤد علیہ السلام کے متعلق یہود کے واضح جھوٹ پر بھی خاموش رہے۔
اب کیا جھوٹ بولنا بھی ڈاکٹر صاحب کے نزدیک "سنت تقریری" سمجھا جائے گا ؟؟
یا ۔۔۔۔
کیا نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے خاموش رہ کر یہ مان لیا تھا کہ داؤد علیہ السلام نے سچ مچ ایسی کوئی دعا کی تھی؟؟
جبکہ حدیث کے تمام شارحین اور علماء و ائمہ محدثین کہتے آئے ہیں کہ یہود نے جھوٹ بولا اور داؤد علیہ السلام پر افتراء باندھا۔

ایک جگہ کی خاموشی تو نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت بنے اور دوسری جگہ کی خاموشی سنت نہ بنے ؟؟

ترجمان منہاجین اور ڈاکٹر صاحب کے معصوم معتقدین کیا ہم کو جواب دے سکتے ہیں کہ :
حدیث کی تشریح کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کا یہ کیسا دہرا معیار ہے ؟؟؟
آپ ہی بتلائیں کہ ہم بتلائیں کیا ؟؟؟؟

قرآن تو ہم کو تعلیم دیتا ہے کہ:
[ARABIC]وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلاَمًا[/ARABIC]
جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں
( الفرقان:25 - آيت:63 )
[اردو ترجمہ : ڈاکٹر طاہر القادری]

لہذا کافر کے قول و فعل پر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خاموشی دین میں حجت نہیں ہوتی۔
مگر افسوس کہ یہ اتنی سادہ سی بات کچھ شیوخ محترم کو سمجھ میں آتی ہے اور نہ ان کے متبعین کو کہ ۔۔۔۔ وہ فرماتے ہیں :
وہ دکھائی نہیں دے رہا جس کے قدم چومے جارہے ہيں؟ اور وہ دکھائی نہیں دے رہا جو منع بھی نہیں کررہا ہے؟ تواس کا مطلب کہ قدم چموا رہے ہیں سنت ہوگئی اور کسے سنت کہتے ہیں؟ پوری مجلس میں صحابہ رضی اللہ عنہم دیکھ رہے ہيں اور منع بھی نہیں کر رہے ہیں تو اس کو سنت نہیں کہتے تو اور کیا کہتے ہیں؟!
لاحول ولا قوة الا باللہ !!

اللہ تعالیٰ ہم تمام کو ہدایت اور صحیح سمجھ عطا فرمائے ، آمین !!

آخر میں چلتے چلتے عرض ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دستِ اقدس اور پاؤں مبارک کو چومنے کی کچھ صحیح احادیث آپ ضرور پیش فرمائیں ۔۔۔۔ لیکن یہ بھی ہم کو ضرور بتائیں کہ :
کیا نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) اور امتی کا جسم ایک جیسا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے جسمِ اطہر پر کسی پیر فقیر کبیر شیخ الاسلام وغیرہ وغیرہ کو قیاس کر لیا جائے؟؟
 

مہوش علی

لائبریرین
از باذوق:
اعمال کا دارومدار نیت پر ہے:
اگرچہ یہ بات سو فیصد درست ہے ، تاہم اس کا مطلب وہ نہیں جو یہاں باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وجہ یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔
بعض اعمال ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں نیت کچھ بھی ہو ، ہمیشہ ظاہر کو ہی دیکھا جاتا ہے۔ مثلا ً طلاق دینے والے کی نیت چاہے کچھ بھی کیوں نہ ہو۔ حتیٰ کہ اگر اس کی نیت طلاق دینے کی نہ بھی ہو، صرف ہنسی مذاق کے طور پر ہی وہ طلاق کے الفاظ کہہ دے تو طلاق ہو جاتی ہے۔
ثابت ہوا کہ "انما الاعمال بالنیات" طلاق کے مسئلے میں لاگو نہیں ہے۔

مجھ پر جذباتی ہو کر غلط بات کا الزام لگانے کی بجائے آپ کو دلیل سے ہی بات کرنی چاہیے تھی۔
یہاں بات "سارے" یا "بعض" افعال کی نہیں ہے، بلکہ اسکی ہے کہ آپ جو حضرت عمر یا طلاق کے اعمال کی بات کر رہے ہیں تو وہ سب "معاملات" کے تحت آتے ہیں اور انکا "ایمان" "عقیدے" یا عبادت یا تعظیم کے افعال کی نیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ہمارا موضوع بالکل صاف صاف یہ تھا کہ مسلمان کو اولیاء اللہ اور شعائر اللہ کی تعظیم کا حکم ہے اور ایسے تعظیمی احکامات بجا لاتے وقت مسلمان کی نیت تعظیم کی ہوتی ہے نہ کہ عبادت کی۔ جیسا کہ حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ اور سینکڑوں صحابہ سے ثابت ہے کہ وہ رسول اللہ ص کے تبرکات سے نفع و شفع طلب کر رہے ہوتے تھے، اور یہ عبادت اس لیے نہیں تھی کیونکہ انکے دل کی نیت تعظیم و تبرک کی تھی نہ کی عبادت کی۔

مگر چونکہ آپ لوگ حوصلہ شکنی کرتے ہیں کہ ان روایات کو بیان کیا جائے، اس لیے پہلے آپ "پخ" نکال کر لے آئے طلاق کی جو کہ "معاملات" میں سے ہے۔ اور پھر دوسری پخ نکال کر لے آئے ہندوؤں کی۔ حالانکہ ہمارا موضوع نہ طلاق جیسے معاملات تھے اور نہ ہندو کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ ہماری بات مسلمان اور اسلام میں حلال کیے جانے والے تعظیمی افعال پر ہو رہی تھی۔ اب اگر ہندو یا دنیا کا کوئی اور مذہب اپنے دیوتاؤوں کی تعظیم کرتا ہے تو اسکی بنا پر ہم کیا خدا کی نازل کردہ شریعت میں خود سے تبدیلی کر کے چیزوں کو حرام بنا دیں؟

اور البانی صاحب کے تبرکات پر اعتراض بھی عجیب و غریب ہے۔ ان تبرکات والی روایات کو بیان کرنے پر اس لیے پابندی لگائی جا رہی ہے کہ آج انکی نظر میں کوئی تبرک باتی ہی نہیں رہ گیا ہے۔ تو کیا جن علماء و محدثین نے یہ روایات اپنی کتابوں میں مسلسل 1400 سال تک بیان کی ہیں، ان سب کے پاس کیا تبرکات نبوی تھے جو ان پر پابندی نہیں تھی؟ کیا حجر اسود تبرکات میں اور شعائر اللہ میں نہیں آتا؟ کیا حجر اسود کو نفع و شفا کا حامل سمجھنا حرام ہے۔ کیا آب زمزم سے نفع و شفا حاصل کرنا حرام ہے؟ کیا ان روایات کو اس لیے بیان کرنا حرام ہے کہ تعظیم و عبادت کے درمیان نیت کے فرق کو بتلایا جائے؟
البانی صاحب کے ان عجیب و غریب اعتراضات کا میں مکمل دلائل کے ساتھ جواب پہلے بھی کئی بار دے چکی ہوں۔ البانی صاحب کا یہ استدلال آپ کے لیے حجت ہو تو ہو، ہمارے لیے یہ عجیب و غریب استدلال ہے اور اس حوالے اوپر اُسی تھریڈ میں تفصیلی دلائل میں نے پیش کر دیے ہیں جو سب جا کر اس پوسٹ اور ان سے اگلی پچھلی پوسٹوں میں پڑھ سکتے ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ابن حجر العسقلانی کی فتح الباری والے اقتباس پر باذوق صاحب کی تنقید
جس طریقے سے اور بہانے سے ابن حجر کے اس مؤقف کا انکار کیا گیا ہے، وہ بہت ہی افسوسناک ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
علم الرجال کو Use کرنے کی بجائے بری طرح Misuse کیا گیا ہے۔ یہ ان چیزوں میں سے ایک چیز ہے جس کی وجہ سے ایک طبقہ علوم الحدیث کا انکار کرتے ہوئے قرآنسٹ بن بیٹھا ہے۔

اس روایت کا صحیح لغیرہ ہونا
باذوق برادر نے شیخ ھشام پر اعتراض کیا ہے:
از باذوق:
اب فتح الباری کی اوپر والی اصل عبارت کو غور سے دیکھیں اور بتائیں کہ وہ الفاظ کہاں ہیں جس کے ترجمے کے طور پر شیخ ھشام نے یوں لکھا :
The hadith is established as authentic by the following narrations in Bukhari's Sahih:
( یہ حدیث بخاری کی ذیل کی روایات کی بنا پر مصدقہ قرار پاتی ہے )

شیخ ھشام نے کہیں بھی ان الفاظ کو العسقلانی کی بات بتلایا ہے اور نہ اسکا ترجمہ کیا ہے۔ بلکہ انہوں نے صاف صاف اس چیز کی نسبت اپنی طرف رکھی ہے۔
اور "علم الحدیث" کی جس کتاب کا لنک آپ نے اوپر ہمیں عطا فرمایا ہے، اگر آپ خود اس کو دل کھول کر پڑھ لیں تو آپ کو خود نظر آ جائے گا کہ اس حدیث کو بخاری کی روایت کی وجہ سے "صحیح لغیرہ" کا درجہ حاصل ہے۔ دیکھئے حدیث کی قسم "صحیح لغیرہ" کی تعریف آپ کی اپنی پیش کردہ کتاب میں۔
یہ بات بالکل صاف تھی اور یہ سادہ سی بات یقینا آپ کے علم میں ہو گی، مگر آپ نے اس پر کوئی جواب دینے کی بجائے اس ابن حجر کے ترجمے کا عجیب عذر پیش کر کے اس سے انکار کرنے کی کوشش کی ہے۔

بلند پایہ تابعی امام السدی (امام فن تفسیر) پر دجال و کذاب کا الزام
از باذوق:
جبکہ امام عسقلانی طبری کی جو روایت پیش کر رہے ہیں وہ السدی سے مروی ہے۔ جرح و تعدیل کی کتب چھان لیجئے ، ہر جگہ آپ کو یہی لکھا ملے گا کہ السدی محدثین کے نزدیک دجال اور کذاب ہے۔

امام السدی نہ صرف یہ کہ بلند تابعی تھے، بلکہ فن تفسیر کے امام مانے جاتے تھے۔ بہت افسوس کہ ان پر دجال و کذاب کا الزام لگایا گیا۔
باذوق صاحب سے مطالبہ ہے کہ وہ ان بلند پانی تابعی پر جرح و تعدیل دونوں پیش کر کے ثابت کریں کہ یہ دجال و کذاب تھے۔ یہ جرح و تعدیل دونوں پیش کرنا آپکی ذمہ داری رہی۔ اور اگر خالی جرح پیش کریں گے تو آپ پر ناانصافی کا الزام کھل کر لگے گا۔

امام السدی پر تفصیلی گفتگو باذوق صاحب کی جانب سے پیش کیے جانے والی جرح و تعدیل کی روشنی میں دجال و کذاب کے ثبوت آنے کے بعد کریں گے۔ مگر فی الحال مختصرا آپ کی خدمت میں امام السدی کے متعلق عرض کر دوں کہ:
1۔ یہ تابعی ہیں اور فن تفسیر کے امام مانے جاتے ہیں۔
2۔ انکی بیسیوں روایات ابن جریر طبری اور ابن کثیر اور تمام کے تمام مفسرین القرآن نے اپنی تفاسیر میں درج کی ہیں۔
اب ذرا دل تھام کر تصور کریں کہ ابن کثیر الدمشقی اپنی تفسیر میں کسی دجال و کذاب سے روایت نقل کریں گے؟ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
3۔ امام سدی سے امام مسلم نے کئی روایات اپنی صحیح مسلم میں درج کی ہیں۔ مثلا دیکھئیے صحیح مسلم کی یہ روایات۔
صحیح مسلم، [FONT=times new roman(arabic)]باب جواز الانصراف من الصلاة عن اليمين، والشمال‏
[/FONT]
[FONT=times new roman(arabic)] 1674 - وحدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا أبو عوانة، عن السدي، قال سألت أنسا كيف أنصرف إذا صليت عن يميني أو عن يساري قال أما أنا فأكثر ما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينصرف عن يمينه ‏.‏ [/FONT]
[FONT=times new roman(arabic)] 1675 - حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وزهير بن حرب، قالا حدثنا وكيع، عن سفيان، عن السدي، عن أنس، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان ينصرف عن يمينه ‏.‏[/FONT]

امام مسلم کے اس راوی کو آپ جرح و تعدیل کی بنیاد پر اگر دجال و کذاب کہا جا رہا ہے تو یہ بہت بڑا الزام ہے۔ استغفر اللہ ربی۔

اور باقی امام ابو داؤد وغیرہ کی جو باتیں آپ نے نقل کی ہیں، تو حیرت ہے کہ انسان چیزیں کو کیسے تہہ و بالا کرتا ہے اور کیسے کیسے عذر بنا سکتا ہے۔
پہلا امام ابو داؤد اور امام ترمذی کی منکر روایت والی مثال اس مسئلے میں صادق ہی نہیں آتی کیونکہ طبری والی روایت مرسل ہونے کے باوجود "صحیح لغیرہ" ہے اور بخاری کی روایت اسکو تقویت دے رہی ہے۔
پھر کسی عنوان کو بنا کر اسکے ذیل میں یہ روایتیں نقل کر کے انہیں بالخصوص منکر کہہ کر ان دونوں ائمہ نے کسی غلط فہمی کا ازالہ کیا ہے کہ یہ بات غلط طور پر مشہور ہیں۔ چنانچہ زیادہ سے زیادہ اس سے یہ ثابت ہوا کہ ہمیں یہ دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے کہ باب کے ذیل میں پیش کردہ روایت پر جرح کی گئی ہے یا پھر اس سے مسائل اخذ کیے گئے ہیں۔
اور السدی والی روایت پر ابن حجر العسقلانی نے مسائل اخذ کیے ہیں، اور اس سے کسی عالم نے اختلاف نہیں کیا ہے۔ اور باذوق صاحب، آپ تو وہ ہیں جو ہمیشہ مجھ پر البانی صاحب کے مقابلے میں دلائل لانے پر البانی صاحب کی علمیت کی دھونس جماتے تھے۔ تو پھر آپ کی علمی حیثیت شیخ ھشام کے سامنے کیا ہے جو دعوی کر رہے ہیں کہ آپ عسقلانی صاحب کی عبارت کو شیخ ھشام سے بہتر سمجھ رہے ہیں؟؟؟

بہت مشکل بات ہے کہ باذوق صاحب کسی بات کو تسلیم کریں۔۔ اس لیے صرف بقیہ لوگوں سے درخواست ہے کہ وہ ابن حجر العسقلانی کی عبارت کو پھر غور سے پڑھیں اور سوچیں:
1۔ اگر ابن حجر کے نزدیک یہ روایت مردود تھی تو پھر اس پر انہوں نے مسائل کی یہ لمبی چوڑی لسٹ کیوں اخذ کی؟
2۔ اور اگر واقعی ابن حجر کے نزدیک یہ روایت مردود ہوتی تو وہ بھی ابو داؤد و ترمذی کی طرح اس روایت کو صرف مرسل و مردود کہہ کر بات ہی ختم کر دیتے۔
مگر نہیں۔ ابن حجر العسقلانی صاف صاف طور پر اس روایت کو لکھتے ہیں کہ بخاری کی روایت سے ملتی جلتی ایک مرسل روایت السدی کی ہے (ملتی جلتی روایت کا اشارہ صحیح لغیرہ کی طرف ہے) ۔

اسکے بعد ابن حجر عسقلانی نے جو چیزیں اخذ کی ہیں، وہ انکا ان تمام روایات کا مجموعی نتیجہ ہے (ان روایات میں بخاری میں اس روایت کے تمام ورژنز اور امام السدی والی روایت شامل ہے) جیسا کہ شیخ ہشام نے اسکا ذکر اوپر کیا ہے۔

دیکھئیے، السدی والی روایت میں تو صرف دو چیزیں بیان ہوئی ہیں، مگر ابن حجر العسقلانی نے جو نتائج اخذ کیے ہیں، ان میں تو وہ چیزیں بھی شامل ہیں جو السدی والی روایت میں شامل نہ تھیں۔ (مثلا گھٹنے کے بل بیٹھنا، فتنوں سے پناہ طلب کرنا، " اُعْفُ عَفَا اللَّه عَنْك " کا ذکر کرنا۔۔۔۔)۔ یہ سب چیزیں تو سدی کی روایت میں شامل بھی نہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ ابن حجر العسقلانی ان تمام تر روایات کا مجموعی نتیجہ اخذ کر کے اپنا مؤقف بیان کر رہے ہیں، اور انکے بیچ میں انہوں نے قدم بوسی کو جائز قرار دیا ہے۔

کاش باذوق صاحب اس سادہ سی بات کو سمجھ پاتے کہ یہ اخذ کردہ موْقف صرف السدی والی روایت کا نہیں، بلکہ اس موضوع پر تمام تر روایات کا ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
(گذشتہ سے پیوستہ)
السدی والی روایت میں صرف یہ چیزیں ہیں:
اسی کے ساتھ ملتا جلتا مرسل واقعہ طبرانی میں بھی السدی کے حوالے سے موجود ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو ئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کو چوما اور کہا کہ ہم اللہ کے رب ہونے پر راضی ہو گئے ۔۔۔
اور مزید کہا کہ قرآن کے امام ہونے پر (راضی ہو گئے) آپ مجھ سے درگزر فرمائیے اللہ آپ سے درگزر فرمائے گا ۔ اسی حالت میں ہی رہے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہوگئے ۔
جبکہ ابن حجر العسقلانی نے جو موْقف اخذ کیا ہے، وہ یہ ہے:
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع رہنا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے ہو جائیں تو انکا بہت زیادہ ڈرنا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ کسی عمومی کام کی بناء پر نہ ہو جسکی بنا پر وہ سب سے ناراض ہو جائیں۔
وادلال عمر عليه،
عمر رضی اللہ عنہ کا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کو منانے کی جراءت کرنا
وجواز تقبيل رجل الرجل،
اور قدم بوسی کا جائز ہونا۔
وجواز الغضب في الموعظة،
وعظ کے دوران غضبناک یا جذباتی ہونے کا جواز۔
وبروك الطالب بين يدي من يستفيد منه،
طالب علم کا استاذ کے سامنے ادب کے ساتھ دو زانو ہونا۔
وكذا التابع بين يدي المتبوع اذا ساله في حاجة،
اسی طرح جب ماتحت کسی ضرورت کے بارے میں سوال کرے تو اپنے متبوع کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھے
ومشروعية التعوذ من الفتن عند وجود شيء قد يظهر منه قرينة وقوعها،
مستحب ہے فتنوں سے پناہ طلب کرنا جب کوئی ایسی چیز وجود میں آئے جس سے فتنے کے واقع ہونے کا قرینہ ملے
واستعمال المزاوجة في الدعاء في قوله ‏"‏ اعف عفا الله عنك ‏"‏ والا فالنبي صلى الله عليه وسلم معفو عنه قبل ذلك‏.‏
دعا میں دونوں جانبین کا ذکر کرنا جیسا کہ عمر کا کہنا " اُعْفُ عَفَا اللَّه عَنْك " ورنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو پہلے ہی معفو یعنی بخشے ہوئے ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ابن حجر العسقلانی سے شیخ ھشام نے ایک روایت اور بھی نقل کی تھی، جس کو میں نے خاص طور پر اپنی پہلی پوسٹ میں ذکر بھی کیا تھا۔ افسوس کہ اپنا مؤقف ثابت کرنے کے چکر میں باذوق صاحب اس روایت کو گول کر گئے۔ آپ اس روایت کو دوبارہ پڑھئیے اور آپ کو مزید اندازہ ہو گا کہ ابن حجر العسقلانی نے اپنا یہ مؤقف کیوں نقل کیا ہے۔

umm aban, daughter of al-wazi` ibn zari` narrated that her grandfather zari` al-`abdi, who was a member of the deputation of `abd al-qays, said: "when we came to medina, we raced to be first to dismount and kiss the hand and foot of allah's apostle..."
references:
  • abu dawud narrates it in his sunan, book of adab.
  • imam bukhari relates from her a similar hadith in his adab al-mufrad: We were walking and someone said, "there is the messenger of allah," so we took his hands and feet and kissed them.
  • ibn al-muqri' narrates it in his kitab al-rukhsa (p. 80 #20), al-tayalisi in his musnad, al-bazzar in his musnad (3:278),
  • bayhaqi in the sunan (7:102),
  • and ibn hajar in fath al-bari (1989 ed. 11:67 isti'dhan ch. 28 #6265) said: "among the good narrations in ibn al-muqri's book is the hadith of al-zari` al-`abdi." it was declared a fair (hasan) hadith by ibn `abd al-barr, and al-mundhiri confirmed it in mukhtasar al-sunan (8:86)
 

باذوق

محفلین
مگر چونکہ آپ لوگ حوصلہ شکنی کرتے ہیں کہ ان روایات کو بیان کیا جائے
ان تبرکات والی روایات کو بیان کرنے پر اس لیے پابندی لگائی جا رہی ہے کہ
کیا ان روایات کو اس لیے بیان کرنا حرام ہے کہ
دیکھ لیجئے کہ آپ پلٹ پلٹ کر پھر وہی وار کر رہی ہیں جس کا نہایت واضح جواب میں یہاں دے چکا ہوں :
اللہ کی قسم ! میں نے کہیں بھی کسی بھی جگہ ایسا نہیں لکھا ہے کہ :
آپ ان احادیث کو کیوں بیان کر رہی ہیں ؟؟
ایسا الزام آپ اس شخص کو دے رہی ہیں جس نے نیٹ کی اردو کمیونیٹی میں سب سے پہلی مرتبہ اردو یونیکوڈ میں 10 عدد معروف کتبِ احادیث کی پیشکشی کا بیڑہ انفرادی طور پر اٹھایا اور جس پر کام اب تک جاری ہے اور یہ میری وہ واحد سائیٹ ہے (پی۔ایچ۔پی۔بی۔بی فورم کی شکل میں) جس کو قائم کرنے کے لیے تکنیکی تعاون مجھے اردو محفل ہی سے ملا تھا۔
میرا اعتراض احادیث پر نہیں بلکہ "مخصوص/متنازعہ نظریات" پر ہے اور تھا۔
ان تبرکات والی روایات کو بیان کرنے پر اس لیے پابندی لگائی جا رہی ہے کہ آج انکی نظر میں کوئی تبرک باتی ہی نہیں رہ گیا ہے۔
یہ بھی ایک نرالا جھوٹ ہے۔
اگر پابندی لگانے والی بات ہوتی تو علامہ البانی علیہ الرحمة یہ بات ہرگز نہ کہتے :
اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) کے آثار سے تبرک حاصل کرنا ہمارے نزدیک جائز ہے اور ہم اس کا انکار نہیں کرتے ہیں
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات سے وابستہ کوئی تبرک باقی ہے یا نہیں ؟؟
بحث اس بات پر نہیں ہے بلکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ جس چیز کو آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے وابستہ چیز بتا رہی ہیں کیا اس پر امت کا اسی طرح اجماع ہے جس طرح حجر اسود پر اجماع ہے؟؟
اگر نہیں تو پھر محض آپ کے یا آپ کے ہمخیال گروہ کے کسی "جذباتی خیال" کو ہم شعائر اللہ کا درجہ عطا نہیں کر سکتے۔ معذرت قبول فرمائیں۔

اس روایت کا صحیح لغیرہ ہونا
اور "علم الحدیث" کی جس کتاب کا لنک آپ نے اوپر ہمیں عطا فرمایا ہے، اگر آپ خود اس کو دل کھول کر پڑھ لیں تو آپ کو خود نظر آ جائے گا کہ اس حدیث کو بخاری کی روایت کی وجہ سے "صحیح لغیرہ" کا درجہ حاصل ہے۔ دیکھئے حدیث کی قسم "صحیح لغیرہ" کی تعریف آپ کی اپنی پیش کردہ کتاب میں۔

۔۔۔۔۔ طبری والی روایت مرسل ہونے کے باوجود "صحیح لغیرہ" ہے اور بخاری کی روایت اسکو تقویت دے رہی ہے۔
محترمہ ! آپ یقیناً محدث نہیں ہیں !!
ایک محدث جب خود ہی کسی روایت کو "مرسل" کہہ رہا ہو تو کس بنیاد پر آپ اس روایت کو "صحیح لغیرہ" باور کرانے پر مصر ہیں؟؟ اس روایت پر محدثین کی آراء ذکر کریں تو کچھ آپ کی بات میں وزن آئے۔
امید ہے کہ اس روایت پر محدثین کی آراء بطور ثبوت ضرور پوسٹ کریں گی۔ انتظار ہے۔
ابن حجر العسقلانی کی فتح الباری والے اقتباس پر باذوق صاحب کی تنقید
بلند پایہ تابعی امام السدی (امام فن تفسیر) پر دجال و کذاب کا الزام
امام السدی نہ صرف یہ کہ بلند تابعی تھے، بلکہ فن تفسیر کے امام مانے جاتے تھے۔ بہت افسوس کہ ان پر دجال و کذاب کا الزام لگایا گیا۔
اگر آپ إسماعيل بن عبد الرحمان السدي الكبير کی بات کر رہی ہیں تو پھر اس کا جواب میں تفصیل سے دوں گا، ان شاءاللہ۔
ابن حجر العسقلانی سے شیخ ھشام نے ایک روایت اور بھی نقل کی تھی، جس کو میں نے خاص طور پر اپنی پہلی پوسٹ میں ذکر بھی کیا تھا۔ افسوس کہ اپنا مؤقف ثابت کرنے کے چکر میں باذوق صاحب اس روایت کو گول کر گئے۔ آپ اس روایت کو دوبارہ پڑھئیے اور آپ کو مزید اندازہ ہو گا کہ ابن حجر العسقلانی نے اپنا یہ مؤقف کیوں نقل کیا ہے۔
محترمہ ، آپ سے گذارش ہے کہ ذرا اصل عربی متن تو پیش فرمائیں۔
پھر ہم سب دیکھیں گے کہ حافظ عسقلانی علیہ الرحمة کا "حسن" والا موقف ابو بكر المقرى کے حوالے سے صرف "تقبیل ید" کے موضوع پر ہے یا "تقبیل ید ورجل" کے موضوع پر ؟؟
علامہ البانی رحمة اللہ نے بھی ابوداؤد کی اس روایت کو "حسن" قرار دیا ہے مگر ۔۔۔۔۔۔
مگر "حسن" کے ساتھ کہا ہے : [ARABIC]دون ذِكر الرِّجْلين[/ARABIC]
امید ہے کہ بات سمجھ میں آ گئی ہوگی کہ جو فقرہ ثابت ہی نہیں ، اس روایت کو دلیل بنانا عبث تھا !!
 
باذوق صاحب کے اس تفصیلی وضاحت کے بعد قدم بوسی کی روایات کی حیثیت مزید واضح ہو جاتی ہے ۔میں اس سلسلے میں یقینا کچھ کہنا چاہوں گا لیکن چندے توقف کے بعد، ابھی تو یہ بات ہی میرے لیے حیرت انگیز ہے کہ مہوش ایک مرسل جی ہاں مرسل، حسن نہیں، حدیث کو کس طرح صحیح لغیرہ کے زمرے میں رکھ رہی ہیں۔ اور پھر ان کا پیش کرنے کا انداز کے یہ باذوق صاحب کی پیش کردہ کتاب کا لنک ہے اور اس میں صحیح لغیرہ کی یہ تعریف کی گئی ہے اور اس طرح میرے (قیاس کے) مطابق یہ حدیث صحیح لغیرہ کے زمرے میں آ گئی۔

خامہ انگشت بہ دنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے

کیا یہاں مہوش ،محدثین کے کچھ اقوال نقل کریں گی کہ کس طرح اور کن قاعدوں کے تحت مرسل روایت (حسن نہیں) صحیح لغیرہ کے زمرے میں آ سکتی ہے؟؟
 

مہوش علی

لائبریرین
باذوق صاحب کے اس تفصیلی وضاحت کے بعد قدم بوسی کی روایات کی حیثیت مزید واضح ہو جاتی ہے ۔میں اس سلسلے میں یقینا کچھ کہنا چاہوں گا لیکن چندے توقف کے بعد، ابھی تو یہ بات ہی میرے لیے حیرت انگیز ہے کہ مہوش ایک مرسل جی ہاں مرسل، حسن نہیں، حدیث کو کس طرح صحیح لغیرہ کے زمرے میں رکھ رہی ہیں۔ اور پھر ان کا پیش کرنے کا انداز کے یہ باذوق صاحب کی پیش کردہ کتاب کا لنک ہے اور اس میں صحیح لغیرہ کی یہ تعریف کی گئی ہے اور اس طرح میرے (قیاس کے) مطابق یہ حدیث صحیح لغیرہ کے زمرے میں آ گئی۔

خامہ انگشت بہ دنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے

کیا یہاں مہوش ،محدثین کے کچھ اقوال نقل کریں گی کہ کس طرح اور کن قاعدوں کے تحت مرسل روایت (حسن نہیں) صحیح لغیرہ کے زمرے میں آ سکتی ہے؟؟

مجھے تو باذوق صاحب کے مراسلوں کا انتظار ہے۔ آپ "صحیح لغیرہ" کی اور "حسن لغیرہ" کی بحث میں بات کو الجھانا چاہتے ہیں، مگر اس سے بھی آپکا مقصد پورا نہ ہو سکے گا اور بات وہیں آ جائے گی کہ کچھ محدثین کے نزدیک مرسل حدیث ہرگز ضعیف حدیث نہیں بلکہ بذات خود صحیح ہے۔
·[font=&quot] [/font][font=&quot]مرسل حدیث صحیح ہے اور اس سے نتائج اخذ کیے جائیں گے۔ یہ تین بڑے ائمہ یعنی ابو حنیفہ، مالک اور احمد بن حنبل کا نقطہ نظر ہے۔ علماء کا یہ گروہ اس بنیاد پر اس قسم کی حدیث کو قبول کرتا ہے کہ مرسل حدیث صرف ثقہ راوی سے ہی روایت کی گئی ہو۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ایک ثقہ تابعی صرف اسی صورت میں کسی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کر سکتا ہے اگر اس نے اسے کسی قابل اعتماد شخص (یعنی صحابی) سے یہ بات سنی ہو۔[/font]

سوال: امام مسلم کی اس روایت کے متعلق آپکا کیا رائے ہے:
امام مسلم اپنی "صحیح" میں کتاب البیوع میں حدیث نقل کرتے ہیں، "محمد بن رافع، حجین سے، وہ لیث سے، وہ عقیل سے، وہ ابن شھاب سے، وہ سعید بن مسیب سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مزابنہ (یعنی تازہ کھجوروں کو چھوہاروں کے بدلے بیچنے) سے منع فرمایا۔"
یہ مرسل روایت تابعی سعید بن مسیب پر اختتام پذیر ہو رہی ہے۔

آپ مجھے گھیرنے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ آپ بات کو آسان کرتے اور خود بتلا دیتے کہ اگر یہ حدیث "صحیح لغیرہ" نہیں تو پھر آپ اسے کس درجے میں رکھتے ہیں۔ بہرحال۔۔۔۔
 
اوپر میں نے جو پوسٹ کی تھی اس کا مقصد نہ آپ کو گھیرنا تھا اور نہ ہی چکر دینا اس کا واحد مقصد یہ بتانا تھا کہ آپ علم حدیث کے بارے میں نہ جانتے ہوئے بھی اگر ادھر اُدھر سے محض انٹرنیت کے اوپر بھروسہ کر کہ اس علم میں بھی دخل دیں گئی تو ایسی ہی غلطیاں کریں گی۔
میں اس وقت مرسل حدیث کو نہ مردود کہتا ہوں نہ ضعیف اور نہ ہی صحیح۔آپ سے میرا سوال یہ ہے کہ کس طرح ایک مرسل روایت صحیح لغیرہ کے درجہ پر فائز ہو سکتی ہے ؟ اس کا جواب ذرا علم حدیث کی روشنی میں عنایت فرما دیجئے تو آپ کی مہربانی ہوگی۔کیونکہ اوپر آپ ایک مرسل حدیث کو صحیح لغیرہ کے رتبے پر فائز کر چکی ہیں۔

سوال: امام مسلم کی اس روایت کے متعلق آپکا کیا رائے ہے:

اقتباس:
امام مسلم اپنی "صحیح" میں کتاب البیوع میں حدیث نقل کرتے ہیں، "محمد بن رافع، حجین سے، وہ لیث سے، وہ عقیل سے، وہ ابن شھاب سے، وہ سعید بن مسیب سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مزابنہ (یعنی تازہ کھجوروں کو چھوہاروں کے بدلے بیچنے) سے منع فرمایا۔"

یہ مرسل روایت تابعی سعید بن مسیب پر اختتام پذیر ہو رہی ہے۔

کیا آپ کی دسترس میں صرف ایک ہی آن لائن کتاب ہے جو اس میں سے ہی مثالیں آپ پیش فرما رہی ہیں؟ بہر حال آپ کا سوال اتنا انٹیلیجنٹ ہے کہ خود ہی جواب بھی اپنے اندر رکھتا ہے یعنی آپ خود ہی اس رویت کو مرسل کہ رہی ہیں اور خود ہی پوچھ رہی ہیں کہ اس کے بارے میں میرا کیا خیال ہے تو اس کے بارے میں میر ا بھی یہی خیال ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے ۔ اور اگر آپ اس کوبھی صحیح لغیرہ ہی سمجھ رہی ہیں تو ذرا بتائیے کہ کیسے یہ صحیح لغیرہ ہے ؟؟؟

ادھر میں بھی باذوق صاحب کے ہی مراسلے کا انتطار کر رہا ہوں کہ کچھ مجھے بھی اس سارے قضیئے کے بارے میں عرض کرنا ہے۔
 

باذوق

محفلین
مجھے تو باذوق صاحب کے مراسلوں کا انتظار ہے۔
جی ہاں۔ میں لکھ ہی رہا ہوں۔ پلیز تھوڑا انتظار فرمائیں۔

لیکن میں شمشاد بھائی سے ایک بار پھر گذارش کروں گا کہ براہ مہربانی میری اور مہوش علی کی بحث علیحدہ کر دیں (اگر سسٹر مہوش علی کو اس پر اعتراض نہ ہو تو)۔ یعنی وہ مراسلے جن کا تعلق راست اس تھریڈ کی ویڈیو کے بجائے احادیث اور ان کی تشریح کی بحث سے ہے ، ان کو ایک علیحدہ تھریڈ کی شکل دے دیں۔ تعاون کا شکرگزار رہوں گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
ایک اور دھاگے میں ڈاکٹر طاہر القادری کی قدم بوسی کے موضوع پر بحث ہو رہی تھی۔ اسی دھاگے سے " اسلام میں قدم بوسی کی روایات کا جائزہ " پر بھی چند مراسلے نقل کر کے یہاں چسپاں کیے جا رہے ہیں۔ براہ کرم صرف موضوع پر ہی بحث کو آگے بڑھایا جائے۔ اور امید کرتا ہوں کہ یہ ایک تعمیری بحث ہو گی ناکہ بحث برائے بحث اور ہٹ دھرمی ہو گی۔ ایسا کوئی بھی مراسلہ حذف کر دیا جائے گا۔
 

باذوق

محفلین
1۔ اگر ابن حجر کے نزدیک یہ روایت مردود تھی تو پھر اس پر انہوں نے مسائل کی یہ لمبی چوڑی لسٹ کیوں اخذ کی؟
2۔ اور اگر واقعی ابن حجر کے نزدیک یہ روایت مردود ہوتی تو وہ بھی ابو داؤد و ترمذی کی طرح اس روایت کو صرف مرسل و مردود کہہ کر بات ہی ختم کر دیتے۔
ہر روایت سے مسئلہ اخذ کیا جا سکتا ہے چاہے روایت صحیح ہو کہ ضعیف۔
یقین نہ آئے ڈاکٹر طاہر القادری کی مرتب کردہ "منہاج السوی" دیکھ لی جائے جس میں ڈاکٹر صاحب نے ضعیف روایات سے بھی مسائل اخذ کئے ہیں ( یہ الگ بات ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ضعیف روایات کو صحیح روایات کے بطور پیش کرنے کی ناکام کوششیں بھی فرمائی ہیں)۔

میں نے جو ابوداؤد اور ترمذی کی روایات بطور مثال پیش کی تھیں ، کیا وہ روایات پیش کرتے ہوئے امام ابوداؤد یا امام ترمذی نے صرف "ضعیف روایت" کہہ کر بات ختم کر دی تھی ؟؟
ہرگز نہیں !
بلکہ دونوں ائمہ نے ان ضعیف روایات سے بھی مسئلہ اخذ کیا اور اسی اخذ شدہ مسئلہ کو باب کا عنوان دیا۔
اب یہ تو قاری پر منحصر کرتا ہے کہ وہ دیکھے کہ جو مسئلہ ہم کو محدثین بتا رہے ہیں اس کی دلیل کیا ہے؟؟ دلیل اگر ضعیف روایت ہے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ مسئلہ بھی یقیناً غلط ہے !!

یہ تو ہماری اپنی زبردستی ہوگی جو ہم اپنا حکم جاری کریں کہ محدثین صرف "صحیح" روایات سے ہی مسائل اخذ کریں ، ضعیف روایات کا ذکر ہی نہ کریں یا ذکر کریں بھی تو صرف روایت بتا دیں ، اس سے اخذ ہونے والا مسئلہ مت بتائیں۔
اگر فقہاء و محدثین ہی ایسی روایات اور ان سے متعلق مسائل کا ذکر نہ کریں تو پھر ظاہر ہے کہ معاشرے میں پھیلے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے منسوب ہر مسئلہ کو ہم صحیح سمجھا کریں گے۔
اگر فقہاء و محدثین ہی کسی مسئلے کی صحیح / ضعیف دلیل کا ذکر نہ کریں تو پھر اور کون یہ کام کرے گا؟؟


بہرحال ۔۔۔۔۔
ایک بار پھر حافظ عسقلانی کے مرتب کردہ مسائل کی طرف آئیے۔ آپ رحمة اللہ نے 8 مسائل بیان کئے۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم میں سے کوئی حافظ عسقلانی کا مقلد ہے؟ امام البانی کا مقلد ہے؟ ڈاکٹر طاہر القادری کا مقلد ہے؟؟
ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔
لہذا کسی بھی محدث / امام / عالم کی بات قبول کی جائے گی تو وہ دلیل کی بنیاد پر ہوگی۔ اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ دلائل 4 ہیں : قرآن ، حدیث ، اجماع اور قیاس شرعی۔

اب دیکھئے کہ ان متذکرہ 8 مسائل کی بنیاد احادیث پر ہے۔
ان 8 میں سے ایک مسئلہ : جواز تقبيل رجل الرجل (قدم بوسی کا جائز ہونا) ہے !
یہ مسئلہ کس حدیث کی دلیل پر ہے ؟؟ صاف ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ صرف اور صرف السدی کی مرسل روایت پر منحصر ہے۔ اس مرسل روایت کے جو دیگر مسائل ہیں وہ تو بخاری اور دیگر صحیح روایات سے ثابت ہیں ، لہذا اس پر ہماری بحث نہیں ہے ، بحث ہے تو بس اسی [جواز تقبيل رجل الرجل] پر۔
جب آپ روایت کے اس ٹکڑے کو کسی دوسری صحیح روایت سے ثابت کر دیں گے تو اسے ماننے میں ہم میں سے کسی کو بھی ذرہ برابر تامل نہیں ہوگا۔

لیکن جب تک روایت کے یہ الفاظ [فقبل رجله] کسی دوسری روایت سے ثابت نہ ہوں ، تب تک اس سے اخذ شدہ مسئلہ [جواز تقبيل رجل الرجل] قابل قبول نہیں ہو سکتا۔
اور نہ ہی یہ مسئلہ [جواز تقبيل رجل الرجل] حافظ ابن حجر العسقلانی کا "فتویٰ" یا ان کا "موقف" ہے۔
کیونکہ خود انہوں نے اس روایت کو واضح طور پر "مرسل روایت" کہتے ہوئے بیان کیا ہے اور حافظ صاحب کے نزدیک مرسل روایت "مردود" ہوتی ہے جیسا کہ ان کے قول کا مستند حوالہ دیا جا چکا ہے۔ اگر یہ ان کا فتویٰ ہوتا تو آپ رحمة اللہ اس مرسل روایت کے ٹکڑے [فقبل رجله] کی تائید میں کسی شاہد یا تابع روایت کا ذکر بھی ضرور کرتے۔ کسی شاہد یا تابع کے بغیر ذکر کرنے کے دو مطالب ممکن ہو سکتے ہیں :
1: مرسل روایت ہونے کے سبب یہ مسئلہ بھی مردود ہے۔
2: اگر اس مرسل کی تائید میں کوئی صحیح متصل سند مل جائے تو یہ مسئلہ مقبول ہوگا۔


اس کی مثال ابوداؤد کی روایت ہے جس میں ابو بكر المقرى نے صرف "تقبیل ید (ہاتھ چومنا)" کی تصدیق کی اور اس پر فتح الباری میں حافظ عسقلانی نے المقری سے صرف "تقبیل ید (ہاتھ چومنا)" ہی کے موضوع پر اتفاق کیا۔ اور علامہ البانی نے بھی ابوداؤد کی اسی روایت میں "تقبیل رجل (پاؤں چومنا)" کے الفاظ کو غیرثابت بتایا ہے۔

یہ بھی بڑی عجیب بات ہے جو یوں فرمایا گیا ہے :
اس روایت کا صحیح لغیرہ ہونا
ابن حجر العسقلانی صاف صاف طور پر اس روایت کو لکھتے ہیں کہ بخاری کی روایت سے ملتی جلتی ایک مرسل روایت السدی کی ہے (ملتی جلتی روایت کا اشارہ صحیح لغیرہ کی طرف ہے) ۔
حدیثِ صحیح اور حسن کی مشترکہ اہم شرط "اتصال سند" ہے۔ صحیح لذاتہ ہو یا صحیح لغیرہ ، حسن لذاتہ ہو کہ حسن لغیرہ ۔۔۔۔ ان سب کی ایک اہم شرط "اتصال سند" ہے۔ یعنی راوی (صحابی) کا نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے روایت کرنا۔ جبکہ (تابعی والی) مرسل روایت میں تو تابعی راست نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بیان کر رہا ہوتا ہے اور درمیان کی اہم کڑی (صحابی) غائب ہوتی ہے۔
مرسل روایت ، اگر کبھی صحیح لغیرہ بنے گی تو صرف اسی صورت میں جب تابعی اور نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے درمیان کسی صحابی کا وجود ثابت کر دیا جائے!
صحابی کا وجود ثابت کرنے ، کسی اور متصل سند والی روایت لائیں ، صرف زبانی کلامی کہہ دینے سے کوئی مرسل روایت ، صحیح لغیرہ نہیں بن جایا کرتی !!!

جس طریقے سے اور بہانے سے ابن حجر کے اس مؤقف کا انکار کیا گیا ہے، وہ بہت ہی افسوسناک ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
علم الرجال کو Use کرنے کی بجائے بری طرح Misuse کیا گیا ہے۔ یہ ان چیزوں میں سے ایک چیز ہے جس کی وجہ سے ایک طبقہ علوم الحدیث کا انکار کرتے ہوئے قرآنسٹ بن بیٹھا ہے۔
میں اوپر ثابت کر چکا ہوں کہ [جواز تقبيل رجل الرجل] حافظ ابن حجر عسقلانی کا موقف یا ان کا فتویٰ نہیں ہے !!
دوسری بات یہ کہ ۔۔۔۔۔
قرآنسٹ طبقہ کو تقویت تو علوم حدیث کے اصول و ضوابط کو نظر انداز کرنے سے ملے گی۔
محدثین تو فرمائیں کہ صحیح روایت کے لیے"اتصال سند" بنیادی شرط ہے اور اگر اس اہم شرط کو کوئی نظرانداز کر دے تو اس سے منکرین حدیث کو شہ ملے گی یا نہیں ؟؟ یہ طبقہ سوچے گا کہ حدیث کو ثابت کرنے والے اصول و شرائط تو من گھڑت ہیں۔ بس جو موقف ہم جتانا چاہتے ہیں ، اس پر کوئی سی بھی روایت چسپاں کر دیں تو کام چل جائے گا۔

بلند پایہ تابعی امام السدی (امام فن تفسیر) پر دجال و کذاب کا الزام
امام السدی نہ صرف یہ کہ بلند تابعی تھے، بلکہ فن تفسیر کے امام مانے جاتے تھے۔ بہت افسوس کہ ان پر دجال و کذاب کا الزام لگایا گیا۔
باذوق صاحب سے مطالبہ ہے کہ وہ ان بلند پانی تابعی پر جرح و تعدیل دونوں پیش کر کے ثابت کریں کہ یہ دجال و کذاب تھے۔ یہ جرح و تعدیل دونوں پیش کرنا آپکی ذمہ داری رہی۔ اور اگر خالی جرح پیش کریں گے تو آپ پر ناانصافی کا الزام کھل کر لگے گا۔
میں تو اب بھی اپنے موقف پر قائم ہوں کہ : محدثین کے نزدیک السدی (الصغیر) دجال و کذاب کے بطور معروف ہے۔
ہاں ، معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ بشری خطا کے سبب ، طبری کی اس روایت کی مکمل سند میں نے چیک نہیں کی تھی۔ اور یوں مہوش علی کی جانب سے امام السدی (السدی کبیر) کے حوالے پر مجھے یاد آیا کہ تاریخ میں 2 سدی مشہور ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسا کہ دو طبری مشہور ہیں۔
گو کہ السدی الکبیر یعنی اسماعيل بن عبد الرحمن بن ابي كريمة السُّدِّي پر کچھ مشہور محدثین نے جرح کر رکھی ہے اور کچھ نے انہیں حدیث میں کمزور بتایا ہے ۔۔۔ مگر مجموعی طور سے محدثین کے نزدیک تابعی السدی الکبیر ثقہ راوی ہیں۔ اور دوسرا سدی یعنی محمد بن مروان السدي الصغير ، محدثین کے نزدیک کذاب اور واضعِ حدیث کے طور پر مشہور ہے۔
مگر ۔۔۔۔۔۔
سوال یہ ہے کہ کیا السدی الکبیر کی ثقاہت ثابت ہونے پر طبری کی روایت سے "تقبیل رجل (پاؤں چومنا)" والا فقرہ بھی ثابت ہو جائے گا؟؟
ہرگز نہیں !!!!

عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ : حدیث کی صحت کو ثابت کرنے کے لیے راویوں کی جرح و تعدیل دیکھ لینا کافی ہے۔ حالانکہ علم حدیث کا معمولی سا طالب علم بھی جانتا ہے کہ یہ ایک غلط نقطۂ نظر ہے۔ اگر صرف راویوں کی جرح و تعدیل صحتِ حدیث کے لیے کافی ہوتی تو پھر اتصال سند ، معلل اور شاذ جیسی شرائط ، صحیح حدیث کے لیے بیان ہی نہ کی جاتیں۔
مقدمہ ابن الصلاح (ص:9) میں لکھا ہے:
[ARABIC]أما الحديث الصحيح‏:‏ فهو الحديث المسند، الذي يتصل إسناده بنقل العدل الضابط عن العدل الضابط إلى منتهاه، ولا يكون شاذاً، ولا معللاً‏.‏[/ARABIC]
حدیثِ صحیح وہ مسند حدیث ہے جس کی سند متصل ہو ، جس کو صاحبِ عدالت اور ضابط راوی نے دوسرے عادل اور ضابط راوی سے روایت کیا ہو یہاں تک کہ وہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تک پہنچ جائے اور وہ معلل اور شاذ بھی نہ ہو۔

لہذا مہوش علی اگر السدی (الکبیر) کی مرسل روایت کو "صحیح لغیرہ" کا درجہ دینے پر مصر ہیں تو یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ اسی روایت بالمعنی کی کوئی ایسی متصل سند پیش فرمائیں ، جس میں تابعی (السدی کبیر) اور نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے درمیانی واسطے (صحابی) کا ذکر ہو۔


مرسل روایت کی بحث :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے !
 
ایک اور دھاگے میں ڈاکٹر طاہر القادری کی قدم بوسی کے موضوع پر بحث ہو رہی تھی۔ اسی دھاگے سے " اسلام میں قدم بوسی کی روایات کا جائزہ " پر بھی چند مراسلے نقل کر کے یہاں چسپاں کیے جا رہے ہیں۔ براہ کرم صرف موضوع پر ہی بحث کو آگے بڑھایا جائے۔ اور امید کرتا ہوں کہ یہ ایک تعمیری بحث ہو گی ناکہ بحث برائے بحث اور ہٹ دھرمی ہو گی۔ ایسا کوئی بھی مراسلہ حذف کر دیا جائے گا۔
جتنے بھی فرقے ہیں وہ اپنے موقف کی حمایت میں آیاتِ قرآن اور احادیثِ نبوی پیش کرتے ہیں۔ اور دوسرے کی پیش کی ہوئی احادیث کو ضعیف و موضوع اور نجانے کیا کیا کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ آپ نے بھی باذوق صاحب کی اس پوسٹ کو تو شامل کرلیا اس دھاگے میں جس میں انہوں نے کچھ احادیژ کو بقولِ البانی ضعیف کہہ کر اپنے تئیں بات ہی ختم کردی۔ لیکن میری جس پوسٹ میں اسی البانی کا ذکر تھا اسے آپ نے شامل نہیں کیا۔ ۔ ۔ لہذا میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح آپ نے کسی بھی تعمیری بحث کے امکان کو خود ہی ختم کردیا ہے جانبداری کا مظاھرہ کر کے۔:)
 

باذوق

محفلین
مرسل روایت کی بحث :
·مرسل حدیث صحیح ہے اور اس سے نتائج اخذ کیے جائیں گے۔ یہ تین بڑے ائمہ یعنی ابو حنیفہ، مالک اور احمد بن حنبل کا نقطہ نظر ہے۔ علماء کا یہ گروہ اس بنیاد پر اس قسم کی حدیث کو قبول کرتا ہے کہ مرسل حدیث صرف ثقہ راوی سے ہی روایت کی گئی ہو۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ایک ثقہ تابعی صرف اسی صورت میں کسی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کر سکتا ہے اگر اس نے اسے کسی قابل اعتماد شخص (یعنی صحابی) سے یہ بات سنی ہو۔
بالا اقتباس میں نے عام قاری کے سمجھنے میں آسانی کے لیے بیان کیا تھا۔ جو یہاں سے ماخوذ تھا۔
چونکہ یہ عبارت بےحوالہ تھی ۔ لہذا اس اردو کتاب کے مولف مبشر نذیر صاحب سے جب حوالہ مانگا گیا تو انہوں نے محمود طحان کی "تیسیر مصطلح الحدیث" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ :
دکتور طحان نے مرسل حدیث کے بارے میں فقہاء و محدثین کے مختلف نقطہ ہائے نظر بیان کیے ہیں مگر کوئی حوالہ نہیں دیا ہے۔

جبکہ مرسل حدیث کے حکم پر اگر اصول حدیث کی کتب چھانی جائیں تو نتائج یوں سامنے آتے ہیں :

امام مسلم بیان کرتے ہیں :
[ARABIC]والمرسل من الروايات في اصل قولنا وقول اهل العلم بالاخبار ليس بحجة[/ARABIC]
ہمارے (محدثین) کے اصل قول اور (دوسرے) علما کے نزدیک مرسل روایت حجت نہیں ہے۔
صحیح مسلم ، کتاب المقدمہ ، باب صحة الاحتجاج بالحديث المعنعن

امام ترمذی علیہ الرحمة فرماتے ہیں :
[ARABIC]والحديث اذا كان مرسلا فانه لا يصح عند اكثر اهل الحديث[/ARABIC]
اور حدیث اگر مرسل ہو تو اکثر محدثین کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔
ترمذی ، کتاب العلل

شرح معانی الآثار میں حافظ طحاوی حنفی لکھتے ہیں :
امام ابو حنیفہ منقطع یعنی مرسل روایت کو حجت نہیں سمجھتے۔
شرح معانی الآثار ، ج:2 ، ص:164

حافظ طحاوی ، محدثین کے متعلق لکھتے ہیں :
[ARABIC]وهم لا يحتجون بالمرسل[/ARABIC]
اور وہ مرسل کو حجت نہیں مانتے۔
حوالہ : معانی الآثار ، ج:2 ، کتاب النکاح ، باب النکاح بغیر ولی عصبة

امام نووی لکھتے ہیں :
[ARABIC]ثمَّ المْرسلُ حدِيثٌ ضعِيفٌ عنْد جَماهِير المُحدِّثينَ وكثير منَ الفقهاءِ وأَصحابِ الأصولِ .[/ARABIC]
مرسل حدیث ، جمہور محدثین ، بہت سے فقہاء اور علمائے اصول کے نزدیک ضعیف ہے۔
تدريب الراوى في شرح تقريب النواوي ، ج:1 ، ص:138

علامہ ابن الصلاح نے لکھا ہے :
اور ہم نے جو ذکر کیا ہے کہ مرسل ضعیف ہوتی ہے اور اس سے حجت پکڑنا ساقط ہے ، یہی وہ مذہب ہے جس پر جمہور حفاظ حدیث اور ناقدین حدیث کا اتفاق ہوا ہے۔
علوم الحديث مع التقييد والايضاح ، ص:74

خطیب بغدادی رحمة اللہ مرسل حدیث کے حجت نہ ہونے پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
[ARABIC]وعلي ذلك اكثر الائمة من حفاظ الحديث ونقاد الاثر[/ARABIC]
اور اس پر (یعنی مرسل حدیث حجت نہیں ہے) اکثر ائمہ ، حفاظ حدیث اور ناقدین حدیث ہیں۔
حوالہ : الکفایة فی علم الروایة ، ص:384

امام سیوطی لکھتے ہیں کہ مرسل روایت پر امام احمد کے 2 قول ہیں :
پہلا قول : مرسل روایت ضعیف ہے
دوسرا مشہور قول : مرسل روایت صحیح ہے۔
بحوالہ : تدریب الراوی ، ج:1 ، ص:198

مرسل روایت کو قبول کرنے میں امام شافعی کی شرائط تو اتنی کڑی ہیں کہ السدی والی [فقبل رجله] روایت اس پر مطلق پورا نہیں اترتی۔

آخر میں امام مالک رہ جاتے ہیں۔ تو موطا مالک میں بکثرت مرسل روایات موجود ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں لوگوں نے ان احادیث کی متصل اسناد تلاش کر لی ہیں۔ امام مالک کے زمانے اور علاقے میں حدیث وضع کرنے کا فتنہ اتنا شدید نہ تھا جس کی وجہ سے امام صاحب کبار تابعین کی مرسل احادیث قبول کر لیا کرتے تھے۔ اس دور میں اصول حدیث کا فن بھی اتنی ترقی نہ کر سکا تھا۔ جب یہ فتنہ شدید ہوا تو پھر محدثین نے اصول وضع کیے جس میں مرسل کا مسئلہ سامنے آیا۔ اہل مدینہ میں بکثرت مرسل احادیث ملیں کیونکہ وہاں اس معاملے میں زیادہ احتیاط نہ برتی جاتی تھی۔ اس پر محدثین نے ان مرسل احادیث کی دیگر اسناد کا احاطہ کرنے کی کوشش کی جس میں بڑی حد تک کامیابی ہوئی۔
یہ ہے وہ پس منظر جس کے سبب مشہور ہے کہ امام مالک کے ہاں مرسل روایت حجت ہوتی ہے۔

آخر میں پھر یاد دلا دوں کہ ۔۔۔۔۔
ہماری بحث ہو رہی ہے فتح الباری للعسقلانی میں السدی کی مرسل روایت ہر
اور حافظ صاحب نے علوم حدیث پر تحریر کردہ اپنے کتابچہ "نخبة الفكر في مصطلح اهل الاثر" میں مرسل روایت کو نہایت واضح طور سے "مردود" کہا ہے۔
اور نزهة النظر شرح نخبة الفكر میں مرسل روایت کے حجت نہ ہونے پر تفصیل سے کلام بھی کیا ہے۔

اب اتنے سب حوالوں کے آگے مہوش علی کے اس قول کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے :
۔۔۔۔۔ کچھ محدثین کے نزدیک مرسل حدیث ہرگز ضعیف حدیث نہیں بلکہ بذات خود صحیح ہے۔

واضح رہے کہ حدیث کے معاملے میں "کچھ محدثین" نہیں بلکہ جمہور محدثین کا فیصلہ قبول کیا جاتا ہے ، اور جمہور کا فیصلہ کیا ہے ، یہ اوپر واضح کیا جا چکا ہے۔ الحمدللہ۔
 
Top