اسلام میں غیر مسلموں سے بدسلوکی کی ممانعت

سید عمران

محفلین
غیر مسلم اسلام پر یہ الزام لگا تے ہیں کہ اسلام دیگر مذاہب کو برداشت کرنے کا روادار نہیں، یہ غیر مسلموں کو صفحۂ ہستی سے مٹادینے کا حکم دیتا ہے اسی لیے اسلام کو تلوار کے زور سے پھیلانے کا حکم ہے۔ یہ ایسا گمراہ کن پروپیگنڈہ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام اپنے پیرو کاروں کو تلقین کرتا ہے کہ وہ دیگر اہل مذاہب کے ساتھ اچھے سلوک اور بہترین اخلاق کا مظاہرہ کریں اور ان کے ساتھ کسی قسم کا ظلم و زیادتی نہ کریں نہ ان کی جان ومال اور عزت وآبروکو نقصان پہنچائیں۔

قرآن پاک میں ہےاللہ تم کو منع نہیں کرتا ان لوگوں سے جو لڑے نہیں دین کے سلسلہ میں اور نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان کے ساتھ کرو بھلائی اور انصاف کا سلوک، بے شک اللہ چاہتا ہے انصاف والوں کو(الممتحنہ:۸)۔اس آیتِ کی تفسیرمیں علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ الله علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ مکہ میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو آپ مسلمان نہ ہوئے اور مسلمان ہونے والوں سے ضد اور پرخاش بھی نہیں رکھی نہ دین کے معاملہ میں ان سے لڑے، نہ ان کو ستانے اورنکالنے میں ظالموں کے مددگار بنے، اس قسم کے غیر مسلموں کے ساتھ بھلائی اور خوش خلقی سے پیش آنے کو اسلام نہیں روکتا، جب وہ تمہارے ساتھ نرمی اور رواداری سے پیش آتے ہیں تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور دنیا کو دکھلادو کہ اسلامی اخلاق کا معیار کس قدر بلند ہے،اسلام کی تعلیم یہ نہیں کہ اگر غیر مسلموں کی ایک قوم مسلمانوں سے برسرپیکار ہے تو تمام غیرمسلموں کو بلاتمیز ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا شروع کردیں ایسا کرنا حکمت وانصاف کے خلاف ہوگا۔(حاشیہ: ترجمہ شیخ الہند:ص:۷۲۹)

مشرکین مکہ کے ساتھ حسنِ سلوک کی مثال:
مکہ مکرمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب پر وہ کون سا ظلم تھا جو کافروں نے نہ کیا ہو، آپ صلى الله علیہ وسلم کو جادوگر، شاعر اور کاہن کہاگیا، جسمانی اور ذہنی اذیتیں دی گئیں، پتھروں کی بارش برسائی گئی، راستوں میں کانٹے بچھائے گئے، گلا گھونٹا گیا، یہاں تک کہ آپ کو قتل تک کرنے کے منصوبے بنائے گئے۔ جب آپ ان کے مظالم سے تنگ آکر مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو وہاں بھی سکون سے رہنے نہیں دیاگیا، مکہ کے کافروں نے مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ مل کر رحمت دو ِ عالم صلى الله علیہ وسلم کے خلاف جنگیں لڑیں۔

فتح مکہ کے موقع پر کفار مکہ کو اپنی موت سامنے نظر آرہی تھی، ان کو خطرہ تھا کہ آج ان کے ظلم و ستم کے بدلے ان کا قتل عام ہوگا، لیکن سرکارِ دو عالم صلى الله علیہ وسلم نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا کہ تم کو کیا توقع ہے، میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم آپ سے اچھی امید ہی رکھتے ہیں، آپ کریم النفس اور شریف بھائی ہیں اور کریم اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں تم سے وہی کہتا ہوں جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا کہ آج تم پر کوئی الزام نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔(زاد المعارج:۱؍۴۲۴)

کیا غیر مسلموں کی تاریخ میں دوسرے مذاہب والوں کے ساتھ اس رحم وکرم کی کوئی مثال موجود ہے؟

مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ حسن سلوک کی مثال:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ ہجرت سے قبل وہاں یہودیوں کے مختلف قبائل آباد تھے۔ نبی کریم صلى الله علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعدشروع شروع میں تو یہود خاموش رہے لیکن اس کے بعد وہ زیادہ دیر اپنی دشمنی اور معاندانہ رویہ چھپا نہ سکے۔ انہوں نے سرکارِ دوعالم صلى الله علیہ وسلم اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوششیں، سازشیں اور بغاوتیں کیں۔ آپ صلى الله علیہ وسلم کے کھانے میں زہر تک ملایا ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طاقت اور قدرت ہونے کے باوجود ان سے کبھی اپنی ذات کے لیے انتقام نہیں لیا اور ہمیشہ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا۔

عیسائیوں کے ساتھ حسن سلوک:
مکہ مکرمہ اور یمن کے درمیان واقع نجران کے علاقے کا ایک وفد آپ صلى الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔اس موقع پر ان سے ایک تاریخی معاہدہ ہوا، جس میں آپ نے عیسائیوں کو مختلف حقوق دئیے مثلاً :
۱) ان کی جان محفوظ رہے گی۔۲) ا ن کی زمین، جائیداد اور مال وغیرہ ان ہی کے قبضے میں رہیں گے۔۳) ان کے مذہبی نظام میں تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ مذہبی عہدے دار اپنے اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے۔ (۴) عورتوں کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔(۵) ان کی کسی چیز پر قبضہ نہیں کیاجائے گا۔ (۶) ان سے فوجی خدمت نہیں لی جائے گی۔ (۷) زرعی پیداوار کا عشر نہیں لیا جائے گا۔ (۸) ان کے ملک پر فوج کشی نہیں کی جائے گی۔(۹) ان کے معاملات اور مقدمات میں انصاف کیا جائے گا۔(۱۰) ان پر کسی قسم کا ظلم نہیں ہوگا۔ (دین رحمت:۲۳۹، بحوالہ: فتوح البلدان بلاذری)

منافقین کے ساتھ حسن سلوک:
مدینہ منورہ میں ایک طبقہ ایسا پیدا ہوگیا تھا جو اسلام کے بڑھتے ہوئے اثر کو دیکھ کر بظاہر مسلمان ہوگئے تھے لیکن باطن میں مسلمانوں کے لیے دشمنی رکھتے تھے،ان کا سربراہ عبداللہ بن ابی ابن سلول تھا۔ یہ مدینہ منورہ کا بااثر شخص تھا۔ حضور صلى الله علیہ وسلم کے مدینہ منورہ تشریف لانے سے قبل مدینہ کے لوگ اس کو حکمران بنانے کی تیاری کررہے تھے لیکن حضور صلى الله علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد اس کی آرزو خاک میں مل گئی۔ اسی لیے یہ اپنے کو مسلمان ظاہر کرنے کے باوجود دل سے کافر ہی رہا۔ ان منافقین نے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی تمام ترکوششیں کیں، نبی کریم صلى الله علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کیں اور مکہ کے کافروں اور مدینہ کے یہودیوں سے مل کر اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے منصوبے تیار کیے۔ان سب شرارتوں کے باوجود حضور صلى الله علیہ وسلم اور مسلمانوں نے ان کے ساتھ بھی حسن اخلاق اور رواداری کا ہی معاملہ فرمایا۔ حتیٰ کہ حضور صلى الله علیہ وسلم نے اس کے بیٹے کی درخواست پر اس کے کفن کے لیے اپنا کرتا بھی عنایت فرمایا اور اس امید پر اس کی نماز جنازہ بھی پڑھائی کہ شاید اس طرح یہ جہنم میں جانے سے بچ جائے۔

اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کے حقوق:
اسلام نے غیر مسلموں کے ساتھ مثالی رحم و کرم، مساوات و ہمدردی اور رواداری کا معاملہ کیا ہے اور ان کو وہ سماجی حقوق عطا کیے ہیں جو ان کے مذہب نے بھی انہیں نہیں دیئے۔ مثلاً جو غیر مسلم اسلامی ریاست میں رہتے ہوں اسلام نے ان کی جان و مال، عزت و آبرو اور مذہبی آزادی کے تحفظ کی ضمانت دی ہے اور حکمرانوں کو پابند کیا ہے کہ ان کے ساتھ مسلمانوں کے مساوی سلوک کیا جائے۔ان غیر مسلموں کے بارے میں اسلام یہ کہتا ہے کہ یہ اللہ اور رسول کی پناہ میں ہیں،لہٰذا جو غیر مسلم مسلمانوں کی ذمہ داری میں ہیں ان پر کوئی ظلم ہو تو اس کی مدافعت مسلمانوں پر ایسی ہی لازم ہے جیسی خود مسلمانوں پر ظلم ہوتو اس کا دفع کرنا ضروری ہے۔(مبسوط للسرخسی:۱؍۸۵) بلکہ اگر کوئی مسلمان کسی ذمی پرظلم کرتا ہے تو یہ مسلمان پر ظلم کرنے سے زیادہ سخت ہے۔(درمختار مع ردالمحتار:۵؍۳۹۶)جو حقوق مسلمانوں کو حاصل ہیں وہی حقوق ذمیوں کو بھی حاصل ہوں گے، نیز جو واجبات مسلمانوں پر ہیں وہی واجبات ذمی پر بھی ہیں۔ ذمیوں کا خون مسلمانوں کے خون کی طرح محفوظ ہے اور ان کے مال ہمارے مال کی طرح محفوظ ہے۔(درمختار کتاب الجہاد)اسلام نے طے کیا ہے کہ جو شخص اس غیرمسلم کو قتل کرے گا جس سے معاہدہ ہوچکا ہے وہ جنت کی خوشبوسے بھی محروم رہے گا، جبکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت تک پہنچتی ہے۔(ابن کثیر:۲؍۲۸۹) حضور اکرم صلى الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جو کسی معاہد (غیرمسلم ذمی ) پر ظلم کرے گا یا اس کے حقوق میں کمی کرے گا،یا طاقت سے زیادہ اس کو مکلف کرے گا یا اس کی کوئی چیز اس کی مرضی کے بغیر لے گا تو میں قیامت کے دن اس کی طرف سے دعوے دار بنوں گا۔(مشکوٰة شریف،ص:۳۵۴) اسلامی حکومتوں میں غیرمسلم رعایا کو اتنی آزادی حاصل تھی کہ ان کے تعلیمی ادارے آزاد ہوتے اوران کے شخصی قوانین کے لیے عدالتیں بھی آزاد تھیں۔

جنگ کرنے والوں غیر مسلموں کےساتھ سلوک:
جب مکہ مکرمہ میں کافروں نے مسلمانوں پر ظالم کے پہاڑ توڑے اور وہ بحالت مجبوری مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلے گئے تو مدینہ منورہ میں موجود مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے ان دشمنوں نے لشکر کشی کی، جس کے بعد اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ تلوار کا مقابلہ تلوار سے کیاجائے ۔ اس کے باوجو عین حالت جنگ میں مسلمانوں سے برسرپیکار کفار کے لیے اسلام نے جس بے نظیر رواداری اور ضابطۂ اخلاق کی تعلیم دی وہ کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی۔ اس سلسلہ کے چند نکات درج ذیل ہیں:
۱) ظلم وزیادتی کی ممانعت کی۔ (بقرہ:۱۹۰)
۲) جنگ کی اجازت صرف اس وقت تک دی جب تک فتنہ وفساد فرونہ ہوجائے۔(حج:۱۳۹)
۳) دشمن کے قاصدوں کو امن دیا ۔(البدایہ والنہایہ:۳؍۴۷)
۴) دشمن کی عورتوں، بچوں اور معذوروں کو مارنے سے منع کیا۔(تاریخ ابن خلدون:۲؍۴۸۹)
۵) سرسبز کھیتوں اور پھل دار درختوں کے کاٹنے کی ممانعت کی۔(تاریخ ابن خلدون:۲؍۴۸۹)
۶) عبادت گاہوں کو ڈھانے اور تارک الدنیا عابدوں اور مذہبی رہنماؤں کو قتل کرنے سے روکا۔(تاریخ ابن خلدون:۲؍۴۸۹)
۷) جنگی قیدیوں کو تکلیف پہنچانے کی ممانعت کی۔
۸) دشمن کی جانب سے صلح کی درخواست قبول کرنے کا حکم دیا۔
۹) پناہ میں آنے والے غیر مسلم کو امن دینے اور عافیت سے رکھنے کی تاکید کی۔ (سورہ توبہ:۳۶)
۱۰) محض مال غنیمت کے لیے جہاد کرنے سے روکا۔(ابوداؤد:۱؍۳۴۸)
۱۱) معاہدہ کرنے والے ذمیوں کی جان ومال کی پوری حفاظت کا مسلمانوں کو پابند فرمایا۔ (دین رحمت:۲۳۹)

ملخص
 

جاسمن

لائبریرین
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
بہت شکریہ۔
بہت ہی اچھی شراکت ہے۔اللہ قبول فرمائے اور ہمیں غیر مسلموں سے ویسا ہی سلوک و برتاو کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ جیسا وہ ہم سے چاہتا ہے آمین!
 

سیما علی

لائبریرین
جزاک اللّہ خیرا کثیرا۔۔
پروردگار ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم وہی سلوک کریں غیر مسلموں سے جسکا ہمیں حکمُ فرمایا ہے اور آپکی کاوش کو قبول فرمائے آمین !!!!!
 
Top