اسلامی شخصیت کے بنیادی اجزاء

عمر میرزا

محفلین
السلام علیکم برادران عزیز

وہ شخص جو اللہ پر اسکے رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والٰہ وسلم کے آخری نبی ہونے پر ،اللہ کی کتاب پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے ضروری ھے کہ اس کی زبان ذکر الہٰی سے تر رہے۔ اللہ کے تقوی سے اس کا دل معمور ہو ،اس کے اعضا و جوارح سے نیکیوں کے چشمہ جاری ہوں ،قرآن کی تلاوت کرے اور اس پر عمل پیرا ہو، اللہ اور ا س کے رسول سے محبت کرے ،محبت ہو تو صرف اللہ کے لیے ہو ،نفرت ہو تو صرف اللہ کے لیے ہو،رحمت الٰہی کا امیدوار ہو ،عذاب الٰہی سے خوف زدہ رہے، صابر اور محاسبہ کرنے والا ہو، توکل علی اللہ کاپیکر بنے اور مخلص ہو ۔حق پر پہاڑ کی مانند مضبوطی سے ڈٹا رہے ،مومنوں کے تعلق سے رحم وکرم اور نرمی کا معاملہ کرے اور کافروں کے تئیں سخت ہو ،اللہ کی راہ میں ملامت سے خوف محسوس نہ کرے، اخلاق حسنہ کا جیتا جاگتا نمونہ ہو ،خوش کلام ،مدلل بات کہنے والا ہو ، معروف کا حکم دےنے والا وار منکرات سے باز رکھنے والاہو ،زندگی تو دنیا میں گزارتا ہو مگر نگاہیں جنت کی جانب مرکوز ہوں جس کی لمبائی چوڑائی زمین وآسمان کو محیط ہے اور جومخلص اور متقیوں کے لیے تیا ر کی گئی ہے۔

اس پوسٹ کو شروع کرنے کا مقصد یہ ھے کہ ھم اپنی شخصیتوں کو اسلامی ثقافت میں تبدیل کریں اور اسلامی شخصیت جن اجزاء کا مرکب ہوتی ہے ،جو کہ ایک مومن کی پہچان اور شناخت ہیں۔ ان کے متعلق آگاہی حاصل کریں۔
والسلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ
 

عمر میرزا

محفلین
۔1۔ اپنے گناہوں پر آہ وزاری کرنا

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والٰہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

”اس پر رحمت ہو جو اپنے آپ کو قابو میں رکھے اور جو اپنے گھر میں سما جائے اور اپنے گناہوں پر آہ وزاری کرے “(یہ حدیث الطبرانی سے روایت ہے جنہوں نے اسے حسن قرار دیا)
مندرجہ بالا حدیث ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اللہ کی یاد اور اس کے خوف سے آنسو بہانا اور اپنے گناہوں پر آہ وزاری کرنا مندوب عمل ہے۔ اس بارے میں قرآن اور حدیث میں بارہا ذکر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مومن کی نشانی بتاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
”اور وہ اپنی ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور یہ قرآن ان کی عاجزی اور خشوع و خضوع بڑھا دیتا ہے“ (الاسرائ:109)مزید ایک اور جگہ فرمایا:
”ان کے سامنے جب رحمن کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی تھی یہ روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے تھے“(مریم: 58
یہی وجہ تھی کہ امام الانبیاء، آقا دوجہاں حضرت محمدصلٰی اللہ علیہ والٰہ وسلم کا معمول بھی یہی تھاجیسا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں

کہ رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والٰہ وسلم نے مجھ سے کہا :”مجھے قرآن پڑھ کر سناو“ میں نے رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والٰہ وسلم سے عرض کی : ”کیا میں آپ کو پڑھ کر سناوں جبکہ یہ تو آپ پر نازل ہوا“ آپ نے فرمایا: ”میں اس بات کو زیادہ پسند کرتا ہوں کہ میں کسی دوسرے سے قرآن کی تلاوت سنوں“ پس آپ صلٰی اللہ علیہ والٰہ وسلم نے آپ ا کے سامنے سورۃ النساءتلاوت کی۔ جب وہ اس آیت پر پہنچے ”بھلا اس دن کا کیا حال ہوگاجب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے اور آپ ا کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے“ تو رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والٰہ وسلم نے فرمایا: ”بس اتنا کافی ہے “ جب ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والٰہ وسلم کے چہرے کی طرف نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ آپ ا کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔(متفق علیہ)

صحابہ اکرام کا رویہ بھی یہی تھا کہ جب بھی آخرت کا ذکر آتا تو اللہ کے خوف سے آنسو بہاتے، جیسا کہ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والٰہ وسلم نے ہمیں ایسا خطبہ دیا جیسا اس سے قبل میں نے کبھی نہیں سنا تھا آپ انے ارشاد فرمایا:

”اگر تم وہ جان لو جو میں جانتا ہوںتو تم کم ہنسو اور زیادہ رو¿و “ پس رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والٰہ وسلم کے صحابہ ثنے اپنے چہرے چھپالیے اور وہ رو رہے تھے۔ (متفق علیہ)

اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں ابن عمر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ جب رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والٰہ وسلم کی تکلیف (یعنی بیماری ) بڑھ گئی تو آپ صلٰی اللہ علیہ والٰہ وسلم نے فرمایا:

”ابوبکرسے کہو کہ وہ نماز میں لوگوں کی امامت کرائیں“ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : ”ابوبکر صبہت رقیق القلب ہیں اور وہ تلاوت کے دوران رونے پرقابو نہیں رکھ سکیں گے۔۔۔“
یہ وہ عمل ہے جو اللہ کا نہایت پسندیدہ ہے۔ اللہ کو اپنے بندے کی عاجزی بہت پسند ہے اور ایسے شخص کے لیے اللہ تعالیٰ نے اجرِ عظیم رکھا ہے، جیسا کہ ابو ہریرہ صسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والٰہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

”جو شخص اللہ کے خوف سے روتا ہے، اللہ اسے نارِ جہنم میں داخل نہیں کرے گا، یہاں تک کہ دودھ واپس تھن میں داخل نہ ہوجائے اور اللہ اپنی راہ میں قتال کے دوران اڑنے والی گرد اور جہنم کے دھوئیں کو کبھی اکٹھا نہیں کرے گا“(ترمذی )

اسی طرح ایک حدیث میں انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والٰہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

”جو شخص اللہ کو یا د کرے اور اللہ کے خوف سے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجائیں تو جب تک یہ آنسو زمین میں ہیں اس وقت تک اسے قیامت کے دن عذاب نہ ہوگا۔“ (الحاکم)

ایک اور حدیث میں ابو ریحانہ نے بیان کیا :

”ہم رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والٰہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ کے لیے نکلے اور میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:”اس آنکھ پر (دوزخ کی) آگ حرام کردی گئی جو اللہ کے خوف سے روتی ہے ،(اور )اس آنکھ پر (دوزخ کی ) آگ حرام کردی گئی جو اللہ کی راہ (یعنی جہاد) میں جاگتی ہے اور میں تیسری بات بھول گیا لیکن بعد میں، میں نے سنا کہ آپنے ارشاد فرمایا : ”اس آنکھ پر آگ حرام کردی گئی جو ان چیزوں سے نگاہیں جھکا لیتی ہے جنہیں (دیکھنا) اللہ نے حرام کیا ہے“(النسائی)


یہی وجہ تھی کہ مومنوں کو اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ وہ ہر وقت اپنے اعمال پر نظر رکھیں۔ اپنے آپ کو حرام کاموں سے دور رکھیں اور جو فرائض اللہ نے ان فرض کئے ہیں ان کی پابندی کریں لیکن انسان چونکہ خطا کا پتلا ہے اس لیے اپنے کئے گئے گناہوں پر اکرنے کی بجائے توبہ کرے اور اللہ کو یاد کرکے آنسو بہائے ۔ یہ عاجزی ہی ہے جو کہ رب کو پسند ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ ابن ابو ملیکہ سے روایت ہے کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حجرے میں بیٹھے تھے کہ آپ صلٰی اللہ علیہ والٰہ وسلم نے بیان کیا:

”روءو اور اگر رو نہیں سکتے تو یوں ظاہر کرو جیسے رو رہے ہو۔ اگر تم واقعی جان جاو تو تم سب نماز پڑھو یہاں تک کے تمہاری کمر ٹوٹ جائے اور تم رو و یہاں کہ تمہاری آواز ختم ہوجائے“(الحاکم
 
Top