اسلامی بنکاری کے خلاف اسلام ہونے کے بارے میں علماء کے موقف کا خلاصہ

سیفی

محفلین
اسلامی بنکاری کے خلافِ اسلام ہونے کے بارے میں علماء کے موقف کا خلاصہ

السلام علیکم

ایک پوسٹ میں برادرم نوید صادق کے دیئے گئے لنک میں روزنامہ جسارت میں "میزان بینک" کے ایگزیکٹو وائس پریزیڈنٹ احمد علی صدیقی کا بیان تھا کہ "علمی دلیل کے بغیر اسلامی بنکاری کو ناجائز قرار دینے سے اسلامی نظام معیشت پر ضرب پڑے گی" اس بیان کے بعد مجھے خیال ہوا کہ شاید صدیقی صاحب نے تو اس فتویٰ کی تفاصیل اور وجوہات کو معلوم کرنے کی کوشش نہ کی ہوگی۔ تاہم اراکین محفل کی دلچسپی کے لئے میں اس فتوے کی کچھ تفصیل اور وجوہات بیان کردوں تاکہ علمی نکات بھی علم میں آجائیں۔ ورنہ ابھی تک تو لوگوں کو صرف اتنی بات ہی پتہ چلی ہے کہ جناب اسلامی بنکاری ناجائز ہے۔ اتنی سی بات پر کچھ اس کے حق میں اور کچھ خلاف ہیں۔ اور ان وجوہات کا اکثر کو علم نہیں کہ جن کی وجہ سے علماء نے اس نظام کو خلافِ اسلام قرار دیا ہے ۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مروَّجہ اسلامی بینکاری اورجمہور علماء کے مؤقف کا خلاصہ
مفتی رفیق احمد،بالاکوٹی
مروَّجہ اسلامی بینکاری اور
جمہور علماء کے مؤقف کا خلاصہ

اسلام کی طرف منسوب مروجہ بینکاری نظام کو ملک کے جمہور اہل فتویٰ،خلاف شریعت قرار دیتے ہیں، اس رائے کے متفقہ اظہار کے لئے ۲۵ شعبان المعظم ۱۴۲۹ھ بمطابق ۲۸اگست۲۰۰۸ء کو ملک کے چاروں صوبوں کے مشہور و معروف اربابِ فقہ و فتاویٰ کاایک اجتماع منعقد ہوا ، یہ اجتماع شیخ المشائخ استاذ العلماء والمفتیین حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتہم کے زیر صدارت ،جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی میں منعقد ہوا، اجتماع کے شرکاء ،تمام اہل فتویٰ حضرات نے قرآن و سنت ،فقہ و فتاویٰ اور احوال واقعی کی روشنی میں بغور جائزہ لینے کے بعدمروجہ اسلامی بینکاری کے حوالے سے اپنے جس موٴقف کا اظہار کیا، اس موٴقف کا مختصر خلاصہ پیش کیا جارہا ہے۔
دار الافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن کراچی ۲۹/شعبان ۱۴۲۹ھ

اسلام کی طرف منسوب ”بینکاری نظام“ کو ہم خالص غیر اسلامی نظام سمجھتے ہیں، بلکہ بعض حیثیتوں سے اس نظام کو روایتی بینکاری نظام سے زیادہ خطرناک اور ناجائز سمجھتے ہیں ،اس نظام کو غیر اسلامی کہنے کی دو بنیادی وجہیں ہیں:
۱…مروجہ اسلامی بینک مجوزہ اسلامی طریقہ ٴ کار پر کار بند نہیں۔
۲…جو مجوزہ طریقہٴ کار برائے تمویل طے پایا تھا ،وہ طریقہ بھی شرعی اعتبار سے کئی نقائص کا حامل ہے۔ تفصیل ملاحظہ ہو:

پہلی وجہ
مروجہ اسلامی بینکاری کے مجوِّزین نے جو فقہی بنیادیں، مروجہ اسلامی بینکاری کے لئے مسلم بینکاروں کو فراہم کی تھیں اور جن شرائط کے ساتھ فراہم کی گئی تھیں‘ عملی طور پر مروجہ بینکاری نظام فراہم کردہ بنیادوں پر نہیں چل رہا، بلکہ ان اسلامی بنیادوں کو ان کے مطلوبہ معیارات پر بھی استعمال نہیں کیا جارہا، جس کے نتیجہ میں مروجہ اسلامی بینکاری، روایتی بینکاری سے اپنا جداگانہ اسلامی تشخص قائم کرنے میں شروع سے ناکام چلی آرہی ہے اور ایسے نازک طریقوں پر پیش قدمی کررہی ہے کہ جن طریقوں پر چلتے ہوئے اسلامی بینکاری روایتی بینکاری سے قطعاً ممتاز نہیں ہوسکتی ،جس کی وجہ سے آخری نتیجہ مادی طور پر سودی معاملات سے مختلف نہیں ہو رہا‘ اس پر تین ناقابل تردید شہادتیں ملاحظہ ہوں:

پہلی شہادت
مروجہ اسلامی بینکوں کے مجوزین علماء کرام اورمروجہ اسلامی بینکاری سے وابستہ حضرات یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اسلامی بینکاری کی حقیقی اور اصلی بنیادیں ”شرکت اورمضاربت “ہیں اورمروجہ ”مرابحہ واجارہ“ محض حیلے ہیں، جنہیں محدود وقت اور عبوری دور کے لئے مشروط طور پر جائز اور قابل عمل قرار دیا گیا تھا، مروجہ ”مرابحہ واجارہ“ بالاتفاق اسلامی بینکاری کی مستقل مثالی بنیادیں ہرگز نہیں ہیں، بلکہ انہیں مستقل بنیادبنانا بھی سودی حیلہ ہونے کی بناء پر ناجائز اور خلاف شرع ہے، مگر اس کے باوجود ہمارے بینکار حضرات ”شرکت ومضاربت“ کی بجائے مروجہ ”اجارہ ومرابحہ“ پر جم کر بیٹھ چکے ہیں اور ان کے خطرناک ہونے اور سودی حیلہ ہونے اور روایتی معیارات کے فریم ورک میں استعمال ہونے‘ نیز مادی طور پر سودی معاملہ ہونے کے باوجود ان حیلوں کو ترک کرنے کے لئے آمادہ نہیں، کیونکہ مروجہ” اجارہ ومرابحہ“ کوروایتی معیارات کے فریم ورک میں استعمال کرنے سے بعینہ روایتی بینکاری کی شکل وصورت اور خاصیت وافادیت کا نتیجہ برآمد ہوتاہے‘ جو ہر بینکار کے لئے قابل قبول ہے‘ اس کے مقابلہ میں ”شرکت ومضاربت“ کا عنصر اسلامی بینکوں میں قلیل کالمعدوم کے درجہ میں ہے اور نفع و نقصان میں شرکت کے اسلامی اصولوں کی وجہ سے شرکت ومضاربت مروجہ بینکوں کے لئے کسی قسم کی دلچسپی کا ذریعہ نہیں ہیں‘ اس لئے بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مروجہ اسلامی بینکاری اپنی فراہم کردہ اصل بنیادوں سے ایسی ہٹی ہوئی ہے کہ اس کا اصل بنیادوں کی طرف بڑھنا” محال“ کے درجہ میں صاف نظر آرہاہے۔کیونکہ اسلامی بینک کی حقیقی بنیادیں ایک طرف جب کہ مروجہ اسلامی بینکاری کا رُخ مخالف سمت میں ہے۔

دوسری شہادت:
یہی وجہ ہے کہ اسلامی بینکاری کے پشتیباں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم جن کے فتویٰ اورشخصیت پر اس سلسلہ میں اعتماد کیا جاتا ہے وہ اس بینکاری نظام سے سخت نالاں اور مایوس ہیں جس کا اظہار انہوں نے مختلف تحریروں اور بیانات میں فرمایا ہے، انہی مایوسیوں کے نتیجہ میں وہ اس نظام سے رفتہ رفتہ دورہونے کا عندیہ بھی دے رہے ہیں اور برملا یہ ارشاد بھی فرماچکے ہیں کہ” مروجہ اسلامی بینکاری کاپہیہ اب الٹا چلنے لگا ہے“۔
(مولانا مد ظلہم کے اس بیان کی کیسٹ اور سی-ڈی ہمارے پاس محفوظ ہے۔)
جس کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں بیان کیا جاسکتا کہ مروجہ اسلامی بینکاری کو شروع سے غیر اسلامی کہنے والے حضرات کے خدشات اور اندیشے تو بالکل درست ہی ہیں‘ اس پر مستزاد یہ کہ جو حضرات ان بینکوں کی بہتری اور اسلام سے ہم آہنگ ہونے کی توقع کررہے تھے اوراسلامی بینکاری سے نیک خواہشات وابستہ کئے ہوئے تھے، وہ بھی اس کی بہتری اور اسلام سے ہم آہنگی کا تصور اب محض ایک ادھورا خواب سمجھنے پر مجبور ہورہے ہیں، اگر مروجہ اسلامی بینک اپنے مجوزہ مطلوبہ شرعی معیار پر کام کر رہے ہوتے تو ہمارے ان بزرگوں کو مایوسیوں کا سامنا ہوتا ،نہ ہمارے بینکار حضرات کو ان کے شکوے سننے پڑتے۔

تیسری شہادت :
ان لا تعداد عوام الناس اور دانشوروں کی ہے جنہوں نے روایتی اور مروجہ اسلامی دونوں بینکوں سے اپنے معاملات رکھے ،مگر وہ کسی بھی طور پر دونوں کے درمیان کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ فرق بھی تلاش بسیار کے باوجود محسوس نہیں کرپائے‘ حالانکہ اس طبقہ میں ایک عام اکاؤنٹ ہولڈر سے لے کر بڑے سے بڑے اقتصادی ماہرین اور نامور بینکار حضرات تک بھی شامل ہیں ‘ جن کے بارے میں بلاخوف تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ بینکاری نظام، اس کی باریکیوں اور اکائیوں سے اتنی گہرائی اور گیرائی کا تعلق رکھتے ہیں کہ اس میدان میں ان کی معلومات کا پہلا زینہ ہمارے جدید اسلامی بینکاروں کی آخری منزل کے بعد شروع ہوتاہے، ان ماہرین نے بینکاری نظام، صرف رسائل وجرائد یا اسباق ودروس کے ذریعہ نہیں سیکھا، بلکہ ان کی زندگی کا کارآمد عرصہ ان بینکوں میں گذرا ہے‘ اس کے باوجود انہیں روایتی اور اسلامی بینکوں کے درمیان چند اسلامی اصطلاحوں کے علاوہ کوئی فرق محسوس نہیں ہوسکا، جو اس بات پر شہادت ہے کہ مروجہ اسلامی بینکاری کا عملی طریقہ کار‘ فراہم کردہ اسلامی بنیادوں کی بجائے روایتی بینکوں کے سرمایہ کاری کے طریقوں پر چل رہا ہے‘ اس لئے روایتی اور اسلامی بینکوں میں صرف چند اصطلاحوں کا لفظی فرق ہے ،عملی طریقہ کار اور اہداف واغراض میں دونوں یکساں ہیں۔

دوسری وجہ:
مروجہ اسلامی بینکاری کو خلاف اسلام کہنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ مروجہ اسلامی بینکاری کے لئے فراہم کردہ بنیادیں بھی بایں طور سقم سے خالی نہیں کہ ان بنیادوں کی تطبیق، تشریح ، تعبیر، استدلال اور طرز استدلال میں مروجہ بینکاری کے مجوزین حضرات نے شرعی اعتبار سے خطرناک قسم کی ٹھوکر یں کھائی ہیں۔مثلاً:

۱…ان حضرات کے استدلال اور طرز استدلال میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ بینکاری کے لئے مفید تجارتی شکلوں کو اسلامائز کرنے کے لئے کئی فقہی اصطلاحوں میں قطع وبرید کی گئی ہے، خلاف ضابطہ ضعیف اور مرجوح اقوال پر اعتمادد وانحصار کیا گیا ہے، ایک ہی معاملہ میں شرعی تقاضے پورے کئے بغیر مذہب غیر کی طرف جانے کی روش کو مباح سمجھا گیا ،جوکہ تمام مذاہب کے ہاں تلفیق محرّم(مختلف اقوال کو ملانے کی حرمت) ہوکر بالاجماع باطل ہے، اسی طرح حسبِ منشاء کسی تجارتی شکل کواسلامی شکل ثابت کرنے کے لئے اور اسلامی لبادہ پہنانے کیلئے صحیح ،صریح اور واضح شرعی احکام سے عمداً صرف نظر کرتے ہوئے ،دور ازکار تاویل در تاویل کا طریقہ کار اختیار فرمایا گیا ۔جسے علماء شریعت نے،شریعت کی توہین،تعطیل اور شرعی احکام کا مذاق قرار دیاہے‘ کیونکہ یہ طرز عمل تاویل فاسد کے زمرے میں آتا ہے۔

۲…بینکوں میں رائج کردہ ”مرابحہ و اجارہ“ محض حیلے ہیں، یہ اسلامی تمویلی طریقے بالاتفاق نہیں‘ اس کے باوجود ان حیلوں کو مستقل نظام بنانا‘ ناجائز ہے۔ ایسے حیلوں کے ذریعے انجام پانے والا معاملہ بھی ناجائز ہی کہلاتا ہے۔جیسے امام محمد  کے ہاں ”بیع عینہ“ کا حیلہ ناجائز ہے‘ اسی طرح مروجہ ”مرابحہ و اجارہ“ کے حیلے اور ان کو ذریعہ تمویل بنانا بھی ناجائز ہے۔اسلامی بینکاری کے مجوزین نے اس طرح کے واضح احکام کو تأویل در تأویل کے ذریعے نظر انداز فرمایا‘ جبکہ دوسری طرف اسلامی بینکوں کے مالی جرمانہ کے جواز کے لئے ابن دینار مالکی رحمہ اللہ کے مرجوح متروک کالمعدوم قول پر اعتمادکیا گیا‘ حالانکہ اس قول پر عمل کرنا شرعا ًو اصولاًجائز بھی نہیں تھا،مگر اسلامی بینکاری کے مجوزین نے ان شرعی اصولی نزاکتوں سے قصداً چشم پوشی فرمائی ہے‘ ورنہ یہ واضح احکام ان سے ہر گز پوشیدہ نہیں تھے۔

۳…مروجہ اسلامی بینکوں میں رائج ”مرابحہ“ او ر”مرابحہ فقہیہ“ میں کوئی مماثلت نہیں،مرابحہ فقہیہ میں ابتدا سے قیمت و ثمن کا متعین ہو کر ذمے میں آنا اور لاگت کا یقینی علم اوروجود ضروری ہے‘ جبکہ بنکوں میں رائج مرابحہ میں بینک ثمن کی ادائیگی پہلے نہیں کرتا یا لاگت کا وجودہی نہیں ہو تا۔ اس لئے مرابحہ بنوکیہ، اصطلاحی مرابحہ تو درکنار، عام کسی بیع کے تحت بھی نہیںآ تا ۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے معاملہ کو ”مرابحہ“ کا نام دینا شرعاً خیانت کہلاتا ہے اور ناجائز شمار ہو تا ہے ،مگر مروجہ اسلامی بینکاری میں اسی خیانت کو مرابحہ کے نام سے رواج دیا گیا ہے۔

۴…مروجہ اسلامی بینکوں میں رائجمرابحہ میں بینک کا کاغذی معاہد ہ جس پر پیشگی دستخط ہو چکے ہیں وہی اصل ہے اس کے بعد وکالت کے مختلف مراحل شرعی اعتبار سے وکالت ہرگز نہیں بن سکتے بلکہ لین دین کی ذمہ داری ایک شخص کے گرد گھومنے کی وجہ سے صراحتًا وکالت فاسدہ ہے۔ اس لئے وکالت کا یہ طریقہ کار شرعا محض کاغذوں کی لکیریں اور لفظی ہیراپھیری ہے۔ حقیقت میں ایک ہی فرد بائع اور مشتری بن رہا ہے جو کہ صراحتاً خلاف شرع ہے۔ اس مرابحہ کا شرعی اصطلاحی مرابحہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پس مرابحہ بنوکیہ خالصتاً سودی حیلہ ہے۔اور ان بینکوں کا نفع ”ربح“ نہیں ”ربوٰ“ ہے۔

۵…مروجہ” اجارہ“ میں عاقدین کا بنیادی مقصد” اجارہ“ کا معاملہ نہیں ہوتا بلکہ خریداری کا معاملہ کرنا مقصود ہو تا ہے۔قاعدہ و قانون کی رو سے حکم، اصل مقصد (بیع) پر ہی لگے گا نہ کہ الفاظ(اجارہ)پر‘اس سے اس معاملہ کو اگر بیع کہا جائے تو یہ بیع مشروط بالاجارہ ہے جوکہ خلاف شریعت ہے۔

۶…مروجہ اجارہ میں اجرت کی شرح کی تعیین اور تناسب کے لئے روایتی سود کی شرح کو معیار بنانا ہی بنیادی طور پر غلط ہے ۔ کیونکہ یہ سودی معاملات کے ساتھ اولاً مشابہت ،ثانیاً اشتباہ بھی ہے۔ دوسرے یہ کہ روایتی سود کی شرح مختلف اوقات میں بدلتی رہتی ہے یا افراط زر کی وجہ سے کمی بیشی ہوتی رہتی ہے ۔ایسا اجارہ جس میں اُجرت کی شرح و تناسب یقینی طور پر پیشگی معلوم نہ ہو‘ وہ ناجائز ہوتا ہے۔ مگر ہمارے اسلامی بینکار حسب عادت یہاں بھی اصل احکام کو چھوڑ کر خلاف شریعت طریقوں کو شرعی جواز فراہم کرنے کی تگ ودو میں لگے ہوئے ہیں۔

۷…اسی طرح مروجہ اجارہ یا کسی بھی عقد میں قسطوں کی ادائیگی یا تاخیر کی صورت میں گاہک سے اجباری صدقہ کر وانااور لینا دونوں شرعاً ،عرفاً ،قانوناً اور عقلاً صدقہ نہیں بلکہ جرمانہ ہے جوکہ بلاشبہ ناجائز ہے اورخالص سودی ہے، بلکہ جس فقہی عبارت سے بعض اہل علم نے اس کا جواز ثابت فرمایا ہے خو د اسی عبارت سے اس جرمانے کا صریح سود ہو نا ثابت ہو تا ہے۔کیونکہ یہ صدقہ بینک کے مقاصد کے لئے بینک کی شرائط اور ترجیحات کی لازمی رعایت کے ساتھ اس کے مجبور کرنے پر گاہک کوبینک کے لئے ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس مسئلے میں بھی مروجہ اسلامی بینکاری کے مجوزین کو سہواً یا عمداً بہت بڑا مغالطہ لگا ہے کہ انہوں نے بینک کی ایک غیر شرعی ضرورت کو شرعی ثابت فرمانے کے لئے بہت دور کی بات بہت دور سے ثابت فرمانے کی کوشش فرمائی ہے جس کی بالکل گنجائش نہیں تھی ،حالانکہ صاف ظاہر ہے کہ جہاں جبر ہو‘ وہ صدقہ نہیں۔ جہاں اصطلاحی صدقہ ہو‘ وہاں جبر نہیں ہو سکتا ۔

۸…اسی طرح اجارہ اورمروجہ بینکوں کے دیگر عقود میں ”سیکورٹی ڈپازٹ“کی قانونِ شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔اصطلاحی شرکة و مضاربة ،اجارہ ، مرابحہ وغیرہ یہ سب امانات کے قبیل سے ہیں نہ کہ ضمانات کے قبیل سے،جبکہ سیکورٹی (رہن ) صرف ضمانات پہ لی جاسکتی ہے‘ وہ بھی سیکورٹی (رہن)کے احکام کے مطابق۔ جبکہ ہمارے اسلامی بینکوں میں رائج سیکورٹی نہ رہن ہے نہ قرض ہے نہ امانت ہے ۔بلکہ دوسرے کے مال سے فائدہ اُٹھانے کے لئے خلاف شرع حیلہ اور بہانہ اور تلفیق بھی ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے ۔

۹…مروجہ اسلامی بینک” شرکت و مضاربت“ کو اصلی حقیقی بنیادیں تسلیم کرلینے کے باوجود وہ بھی ان اصلی بنیادوں پر سرمایہ کاری بھی نہیں کررہے ۔یہی وجہ ہے کہ شرکت و مضاربت کا تناسب، اجارہ و مرابحہ کے مقابلے میں ایک سروے اور محتاط اندازے کے مطابق زیادہ سے زیادہ صرف پندرہ سے بیس فیصد ہے ،بالفرض اگر پچاس فیصد بھی مان لیا جائے تو ”مااجتمع حلال و حرام الا غلب الحرام الحلال“ (حلال و حرام جب بھی جمع ہوئے حرام حلال پر غالب رہا)کے پیش نظر‘نیز احوال واقعی کے مطابق سرمایہ کاری کے حلال طریقے قلیل کالمعدوم ہوں ،اور غیر شرعی طریقوں کا عنصر زیادہ ہو تو ایسا ملغوبہ طریقہٴ تمویل غیر شرعی ہی کہلا تا ہے۔ اس لئے مروجہ اسلامی بینکوں کے طریقہٴ تمویل کو شرعاً جائز کہنے کی کوئی اصولی گنجائش موجود نہیں‘ اس کے باوجود اسے جائز کہا جاتا ہے اور اس کا جواز جتلایا بھی جاتا ہے۔

۱۰…مروجہ مشارکہ و مضاربہ میں خلاف شرع معاہدات طے ہوتے ہیں ،مثلاً ایک اسلامی بینک میں اکاونٹ کھلوانے والے کو جو فارم پُر کرنا پڑتا ہے اس میں بینک کی شرائط ،پالیسی اور بینک سے متعلق وہ سارے قوانین و اعلانات بلا تفصیل ماننے ہوں گے جو بینک کرے گا۔ نیز جو قواعد اور اعلانات ”بینک دو لت آف پاکستان“ جاری کرے‘ اس کی پابندی کا عہد بھی لیا جاتاہے۔حالانکہ اسلامی بینک کے اعلانات اور پالیسیاں بدلتے رہتے ہیں ،یکساں نہیں ہوتے۔ ایسے مجہول اور غیرمعلوم اعلانات کا گاہک کو پیشگی معاہدے کے ذریعہ پابندبنانا شرعاً جائز نہیں اور مجہول و غیر معلوم شرائط اور ذمہ داریوں والا معاملہ شرعاً فاسد کہلاتا ہے نہ کہ صحیح اور جائز۔

۱۱…اسی طرح مسلما ن گاہک کو ”بینک دولت آف پاکستان“ کے اعلانات اور پالیسیوں کا پابند بنانا بھی بالکل ناجائز ہے‘ کیونکہ اسٹیٹ بینک کا غیراسلامی مزاج اور شرعی احکام کی خلاف ورزی کا معاملہ سورج کی طرح واضح ہے۔

فائدہ:
بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ” بینک دولت آف پاکستان“ نے اسلامی بینکوں کو اپنی پالیسیاں، اسلام کے مطابق بنانے اور سرمایہ کاری کرنے کے لئے تحریری اور قانونی طور پر کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ اگر اسٹیٹ بینک کے غیراسلامی مزاج سے قطع نظر ہم ان حضرات کی اس بات کو تسلیم کرلیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہمارے مروجہ اسلامی بینک اپنی اصلی اور حقیقی بنیادوں پر سرمایہ کاری کرنے کے لئے عملاً و قانوناً آزاد ہونے کے باوجوداسلامی بینکاری کی اصلی بنیادوں یعنی ”مشارکہ و مضاربہ“ کی بنیاد پر سرمایہ کاری کو قصداً و عمداً وُسعت نہیں دے رہے۔ اگر ”بینک دو لت آف پاکستان“ کی طرف سے رکاوٹ بننے کا عذر ہو تا تو بھی کسی حد تک اسلامی بینکاروں کو مجبورتسلیم کرنے کی گنجائش ہو سکتی تھی، جیسا کہ اب تک بعض علمائے امت اس مجبوری کے پیش نظرخاموش انتظار کرتے رہے ہیں۔

۱۲…مضاربہ میں کھاتہ دار ”رب المال“ اور بینک ”مضارِب“ ہوتا ہے ،مال مضاربت میں بینک کا حصہ شرعاً صرف اور صرف حاصل شدہ نفع کی طے شدہ شرح ہے، اس کے علاوہ بینک کے لئے شرعاًاپنے ذاتی انتظامی اخراجات کی مد میں رقم لینا ، اسی طرح مختلف فیسیں لینایاکسی قسم کا معاوضہ اور الاوٴنس، مال مضاربت سے منہا کرنا ناجائز ہے۔ مگر اسلامی بینک مضاربہ فیس وغیرہ وصول کرتے ہیں۔اس کے باوجود مروجہ بینکوں کو اسلامی کہا جاتا ہے جو کہ خلافِ اسلام کو اسلام کہنے کے مترادف ہے۔

۱۳…شرکت و مضاربت میں منافع کی تقسیم کا مجوزہ طریقہٴ کا ربھی ، اسلامی تقاضے پورے نہیں کرتا ‘بلکہ منافع کی حقیقی شرح کے بجائے روزانہ پیداوار کی بنیاد پر یا” وزن “ دینے کے نام سے فرضی اور تخمینی شرح طے اور ادا کی جاتی ہے جو کہ شرکت و مضاربت کے اساسی اصولوں کے سراسر خلاف ہے۔

۱۴…شرکت متناقصہ شرعی اعتبار سے ممنوع مکاسب اور ناجائز بیوع کے زمرے میں داخل ہے۔اس عقد میں صفقة فی صفقہ (معاملہ در معاملہ)”بیع و شرط“اور ” بیع ثنیا“ جیسی متعدد خرابیاں پائی جاتی ہیں‘اس لئے ناجائز ہے۔مگر اس کے باوجو د ان نصوص شرعیہ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شرکتِ متناقصہ کا جواز بیان فرمایا گیا اور اسلامی بینکوں نے اسے ذریعہٴ تمویل کا اہم ستون بنایا ہواہے۔ شرکت متناقصہ کو اسلامی استقرائی طریقہٴ تمویل کہنے کی بجائے خلاف اسلام کہنا علماء کا فرض منصبی تھا ،مگر بعض لوگوں نے اپنے اس فرض سے قصداً غفلت برتی ہے۔
واضح رہے کہشریعت اسلامیہ اور فقہ اسلامی کے ماہرین کی امانت دیانت اور تدین و تقویٰ اس بات پر ”گواہ“ ہے کہ فقہ اسلامی کے ذکر کردہ واضح احکام ایسے ہیں کہ ان کو رد کرنے کے لئے کو شش کرنا یا کسی قسم کی تاویل کرنا ، تاویل فاسد کے زمرے میں آتا ہے ،بلکہ یہ نصوص شرعیہ کے ساتھ کھیل اور مذاق ہے۔

۱۵…مروجہ اسلامی بینکوں میں شخص قانونی(Juristic Person)اور اس کی محدود ذمہ داری کا ظالمانہ، غیرمنصفانہ، اور استحصالی تصوربھی کار فرما ہے ،بلکہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔جبکہ شخص قانونی اوراس کی محدود ذمہ داری کا تصور، بینک (شخص قانونی)اور اس کے اعضاء و جوارح کو غیر محدود نفع پہنچانے اور نقصان کی بھاری ذمہ داریوں سے بچانے کے لئے ناروا اور خلاف شرع تصور ہے،اس تصور میں شخص قانونی کے اعضاء و جوارح کے لئے بہترین فائدہ اور دائنین کا بدترین استحصال پایا جاتا ہے۔کیونکہ جب تک منافع کی ریل پیل ہو،بے جان” شخص قانونی“ حقیقی انسان سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے اور جب نقصان اُٹھانے کی نوبت آجائے تو شخص قانونی محدود ذمہ دار ی کا کفن پہن کر موت کے کنویں میں اُترجاتاہے۔ اس تصور کے خلافِ اسلام ہونے کے علاوہ اس میں انسانیت کی تو ہین بھی ہے۔ کیونکہ یہاں حقیقی انسان کو فرضی انسان کا نوکر چاکر بنانالازم آتا ہے۔اس کے باوجود اس غیر اسلامی تصور کو اسلامی ثابت فرمانے کے لئے بے پناہ” علمی بچتیں“ صرف فرمائی گئی ہیں اور اس رائے پر ایسے استدلالات کیے گئے ہیں جن کی اصولاً گنجائش ہر گز نہیں تھی۔

۱۶…مروجہ اسلامی بینکاری کے مجوزین اور وابستہ گان خود اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ مروجہ اسلامی بینکوں کے معاملات خالص غیر سودی حلال اور جائز نہیں ہیں‘ بلکہ بعض معاملات جائز اوربعض ناجائز بھی ہیں۔ ایسے معاملات کم از کم مشتبہ تو ضرور ہوتے ہیں۔ایسے معاملات پر اصول شریعت کے مطابق بالاتفاق جواز اور حلت کے بجائے ،عدم جواز اور عدم حلت کا حکم لگایا جاتا ہے ،یعنی اگر بالفرض مروجہ اسلامی بینکوں کے بعض معاملات کو جائز تسلیم کر لیا جائے تو بھی مطلق جواز بیان کرنے کی گنجائش نہیں نکل سکتی ،چنانچہ ایسے معاملات کے بارے میں مخدوم العلماء حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کا ایک فتویٰ بطور نمونہ ملاحظہ ہو جو انہوں نے” غیر سودی کاونٹروں“کے حکم کے ضمن میں تحریر فرمایا ہے۔ ”اس تجزیے سے یہ بات واضح ہوئی کہ فی الحال ان ”غیر سُودی کاونٹروں“کا کاروبار جائز اور ناجائز معاملات سے مخلوط ہے ،اور اس کا کچھ حصہ مشتبہ ہے۔ لہٰذا جب تک ان خامیوں کی اصلاح نہ ہو، اس سے حاصل ہونے والے منافع کو کلی طور پر حلال نہیں کہا جاسکتا ،اور مسلمانوں کو ایسے کا روبار میں حصہ لینا درست نہیں۔“
(فقہی مقالات :۲/۲۶۴ ط: میمن پبلیشرز)
اس فتویٰ کی رو سے یہ معلوم ہوا کہ ایسے معاملات کو جواز کے محدود عنصر پر مشتمل ہونے کے باوجود جائز کہنے یا جائز بتانے اور معمول بنانے کی گنجائش شرعاً نہیں ہوا کرتی ،اور مسلمانوں کے لئے ایسے معاملات میں حصہ لینا جائز نہیں ہوتا‘ مگر مروجہ اسلامی بینکوں کے معاملات کو اس کے باوجود جائز کہا اور جتلایا جاتا ہے۔
حاصل یہ کہ مروجہ اسلامی بینکاری کے جو تخیلاتی خاکے”اسلامی بینکینگ “ کے مجوزین علماء کرام نے وضع کئے ہیں وہ خاکے بھی خلاف شرع ہیں ان خاکوں میں اسلامی رنگ کی بجائے روایتی بینکاری کا رنگ ہی نمایاں ہے ،اوران خاکوں میں کئی شرعی نقائص بھی پائے جاتے ہیں، اس پر مستزاد یہ کہ ہمارے ان بینکوں کا عملی طریقہٴ کار ان فرضی تخیلاتی خاکوں کے مطابق بھی نہیں ہے ،اس لئے ان مروجہ اسلامی بینکوں کو اسلامی بینک کہنا بھی جائز نہیں، کیونکہ زیادہ سے زیادہ مروجہ اجارہ و مرابحہ کے حیلوں کی وجہ سے ”حیلہ بینک“ کہہ سکتے ہیں،اور حیلہ الگ چیز ہے اور حقیقت اسلام الگ چیز ہے۔

چنانچہ انہی وجوہات کی بناء پر مروجہ اسلامی بینکاری کی بابت ملک کے جمہور علمائے کرام اور مفتیان کرام کا متفقہ فتویٰ یہ ہے :

”گذشتہ چند سالوں سے بعض اسلامی شرعی اصطلاحات کے نام سے رائج ہونے والی بینکاری کے معاملات کا قرآن و سنت کی روشنی میں ایک عرصے سے جائزہ لیا جارہا تھا اور ان بینکوں کے کاغذات ،فارم اور اصولوں پر غور و خوص کے ساتھ ساتھ اکابر فقہاء کی تحریروں سے بھی استفادہ کیا جاتا رہا ۔بالاخر اس سلسلے میں حتمی فیصلے کے لئے چاروں صوبوں کے علمائے کرام کا ایک اجلاس موٴرخہ ۲۸اگست ۲۰۰۸ء بمطابق ۲۵ شعبان المعظم ۱۴۲۹ ھ بروز جمعرات حضرت شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتہم کے زیر صدارت جامعہ فاروقیہ کراچی میں منعقد ہوا ۔اجلاس میں شریک مفتیانِ عظام نے متفقہ طورپر فتویٰ دیا کہ اسلام کی طرف منسوب مروجہ بینکاری قطعی غیر شرعی اور غیر اسلامی ہے ،لہٰذا ان بینکوں کے ساتھ اسلامی یا شرعی سمجھ کر جو معاملات کئے جاتے ہیں وہ ناجائز اور حرام ہیں ۔ ․․․․اور ان کا حکم دیگر سودی بینکوں کی طرح ہے ۔“

بایں معنیٰ اس تفصیل سے یہ بات پوری طرح عیاں ہو چکی کہ مروجہ اسلامی بینکاری درحقیقت غیر اسلامی بینکاری ہے اور لوگ اسے اسلامی بینکاری سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ معاملات کررہے ہیں ،اس لئے علماء امت مروجہ اسلامی بینکاری کو روایتی بینکاری کے مقابلے میں مسلمانوں کے حق میں زیادہ خطرناک سمجھتے ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی ناجائز اور خلاف شرع معاملے کو ناجائز سمجھتے ہوئے کرنا کم درجہ کا جرم ہے اور اسے جائز سمجھتے ہوئے کرنا بڑے درجے کا جرم ہے ،روایتی بینکار، سودی معاملات کرتے ہیں مگر سودی معاملات سمجھتے ہوئے، جبکہ مروجہ سلامی بینکار انہی جیسے سودی معاملات اور خلاف شرع معاملات کو غیر سودی اور شرعی سمجھتے ہوئے کررہے ہوتے ہیں،اور یہ پہلے کی بنسبت ایمان اور آخرت کے اعتبار سے زیادہ خطرناک ہے ،کیونکہ روایتی بینکار مسلمان خود کو شرعی مجرم اور گنہگار سمجھتے ہوئے اپنے ناجائز اور سودی معاملات کی معافی کے لئے تو بہ کے دروازے تک پہنچ سکتا ہے، اسے تو بہ کی توفیق مل سکتی ہے‘ جبکہ مروجہ اسلامی بینکاری میں اپنے خلاف شرع معاملات پر نہ تو بہ کا داعیہ پیدا ہو گا ،اور نہ ہی توبہ کی توفیق میسر آسکتی ہے ،کیونکہ وہ اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا ،اللہ تعالیٰ تو بہ اور مغفرت سے اسی کو نوازتے ہیں جو محتاج بن کر اللہ کی طرف متوجہ ہو ،

اس لئے مسلمانوں پر واجب اور لازم ہے کہ دیگر حرام اور خلاف شرع امور کی طرح اسلام کی طرف منسوب مروجہ اسلامی بینکاری سے بچنے کا بھی بھر پور اہتمام کریں ۔اور اپنے سابقہ معاملات پر توبہ و استغفار کریں۔بے شک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے
۔واللّٰہ تعالیٰ أعلم بالصواب وإلیہ المرجع والمآب۔
وصلّی اللّٰہ وسلّم علیٰ سیدنا محمد وعلیٰ اٰ لہ وصحبہ وأتباعہ أجمعین ۔

ماخذ
 

سعود الحسن

محفلین
باطن نہ کے ظاہر (Substance not Form)

سیفی آپ کی یہ پوسٹ پتہ نہیں کیسے پڑھے بغیر رہ گئی، گو آپ نے اس ہی حوالے سے میرے شروع کیے گئے تھریڈ میں ربط دینے کا کہا تو تھا لیکن ربط دے نہ سکے۔
میں خود بھی اسلامی بنکاری کے حوالے سے لکھنا چاہتا تھا لیکن اس تفصیلی فتوے کے بعد ضرورت نہیں رہی۔ ہاں شاید اسلامی اصطلاحات کے مسلسل استعمال کی وجہ سے یہ فتوی شاید ایک عام آدمی کے لیے سمجھنا مشکل ہو۔
میں آسان الفاظ میں صرف دو باتیں کرنا چاہوں گا جو شاید پورے مسلئہ کو واضح کر دیں۔
1۔ سود اور بنکاری
اصل میں اسلامی معاشی نظام کی بنیاد دولت کی زیادہ سے زیادہ اور مسلسل تقسیم پر ہے۔ یعنی دولت کو مرتکز نہ ہونے دیا جاے ، بلکہ اسے مسلسل گردش میں رکھا جاے۔ دولت کے مسلسل گردش میں رہنے سے معیشت مضبوط ہوتی ہے۔ جبکہ اگر آپ کے پاس یہ آپشن موجود ہو کہ آپ دولت کو جمع کریں اور خرچ نہ کریں کیونکہ آپ دولت کو بھی کرایہ پر دے سکتے ہیں( یہ دولت کا کرایہ ہی سود ہے ) تو آپ دولت جمع کرنا شروع کردیں گے، نتیجہ میں معیشت میں سے سرمایہ کم ہوجاے گا ، اب آپ زیادہ بہتر داموں پر اپنی دولت کا کرایہ (سود) وصول کر سکتے ہیں۔ آخر کار یہ چکر چلتے چلتے ایک وقت ایسا آجاے گا جب پوری معیشت کی دولت کا بڑا حصہ کچھ لوگوں کے پاس جمع ہوجاے گا ، اس طرح پوری معیشت ان چند لوگوں کے ہاتھ میں ہوگی۔ جیسا کہ عام طور پر آزاد معیشت میں ہوتا ہے، جبکہ بنک آزاد معیشت میں بنیادی طور پر ان ہی چند لوگوں کے لیے کام کرتے ہیں۔
اس کہ مقابلہ میں اسلامی معاشی نظام یہ چاہتا ہے ، دولت کچھ ہاتھوں میں مرتکز نہ ہوں ، اور اس کا توڑ اس طرح نکالا گیا کہ دولت کو کرایہ (سود) پر نہ دینے کی پابندی لگادی گئی، لہذا اب آپ مجبور ہیں کہ اپنی امدنی کے لحاظ سے معیشت میں حصہ دالیں ورنہ دولت کا جمع کرنا کسی کام نہ آئے گا۔ دولت زیادہ سے زیادہ گردش کرے گی جس سے معیشت مضبوط ہوگی۔ اور یہی اسلامی معیشت کی منشا ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جس سے شاید ہی کسی عالم کو اتفاق نہ ہو۔

آزاد معیشت میں جہاں‌دوسری اشیا بنانے والوں اور سروسز فراہم کرنے والوں کو براہ راست نقصاں سے بچانے کے لیےایک عدد مصنوعی شخصیت بنائی گئ جسے کمپنی کہتے ہیں اسی طرح سرمایہ دار کو ذاتی حیثیت میں سرمایہ کو کرایہ پر دینے اور براہ راست نقصان سے بچانے کے لیے بنک بناے گے، ایک آزاد معیشت میں بنک کا بنیادی مقصد سرمایہ پر منافع کمانا ہی ہوتا ہے، جبکہ دوسری سروسز اس کے لیے قطعی ثانوی اہمیت رکھتی ہیں۔
اب جبکہ اسلامی معیشت میں دولت کو کرایہ پر دینا ممکن ہی نہیں ہے تو ایک اسلامی معیشت میں بنک کا کیا کام؟،
یہ وہ نکتہ ہے جس پر اکثر علما کا اتفاق رہا ہے، یہی بات مولانا مودودی نے بھی اپنی کتاب سود میں زیادہ تفصیل سے کہی ہے۔
جدید دور کے کچھ علما نے حیلہ کا بہانہ لے کر بنکاری کو اسلامی بنکاری یا تجارت کے عام فہم اسلامی طریقوں میں منتقل کرنے کی کوشش کی جس کا انجام اوپر کے فتوی سے ظاہر ہے۔

ظاہر نہ کہ باطن یا " Form not Substance"

قانون اور معیشت کا ایک مقبول عام مقولہ ہے "Substance not Form " جس کا اردو ترجمہ " باطن نہ کے ظاہر " کر سکتے ہیں۔ یہ مقولہ دنیا بھر کی عدالتیں، وکلا، معیشت داں، اکانٹنٹس اور نہ جانے کون کونسے علوم کے ماہر اور ان کے ادارہ ماننتے ہیں۔ مطلب اس مقولہ کا یہ ہے کہ جب آپ کسی دستاویز یا ٹرانزیکشن کی اصل حقیقت کا تعین کرنا چاہتے ہوں تو اس کے ظاہر پر مت جائیں بلکہ باطن کو دیکھیں۔ مثلا اگر ایک دستاویز کی سرخی اگر سیل ڈیڈ یا بیع نامہ ہے تو بھی وہ دستاویز اس وقت تک سیل ڈیڈ تسلیم نہ کی جاے گی جب تک کہ اس کے مندراجات بھی کسی سیل ڈیڈ کی مطلوبہ شرئط پوری نہ کر رہے ہوں، یعنی کسی کرایے نامہ کو صرف اس لییے سیل ڈیڈ نہیں مانا جاسکتا کہ اس کی سرخی میں سیل ڈیڈ لکھا ہوا ہے۔

اب اس کی ایک اصل مثال دیتا ہوں تاکہ آپ عملی پہلوں‌سمجھ جائیں۔ عام طور پر جب آپ کو کو ئی گاڑی خریدنی ہوتی ہے تو آپ بنک کے پاس جاتے ہیں ، بنک آپ کو گاڑی لیز پر خرید کر دے دیتا ہے، لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ پہلے گاڑی خرید لیتے ہیں ، بعد میں آپ کو احساس ہوتا ہے کہ مجھے تو ضروری خرچہ چلانے کے لیے پیسوں کی کمی پڑ گئی ، لہذا آپ بنک کے پاس جاتے ہیں ، اور اپنی گاڑی کو لیز کرانے کی بات کرتے ہیں ، اب گاڑی تو آپ کی ملکیت ہے پھر بنک آپ کو کیسے لیز کردے ، لہذا بنک آپ سے ایک کاغذ پر دستخط لے لیتا ہے جس کے تحت آپ یہ گاڑی بنک کو بیچ دیتے ہیں اور بنک آپ کو گاڑی دوبارہ لیز پر دے دیتا ہے۔ یہ لیز کی ایک عام شکل ہے جو اکثر مشینوں کی لیز میں استعمال ہوتی ہے ، اسے سیل اینڈ لیز بیک کہتے ہیں۔ اب سوال یہ آٹھتا ہے کہ یہ جو ایک کاغذ پر دسخط کرکے آپ نے گاڑی بنک کو فروخت کر دی کیا یہ قانونی طور پر سیل ہے اور اس صورت میں کیا اس سیل پر ٹیکس لگے گا یا یہ آپ کی انکم تصور کی جاے گئی یا بنک کا خرچہ۔
جواب ہے جی نہیں کیونکہ یہ ایک دکھاوے کی سیل تھی اور اس میں سیل کی قانونی شرائط پوری نہیں کی گئیں مثلا بنک نے آپ کو اس فروخت کے بدلہ کوئی ادائیگی نہیں کی وغیرہ وغیرہ لہذا قانونی اور ٹیکس یا انکم کے معاملات کے لیے "Substance not Form " کے اصول کے تحت یہ سیل نہیں ماننی جاے گی اور ناہی کوئی ٹیکس دیا جاے گا۔ امید ہے آپ سمجھ گے ہوں گے۔ مگر یہ ضرور کہ رہے ہونگے کہ بات ہوری تھی اسلامی بنکاری کی اور یہ کہا ں لے آیا اصل میں یہ سمجھے بغیر آپ اسلامی بنکاری کی بنیادی خامی سمجھ ہی نہیں سکتے۔

اوپر میں بتا چکا ہوں کہ جب آپ کو ایک گاڑی خریدنی ہوتی ہے تو آپ بنک کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جناب مجھے یہ گاڑی خریدنی ہے جس کی کیش قیمت پانچ لاکھ ہے، بنک کہتا ہے گاڑی ہم آپ کو خرید دیتے ہیں، ہماری سود کی شرح ہے 10 فیصد سالانہ لہذا آپ سات لاکھ پچاس ہزار روپے پانچ سال میں آسان ماہانہ قسطوں میں دے دیے گا۔
لیکن ایک اسلامی بنک اس کام کو بیع میں منتقل کرے گا ، وہ آپ سے کہتا ہے کہ ہم پانچ لاکھ کی گاڑی خرید کر آپ کو کرایہ پر دے دیتے ہیں ، آپ ہم سےپانچ سال میں ماہانہ بنیاد پر ٹکڑوں میں یہ گاڑی خرید لیجیے گا ، اور جب تک ہمارے حصہ کے استعمال کا کرایہ دے دیجیے گا ، لہذا آپ پانچ سال میں سات لاکھ پچاس ہزار روپے دے کر گاڑی خرید لیتے لیں۔
اب اصل مسلئہ ملاحظہ فرمایے ، اگر اسلامی بنک یہ گاڑی خود خرید کر آپ کو فروخت کرتا ہے تو دونوں مرحلہے سیل سمجھے جائیں گے اور ان پر ٹیکس لگیں گے اور ان کی انکم بھی سمجھے جائیں گے ، لہذا اسلامی بنک یہ کرتا ہے کہ آپ کے نام سے اپنے بنک میں ایک اکاونٹ کھولتا ہے اور اور گاڑی کی قیمت اس آپ کے اکاونٹ میں ڈال دیتا ہے (یعنی اس مرحلہ پر روپے آپ کو ہوچکے ہیں)، اب آپ سے کہتا ہے مجھے اپنا وکیل بناؤ اور اجازت دو کہ میں تمھارے لیں یہ گاڑی خرید وں اور ساتھ ہی آپ سے ایک چیک یا پے آڈر بھی بنواتا ہے جس سے آپ کے اکاونٹ سے پیسیہ دے کر گاڑی خریدی جاتی ہے (یعنی اب گاڑی آپ کے نام پر خرید لی گئ)، پھر آپ سے ایک کاغذ پر دستخط لیے جاتے ہیں کہ آپ نے گاڑی بنک کو فروخت کر دی ( یعنی دوسری دکھاوے کی فروخت) اور پھر یہ کہ آپ نے بنک سے لیز پر لے لی(تیسری فروخت)، یہ سب کام ایک ہی وقت میں کیے جاتے ہیں ، لہذا قانونی طور پر یہ سب ٹرانزیکشنس "Substance not Form " کے اصول کے تحت نظر انداز کر دی جاتی ہیں اور اسے سادہ الفاظ میں ایک لیز ہی سمجھا جاتا ہے ۔ خود اسلامی بنک بھی قانونی ، اکاونٹنگ اور ٹیکسس معاملات کے لیے انہیں خریدوفرخت تسلیم نہیں کرتا۔
دوسرے معنوں میں یہ تمام دکھاوے کی خریدوفروخت صرف مجھے، آپ کو اور شاید اللہ تعالی کو مطمعن کرنے کے لیے کی جاتی ہے ، ورنہ خود اسلامی بنک اور دنیا بھر کے قوانین ان خریدو فٍروخت کو نہیں مانتے، لیکن اسلامی بنکینگ کے مقصد کے لیے “Form not Substance” کا اصول اپنا لیا جاتا ہے یعنی اصل یا باطن پر ظاہری ٹرانزیکشن کودرست مان لیا جاتا ہے۔

کیا آپ مانتے ہیں ؟
 

صرف علی

محفلین
عارف یہ اچھا کیا سیرے سے ہی ایک چیز کے منکر ہوجاؤں بغیر کسی دلیل کے تاکہ نارے بھیس نا بجے بانسری
 

کعنان

محفلین
ہاہاہا۔۔۔ دلیل چاہئے تو مجھے انٹرسٹ فری بینک لاکر دکھا دیں۔ ابھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا!!!

السلام علیکم

ہاں بھئی ایک بینک ھے
اس کا نام دبئی اسلامی بینک ھے
وہاں اکاؤنٹ کھولو جب مدت 2 سال ہو جائے تو آپ قرضہ لے سکتے ہیں اور اصل ہی آسان قسطوں میں ادا کرنا ہوتا ھے سود نام کی چیز وہاں نہیں ھے کوئی۔ اگر کنفرم کرنا ہو تو اپنے کسی دوست کو وہاں کہو کہ اس میں اکاؤنٹ کھولے اور قرضے کے بارے میں معلومات لے کے آپ کو بتائے۔

اگر آپ یہ سوچیں کہ وہ چلتا کیسے ھے اس کا جو مالک ھے اس کے اپنے اتنے کاروبار ہیں کہ کہتے ہیں اس کا اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی وہ اتنی زکوۃ نکالتا ھے کہ وہ بھی کچھ کم نہیں۔

والسلام
 

ابن جمال

محفلین
بنیادی بات یہ ہے کہ اسلامی بینکاری ابھی ابتدائی دور میں ہے چونکہ اس کے لئے کوئی پہلے سے نمونہ اورماڈل نہیں ہے اس لئے کچھ ٹھوکریں بھی لگیں گی اورغلطیاں بھی ہوں گی۔ لیکن ان غلطیوں کو جواز بناکر سرے سے اسلامی بینک کی افادیت کا منکر ہوجانا غلط ہے۔ہمیں چاہئے کہ جوغلطیاں اورکمزوریاں ہیں اس کی بینک والوں اوربینک سے متعلقہ شرعی بورڈ کے سامنے رکھیں ۔خیرخواہی اسی کوکہتے ہیں ورنہ تبصرے توبہت آسان ہیں۔
دوسری بات میں یہ کہنا چاہتاہوں کہ دور حاضر بالکل نیادور ہے اس کیلئے ہمیں چاہئے کہ ہم نئے سرے سے اجتہاد کریں ۔ فقہی اقوال پر جمے رہنا اور کتب فقہ میں جوکچھ لکھ دیاگیاہے اس کو اٹل جان کرخارجی دنیا کو اس سے مطابق کرنا نہ دانشمندی ہے اورنہ ہی یہ ائمہ وفقہائ کا مقصود تھا۔
والسلام
 

arifkarim

معطل
السلام علیکم

ہاں بھئی ایک بینک ھے
اس کا نام دبئی اسلامی بینک ھے
وہاں اکاؤنٹ کھولو جب مدت 2 سال ہو جائے تو آپ قرضہ لے سکتے ہیں اور اصل ہی آسان قسطوں میں ادا کرنا ہوتا ھے سود نام کی چیز وہاں نہیں ھے کوئی۔ اگر کنفرم کرنا ہو تو اپنے کسی دوست کو وہاں کہو کہ اس میں اکاؤنٹ کھولے اور قرضے کے بارے میں معلومات لے کے آپ کو بتائے۔

اگر آپ یہ سوچیں کہ وہ چلتا کیسے ھے اس کا جو مالک ھے اس کے اپنے اتنے کاروبار ہیں کہ کہتے ہیں اس کا اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی وہ اتنی زکوۃ نکالتا ھے کہ وہ بھی کچھ کم نہیں۔

والسلام

یہ بھی دیکھئے:
http://archive.gulfnews.com/nation/Police_and_The_Courts/10293241.html

دبائی اسلامک بینک میں 1،8 بلین درہم کی دھاندلی :)
اسلامی بینکنگ میں جب نقصان ہوتا ہے تو اسکا مالک نقصان اٹھاتا ہے:)
 

کعنان

محفلین
یہ بھی دیکھئے:
http://archive.gulfnews.com/nation/police_and_the_courts/10293241.html

دبائی اسلامک بینک میں 1،8 بلین درہم کی دھاندلی :)
اسلامی بینکنگ میں جب نقصان ہوتا ہے تو اسکا مالک نقصان اٹھاتا ہے:)

السلام علیکم

نقصان اور بلا سود بنکاری دونوں میں آپ کو شائد فرق نظر نہیں آتا
آپ کو سمجھانا بہت مشکل ھے کیونکہ جس گلی سے گزرے نہیں تو جانو گے کیا
یونائٹڈ عرب الامارات میں ہر عربی کا شیئر ہوتا ھے پیٹرول میں
ہر سال ہزاروں کی تعداد میں بڑے بڑے ولاح (گھر) بنائے جاتے ہیں اور وہ اپنی رعایا کو فری نظر کر دئے جاتے ہیں بڑی بڑی بلڈنگز بنائی جاتی ہیں جس کی زمین ہوتی ھے اس پر 2 سال تک گورنمنٹ کرایہ لیتی ھے اس کے بعد جب تک بلڈنگ موجود ھے وہ اس زمین کے مالک کی نظر کر دی جاتی ھے
عرب میں شادی کرنے کے لئے لڑکے والوں کو لڑکی والوں کو مہر پہلے ادا کرنا ہوتا ھے جو ایک لاکھ درھم تک سے اوپر ہوتا ھے تو آج دے دس سال پہلے غریب عرب لوگ پہلے ادا نہیں کر سکتے تھے تو وہ انڈیا کا شہر حیدر آباد سے شادی کر کے وہاں سے بیوی بنا کے لے آتے تھے اور شیخ ذید کو وہاں کے عرب نے کہا کہ ہماری لڑکیوں سے کن شادی کرے گا تو شیخ ذید نے ایک ادارا بنایا کہ جس کو شادی کرنی ھے وہاں اپنا اندراج کروائے اس کو حق مہر اور شادی کا سارا خرچہ بھی ملے گا


فراڈ ہونے سے دبئی اسلامی بینک نے اپنی پولسیاں نہیں بدلیں

عرب میں رہنے والوں کو میری باتیں سمجھ آ گئی ہونگی

اور آپ جیسے اور مجھ جیسے کھبی قرض نہیں لیتے تنخواہ بینک میں آتی ھے اور نکال کے خرچ کر لی جاتی ھے

والسلام
 

سعود الحسن

محفلین
السلام علیکم

ہاں بھئی ایک بینک ھے
اس کا نام دبئی اسلامی بینک ھے
وہاں اکاؤنٹ کھولو جب مدت 2 سال ہو جائے تو آپ قرضہ لے سکتے ہیں اور اصل ہی آسان قسطوں میں ادا کرنا ہوتا ھے سود نام کی چیز وہاں نہیں ھے کوئی۔ اگر کنفرم کرنا ہو تو اپنے کسی دوست کو وہاں کہو کہ اس میں اکاؤنٹ کھولے اور قرضے کے بارے میں معلومات لے کے آپ کو بتائے۔

اگر آپ یہ سوچیں کہ وہ چلتا کیسے ھے اس کا جو مالک ھے اس کے اپنے اتنے کاروبار ہیں کہ کہتے ہیں اس کا اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی وہ اتنی زکوۃ نکالتا ھے کہ وہ بھی کچھ کم نہیں۔

والسلام

پاکستان میں تو یہ بنک سود کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتا۔
 

کعنان

محفلین
پاکستان میں تو یہ بنک سود کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتا۔

پاکستان میں تو پاکستانی پاکستان کے لیے صحیح کام نہیں کرتے تو بینک کیا کرے گا۔ میں نے دبئی میں دبئی اسلامی بینک کا لکھا تھا دنیا کا نہیں۔ خیر جب دوسرے ملکوں میں کوئی بڑے پیمانے پر کام کیا جاتا ھے تو اس میں اس ملک کی بھی کئ شرطیں ہوتی ہیں۔ یہ گفتگو بہت لمبی ہو جائے گی۔
 
Top