اسرائیل ایک عظیم ترین ریاست (فکر انگیز تحریر)

اسرائیل ایک عظیم ترین ریاست/دی گریٹر اسرائیل محمد احمد رضا ایڈووکیٹ

پاکستان اور اسرائیل دنیا کے دو ایسے ملک ہیں جو کسی دریافت کا نتیجہ نہیں بلکہ جن کی بنیاد نظریات پر رکھی گئی۔ نظریہ پاکستان کو ہم نے بھلانے میں کوئی قصر نہ چھوڑی لیکن اسرائیل اپنے نظریہ کو نہیں بھولا۔ جولائی 1970میں اسرائیل میں دوبارہ ایک ایسی تنظیم کی بنیاد رکھی جاتی ہے جو اسرائیل کے نظریے اور مقصد کو مزید واضح کرتا ہے۔ اس نظریے کی عکاسی (The Greater Israel) کے جملے سے ہوتی ہے۔۔یعنی اسرائیل ایک عظیم ترین ریاست۔۔
یہ تنظیم لانچ ہونے کے بعد چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے غزہ، سیناء اور جولان ہائیٹس(ھضبۃ الجولان) پر حملے کئے اور ان مقامات پر یہودیوں کو آباد کرنے کی ابتداء کی۔ اس تنظیم کا مقصد اور نظریہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ تنظیم کی طرف سے نقشہ جات بھی جاری کئے گئے۔ انٹرنیٹ پر موجود نقشوں کے مطابق دی گریٹر اسرائیل /ایک عظیم ترین اسرائیل کا حدود اربع کچھ یوں ہو گا، اسی حدود اربع کو زیونیزم (عظیم ترین اسرائیل ریاست کے لئے سرگرم تنظیم) کے بانی کے مطابق:
According to the founding father of Zionism Theodore Herzl, "The area of the Jewish State stretches: From the Brook of Ehypt to the Euphrates". According to Rabbi Fischmann, "The Promised Land extends from the River of Egypt up to the Euphrates, it includes parts of Syria and Lebanon".
گویا کہ تنظیم کے بانیان کے مطابق اسرائیل کا حدود اربع فرات تک ہو گا۔ اور تنظیم کے دوسرا لیڈر کہتا ہے کہ وعدے کے مطابق یہودی ریاست کی زمین مصر کے دریا سے فرات تک ہو گی اور شام اور لبنان بھی اسی یہودی ریاست کا حصہ ہو ں گے۔
اگر سیاق و سباق کو دیکھا جائے تو 2006 میں لبنان اور 2011 میں لیبیا کی جنگیں، شام میں جاری جنگ اور تربیت یافتہ جعلی خلافت، مصر کے سیاسی حالات میں مداخلت، یہ سب اسی یہودی تنظیم کے منصوبے ہیں اور وہ اپنے منصوبوں میں کامیاب بھی ہو رہے ہیں۔
ان سب حالات و واقعات کی کڑیاں کئی صدیاں قبل صلیبی جنگوں سے جا ملتی ہیں، آپ بہاؤالدین شداد کو پڑھ لیں (جس کی تحریر کا انگلش ترجمہ کوئی تیس /چالیس سال قبل پاکستان آرمی نے شائع کیا تھا)۔ صلیبی جنگیں وقتی طور پر تو ختم ہوئیں تھیں لیکن پھر ان جنگوں نے ایک نیا طریق اور رخ اختیار کر لیا۔ بیسویں صدی کو دیکھ لیں کہ خلافت عثمانیہ کو توڑ کر مسلمانوں کو بکھیر دیا گیا۔ عین انہیں لمحات میں برطانیہ کی بڑی شخصیات نے اس وقت کے یہودی لیڈر لارڈ اسچائیلڈ کو خط لکھا کہ برطانوی بادشاہت ایک الگ یہودی ملک اور ریاست کا قیام چاہتی ہے۔ اسرائیل آباد کرنے کے لئے مسلمانوں کو بکھیرنا اور الجھانا بہت اہم تھا اور یہ اہم کام بھی کلمہ گو مسلمانوں سے ہی لیا گیا۔ مسلمانوں کو قتل کرنے اور ترک فوجیوں کو مارنے کے لئے عرب قبائل کا استعمال کیا، عرب بھی خون میں نہا گیا۔ قلندر لاہوری کی روح تڑپی اور آپ نے فرمایا؛
بیچتا ہے ہاشمی ناموس دین مصطفی
خاک و خون میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش
اسرائیل اپنے نظریہ پر گامزن ہے۔ عالمی طاقتیں اس کے قبضے میں ہیں، اس سب کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ آج کوئی یہودی ان پڑھ نہیں، عالمی معیشت وٹیکنالوجی یہودیوں کے ہاتھ میں ہے۔ جو علم و ٹیکنالوجی مسلمانوں کی میراث تھی آج مسلمان اس کے نام سے بھی واقف نہیں۔
آپ اس تنظیم کے انٹرنیٹ پر موجود نقشہ جات دیکھیں تو اسرائیل کا منصوبہ محدود نہیں، بلکہ وہ سعودی عرب میں مدنیہ منورہ کے قریب سے لے کر مصر تک ہے، لبنان، جورڈن، عراق، ایران، شام، سینا، فلسطین یہ سب دی گریٹر اسرائیل کا حصہ ہوں گے۔ اسی مشن اور مقصد کے لئے دی گریٹر اسرائیل کے نشے میں کیا کر رہیں ہیں یہ ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ کبھی القاعدہ کو لانچ کی جاتا ہے تو کبھی داعش کو، کبھی خلافت کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے تو کبھی کسی پرسکون ملک کو جمہوریت کا درس دینے کے لئے تہس نہس کر دیا جاتا ہے۔
مسلمان کس طرف جا رہے ہیں؟؟ دنیا چاند کے بعد سیاروں اور کہکشاؤں کو تسخیر کر رہی ہے، ٹیکنالوجی آسمان کو چھو رہی ہے، ہر بڑی معیشت اور ٹیکنالوجی کا سربراہ یہودی ہے، وہ جہاں اور جب چاہتے ہیں حملہ کرتے ہیں اپنی مرضی کا سسٹم اور حکمران بیٹھا دیتے ہیں اورہم ایک اچھا مسلمان بننے کے لئے مباح درجے کے فروعی مسائل میں مناظرے کر رہے ہیں۔
ہم یک جسم و جاں تھے، ہمارے نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ مسلمان ایک جسم ہیں، ہمارے نبی ﷺ کا کردار و اخلاق یہ تھا کہ دشمن، کافر و مشرک بھی اپنی امانتیں اور عزتیں ہمارے نبی ﷺ کی موجودگی میں محفوظ سمجھتے تھے لیکن آج اسی نبی ﷺ کا امتی دوسرے کلمہ گو امتی سے فرقہ پرستی، تفرقہ بازی، فتوی بازی کی وجہ سے سلام کرنا گوارا نہیں کرتا، کوئی مر جائے، کسی کا قتل ہو جائے، کسی کی بہن بیٹی کی عزت تار تار کر دی جائے، کسی کی ماں بہن کو سرعام دن دیہاڑے گولیوں سے چھلنی کر دیا جائے تو سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ مرنے والامظلوم کس فرقے کا ہے؟؟ آیا ہماری فتوی سے اتفاق کرتا ہے یا اختلاف؟؟ پڑھے لکھے افراد سے دست بدستہ سوال ہے کہ کیا اسلام کی تعلیمات یہ ہیں تھیں؟؟
آج ہم مسلمان بعد میں پہلے بریلوی، دیوبندی، شیعہ، وہابی ہیں، ہم ایک دوسرے کے نذدیک کافر، مشرک، بدعتی ہو چکے ہیں لیکن دوسری طرف دشمن بغیر کسی تفرقے کے، بغیر یہ دیکھے کہ مرنے والا سنی ہے، بریلوی ہے، دیوبندی ہے، شیعہ ہے یا وہابی ہے سب کو یکجا مار رہا ہے۔ ہمارے درمیان کبھی القاعدہ کو انسٹال کیا جاتا ہے تو کبھی داعش کو۔۔ کبھی خلافت توڑی جاتی ہے تو کبھی خلافت کا اعلان کر وایا جاتا ہے۔ کبھی القاعدہ کے نام پر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی جاتی ہے تو کبھی اپنی ہی پروردہ داعش کے خلاف جنگ کا ڈھونگ رچا کر شام کو تہس نہس کیا جاتا ہے۔ ہم ایٹمی طاقت ہیں لیکن ہماری ریاست کے اندر گھس کر ڈرون حملہ کر کے ہمارے فوجیوں کو شہید کر دیا جاتا ہے اور ہم منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔۔
آپ انٹرنیٹ/گوگل پر موجود The Greater Israelکے نقشوں کو سامنے رکھ کر ان حقائق، واقعات، حالات کو پڑھیں اور پرکھیں، اظہر من الشمس ہو جائے گا کہ اسرائیل کیسے اسلامی دنیا کو ایک خاص نظریے کے تحت شہر بہ شہر تباہ کر کے اسرائیل ایک عظیم ریاست کی بنیادیں رکھ رہا ہے۔ لیکن افسوس ہم سو رہے ہیں۔۔۔
اچھا مسلمان بننے کے چکر میں دعائیں کرنے یا نعتیں سن سن کر رونے تک محدود ہو چکے ہیں۔ ہم عاشق رسول ﷺ کہلواتے نہیں تھکتے لیکن جب اسی رسول ﷺ کی امت پر اندھا دھند بمباری ہوتی ہے، جب اسی رسول ﷺ کی امت کا کشمیر، برما، لیبیاء، شام، یمن، عراق، فلسطین میں خون بہایا جاتا ہے، جب اسی رسول ﷺ کی امت کی ماؤں بہنوں کی عزتیں تار تار کر دی جاتی ہیں، جب امت کی ماؤں بہنوں کو سڑکوں پر گھسیٹا جاتا ہے تو ہمارے عشق کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ دین کا نام لینے، نعتیں سن سن کر آنسو بہا بہا کر بیہوش ہونے والے عاشق، عورت کے گھر سے باہر نکلنے پر فتوی دینے والوں کی زبان پر آبلے پڑ جاتے ہیں۔ سیاسی حکمرانوں کا رونا کیا رونا ہمارا گھر تو اپنے چراغوں سے جل رہا ہے۔
اللہ کا واسطہ ہے متحد ہو جائیں، اختلاف رائے کی قدر کرتے ہوئے امت کو ایک جسم بنا دیں، اتحاد و پیار کا درس دیں ورنہ اندلس کی تاریخ پڑھ لیں، جس مسجد پر فخر تھا، جہاں ہزار سال اللہ اکبر کی صداء بلند ہوتی تھی آج اسے قانونی طور پر گرجا بنا دیاگیاہے، آج وہاں اللہ اکبر کی صداء پر پابندی لگ چکی ہے اور مسلمان دعا کرتے رہ گئے اور اسلام کو شلوار کے پائنچے اور داڑھی کی مقدار تک محدود ہو گئے۔ اگر خدانخواستہ ہماری حالت یہ ہی رہی تو عالم اسلام کو اندلس بنا دیا جائے گا، آپ کے تبلیغی و عالمی مراکز، آپ کی شاندار مساجد، آپ کی آٹھ آٹھ منزلہ عمارتیں آج کا غرناطہ اور قرطبہ بن جائیں گی۔ اور آنے والے یہ ہی کہتے رہ جائیں گے کہ یہ گرجا بھی کبھی مسجد ہوتا تھا۔۔۔۔ ممکن ہے کسی کو میرے الفاظ سخت محسوس ہوں، لیکن قرآن کریم کی آیت پیش خدمت ہے؛ سورۃ الحج۔ آیت نمبر: 40
و لولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع و بیع و صلوات و مساجد یذکر فیھا اسم اللہ کثیرا
اور اگر اللہ انسانی طبقات میں سے بعض (کے شر، ظلم کے نشے) کو بعض کے ہاتھوں روک کر لوگوں کا دفاع نہ کرتا تو خانقاہیں، گرجے/کلیسے اور مسجدیں جن میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے منہدم ہو جاتیں۔
درگاہوں کے گدی نشینو، جامعات و مدارس میں قید علماء، مساجد میں قید امام، سلاسل طریقت کے وارثو، خدارا خدارا میرے آقا ﷺ کے دین و امت، قوم، مظلوم کی خاطر اٹھ کھڑے ہو۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں جب تمہاری خانقاہیں، بلند و بالا تبلیغ کے تمہارے مراکز، تمہاری بنائی شان و شوکت کی حامل مساجد تباہ ہو جائیں گی، جس کی ابتداء آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ آج ۸۵ اسلامی ملک ہیں، ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان ہیں لیکن۔۔۔۔
اے خاصہء خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی دھوم سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے
کاش یہ درد کسی کو سمجھ آ جائے، کاش یہ تڑپ کسی کے دل میں اتر جائے،کاش امت کے غم اور فکر کی یہ آگ امت کے مذہبی و سیاسی رہنماؤں کے دل میں لگ جائے، ورنہ مجھے وہ وقت نظر آتا ہے جب؛
تمہاری داستا ں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
(والسلام)
 
Top