کلاسیکی موسیقی استاد رئیس خان

110510111929_raees_khan_466x350_.jpg

برصغیر کے ممتاز ستار نواز اور موسیقار استاد رئیس خان نے فیسٹیول میں ایسا ستار بجایا کے وہ خود بھی کہہ اٹھے کہ ’ستار تو ہم بجاتے ہیں لیکن ایسا ستار ہم سے بھی کبھی کبھی بجتا ہے‘۔

روایتی اور کلاسیکی موسیقی کے حلقے کراچی میں دو دن جاری رہنے والے تہذیب فاؤنڈیشن کے ’ستار فیسٹیول‘ کے انعقاد سے سرشار ہیں۔ کیوں کہ ان حلقوں کے مطابق یہ برصغیر کا پہلا فیسٹیول ہے جو ستار کے نام پر ہوا ہے۔

ستار کے اس فیسٹیول کو چار ملکی فیسٹیول کہنا چاہیے۔ اس میں پاکستان، ہندوستان، جرمنی اور برطانیہ کے ستار نواز اور سازندے شریک ہوئے اور یہ وہ لوگ تھے جو موسیقی کی اس روایت کے زندہ ہونے کی علامت تصور کیے جاتے ہیں جس نے برصغیر کی ہند موسیقی کو وہ شکل دی جو اب دنیا میں ایک ایسی روایت کے طور پر جانی جاتی جس نے موسیقی کو عالمی سطح پر غنایت اور موسیقیت کی ایک نئی کشش سے روشناس کرایا ہے۔

110509163255_saleema_yousafi_226x170__nocredit.jpg

تہذیب فاؤنڈیشن کی جانب سے مشتاق احمد یوسفی، فاؤنڈیشن کی صدر ملاحت اعوان اور سرپرست شریف اعوان نے سلیمہ ہاشمی کو مصوری میں اعلیٰ کارکردگی کا ایوارڈ پیش کیا۔

فیسٹیول میں ہندوستان کے مغل دربار سے شروع ہونے والے میوات گھرانے کی تیرہویں نسل کے استاد رئیس خان اور پاکستان کے استاد شریف خان پونچھ والےاور استاد امداد حسین خان کے اسلوبوں کو آگے لے کر چلنے والے استاد رئیس کے فرزند سہیل رئیس خان، فرحان خان، حضور حسین خان اور استاد شریف کے فرزند اشرف رئیس خان، ان کے والد کے بھی شاگرد راکے جمیل اور استاد امداد حسین کے پوتے تراب علی شریک تھے۔ جب کہ طبلے کے لیے استاد بشیر خان اور برطانیہ کے شہباز حسین خان تھے جنھوں نے علم کا فیض استاد اللہ رکھا خان اور استاد شوکت حسین سے حاصل کیا ہے۔

ان کے علاوہ جے پور گھرانے کے استاد کبیر خان کے شاگرد اور بھانجے ساجد حسین اور ان کے فرزند شہروز حسین اور گلو کاروں میں خود اپنے اسلوب کے بانی محمد طفیل نیازی کے فرزند جاوید نیازی اور بابر نیازی شریک تھے۔

ستار نوازوں کے ان چار گھرانوں کے علاوہ بینا رضا تھیں جنہیں استاد شریف ہی کے خاندان کا حصہ سمجھا جانا چاہیے کیونکہ انہوں نے استاد شریف خان پونچھ والےاور ان کے فرزند اشرف خان سے بھی تعلیم حاصل کی۔

فیسٹیول کا انعقاد کرنے والا ادارہ تہذیب فاؤنڈیشن ایک نجی ادارہ ہے اور موسیقی اور ادب کے فروغ اور تحفظ کا کام کرتا ہے۔

110510110027_ashraf_shareef_226x170_.jpg

دوسرے دن اور فیسٹیول کے اختتام کا فریضہ استاد شریف خان پونچھ والے کے فرزند اور اب جرمنی میں مقیم اشرف خاں کے کاندھوں پر آیا۔

فیسٹیول کے پہلے دن جمعرات کو ابتدا ساجد حسین کے چودہ سالہ صاحب زادے شہروز نے کی اور خوب داد سمیٹی۔ ان کے بعد راکے جمیل نے فیض احمد فیض کی غزل: ’ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد‘، اور نظم ’بہار آئے‘ بجائیں اور آخر میں راگ بہار میں ٹھمری سنائی۔

ان کے بعد بابر نیازی اور جاوید نیازی نے اپنی فن کا مظاہرہ کیا اور اپنے والد کی یاد کو تازہ کر دیا۔ قدرت نے انھیں طفیل نیازی جیسی آواز تو نہیں دی لیکن گائیکی سے مناسبت ضرور دی ہے جسے انھوں نے اپنے والد کی پیروی اور ریاضت سے سجایا ہے اور ان گائیکی میں طفیل نیازی کی چمک بھی دکھائی دیتی ہے۔

دوسرے حصے کی ابتدا سے پہلے استاد رئیس خان کو ستار، بابر نیازی و جاوید نیازی کو گلوکاری، زہرہ نگاہ کو شاعری، اسد محمد خان کو فکشن اور سلیمہ ہاشمی کو مصوری میں نمایاں کارکردگی پر تہذیب فاؤنڈیشن ایوارڈ دیے گئے۔

دوسرا حصہ استاد رئیس خان کے لیے مخصوص تھا جس میں انہوں نے اپنے فرزند کے فرحان خان کے ساتھ ایسا ستار بجایا کہ وہ خود بھی کہہ اٹھے ’ستار تو ہم بجاتے ہیں لیکن ایسا ستار ہم سے بھی کبھی کبھی بجتا ہے‘۔

110509163519_beena_raza_226x170_.jpg

بینا رضا نے راگ بیہاگ بجایا۔ وہ موسیقی کی تدریس دیتی ہیں اور اشرف خاں سے بھی علم حاصل کر چکی ہیں۔

دوسرے روز کی ابتدا استاد امداد حسین کے پوتے تراب علی نے کی اور راگ جھنجوتی بجایا اور ان کے ساتھ طبلے پر سنگت استاد بشیر خان نے کی۔

ان کے بعد بینا رضا نے راگ بیہاگ بجایا۔

بینا کے بعد سہیل خاں اور حضور حسین خاں نے راگ ایمن بجایا جس سے ماحول ایک بار پھر گرم ہو گیا۔ انہوں نے معروف ٹھمری ’آن ملو سجنا بھی‘ گا کر سنائی اور ہال میں موجود اساتذہ سمیت سب کی داد سمیٹی۔ ان کے ساتھ طبلے پر سنگت استاد خورشید حسین نے کی۔

ان کے بعد ساجد حسین اپنے فرزند شہروز کے ساتھ آئے اور کہا کہ بیہاگ اور ایمن بجائے جا چکے ہیں اب وہ کوشش کریں گے کہ ان کے درمیان درمیان رہیں۔ انھوں نے ایسے ایسے پہلو دکھائے کہ اساتذہ بھی داد دیے بنا نہ رہ سکے۔ ان کے انداز میں بھی استاد رئیس خاں کے اسلوب کا رنگ چھلکتا ہے انھوں نے خود بھی کہا کہ استاد رئیس خاں ان کے آئیڈیل ہیں۔

ان کے بعد ممتاز گٹارسٹ عامر ذکی (وائٹل سائنز فیم) اور فرحان خان نے مشرق و مغرب کے ملاپ اور ستار، گٹار اور ڈرم کی نوک جھوک پر مبنی دھن بجائی جس میں ان کے ساتھ بیس گٹار پر خالد خان اور ڈرم پر واحد تھے۔

110509163717_wahid_226x170_.jpg

واحد نے ڈرم پر ستار اور گٹار کے جو بول کاٹے اس نے انھیں خاں طور پر نمایاں کر دیا۔

فیوچرسٹ کہی جا سکنے والی موسیقی کی پیشکش میں یوں تو سب ہی کو داد ملی لیکن واحد نے ڈرم پر ستار اور گٹار کے جو بول کاٹے اس نے انھیں خاص طور پر نمایاں کر دیا۔

دوسرے دن اور فیسٹیول کے اختتام کا فریضہ استاد شریف خان پونچھ والے کے فرزند اور اب جرمنی میں مقیم اشرف خاں کے کاندھوں پر آیا۔ ان کے ساتھ طبلے پر سنگت کے لیے برطانیہ سے آنے والے شہباز حسین تھے۔

اشرف خاں نے راگ درباری بجایا اور ایسے بجایا کہ حق ادا کر دیا اور حاضرین کو اندازہ ہی نہیں ہوا کہ انھوں اپنے لیے مختص وقت سے کتنی دیر زیادہ بجایا۔ ان کی مہارت، مٹھاس اور ولمپت اور درت چالوں کے ساتھ دسترس اور درمیان درمیان مغربی انداز کی چاشنی ایسی تھی جو دنیا بھر میں ان کی پذیرائی کا جواز فراہم کرتی تھی۔

110510145400_raees_huma_226x170_.jpg

استاد رئیس خاں نے فیسٹیول کے اختتام پر کہا کہ پاکستان میں موسیقی کا مستقبل روشن ہے۔ ان کے ساتھ فیسٹیول کی میزبان ہما بخاری ہیں۔

اس فیسٹیول کے انعقاد پر تہذیب فاؤنڈیشن کی صدر ملاحت اعوان اور روحِ رواں شریف اعوان کو سبھی نے مبارکباد دی۔ سامعین نے فیسٹیول کی پُر کشش اور خوش رو میزبان ہما بخاری کو بھی فنکاروں اور ان کے فن سے ان کی شناسائی کی خصوصی داد دی۔ کیوں کہ ان کے تعارف اُن سامعین کے لیے بہت کار آمد تھے جو نوجوان تھے اور فیسٹیول میں شریک موسیقاروں اور ان کے فن کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتے تھے۔
ربط
http://www.bbc.co.uk/urdu/entertainment/2011/05/110510_sitar_festival_sen.shtml
 

کاظم

محفلین
خاں صاحب کا فن بے نظیر ہے لیکن "انار انار" دھن جو بی بی سی پر نشر ہوئی میں نے سنی ، اس میں خاں صاحب ایک خاص انداز سے دیکھ رہے تھے اور ان کی آنکھیں دیکھ کر میرا جی چاہا میں ان پر قربان ہو جاؤں۔
 
Top