اردو کی قدر دانوں کے خوش خبری

آپ کو کیا لگتا ہے اردو دفتری زبان بن پائے گی؟

  • بالکل بن جائے گی

    Votes: 3 30.0%
  • نہیں بن پائے گی

    Votes: 1 10.0%
  • شاید کبھی بن جائے

    Votes: 6 60.0%

  • Total voters
    10
گزشتہ ماہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں اردو زبان کو سرکاری اور دفتری زبان بنانے کے حوالے سے درخواست دی گئی۔ سماعت کے دوران درخواست گزار ایم کوکب اقبال نے کہا کہ پاکستان کے 1973 کے آئین آرٹیکل 251 کے تحت اردو پاکستان کی قومی زبان ہے اور اس کو سرکاری و دفتری زبان بنانے کے لیے عرصہ 15 سال میں حکومت کو تمام ضروری اقدامات کرنے تھے۔ یہ 15 سال کا عرصہ 1988 میں پورا ہو گیا اس وقت سے آج تک مزید 27 برس گزر گئے لیکن وفاقی حکومت نے مجموعی طور پر 42 سال گزر جانے پر بھی کوئی اقدامات نہیں کئے۔
اب اس درخواست کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ آئیندہ چھ ماہ میں اردو کو سرکاری اور دفتری زبان کے طور پر رائج کر دیا جائے گا۔
اب دیکھیں کے کب تک یہ ممکن ہو پاتا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
سپریم کورٹ میں اردوکو سرکاری زبان کا درجہ دینے سے متعلق کیس کی سماعت میں عدالت نے وفاق کی پیشرفت رپورٹ مسترد کردی ہے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا ہے کہ وہ آئندہ سماعت پر عدالت کو بتائیں کہ معاملے میں غفلت کا مظاہرہ کرنے والے کون ذمہ دار ہیں ؟
گزشتہ 27سال میں حکومت نے اردو کو قومی زبان قرار دینے کے لئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے قوم کے ساتھ مذاق بند کیا جائے، 1973ء کے آئین میں طے کردیا گیا تھا کہ پندرہ سال کے اندر اندر حکومت ایساکرنے کی پابند ہوگی۔
جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کیس کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے عدالت میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے کیلئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، رپورٹ سے متعلق سیکرٹری اطلاعات اعظم خان نے کہا کہ 6 سے 9ماہ کے اندر اقدامات مکمل کئے جائیں گے


جسٹس جواد نے کہا کہ اعظم صاحب یہ کیس کے ساتھ مذاق کررہے ہیں، ترقی یافتہ ممالک نے انگریزی کے دور پر ترقی کی؟۔ عدالت نے رپورٹ مسترد کرتے ہوئے تازہ تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے۔
 
سپریم کورٹ میں اردوکو سرکاری زبان کا درجہ دینے سے متعلق کیس کی سماعت میں عدالت نے وفاق کی پیشرفت رپورٹ مسترد کردی ہے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا ہے کہ وہ آئندہ سماعت پر عدالت کو بتائیں کہ معاملے میں غفلت کا مظاہرہ کرنے والے کون ذمہ دار ہیں ؟
گزشتہ 27سال میں حکومت نے اردو کو قومی زبان قرار دینے کے لئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے قوم کے ساتھ مذاق بند کیا جائے، 1973ء کے آئین میں طے کردیا گیا تھا کہ پندرہ سال کے اندر اندر حکومت ایساکرنے کی پابند ہوگی۔
جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کیس کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے عدالت میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے کیلئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، رپورٹ سے متعلق سیکرٹری اطلاعات اعظم خان نے کہا کہ 6 سے 9ماہ کے اندر اقدامات مکمل کئے جائیں گے


جسٹس جواد نے کہا کہ اعظم صاحب یہ کیس کے ساتھ مذاق کررہے ہیں، ترقی یافتہ ممالک نے انگریزی کے دور پر ترقی کی؟۔ عدالت نے رپورٹ مسترد کرتے ہوئے تازہ تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے۔
ان معلومات کو فراہم کرنے پہ آپ کا شکر گزار ہوں۔
 

شهریار شاہ

محفلین
یہ معلومات الحمد لله بظاہر حوصلہ افزاء ہیں ، ہم دعا گو ہیں ہمارا یہ خواب ہماری زندگیوں میں شرمندۂ تعبیر ہوسکے کہ پاکستان میں قومی زبان کی سرکاری حیثیت ہوجائے۔۔۔
 
یہ معلومات الحمد لله بظاہر حوصلہ افزاء ہیں ، ہم دعا گو ہیں ہمارا یہ خواب ہماری زندگیوں میں شرمندۂ تعبیر ہوسکے کہ پاکستان میں قومی زبان کی سرکاری حیثیت ہوجائے۔۔۔
انشاء اللہ ایک دن یہ ہو کر رہے گا۔ بشرط اردو کی بحالی کی یہ تحریک جاری رہے۔
 
زندہ باد۔ تمام اہلِ پاکستان کو مبارک باد۔ شاید اکثر لوگ اس خبر کی اہمیت سے واقف نہ ہوں مگر فرق تو پڑے گا۔ سب کو پڑے گا۔ اتنا پڑے گا کہ نسلیں یاد رکھیں گی۔
اگر موجودہ حکومت یہ کارنامہ سرانجام دے لیتی ہے تو مجھے پھر آئندہ نون لیگی ہی سمجھیے!
 
زندہ باد۔ تمام اہلِ پاکستان کو مبارک باد۔ شاید اکثر لوگ اس خبر کی اہمیت سے واقف نہ ہوں مگر فرق تو پڑے گا۔ سب کو پڑے گا۔ اتنا پڑے گا کہ نسلیں یاد رکھیں گی۔
اگر موجودہ حکومت یہ کارنامہ سرانجام دے لیتی ہے تو مجھے پھر آئندہ نون لیگی ہی سمجھیے!
بجا فرمایا آپ نے ورنہ ہماری آنے والی نسلیں اردو سے نابلد ہوتی جا رہی تھیں۔
 
بجا فرمایا آپ نے ورنہ ہماری آنے والی نسلیں اردو سے نابلد ہوتی جا رہی تھیں۔
اردو سے نابلد ہونا کوئی چھوٹی بات بھی نہیں۔ لڑے ہیں ہم اردو کے لیے۔ اردو ہندی تنازع سے لے کر بنگالی کے قومی زبان بنائے جانے کے قضیے تک۔ ہندوستان ٹوٹ گیا۔ پھر پاکستان بھی ٹوٹ گیا۔ جس ستم ایجاد کے لیے یہ سب ہوا، اس دلبرِ رعنا کی قربت لیکن نصیب نہ ہوئی۔ لیکن کیا کریں۔ اب بھی مل جائے تو زہے مقدر!
بقولِ غالبؔ:
بس اب بگڑے پہ کیا شرمندگی؟ جانے دو، مل جاؤ!
قسم لو ہم سے جو یہ بھی کہیں "کیا ہم نہ کہتے تھے؟"
 
Top