اردو کی اڑان اور پاکستان از انیس باقر
اردو زبان کسی خاص فرد، گروہ یا حکومت کی وجہ سے معرض وجود میں نہیں آئی بلکہ اس زبان نے مختلف گروہوں اور حملہ آور قوتوں اور ہندوستان میں موجود بھاشائوں کے درمیان جو دریا حائل تھا۔
اس کے درمیان ایک پل کا کام کیا۔ اردو کا خط فارسی سے اس لیے متاثر ہوا کیونکہ مسلمان حکمراں اپنے حکومتی معاملات فارسی زبان میں طے کرتے تھے یا یوں کہیے کہ فارسی برصغیر کی سرکاری زبان تھی۔ چونکہ اردو زبان نے بہت سے الفاظ نہ صرف عربی، فارسی، ہندی، انگریزی، ترکی سے لیے بلکہ بہت سے الفاظ انگریزی زبان کو بھی دیے۔ قندیل جو انگریزی میں کینڈل کہلاتی ہے، کارواں جس کو انگریزی میں کارواں ہی کہتے ہیں، جنگل کو Jungle بھی کہتے ہیں اور فوریسٹ بھی ان کے یہاں مستعمل ہے۔ انگریزوں نے حکمرانی کرکے بہت کچھ لیا بھی ہے، مثلاً کمان دار، کمانڈر وغیرہ وغیرہ۔
اردو زبان کی ایک اور خوبصورتی ہے کہ آپ عربی زبان سے لے کر چینی زبان کی آواز کو اسی انداز میں نکال سکتے ہیں، اور ہندی زبان تو اس کی زرخیزی میں استعمال ہوئی ہے۔اردو زبان میں نثر نگاری کے علاوہ مرثیہ گوئی کی بھی ایک بڑی تاریخ ہے جس میں رزمیہ، المیہ اور ڈرامائی انداز میں اردو زبان کو ادا کیا جاتا ہے، جس کو مرثیہ تحت اللفظ کہتے ہیں۔ اردو کی یہ بے مثال خوبیاں اور خوبصورت انداز کو دیکھتے ہوئے انگریز نے 19 ویں صدی کے اوائل میں ہی فورٹ ولیم کالج کی بنیاد رکھی اور اس پر عمل کیا تاکہ ہندوستان میں ان کی حکومت کا چراغ ہمیشہ جلتا رہے۔
اردو زبان کی اس خصوصیت اور ہمہ گیری اور مستقبل کا ادراک کرتے ہوئے بانی پاکستان قائداعظمؒ نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان کا درجہ دیا تھا، مگر یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوا اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ بیورو کریسی عوام النّاس کو اقتدار میں شریک کرنے پر آمادہ نہ تھی، محض مراعات یافتہ طبقات میں یہ اقتدار چلتا رہے اور انگریزوں کی تیار کردہ (ICS) انڈین سول سروس کی حکمرانی قائم رہے، اردو کے ساتھ غضب یہ ہوا کہ قائداعظم تو قیامِ پاکستان کے چند برس بعد ہی چل بسے، لہٰذا اردو زبان کے نفاذ کا مسئلہ مسلسل التوا کا شکار رہا۔اردو ارتقاء کا دوسرا نام ہے۔
عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن میں میر عثمانی علی خان کی کاوشوں سے ایم بی بی ایس کے کورسز کو اردو زبان میں پڑھایا جاتا تھا۔ نواب دکن نے اردو زبان اور پاکستان کی بھرپور مدد کی، مگر افسوس کہ پاکستانی حکمراں ہمیشہ پہلو تہی کرتے رہے اور نفاذ اردو کی ہر کوشش کو ناکام بنادیتے تھے مگراس سلسلے میں میر غوث بخش بزنجو کو نفاذِ اردو کے لیے ان کی کوششوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جب بلوچستان میں نیپ کی حکومت آئی تو اس نے بلوچستان یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کی بنیاد رکھی ۔ پروفیسر کرار حسین کو وی سی اور پروفیسر مجتبیٰ حسین کو اردو کی ترویج اور اس کے شعبے کا ڈین بنایا مگر وہ حکومت اپنے دن پورے نہ کرسکی۔
تقسیم ہند کے بعد جب قائداعظمؒ نے اردو کو مرتبہ دیا تو 1948 میں اردو بھی بھارت میں مسلمانوں کی زبان سمجھی جانے لگی۔ تقسیم کے 30 سال تک اردو زبان کو بھارت میں شدید مشکلات کا سامنا تھا مگر بھارت کی فلم انڈسٹری میں یہ درخت پوری آب و تاب سے نئی نئی کونپلیں اور شاخیں نکالتا رہا، پھر اسی اردو زبان کی بدولت بھارتی فلمیں پوری دنیا میں مقبولِ عام ہوئیں۔ کٹھمنڈو سے کیلی فورنیا تک تماش بین یہ فلمیں دیکھتے ہیں۔ اگر یہ بات کہی جائے تو مبالغہ آرائی نہ ہوگی کہ اردو زبان سمجھنے اور بولنے والے جغرافیائی اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔
یہی وہ زبان ہے کہ جس نے بھارتی فلم انڈسٹری کو زرِ کثیر کما کر دیا کیونکہ اس زبان کو برصغیر کے عوام کی پرزور حمایت حاصل ہے۔ یہ کہنا بجاطور پر درست ہوگا کہ اب نہ صرف اردو زبان کو عوامی سرپرستی حاصل ہے بلکہ بھارت میں اس کی سرکاری سرپرستی بھی کی جارہی ہے مگر قیامِ پاکستان کے بعد بھارتی مسلمانوں اور اردو زبان کے ساتھ انتہا پسندوں کا سلوک ناروا تھا۔ اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھ کر اس کو بھی دربدر کیا جارہا تھا۔ جوش ملیح آبادی کو یہ احساس تھا، اس لیے 1950 کے اوائل میں بھارت کو خیرباد کہا، گو پنڈت جواہر لعل نہرو جو اس وقت بھارتی وزیراعظم تھے، ان کو ہوائی اڈے تک روکنے کے لیے پہنچ گئے تھے، مگر وہ بالآخر پاکستان آگئے۔
انھوں نے پاکستان آکر اردو ڈکشنری بورڈ کا خیال پیش کیا جو بعد ازاں زبردست خدمات انجام دیتا رہا، مگر شاباش ہے ان لوگوں پر جو بھارت میں رہتے ہوئے بھی اردو کا چراغ روشن کیے رہے اور بالآخر ان چراغوں کی روشنی دور دور تک دیکھی جاسکتی ہے۔ آج کل ایسے چراغ مغربی دنیا میں اپنی کرنیں بکھیر رہے ہیں۔ اس قافلے میں بھارتی فلم انڈسٹری کا اسکرین کے پیچھے کا وہ عملہ ہے جو قلم کی سیاہی سے روشنی بکھیر رہا ہے، جن میں چند اسمائے گرامی پروفیسر محمود فاروقی، نہرو یونیورسٹی دہلی، انوشا رضوی، مشہور فلم ساز عامر خان کی بہن، جاوید اختر اور دیگر ہندوستانیوںکا قافلہ بھی جو امریکا کی تمام یونیورسٹیوں پر اردو زبان کی وسعت، گہرائی، گرفت، ابلاغ، حسنِ بیان، جادوگری، طلسماتی اثرات، تغزل، عوامی رنگ، خسرو کے گیت، صوفیا کا رنگ برصغیر کی رسومات واضح کررہے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ان میں سائنسی ادبی، دوربینی بھی موجود ہے۔ اردو زبان کے یہ سیمینار امریکا کی تمام یونیورسٹیوں میں منعقد ہورہے ہیں۔ حالیہ سیمینار بوسٹن میں ہوا اور آیندہ چند ہفتوں میں وسکانسن میں منعقد ہوگا، ان سیمیناروں میں اساتذہ اور انگریز شاگرد بھی موجود ہوتے ہیں۔ یہ قافلہ عامر خان کی کاوشوں کا بڑا نتیجہ ہے۔ بھارتی فلم سازوں میں عامر خان نے اردو دوستی کا جو مشن جاری رکھا ہے، اس سے اب جنوب مشرقی ایشیا کی زبانوں اور کلچر کا تعارف ان ممالک میں ہورہا ہے۔ پہلے ان ممالک میں بدھا اور قدیم تاریخ پر پروگرام ہوتے تھے مگر اب داستان گوئی، میر امن دہلوی اور دیگر موضوعات پر سیمینار ہورہے ہیں۔
جدید دنیا ان پروگراموں سے کافی متاثر ہے۔ گو آرٹس کونسل میں بھی سالانہ اردو کانفرنس ہوتی ہے مگر یہ نفاذ اردو کانفرنس نہیں ہوتی بلکہ یہ دور دراز کے ادبا سے ملنے کا ایک موقع ہوتا ہے۔ اردو زبان کے لیے جو کاوشیں اب بھارت کے شمالی ہند سے اٹھ رہی ہیں، وہ یقیناً بھارت کے عالمی معیار کو مزید بلند کرے گا، مگر پاکستان میں اردو زبان کی قوت کا اندازہ لوگوں کو نہیں ہے، البتہ یہ ضرور محسوس ہوچکا ہے کہ جب بھی کوئی نیشنل الیکٹرانک میڈیا پاکستان میں انگریزی زبان کے سہارے آتا ہے ناکام ہوجاتا ہے کیونکہ اردو بلامبالغہ کثیر القومی زبان ہے۔ ایسے موقع پر حکومت کیوں خاموش تماشائی ہے۔ یہ بات تمام صاحبانِ فہم سمجھ سکتے ہیں کہ حکمرانوں کے پاس دوربینی نہیں، وہ مصلحت سے کام لیتے ہیں۔
اس بلند پرواز زبان کے پر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کتر دیے گئے ہیں مگر خوشی کی بات یہ ہے کہ اے (A) اور (O) او لیول والے طلبا اور اساتذہ اس زبان کو اہمیت دے رہے ہیں اور مستقبل کی سائوتھ ایشین لینگویج کا درجہ حاصل کرنیوالی اس زبان کا سورج طلوع ہوگا۔ ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے بھی اردو داں طبقے کے دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں کو اپنے اسکرین سے دور کر رکھا ہے اور من مانے تلفظ، آہنگ اور صوت کا خیال رکھے بغیر اردو کا استعمال جاری ہے
بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس
 

حسان خان

لائبریرین
اردو کو 'مسلمانوں کی زبان' کہنے پر ہم اتنا دفاعی اور حقیقت گریز رویہ کیوں اپنا لیتے ہیں؟ اگر کوئی زبان اسلامی تہذیب سے جڑی ہوئی ہے اور اسی تہذیب سے اس کی آبیاری و نشوونما ہوئی ہے تو اس کو تسلیم کرنا چاہیے۔ حقیقت کے تسلیم کرنے میں کیسی شرم؟ اور ویسے بھی اردو کے لیے مسلمانوں کی زبان ہونا اعزاز کی بات ہے، شرم کی بات نہیں۔
 

موجو

لائبریرین
السلام علیکم
بہت اچھا لکھا ہے مگر پاکستانی حکومت خصوصا پنجاب حکومت اردو سے جو دشمنی کررہی ہے اس کا ذکر ہی نہ ہوا۔
 

موجو

لائبریرین
جناب پڑھئیے اور سر دھنیے
1988 ء کی پی پی حکومت میں پہلی جماعت سے انگریزی بطور لازمی مضمون پڑھانے کی منظوری دے دی سندھ میں فوری عمل شروع ہوگیا تھا پنجام میں اس کے پانچ سال بعد منظور وٹو کے دور میں 1993ء پرائمری سکولوں میں انگریزی کو لازمی مضمون قرادیا گیا
موجودہ حکومت پنجاب نے 2009ء سے تین مرحلوں میں صوبے کے تمام سرکاری سکول جبراً انگلش میڈیم بنا دئیے ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے http://schools.punjab.gov.pk/
پر نظر ڈالیے
 

موجو

لائبریرین
نہ صرف یہ بلکہ خادم اعلیٰ زنانہ سکولوں میں مرد اساتذہ بھجوارہے ہیں اور مردانہ میں خواتین اساتذہ
 

حسان خان

لائبریرین
جناب پڑھئیے اور سر دھنیے
1988 ء کی پی پی حکومت میں پہلی جماعت سے انگریزی بطور لازمی مضمون پڑھانے کی منظوری دے دی سندھ میں فوری عمل شروع ہوگیا تھا پنجام میں اس کے پانچ سال بعد منظور وٹو کے دور میں 1993ء پرائمری سکولوں میں انگریزی کو لازمی مضمون قرادیا گیا

انگریزی کے بطور لازمی مضمون پڑھانے میں کیا قباحت ہے؟
 

موجو

لائبریرین
پنجابی بچے کو اپنی تعلیم کی ابتداء میں انگریزی بطور لازمی مضمون پڑھانا پرلے درجے کی انگریزی فرمانبرداری ہے کیا 16 سال کی تعلیم کےبعد ایک پاکستانی طالبعلم اس قابل ہوجاتا ہے کہ انگریزی کماحقہ لکھ پڑھ سکے؟
کیوں ایک اضافی زبانی جس کا پاکستانی تہذیب سےتعلق نہیں ہے بوجھ ڈالا جائے؟ انگریزی ہی سکھانی ہے تو انٹرمیڈیٹ یا میٹرک کے بعد اس کا بندوبست نہیں کیا جاسکتا۔
میں انگریزی کا مخالف نہیں ہوں مگر بنیادی تعلیم میں سوائے عربی کے پاکستانی مسلمانوں کے کسی دوسری زبان کو مناسب نہیں سمجھتا
اور انگریزی بھی کوئی ڈھنگ سے پڑھائی جائے تو فائدہ ہو
ایک مزے کی بات بتاتا چلوں
مغربی ممالک میں سے کسی ملک کو سروس کمیشن والوں نے اپنا نظام دکھانے معاونت لینےکے لئے دورہ کروایا بعد میں انہوں نے اپنی رپورٹ میں اس بات کا اظہار بھی کیا کہ آپ ذرا انگریزی پر ہتھ ہولا رکھیں تاکہ بائبل اور ازمنہ رفتہ کی اصلاحات کے استعمال کی وجہ سے جو لوگ ملکی خدمت سے رک جاتے ہیں وہ بھی آگے بڑھنے کا موقعہ پاسکیں۔ اور شنید ہے کہ سرکار اس کے اندر بنیادی تبدیلیاں لانے کی سوچ بچار میں ہے۔
 
میری نظر میں اردو ایک مرتی ہوئی زبان ہے۔ اسکا ایک مرحلہ ہندوستان میں اردو کی موت ہے جو اب ہندی کی صورت ڈھل رہی ہے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ پاکستان میں قومی اور رسمی زبان عربی منتخب کرلی جاتی۔ اب بھی موقع ہے۔ پاکستان کو عربی زبان اپنا کر اسکول و کالج میں اس کے ذریعے تعلیم دینی چاہیے۔ اس صورت میں ہمار اسلامی تشخص بہتر ہوجائے گا۔ واضح رہے کہ اب میں نے عربی کلاس لینی شروع کردی ہے;)
 

عثمان

محفلین
پنجابی بچے کو اپنی تعلیم کی ابتداء میں انگریزی بطور لازمی مضمون پڑھانا پرلے درجے کی انگریزی فرمانبرداری ہے کیا 16 سال کی تعلیم کےبعد ایک پاکستانی طالبعلم اس قابل ہوجاتا ہے کہ انگریزی کماحقہ لکھ پڑھ سکے؟
کیوں ایک اضافی زبانی جس کا پاکستانی تہذیب سےتعلق نہیں ہے بوجھ ڈالا جائے؟ انگریزی ہی سکھانی ہے تو انٹرمیڈیٹ یا میٹرک کے بعد اس کا بندوبست نہیں کیا جاسکتا۔
میں انگریزی کا مخالف نہیں ہوں مگر بنیادی تعلیم میں سوائے عربی کے پاکستانی مسلمانوں کے کسی دوسری زبان کو مناسب نہیں سمجھتا
اور انگریزی بھی کوئی ڈھنگ سے پڑھائی جائے تو فائدہ ہو
ایک مزے کی بات بتاتا چلوں
مغربی ممالک میں سے کسی ملک کو سروس کمیشن والوں نے اپنا نظام دکھانے معاونت لینےکے لئے دورہ کروایا بعد میں انہوں نے اپنی رپورٹ میں اس بات کا اظہار بھی کیا کہ آپ ذرا انگریزی پر ہتھ ہولا رکھیں تاکہ بائبل اور ازمنہ رفتہ کی اصلاحات کے استعمال کی وجہ سے جو لوگ ملکی خدمت سے رک جاتے ہیں وہ بھی آگے بڑھنے کا موقعہ پاسکیں۔ اور شنید ہے کہ سرکار اس کے اندر بنیادی تبدیلیاں لانے کی سوچ بچار میں ہے۔
بھئی آپ کا مسئلہ وہی ہے کہ "قومی زبان عربی ہونی چاہیے۔ "
 

عثمان

محفلین
میری نظر میں اردو ایک مرتی ہوئی زبان ہے۔ اسکا ایک مرحلہ ہندوستان میں اردو کی موت ہے جو اب ہندی کی صورت ڈھل رہی ہے۔
:rollingonthefloor:

کیا ہی اچھا ہو کہ پاکستان میں قومی اور رسمی زبان عربی منتخب کرلی جاتی۔ اب بھی موقع ہے۔ پاکستان کو عربی زبان اپنا کر اسکول و کالج میں اس کے ذریعے تعلیم دینی چاہیے۔ اس صورت میں ہمار اسلامی تشخص بہتر ہوجائے گا۔ واضح رہے کہ اب میں نے عربی کلاس لینی شروع کردی ہے;)
:rollingonthefloor::rollingonthefloor: میں نے کہا تھا نا!
 
انگریزی بھی اب بہت مقبول زبان کا مرتبہ کھونے جارہی ہے۔ مینڈرین یعنی چائنز اسکا مقابل ہونے جارہی ہے۔ ابھی بھی دنیا کی مقبول ترین زبان چائنیز ہے جو چائنا، ہانگ کانگ، تائیوان، ملائیشیا، اور انڈونیشیا میں بھی بولی جاتی ہے اور دنیا کے زیادہ افراد یہی زبان بولتے ہیں۔ حتی کی ا ب اس زبان میں دنیا میں سب سےزیادہ سائنسی مقالے لکھے جاتےہیں۔ اس صدی میں ترقی کی زبان شاید مینڈرین ہی ہو۔ اس صورت میں انگریزی کو جلد ہی چھوڑ دینا چاہیے۔
میری رائے میں اردو کے مقابلے مین عربی قومی زبان ہو تو سب ذیلی قومیتیں متفق ہونگی۔ ورنہ چائنز نہ اپنانا پڑے کہیں
 

عثمان

محفلین
انگریزی بھی اب بہت مقبول زبان کا مرتبہ کھونے جارہی ہے۔ مینڈرین یعنی چائنز اسکا مقابل ہونے جارہی ہے۔ ابھی بھی دنیا کی مقبول ترین زبان چائنیز ہے جو چائنا، ہانگ کانگ، تائیوان، ملائیشیا، اور انڈونیشیا میں بھی بولی جاتی ہے اور دنیا کے زیادہ افراد یہی زبان بولتے ہیں۔ حتی کی ا ب اس زبان میں دنیا میں سب سےزیادہ سائنسی مقالے لکھے جاتےہیں۔ اس صدی میں ترقی کی زبان شاید مینڈرین ہی ہو۔ اس صورت میں انگریزی کو جلد ہی چھوڑ دینا چاہیے۔
میری رائے میں اردو کے مقابلے مین عربی قومی زبان ہو تو سب ذیلی قومیتیں متفق ہونگی۔ ورنہ چائنز نہ اپنانا پڑے کہیں

:rollingonthefloor::biggrin::ROFLMAO: :rollingonthefloor:
میرے پاس تو اب ہاسے بھی کم پڑ رہے ہیں۔ :oops:
 

حسان خان

لائبریرین
قوم کو ٹھیک سے عربی سکھاتے سکھاتے ہی سو سال لگ جائیں گے۔ یعنی سو سال تک پاکستان کو ناخواندہ رکھنا چاہتے ہیں؟ کیا ترکی کا اسلامی تشخص عربی کی وجہ سے ہے؟ اور کیا اردو کا اپنا اسلامی تشخص نہیں ہے؟

دیانتداری کی بات کہوں، تو مجھے عربی زبان صوتی لحاظ سے پسند بھی نہیں ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
میری نظر میں اردو ایک مرتی ہوئی زبان ہے۔ اسکا ایک مرحلہ ہندوستان میں اردو کی موت ہے جو اب ہندی کی صورت ڈھل رہی ہے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ پاکستان میں قومی اور رسمی زبان عربی منتخب کرلی جاتی۔ اب بھی موقع ہے۔ پاکستان کو عربی زبان اپنا کر اسکول و کالج میں اس کے ذریعے تعلیم دینی چاہیے۔ اس صورت میں ہمار اسلامی تشخص بہتر ہوجائے گا۔ واضح رہے کہ اب میں نے عربی کلاس لینی شروع کردی ہے;)

بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے۔

کل کلاں کو آپ ملازمت کے سلسلے میں چین چلے گئے اور وہاں چینی زبان کی کلاسیں لینے لگیں گے اور کہیں گے کہ پاکستان کی زبان چینی ہونی چاہیے کیونکہ آپ نے چینی زبان کی کلاسیں لینی شروع کر دی ہیں۔ :)
 

حسان خان

لائبریرین
میری رائے میں اردو کے مقابلے مین عربی قومی زبان ہو تو سب ذیلی قومیتیں متفق ہونگی۔


آپ کی اس بات میں وزن ہے۔ پر اگر قومیتوں کو متحد کرنا ہے تو عربی زبان ہی کیوں؟ پاکستان میں بسنے والی تمام قومیتوں کے اجداد کی مشترکہ زبان فارسی کیوں نہیں، جو کہ خطے کی ہزار سالہ زبان بھی رہی ہے؟ فارسی سے تو ہم اپنے اجداد سے زیادہ بہتر طریقے سے جڑ سکیں گے۔ عربی تو سوائے سندھ میں کچھ عرصے کے علاوہ کبھی بھی یہاں غیر دینی چیزوں کے لیے استعمال نہیں ہوئی۔ اور پھر قومیتوں کو متحد کرنے کے لیے ہم انڈونیشیا کی طرح یہاں کی کوئی اقلیتی زبان کیوں نہیں چن لیتے؟ شمالی علاقہ جات کی بروشاسکی کیسی رہے گی؟ پاکستان کے علاوہ یہ زبان یا اس کی کوئی بہن کہیں نہیں بولی جاتی۔ بروشاسکی سےتو فارسی سے بھی بڑھ کر جداگانہ پاکستانی قومیت تشکیل دی جا سکتی ہے۔
 
قوم کو ٹھیک سے عربی سکھاتے سکھاتے ہی سو سال لگ جائیں گے۔ یعنی سو سال تک پاکستان کو ناخواندہ رکھنا چاہتے ہیں؟ کیا ترکی کا اسلامی تشخص عربی کی وجہ سے ہے؟ اور کیا اردو کا اپنا اسلامی تشخص نہیں ہے؟

دیانتداری کی بات کہوں، تو مجھے عربی زبان صوتی لحاظ سے پسند بھی نہیں ہے۔
ترکی کا اسلامی تشخص ہے کیا؟:cool:
اردو کی ترویج زیادہ تر انگریز کے ہندوستان انے کے بعد ہوئی۔ اس سے پہلے یہ کوئی مقبول زبان نہیں تھی ۔ افیشل زبان فارسی تھی یا عربی۔ ہر کوئی عر بی جانتا تھا اور فارسی بھی۔یعنی ہر تعلیم یافتہ
انگریز نے اکر فارسی وعربی کا دیس نکالا کیا
بدقسمتی سے ہر وہ ملک جہاں انگریزی لوکل زبان نہیں بلکہ انگریز نے اکر مسلط کی تھی ترقی معکوس کا شکار ہے۔ ہر وہ ملک جس نے اپنی قومی زبان کو اپنی افیشل زبان نہیں اپنایا ترقی نہ کرسکی۔
جاپان میں جاپانی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے۔ کوریا میں کورین اور چائنا میں چائنیز۔ یہی ملک ترقی کررہے ہیں۔
سری لنکا، پاکستان،بنگلہ دیش، ویسٹ انڈیز، ہندوستان وغیرہ ترقی نہ کرسکا بلک تنزلی کا شکار ہیں۔ کچھ ترقی کی بھی ہے تو جینون نہیں
 
Top