اردو کانفرنس(ہند) اور ہماری زبان

news-1416443314-5140.JPG

زبانیں بھی کیا چیز ہوتی ہیں ؟ بغیر لکھے اور بغیر کہے انسان غلاف میں لپٹے قرآن شریف کی طرح بغیر مقصد کے پڑا ہی رہ جاتا ہے ۔ ہم بولتے ہیں تو بات بنتی ہے ہم سنتے ہیں تو کسی کو سمجھ پاتے ہیں ۔لکھتے ہیں تو راہنمائی دیتے ہیں پڑھتے ہیں تو رہنمائی لیتے ہیں ۔ زبان اظہار کا ذریعہ ہے اور یہی انسانوں کی پہچان ہے ۔ کیا ہی عجب بات ہے کہ ضرورت کی چیز بھی انسانوں کے معیار سیٹ کرتی ہے۔ زبانوں میں بھی امیر اور غریب کی تفریق ہے ۔انگریزی جیسے کوئی رانی ہو اور اردو نوکرانی اور پنجابی تو محلے کی لفنگی ہے ۔
1830میں انگریز نے مغلوں کے نقوش مٹانے تھے تو فارسی کی جگہ اردو کو سرکاری درجہ دے دیا ۔ بعد میں اسی انگریز نے مسلم ہندو کو تقسیم کرنا تھا تو اس کے باوجود کہ اردو کو نام ایک انگریز نے او رسم الخط ایک ہندو تلک کاشمیری نے دیا تھا ، اس پر مسلمانوں کی چھاپ لگ گئی اور ہندی ہندوﺅں کے ساتھ جوڑ دی گئی ۔ تقسیم ہند سے پہلے اردو جس طرح ہندوستان میں پنپ رہی تھی او ر اس زبان میں کیسا کیسا ادب نہ تخلیق ہوا مگر بعد میں سرحد کے ساتھ زبانوں کو بھی انگریز کی تقسیم اور ٹھپا عطا کر دیا گیا ۔اردو ہندوستان میں اپنی بقا کے لئے ہاتھ پاﺅں مارنے لگی تو پاکستان میں بھی سرکاری زبان قرار دیئے جانے کے باوجود لاوارث کھڑی رہی ۔ بنگالی زبان نے شور مچایا اور اپنے بولنے والوں کو لے کر الگ دیس بسا یا ۔

دنیا کو کوئی مصیبت نہیں کہ ہماری زبان کو سنبھال کے رکھے ۔ یہ مصیبت ہمیں خود اٹھانی ہے ۔ مجھے اردو زبان پیاری ہے تو مجھے اپنا پیار خود ہی ثابت کرنا ہے ۔ میں اسے زندہ رکھنا چاہتی ہوں تو مجھے اس پر محنت خود ہی کرنا ہے ۔اردو لکھنے والا ادیب ہر جگہ ناقدری کا شکار ہے مگر پاکستان میں اردو لکھنے والا یا بولنے والے صحافی کی قدر ہے ،کیونکہ انگریزی ایک مخصوص اور مختصر طبقے کی دسترس میں ہے ۔ پاکستان کی قومی نہیں بلکہ عوامی زبان اردو ہے ۔ صحافت کا تعلق عوام الناس سے زیادہ ہوتا ہے اس لئے وہاں تک اردو کو کوئی فکر نہیں ۔

امریکہ کینڈا میں بیٹھ کر اردو صحافت ہو یا ادب اس کی کوئی قدر نہیں ، جو لوگ اردو کی شمع روشن کئے ہوئے ہیں وہ ان کا اپنی زبان سے پیار اور اپنے اظہار کی مجبوری ہے ۔ کیا کیا جائے اپنی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں نہ جذبات شامل ہوتے ہیں اور نہ ہی خیالات ۔ سب بکھرا بکھرا لگتا ہے ۔ اردو پر ہم احسان نہیں کر رہے اردو زبان کا ہم پر احسان ہے ۔

ہندوستان میں بسنے والے مسلمان شائد اردو زبان کی بقا کے لئے ہم سے زیادہ پریشان ہیں۔ جب زندگی خطرے میں ہوتی ہے تو ہاتھ پاﺅں بھی زیادہ مارے جاتے ہیں ۔ چونکہ پاکستان میں بیٹھ کر ہمیں یوں لگتا ہے کہ تقسیم کے وقت چار صوبوں کے ساتھ ساتھ اردو زبان بھی ہمارے حصے میں آئی ہے ۔تو ہم شائد اس کی قدر نہیں کرتے ۔ میں اردو کو سستی زبان ہی سمجھتی رہتی اگر انڈیا سے اردو عالمی کانفرس میں مقالہ پڑھنے کا دعوت نامہ نہ آجاتا اور میں وہاں اردو زبان کی قدر و قیمت نہ دیکھ لیتی ۔

میرا ایک نقطہ ءنظر تھا کہ کانفریسیں اور مشاعرے یہ اردو کو کیا بچا پائیں گے ؟ قومی کونسل برائے فروغ اردو کی طرف سے منعقد کی گئی تین روزہ کانفرس کو اٹینڈ کرنے کے بعد میرا خیال بدل گیا ۔ کام کوئی بھی ہو لگن ،سچی نیت اور سنجیدگی سے کیا جائے تو نتائج مکمل طور پر بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ خواجہ اکرام الدین ڈائرئکٹر قومی کونسل نے جس ارادے اور جس نیت سے یہ مشن سنبھال رکھا ہے وہ قابل ِ تحسین ہے ۔ یقینا پاکستان میں بھی ایسے لوگ ہوں گے جو اپنے کام کے ساتھ نیک نیتی اور خلوص سے جڑے ہونگے ۔ میں چاہوں گی کہ ان سے بھی کبھی رابطہ ہوسکے اور میں جان سکوں کہ اردو کی خدمت کا نام لے کر فنڈز اکھٹے کرنے والے حقیقت میں اردو کی محبت میں کیا کیا کر رہے ہیں ۔

صرف اس کانفرس کی بات کروں تو میں نے اتنے پر مغز ، دلچسپ اور معلوماتی تقریبا 52 مقالے ایک چھت کے نیچے ایک ہی وقت میں کبھی نہیں سنے تھے۔ اس کانفرس کا موضوع تھا اکیسویں صدی میں اردو کا سماجی و ثقافتی فروغ اور اس میں اردو کی تاریخ ، حال اور مستقبل ۔ تراجم اور تحقیق ،صحافت اور ادب ،بین الاقوامی منظر نامہ ،اردو کو جاب مارکیٹ سے کیسے جوڑا جائے ؟ لکھنے والے تو ہیں مگر وہ کیوں اور کس کے لئے لکھیں ؟ پرانی زبان نئے تقاضے کیسے پورے کرے؟صرف بات ہی نہیں ہوئی عملی حل بھی پیش کئے گئے اور سننے والوں کی عمر اور تعداد دیکھ کر مجھے یہ اطمینان ہوگیا کہ پاکستان کے بعد کم از کم انڈیا میں بھی اردو اگلی نسل تک جارہی ہے۔ جواہر لال یونیورسٹی کا آڈیٹوریم طالبعلوں سے کھچا کھچ بھرا رہا ۔ ان مقالوں کو کتابی شکل بھی کانفرس شروع ہونے سے پہلے ہی دے دی گئی تھی ۔یہ بات بھی میرے مشاہدے میں پہلی دفعہ ہی آئی ۔ مقررین کا زبان پر اور موضوع پر عبور بتا رہا تھا کہ دوسری کانفرسوں کی طرح صرف دوست نوازی نہیں کی گئی بلکہ میرٹ پر لوگ بلائے گئے تھے ۔

HRDکی وزیر سمتری ایرانی ( ساس بھی کبھی بہو ڈرامے کی مرکزی کردار )نے اپنی تقریر میں کونسل کے ساتھ مالی تعاون کی یقین دہانی کروائی مگر سادہ ہندی کی بجائے ،جو کہ اردو کی جڑواں بہن ہے بہت ثقیل ہندی میں تقریر کی ۔دلنیشن انداز میں اقبال کے شعر کو توڑ دیا کہ" ہندی ہے زبان ہماری اور ہندوستان ہے ہمارا" ۔۔ اس منسٹر کی تقریر کے بعد ہندوستان میں اردو کو زندہ رکھنے کی کوششیں کرنے والوں کو سلیوٹ کرنے کو دل چاہا اور پھر سے سوچا زبانیں تو بے زبان ہوتی ہیں ان کے ساتھ سیاسی کھلواڑ کیوں ؟
قومی کونسل جو وزارتِ ترقی انسانی وسائل ،حکومت ِ ہند کا ادارہ ہے ۔میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ اردو کو بچانے کا کام نہایت سنجیدگی اور جانفشانی سے کر رہا ہے ۔ کتاب میلوں کا انعقاد ، کتابوں ، ادبی اور صحافتی رسائل کی اشاعت ، بچوں کے لئے ادب ، آن لائن اردو سکھانے کا سافٹ وئیر ، بیرون ملک اردو کی بستیوں سے رابطہ رکھنا ۔بیرون ِ ملک ( جاپان ، کینڈا ، امریکہ ،جرمنی ، لندن اور ما ریشیس )پاکستانی یا ہندوستانی مندوبین تو تھے ہی۔ازبکستان ،ترکی، ایران اور مصر کے باشندے بھی اردو زبان کے فروغ کے لئے وہاں موجود تھے ۔ ان سے پتہ چلا کیسے ان ممالک میں بھی اردو پر کام ہورہا ہے ۔ پھر جو اک بات قابل ِ توجہ لگی جاپانی پولیس کے ہائی آفیشلز وہاں کانفرس میں سامعین کی حیثیت سے شامل تھے ۔ بعد میں میرے پوچھنے پر انہوں نے بڑی صاف اردو میں بتایا کہ ہم اردو سیکھتے ہیں اور یہ ہماری جاب کی ضرورت ہے ۔
اکبر کے زمانے میں بہت لوگ ادھر اُدھر سے آکر ایک جگہ آباد ہوگئے تو ان کے آپسی میل جول سے جو زبان وجود میں آئی وہ اردو تھی ۔ مغل بادشاہ یا علماءنے تو اسے منہ نہ لگایا مگر فقیروں ، سنتوں اور تاجروں کے ذریعے ہی یہ پھیلی ۔ عام لوگوں کی زبان عام ہی رہے گی ۔ جیسے دولت سکڑ کر کچھ ہاتھوں میں مرتکز ہو جاتی ہے اور غربت عام ہوتی ہے اسی طرح عام لوگوں کی زبا ن بھی عام ہی رہے گی ۔ اس کی عمومیت میں ہی ا سکی زندگی ہے اس کے چراغ کو جلائے رکھنا ہی ہمارا فرض ہے،ورنہ دنیا میں بہت سی زبانیں ایسی ہیں جن کا اب نام و نشان بھی نہیں
 

راشد اشرف

محفلین
ڈاکٹر معین الدین عقیل
کی کتاب "اردو تحقیق-صورت حال اور تقاضے
کا خاکسار نے جو تعارف چند روز قبل ایک فورم پر پیش کیا تھا، اس کو بنیاد بنا کر روزنامہ دنیا لاہور کے کالم نویس محترم افضل رحمان نے دو روز قبل ایک دلچسپ کالم لکھا ہے، ملاحظہ کیجیے:

بے مقصد تحقیق-ایک کالم
ماخذ: روزنامہ دنیا، لاہور
انتیس نومبر دو ہزار چودہ
http://dunya.com.pk/index.php/author/afzal-rehman/2014-11-29/9324/29130040#.VHlO5aj6i2c
 

تلمیذ

لائبریرین
ڈاکٹر معین الدین عقیل
کی کتاب "اردو تحقیق-صورت حال اور تقاضے
کا خاکسار نے جو تعارف چند روز قبل ایک فورم پر پیش کیا تھا، اس کو بنیاد بنا کر روزنامہ دنیا لاہور کے کالم نویس محترم افضل رحمان نے دو روز قبل ایک دلچسپ کالم لکھا ہے، ملاحظہ کیجیے:

بے مقصد تحقیق-ایک کالم
ماخذ: روزنامہ دنیا، لاہور
انتیس نومبر دو ہزار چودہ
http://dunya.com.pk/index.php/author/afzal-rehman/2014-11-29/9324/29130040#.VHlO5aj6i2c
’بے مقصد تحقیق‘ پر آپ نےبہت اچھا کالم شئیر کیا ہے ،راشد صاحب۔
علمی تحقیق میں تعمیری نتائج کے حصول کی خاطر دیانت ، بے لوث محنت اور موضوع، ہدف اورمقصد کے ساتھ غایت درجہ خلوص کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ اور بدقسمتی سے ہمارے محققین کی توجہ اس کی بجائے پی ایچ ڈی اور اسی قسم کی ڈگریوں کے حصول کی جانب زیادہ رہتی ہے۔ اور یہ حقیقت ادب کے علاوہ سائنس اور دیگر تمام موضوعات پر صادق آتی ہے۔
ایک کافی پرانا واقع یاد آگیا ہے جو پر مزاح بھی ہے اور مندرجہ بالا سطور کی ایک مثال بھی۔ ستر کی دہائی میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں ہماری تعلیم کے دوران طلباء میں ایک واقعہ (یا لطیفہ) مشہور تھا (دروغ بر گردن راوی) کہ انٹمالوجی کے ایک استاد نے ایک insect جو یہاں پاکستان میں کہیں پایا نہیں گیا تھا، اس پر انہوں نے تحقیق کے دوران خوراک کھلا کر اسے اتنا موٹا کر دیا کہ اس کی ہئیت اور خصوصیات میں یکسر تبدیلی آ گئی اور انہوں نے اس تبدیلی کی آڑ میں اس کو ایک نیا نام دیا اور اپنے نام سے رجسٹر کروانے کی خاطر اس کو امریکہ ارسال کر دیا۔ وہاں تو تحقیق کا میدان بہت و سیع اورکشادہ ہوتا ہے۔ وہاں کے محققین نے چند دنوں میں ہی معلوم کرلیا کہ اس کیڑے کیspecies تو پہلے سے ہی رجسٹر شدہ ہے اور یہ فقط اس کی ایک فربہ شکل ہے۔چنانچہ انہوں نے اس کی خوراک میں کمی کی اور وہ اپنی اصلی شکل پر آگیا۔ یہاں کے پروفیسر کو صورتحال سے مطلع کر دیا گیا جس کے نتیجے میں انکی خوب ہیٹی ہوئی۔

راشد اشرف, عاطف بٹ, محمد سعد, دوست, سعادت,
 
آخری تدوین:

راشد اشرف

محفلین
’بے مقصد تحقیق‘ پر آپ نےبہت اچھا کالم شئیر کیا ہے ،راشد صاحب۔
علمی تحقیق میں تعمیری نتائج کے حصول کی خاطر دیانت ، بے لوث محنت اور موضوع، ہدف اورمقصد کے ساتھ غایت درجہ خلوص کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ اور بدقسمتی سے ہمارے محققین کی توجہ اس کی بجائے پی ایچ ڈی اور اسی قسم کی ڈگریوں کے حصول کی جانب زیادہ رہتی ہے۔ اور یہ حقیقت ادب کے علاوہ سائنس اور دیگر تمام موضوعات پر صادق آتی ہے۔
ایک کافی پرانا واقع یاد آگیا ہے جو پر مزاح بھی ہے اور مندرجہ بالا سطور کی ایک مثال بھی۔ ستر کی دہائی میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں ہماری تعلیم کے دوران طلباء میں ایک واقعہ (یا لطیفہ) مشہور تھا (دروغ بر گردن راوی) کہ انٹمالوجی کے ایک استاد نے ایک insect جو یہاں پاکستان میں کہیں پایا نہیں گیا تھا، اس پر انہوں نے تحقیق کے دوران خوراک کھلا کر اسے اتنا موٹا کر دیا کہ اس کی ہئیت اور خصوصیات میں یکسر تبدیلی آ گئی اور انہوں نے اس تبدیلی کی آڑ میں اس کو ایک نیا نام دیا اور اپنے نام سے رجسٹر کروانے کی خاطر اس کو امریکہ ارسال کر دیا۔ وہاں تو تحقیق کا میدان بہت و سیع اورکشادہ ہوتا ہے۔ وہاں کے محققین نے چند دنوں میں ہی معلوم کرلیا کہ اس کیڑے کیspecies تو پہلے سے ہی رجسٹر شدہ ہے اور یہ فقط اس کی ایک فربہ شکل ہے۔چنانچہ انہوں نے اس کی خوراک میں کمی کی اور وہ اپنی اصلی شکل پر آگیا۔ یہاں کے پروفیسر کو صورتحال سے مطلع کر دیا گیا جس کے نتیجے میں انکی خوب ہیٹی ہوئی۔

راشد اشرف, عاطف بٹ, محمد سعد, دوست, سعادت,

ہا ہا ہا
کیا کہنے جناب، کیا کہنے
کیڑے کی اس فربہ اندامی کا جواب نہیں ہے
 
ڈاکٹر معین الدین عقیل
کی کتاب "اردو تحقیق-صورت حال اور تقاضے
کا خاکسار نے جو تعارف چند روز قبل ایک فورم پر پیش کیا تھا، اس کو بنیاد بنا کر روزنامہ دنیا لاہور کے کالم نویس محترم افضل رحمان نے دو روز قبل ایک دلچسپ کالم لکھا ہے، ملاحظہ کیجیے:

بے مقصد تحقیق-ایک کالم
ماخذ: روزنامہ دنیا، لاہور
انتیس نومبر دو ہزار چودہ
http://dunya.com.pk/index.php/author/afzal-rehman/2014-11-29/9324/29130040#.VHlO5aj6i2c

صرف اردو زبانوادب ہی کیوں لسانیات و عمرانیات سے متعلقہ تقریبا ہر موضوع جو اردو میں لکھے جا رہے یہی حال ہے ۔مجھے افضل رحمان صاحب کی بات سے پوری طرح اتفاق ہے ۔ہم تو اردو میں آج تک یہ فیصلہ نہ کر سکیں کہ املے میں کس اسکول کو فالو کریں ،مقتدرہ قومی زبان پاکستان کو ، گوپی چند نارنگ کو ،قومی کونسل کو یا پھر ترقی اردو زبان کو ۔بھائی آج بھی آکسفورڈ اور کیمرج انگریزی زبان کے اتھارٹی مانے جاتے ہیں ۔ہمارے اردو میں کوئی ایسا ادارہ ہے جسے ہم اتھارٹی کا درجہ دے سکیں ۔ ابھی دارالصنفین کے سو سال مکمل ہونے پر کئی کتابیں شائع کی گئی ہیں میں نے " دارالمصنفین کے سوسال" اور سیرت شبلی جستہ جستہ ابھی دیکھا ہے ۔املا کی اسقدر اغلاط ہیں کہ موڈ خراب ہو جاتا ہے ۔ میں نے یہ محض یہ ایک مثال دیا وہ بھی اس لئے کہ ہند و پاک میں اس ادارہ کو ایک اعتبار حاصل ہے ۔ورنہ تو اردو کے نام پر قائم ہر ادارہ کا تقریبا یہی حال ہے ۔مولانا آزاد یونیورسٹی حیدر آباد انڈیا کو دیکھ لیجئے کس لئے اس ادارہ کا قیام عمل میں آیا تھا اور وہاں کی آفشیہل زبان کیا ہے ۔۔۔جاری
 
Top