اردو لغت (تاریخی اصول پر) بدلتے لسانی تناظر میں چند تجاویز

محبوب خان

محفلین
حافظ صفوان محمدچوہان
hafiz.safwan@gmail.com


اردو لغت (تاریخی اصول پر)
بدلتے لسانی تناظر میں چند تجاویز


This article is a qualified appreciation of the back-breaking efforts made by The Urdu Dictionary Board Karachi, which is in the december of producing her monumental work of the Udru magnum opus. Started half a century ago in 1958, concluding volume of its first edition is in progress.

Various technical suggestions regarding the structure of its essential appendices, shorter version and to anew its entire content are put forward in this article. Roadmaps for devising Internet Edition & Urdu Corpus on the threshold of this magnum opus are too mentioned.

کلیدی الفاظ: اردو لغت، لغت بورڈ، ضمیمہ، اشاریہ، کارپس، متراکمہ

مخففات:
BNC: British National Corpus
NED: Oxford New English Dictionary
ISBN: International Standard Book Number


اردو لغت بورڈ کراچی (اوّلاً ترقیِ اردو بورڈ) نے جب کلاں اردو لغت پر کام شروع کیا تھا اُس وقت زمانہ مختلف تھا اور ترجیحات بھی۔ لیکن جن لوگوں نے اِس کا منصوبہ گانٹھا تھا اُن کی دوربینی کا اندازہ اِس لغت کو کسی بھی مقام سے دیکھنے سے بآسانی کیا جاسکتا ہے۔ اُس وقت کے عمومی حالات یہ تھے کہ ساری قوم آزادی کے جذبے سے سرشار تھی۔ ہندوؤں نے ایک زبان کو دو زبانیں بنانے میں اپنی ساری قوتیں اور صلاحیتیں صرف کردی تھیں۔ اُنھوں نے اپنی زبان سے عربی اور فارسی کے الفاظ نکالنے کو دھرم بنالیا۔ اِس کا بدیہی ردِعمل اِدھر بھی ہوا اور زبان کی ”تطہیر“ کا عمل یہاں اِس ڈھب پر پھیلایا گیا کہ ہندی کے اچھے بھلے، مانوس الفاظ کو بے جا کیا جانے لگا۔ یہ تطہیر صرف زبان کے استعمال تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ لغت نویسوں نے بھی یہ کام شروع کرلیا۔ لغات میں اِس عمل کی مثال میں ”فرہنگِ عامرہ“ پیش کی جاسکتی ہے، کہ1958 ء میں نکلنے والے اِس کے چوتھے ایڈیشن میں ہندی کے کچھ الفاظ نکال دیے گئے۔[1] بساغنیمت کہ کلاں اردو لغت میں یہ کام نہیں کیا گیا بلکہ …”اوکسفرڈ ڈکشنری کی طرح اِس میں بھی قدیم وجدید، متروک و رائج سب ہی قسم کے الفاظ درج کیے گئے ہیں۔“[2]
آج دور بہت بدل گیا ہے۔ اُس وقت میں علمی اور عوامی زبان پر عربیت اور فارسیت چھائی ہوئی تھی، آج کی اردو فرنگیت مآب ہوگئی ہے۔ جو الفاظ کبھی اوپرے، دخیل یا پرائے سمجھے جاتے تھے، یوں رواجِ عام میں آگئے ہیں کہ اُن پر بیگانگی کا اِطلاق کرنا ممکن ہی نہیں رہا۔ آج Bulb کو قمقمہ اور Fridge کو یخدان کون کہتا ہے؟ مائیکروویو اوون کے لیے ”خرد موجی بھٹی/چولہا“ اگرچہ اوکسفرڈ میں موجود ہے لیکن کبھی سنا نہیں، اور نہ کبھی سنا جائے گا۔ سنا تو کیا، لکھا بھی نہیں جائے گا۔ روٹی گرم رکھنے کے برتن کو ہاٹ پاٹ کہتے ہیں؛ دِیر اور پشین کے پہاڑوں سے لے کر کراچی کے سکہ بند اہلِ زبانوں کے گھروں میں میں نے اب تک اِس کے لیے ”توشدان“ کہیں برتا جاتا نہیں سنا۔ لغت میں یہ لفظ لکھا تو ہے، چلن میں نہیں آیا۔ پاکستان بھر کے لوگ دودھ کے اوپر جمنے والی گاڑھی تہہ کو تو ملائی (بالائی) یا ساڑھی کہتے ہیں جب کہ باقی ہر قسم کی پھین کو کریم ہی کہتے ہیں۔ اِسی طرح کپڑوں پر اِستری سے بننے والی لکیر کو سارے ہی اردو والے کریز (crease) کہتے ہیں، شکن، چُنّٹ، سَلوٹ یا جُھری کوئی نہیں کہتا۔ کہہ سکتا بھی نہیں۔ وغیرہ۔
خوشی کی بات ہے کہ کلاں اردو لغت میں گزشتہ نصف صدی میں زبان میں ہونے والی تبدیلیاں واضح طور پر نظر آتی ہیں۔ پہلی جلد (اِشاعت: 1977ء) میں اگر انگریزی لفظ کا اندراج پانچ صفحوں میں ایک کی اوسط سے ملتا ہے تو اِکیسویں جلد (اِشاعت: مارچ 2007ء) میں انگریزی الفاظ کے اندراجات کا تناسب تخمینًا پچاس فیصد بڑھ گیا ہے۔ یہ آج کی علمی اور عوامی اردو زبان کی عین مین عکاسی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِن الفاظ کے اپنالینے سے اردو کی تصویر بگڑی نہیں بلکہ ذخیرہٴ الفاظ میں بڑھوار ہوئی ہے۔ اردو کوئی اُجاڑ صورت زبان نہیں کہ نئے الفاظ کی یلغار سے یرکتی رہے۔
کلاں اردو لغت سے میری یاداللہ مدت سے چلی آتی ہے۔ کالج کے زمانے میں میں نے اِس کی پہلی نو جلدیں ایک ریڑھی والے رَدِی فروش سے مُبلَغ -/90 روپے میں خریدی تھیں۔ ہوا یہ تھا کہ ایک سرکاری لائبریری حکومتی حکم نامے کے تحت بند کردی گئی تھی اور اُن لوگوں نے اپنا ذخیرہٴ کتب اِسی طرح نکاس کیا تھا۔ بعد کی جلدیں کراچی جانا ہوا تو ایک بار خریدیں۔ اِس کے بعد چھپنے والی جلدیں بھی کسی نہ کسی طرح پہنچتی رہیں۔ بحمداللہ میرے پاس یہ سیٹ مکمل ہے۔ آخری جلد (یعنی اب تک کی آخری، مراد اِکیسویں جلد) کی مرتبہ تو کمال ہوگیا۔ محترم ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب نے اِس تہی مغز، ہیچ کس کو یہ نسخہ اپنے دستخط ثبت کرکے اعزازی عطا فرمایا ہے۔ کہاں میں کہاں یہ مقام!
ہم برِعظیم پاک وہند کی تاریخ کی کتابوں میں ایسے کئی واقعات پڑھتے ہیں کہ فلاں بزرگ نے اپنے کسی مرید کی کچھ عرصے تک اپنی براہِ راست نگرانی میں تربیت کی اور جب دیکھا کہ یہ اللہ کا بندہ اب اِس قابل ہوگیا ہے کہ لوگوں کے لیے راہ دان اور قبلہ راں ہوسکتا ہے تو اِس ہدایت کے ساتھ کہ وہ آئندہ ساری زندگی وہیں گزارے گا، کسی علاقے میں اُس کی تشکیل کردی۔ یوں اِن بزرگوں کا فیض پھیلا اور اِن متوسلین کے، جو بڑھتے بڑھتے خود بھی مرجعِ خلائق بنے، دم قدم سے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر نخلستان دِکھائی دینے لگے۔ ہماری ملی اور سیاسی زندگی پر اِن کے بے بہا اثرات ہیں۔ مشنری جذبے کے تحت بزرگوں کے کسی جگہ پر تشکیل کیے ہوئے کام کے آدمی کی مثال دورِحاضر کی ادبی تاریخ میں ڈھونڈی جائے تو نگاہ ہِرپِھر کے رؤف پاریکھ صاحب پر آٹھہرتی ہے۔ یہ تسلیم کہ وہ قدم جسے مسجد میں داخل ہونے کی سعادت نصیب ہوتی ہے اُس کے پیچھے اُن تمام اَقدام کا برابر حصہ ہوتا ہے جو اِس ایک قدم کے دروازہٴ مسجد تک لے آنے کا سبب بنے، لیکن اِس آخری قدم کے مقدر میں آئی فضیلت میں کلام نہیں۔ کلاں اردو لغت پر کام تو بہت پہلے شروع ہوا اور چلتا رہا لیکن اِس کے آخر میں پاریکھ صاحب کا لغت بورڈ میں تشریف لانا، بلکہ لاکر یہاں بٹھادیا جانا، ایسی ہی فضیلت کا حامل ہے۔ بہت شکریے کے حق دار ہیں مرحوم مشفق خواجہ، ڈاکٹر معین الدین عقیل اور علی الخصوص ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب جنھوں نے ڈاکٹر رؤف پاریکھ جیسے ہیرا آدمی کی لغت بورڈ میں تشکیل کرکے اِس بیل کو منڈھے چڑھادیا۔ اور پاریکھ صاحب کا شکریہ بھی واجب ہے کہ اُنھوں نے اِن بزرگوں کی لاج رکھی۔
اردو لغت بورڈ میں پاریکھ صاحب کی آمد کے بعد سے زندگی کی ایک لہر سی دوڑ گئی ہے۔ لغت بورڈ ہی کی نہیں بلکہ زبانِ اردو کی خوش قسمتی ہے کہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب کو ایسا کارگزار آدمی ملا کہ کام کی رفتار کئی گنا بڑھ گئی۔ مشفق خواجہ صاحب کے بعد اب کراچی میں کسی سے کوئی لفظ پوچھنا پڑے تو نگاہ سب سے پہلے اُنھی پر پڑتی ہے۔ اُن کی بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ اُنھوں نے ہر اُس شخص کو جسے وہ کسی بھی حوالے سے جانتے ہیں، لغت والے اپنے اِس کام میں شریک کرلیا ہے۔ ذیل میں اُن کے نام اپنے ایک خط سے اقتباس کرتا ہوں جس سے اندازہ ہوسکے گا کہ وہ کس طرح بندہ گھیرتے ہیں۔ یہ خط موٴرخہ 26/اپریل 2007ء کو لکھا گیا۔ (یاد رہے کہ یہ خط بالکل ذاتی نوعیت کا ہے۔)

… مجھے معاف کیجیے، آپ بڑے خراب آدمی ہیں۔ نہ صرف خود کام کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی کام پر لگادیتے ہیں۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ رفتار کے اعتبار سے کلاں اردو لغت کی اِشاعت سب سے تیز آپ کے دورِادارتِ اعلیٰ میں ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ آپ کو مکھن لگانے کے شوق اور زور میں میں کسی بزرگ کے کام یا مقام کی ہٹان نہیں کررہا۔ یاد کیجیے کہ فرمان صاحب نے دس سال میں دس جلدیں شائع کی تھیں۔ لغت بورڈ کی اِدارتِ اعلیٰ کی یہ خدمت جس پر آپ آج مامور ہیں، حمام کی لنگی ہے۔ یعنی کل اِس عہدے پر کوئی اور متمکن تھا اور آج آپ ہیں۔ بہتر محاورے میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ خدمت ہِرتی پھرتی چھاؤں ہے، آج اِدھر کل اُدھر۔ ویسے اِس پھوک دینے پر آپ کو زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ یہ بات عام ہے کہ اِشاعت میں سرعت کی غالب وجہ جدید مشینوں کی فراہمی ہے۔ یقینًا ایسا ہے بھی۔ کہیے، مکھن صاف ہوگیا یا نہیں؟
عرض ہے کہ اَسناد کے لیے آپ کی تشویق پر میں نے اردو کے امہات اللغات سے ہ اور ی کی پٹیوں کے کچھ ایسے الفاظ، محاورات اور ضربَ الامثال وغیرہ چھانٹ کر ہم جا کرلیے ہیں جن کا استعمال کم دیکھنے کو ملا ہے۔ اِن الفاظ کی ہمجائی سے جہاں مطالعے میں اِن کی اَسناد تلاش کرنا آسان ہوگیا ہے وہیں میں اِن میں سے اپنی ضرورت کے یکرشتہ الفاظ استعمال بھی کرلیتا ہوں۔ مقصد یہ ہے کہ یہ الفاظ لوگوں کی نگاہوں کے سامنے آنے لگیں اور لوگ اِنھیں برتا کریں۔ اللہ کرے کہ اپنی زبان کی یہ خدمت مجھ سے ہوسکے۔ اِس ہیچ کارہ کو زبان کا جو بھی ملا ہے، ابّا مرحوم کے دو تین احباب کے علاوہ یہیں سے ملا ہے۔ میری مثال تو گھڑے کی مچھلی کی سی ہے کہ یہیں کا چُن یہیں کا پُن۔
لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ برانغار جرانغار جیسے الفاظ جن سے ہِیک آنے لگی ہے، بھی آج کی اردو میں استعمال کرکے اردو کی ہنسی اُڑانے کی سبیل کرلی جائے۔ میں اِس معاملے میں محتاط ہوں۔ اور احتیاط کی یہ روش اِس جہت میں جاری رکھنے کی بھی سعی کرتا ہوں کہ کسی لفظ کے استعمال میں نہ تو یُبس یا نمائشِ علم آنے پائے اور نہ ہی یاوگی۔ ہودہ اور ہنجار کی اَسناد تو آپ کو کچھ عرصہ پہلے بھجوا بھی دی تھیں۔ علاوہ ازیں حقی صاحب کی ”نوک جھوک“، ”کلیاتِ مجید امجد“، ”کلیاتِ حفیظ جالندھری“، ”مسدسِ حالی“، ”مغربی تنقید کا مطالعہ- افلاطون سے ایلیٹ تک“ اور ”مغرب میں آزاد نظم اور اُس کے مباحث“ کی اَسناد کے ساتھ ساتھ چند stray اَسناد نکال کر کل ہی آپ کی خدمت میں روانہ کی ہیں۔ یہ بارہ صفَحات ہیں۔ وصولی پر اطلاع دیجیے۔
جن لغات سے میں نے یہ الفاظ، محاورات اور ضربَ الامثال وغیرہ لیے ہیں اُن میں جان پلیٹس، ڈنکن فوربس اور ہابسن جابسن کے علاوہ فرہنگِ آصفیہ، نوراللغات، فرہنگِ اثر، قائداللغات، مہذب اللغات، جامع اللغات، فرہنگِ تلفظ، فرہنگِ عامرہ، تاج اللغات، لغاتِ روزمرہ، اردو-پنجابی لغت اور پنجابی-اردو لغت، جامع الامثال، ہندی-اردو لغت از راجہ راجیسور راؤ اصغر، انجمنِ ترقیِ اردو ہند علی گڑھ کا اردو-ہندی لغت، مقتدرہ و جامعہٴ کراچی کے مختلف فنون کے لغات، نسیم اللغات، فیروزاللغات اور انجمنِ ترقیِ اردو کا اردو-انگریزی لغت وغیرہ شامل ہیں۔ مجھے تسلیم ہے کہ زمانے کی ہوا بدل گئی ہے، اِس لیے علی الخصوص فرہنگِ عامرہ سے الفاظ اِس احتیاط سے لیے ہیں کہ خالص عربی، ترکی اور فارسی کے اُن الفاظ کو جو اردو کے اندر اپنا دور گزارچکے ہیں اور اب نئے زمانے کے الفاظ اُن کی جگہ لے چکے ہیں، دست بسر کردیا جائے۔ امید ہے کہ آپ اِس حکمتِ عملی سے اتفاق کریں گے۔ میری رہنمائی ضرور کیجیے۔ بعد میں یہ نہ کہیے گا کہ بھائی نیازمند، ہیں ہیں یہ کیا کیے جارہے ہو؟
مجھے اندازہ ہوا ہے کہ تین شعراء: مجید امجد، حفیظ جالندھری اور الیاس عشقی بڑے کمال کے لغت نواز (Wordsmith) ہیں۔ کوشش کروں گا کہ اِن کے کچھ اشعار (ہ اور ی کے علاوہ) بھی سند کے لیے پیش کرسکوں، اور نثر کی کچھ اور کتب سے چند اَسناد بھی۔ ویسے اِن دو پٹیوں (ہ اور ی) میں الفاظ ہیں ہی کتنے جو یہ کام کسی وسیع کینوس پر پھیلایا جاسکے۔ بہرحال۔
مزید کوئی امر لائقِ تذکرہ نہیں۔ کلاں اردو لغت کی اِکیسویں جلد کی اِشاعت کی خبر ملی۔ اب تو یہ دیدے ندیدے ہیں دیدار کے۔ لیکن یہ حسنِ طلب نہیں۔ براہِ کرم مجھے یہ جلد بذریعہٴ ڈاک ارسال کردیجیے۔

اِسی پر بس نہیں۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ کے محبت آمیز روِیے نے مجھے یہ حوصلہ بھی دیا کہ میں اپنی جَہالت کا اظہار ڈاکٹر فرمان فتح پوری جیسے عالمِ لغت کے سامنے بھی کرسکوں۔ میں نے 8/مئی 2007ء کو ایک خط فرمان صاحب کو بھی لکھاجس میں کلاں اردو لغت سے متعلق دل کی بہت سی باتیں، بے تکان کہہ ڈالیں۔ اُنھوں نے بڑی محبت سے جواب دیا، میری تجاویز کو سراہا اور حوصلہ افزائی کی۔ اپنے اِس خط سے اقتباس پیش کرتا ہوں:

… اردو لغت بورڈ کراچی کے کلاں اردو لغت کی 21ویں جلد کو اِشاعت کا زیور ملنے کی اطلاع محترم ڈاکٹر رؤف پاریکھ صاحب کی معرفت ملی۔ یہ محض اللہ کا کرم ہے اور آپ حضرات کی مقصد سے لگن، کہ آپ کے دورِصدرنشینی میں اِس عظیم لغت کی اِشاعت کا کام سب سے زیادہ رفتار سے چل رہا ہے۔ اللہ کرے کہ رہاسہا کام بھی جلد مکمل ہوجائے۔
محترم رؤف پاریکھ صاحب سے یہ اطلاع بھی ملی کہ لغت بورڈ کے آئندہ اہداف میں دو جلدوں میں اِس عظیم لغت کی تلخیص سرِفہرست ہے۔ تلخیص کے اِس کام کے مجوزہ ڈھب کی معلومات بھی اُنھوں نے میرے ساتھ بٹائیں۔ اِسی بابت کچھ عرض معروض کرنا چاہتا ہوں۔ جس طرح عظیم اوکسفرڈ لغت کا دوسرا ایڈیشن، تلخیص اور ضمائم، پہلے ایڈیشن کے تکمیلی مراحل کے ساتھ ساتھ چلتے رہے تھے اور اِسی وجہ سے یہ یکدانہ کام مکمل ہوا، اردو کا یہ عظیم لغت بھی اِسی ترتیب پر چلنا چاہیے۔ میری رائے ہے کہ تلخیص کا کام تو چلتا رہے لیکن ساتھ میں دو/تین جلدی ضمیمے پر بھی کام شروع کردیا جائے۔ اِس ضمیمے میں وہ سب الفاظ، محاورات، ضربَ الامثال اور کہاوتیں وغیرہ آجائیں جن کا:
1. یا تو اِندراج نہیں ہوسکا؛
2. اور وہ جن کے اِندراج میں کسی قسم کی غلطی در آئی ہے (جیسے شروع کی جلدوں میں صحت نامہ لگایا گیا ہے)؛
3. اور وہ جن کی اَسناد نہیں مل سکی تھیں اور اُنھیں کسی معتبر لغت کے نرے حوالے کے ساتھ لکھ دیا گیا ہے؛
4. اور وہ جن کی درج کردہ اَسناد سے قدیم تر/بہتر اَسناد بعد میں ہمدست ہوئیں؛
5. اور وہ جو نئے ہیں؛
6. اور وہ جو اردو میں تازہ وارد ہوئے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ یہ کام بہت سرعت سے ہوجائے گا کیوں کہ اِس کے لیے آوا پہلے سے ہی تیار ہے اور لغت بورڈ کا کارگزار عملہ اِس پر معمولی کام کا عادی بھی ہے۔ ویسے بھی، ریل کی پٹری بچھانا ایک کام ہے اور اِس پر ریل گاڑی چلانا دوسرا؛ اب جب کہ جان توڑ محنت سے ریل کی یہ پٹری بچھائی جاچکی ہے اور اِس پر سے تادمِ تحریر اِکیس ڈبے گزر بھی چکے ہیں، اِن مزید دو تین ڈبوں کے بسہولت گزرجانے میں بھی اِن شاء اللہ کوئی مشکل نہیں ہوگی۔
اِس ضمن میں میرا نپاتُلا اندازہ ہے کہ یہ کام اگر ابھی کرلیا جائے تو اِس کی سمائی ایک ایک ہزار صفحات کی دو یا زیادہ سے زیادہ تین جلدوں میں بآسانی ہوسکتی ہے۔ یہ اندازہ اِس لیے بھی چست معلوم ہوتا ہے کہ طویل اَسناد تو صرف بھولے چوکے الفاظ و محاورات وغیرہ کی ہی ہوں گی، اور آپ جانتے ہیں کہ ایسے الفاظ تعداد میں بہت زیادہ نہیں ہے؛ نئے الفاظ اور اُن کے مفاہیم (shades of meaning) کی تو بعض اوقات صرف ایک ایک سند ہی کافی ہوگی اور وہ بھی علی العموم ایسی جس تک رسائی عام ہے۔
ایک اور تجویز یہ ہے کہ اِنٹرنیٹ کے دنیا بھر میں ”حاضرناظر“ ہونے کی وجہ سے نئے الفاظ کے لیے چند معتبر اِنٹرنیٹ سائٹوں سے اَسناد لیے جانے کی روائی، ہر جدید لغت کے لیے دورِحاضر کی پکار بن گئی ہے؛ ظاہر ہے کہ اِس ضرورت سے کلاں اردو لغت بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔ ایسی چند سائٹوں کے بارے میں معلومات یہ ناکارہ بھی عندالطلب فراہم کرسکتا ہے۔
یہ تجویز بھی ہے کہ کلاں اردو لغت کی متذکَّرہٴ بالا جلدوں کا نام ”اردو لغت (تاریخی اصول پر)/ ضمیمہ مع نئے الفاظ (جلد اوّل، جلد دوم، جلد سوم)“ وغیرہ رکھا جائے۔
میری دانست میں یہ ضمیمہ کلاں اردو لغت کے بے مثال کام کا کامل صحت نامہ بھی ہوگا اور اِسے دورِحاضر کی اردو زبان کی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے والا مجدِّد بھی۔ اگر یہ کام سلیقے سے ہوگیا تو اِن شاء اللہ یہ کلاں اردو لغت کی تازہ کاری کا ضامن بن جائے گا۔
محترم ڈاکٹر صاحب! بن مانگے مشورے یہاں ختم ہوتے ہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ میرا ذہنی افق بہت محدود ہے۔ میں نے تو اپنی سمجھ کے مطابق دل میں آئی بات عرض کردی ہے۔ آپ چوں کہ اِس کام میں عملًا لگے ہوئے ہیں اِس لیے عین ممکن ہے کہ باہر کے ایک آدمی کی تجاویز کی نامعقولیت (جو میرے حاشیہٴ خیال میں نہ آئی ہو) پر آپ مسکرا بھی اُٹھیں، لیکن امید ہے کہ آپ کبیدہ ہرگز نہ ہوں گے۔
اگر آپ اِن تجاویز میں کی کچھ یا سب سے اتفاق کرلیں گے تو میں اللہ سے دعا کروں گا کہ میرے مشورے کی خیر سے دنیائے اردو کی بہترائی کردے۔ اور اگر آپ اِن میں کی کسی تجویز سے بھی اتفاق نہ کریں تو میں اپنی تربیت کے مطابق یہ سمجھوں گا کہ اردو لغت بورڈ کا کلاں اردو لغت اُس ہلکے پن سے محفوظ ہوگیا جو میری رائے پر عمل کرنے کے نتیجے میں اِس میں آجاتا، کہ یہ جانتا ہوں کہ امام کے نماز کے باہر سے لقمہ قبول کرلینے سے پوری جماعت ہی کی نماز جاتی رہتی ہے۔ یہ اردو سے محبت رکھنے والے ایک عام پاکستانی کی تجاویز ہیں جس کا اردو سے تعلق صرف اِسی قدر ہے کہ وہ اردو ادب کے ایک استاد مرحوم پروفیسر عابد صدیق صاحب کا بیٹا ہے، اور بس۔ …

یہ خطوط پیش کرنے سے مقصد کلاں اردو لغت کی پہلی اِشاعت کے اختتامی مراحل اور آگے کی وسیع تر منزلوں پر بات کرنا ہے۔ اب جب کہ آخری جلد زیرِترتیب ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اِس کام کے اوّلین بِناکاروں سے بھی رجوع کیا جائے کہ وہ اِس کام کے آخر میں کیسی سحر کے انتظار میں تھے۔
1. پہلی جلد کے ”تعارف“ میں لکھا ہے کہ: ”…آخر میں ایک جلد تو محض مآخذ اور مصنفین وغیرہ کی فہرستوں پر مشتمل ہوگی۔“[3]
2. انیسویں جلد کے دیباچے میں لکھا ہے کہ: ”…آخری یعنی بائیسویں جلد پر، جو فہرستِ اسنادِ محوّلہ پر مشتمل ہوگی، یہ منصوبہ اِن شاء اللہ تکمیل سے ہمکنار ہوجائے گا۔“[4]
3. بیسویں جلد کے دیباچے میں لکھا ہے کہ: ”…بورڈ کے آئندہ منصوبوں میں لغت کے نظرِثانی اور اضافہ شدہ ایڈیشن کی اِشاعت کے علاوہ مختلف علوم وفنون کی فرہنگوں اور لغت کے مختصر ایڈیشنوں کی اِشاعت بھی شامل ہے۔ لغت کے بنیادی منصوبے کی تکمیل کے بعد اِن پر کام کا آغاز کیا جائے گا۔“ [5]
4. اِکیسویں جلد کے دیباچے میں لکھا ہے کہ: ”…بائیسویں جلد پر کام جاری ہے، اِس میں فہرستِ اسنادِ محوّلہ اور اِشاریہ بھی شامل ہوگا۔ بائیس جلدوں پر مشتمل زیرِنظر لغت کے یک جلدی اور دو جلدی ایڈیشنوں کی تیاری کے اصول و ضوابط بھی زیرِغور ہیں۔ اِن شاء اللہ اِن پر بھی جلد ہی کام کا آغاز کردیا جائے گا۔ ایک اور منصوبہ لغت کے ترمیم و اضافہ شدہ ایڈیشن کی اِشاعت کا ہے۔ “[6]
معلوم ہوا کہ مسلسل غوروفکر اور مشاورت جاری ہے، اور یہ ادا قابلِ قدر ہے۔

اِس آخری اقتباس کے ابتدائی جملے یعنی ”بائیسویں جلد پر کام جاری ہے، اِس میں فہرستِ اسنادِ محوّلہ اور اِشاریہ بھی شامل ہوگا…“ سے متعلق اِس وقت، بصد ادب، چند گزارشات کی جسارت، اِس درخواست کے ساتھ کی جائے گی کہ اگر وہ کسی قابل نظر آئیں تو، اِن پر غور ضرور فرمالیا جائے۔ راقم کی رائے میں فہرستِ اسنادِ محوّلہ اور اِشاریہ وغیرہ لغت کا حصہ نہیں ہے۔ بائیسویں جلد کو ی کے نرے لغَوی اندراج پر ختم ہوجانا چاہیے۔ اگرچہ کلاں اردو لغت کا ہیولا اوکسفرڈ NED پر بنایا گیا ہے تاہم اگر کوئی بہتر چیز سامنے آجائے جو آسانی سے اپنائی بھی جاسکے تو اُسے اپنانا چاہیے نہ کہ ہنکالنا۔ عرض ہے کہ السنہٴ شرقیہ کے لغات میں اِشاریہ اور کتابیات کے لیے لسان العرب کے نئے ایڈیشن کو راہنما بنانا چاہیے۔ دارالتراث العربی نے نہایت اعلیٰ اور سائنسی انداز میں ”فہارس“ کے عنوان سے اِس بسیط لغت کا اِشاریہ اور مختلف النوع فہرستیں بنائی ہیں۔ میں نے ابھی تک اِس سے بہتر اور مکمل اِشاریہ نہیں دیکھا۔ یہ لغت پندرہ جلدوں میں مکمل ہوتا ہے جب کہ ”فہارس“ تین جلدوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ یوں اِس لغت کی اٹھارہ جلدیں ہیں۔ کلاں اردو لغت اِتنا پھیلا ہوا ہے کہ اِس کے پانچ ہزار سے زائد مآخذ (کتابیات، رسائل، مخطوطات، اخبارات وغیرہ) کا ایک جلد میں سماؤ بمشکل ہوپائے گا۔ بہت مناسب ہے کہ بائیسویں جلد مکمل ہونے کے بعد ابتدائی طور پر ”کتابیات“ کے نام سے ایک فہرستِ مآخذ الگ شائع کی جائے۔ اماکن اور شخصیات وغیرہ کا اِشاریہ بھی ہاتھ کے ہاتھ بن سکتا ہے۔
یہ اگلا کام ہے کہ ہر ہر ماخذ کے ذیل میں یہ معلومات دی جائیں کہ اِس سے کون کون سی سند لغتِ مذکور کی کون کون سی جلد میں کہاں کہاں واقع ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام آسان نہیں اور نہ اِس کا جلد مکمل ہونا ممکن۔ لیکن یہ کام بھی بہرحال کرنا ہی ہوگا۔
اب آئیے کلاں اردو لغت کی تلخیص اور ضمیموں کی طرف۔ تلخیص کی بنت کے بارے میں جو کچھ ڈاکٹر رؤف پاریکھ صاحب نے ٹیلی فون پر بتایا ہے، مجھے بہت پسند آیا۔ جہاں تک ضمیموں کی بات ہے، اُن کی بنت اور وضع پر ابھی بات چل رہی ہے۔ فرمان فتح پوری صاحب کے نام لکھے گئے میرے مندرجہٴ بالا خط کا پہلا حصہ بشمول چھہ ذیلی نمبرات کے، اِنھی ضمیموں کی بنت سے متعلق ہے اور اِس کا نہایت تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے کہ ضمیموں میں کیا کیا کچھ پیش کیا جانا چاہیے، اور کس انداز (Format) میں۔ یہ تفصیلی سفارشات وہاں ملاحَظہ کرلی جائیں۔
ضمیموں کے سلسلے میں راقم کا نقطہٴ نظر یہ ہے اِن کا ایجنڈا یک نکاتی ہونا چاہیے، یعنی کوئی سند ملے یا نہ ملے، اِن کے اندر پچھلے سو، سواسو سال میں شائع ہونے والی تمام اہم اردو لغات میں ملنے والے سارے الفاظ، محاورات، روزمروں، کہاوتوں، ضربَ الامثال اور جملوں وغیرہ کا اندراج بہرحال ہونا چاہیے۔ زبان میں پچھلے پچاس سال (یعنی جب یہ کام شروع ہوا تھا) میں آنے والی تبدیلیوں کا اظہار بھی لغت سے ہونا ضروری ہے۔ سرِدست یہ کیا جاسکتا ہے کہ چھوٹ جانے والے الفاظ کا اندراج، فروگزاشوں کی درستی اور عمومی ”اصلاحِ احوال“ کے ساتھ ساتھ (اِس ضمن میں ”اردو نامہ“ میں شائع ہونے والی تنقیدات کے ساتھ ساتھ مقتدر اہلِ علم مثلًا رشید حسن خاں اور شمس الرحمٰن فاروقی وغیرہ کے اِس لغت پر علمی محاکموں کا ایک تفصیلی دورہ بھی کرلیا جائے) گزشتہ دو تین سالوں میں منتخب ادبی جرائد اور علی الخصوص کچھ اخبارات میں استعمال شدہ نئے الفاظ کی ایک ڈھیلی ڈھالی سی فہرست بنالی جائے اور یہ الفاظ اِس ضمیمے میں شامل کردیے جائیں۔ اگر ایسا کرلیا گیا تو یہ لغت قدیم اور جدید ہی نہیں بلکہ قدیم ترین اور جدید ترین الفاظ کا جامع ہوجائے گا۔ اِس کام کو سہولت کے ساتھ مکمل کرنے میں یہ ترتیب اختیار کی جاسکتی ہے کہ سوائے اِس صورت کے کہ کہیں ایسا کرنا ضروری ہوجائے، اِن نئے/دخیل الفاظ کی صرف ایک ایک سند لی جائے، یعنی بس وہی جو سامنے آجائے۔ تقدیم اور تاریخیت وغیرہ کے اُلجھاوے میں نہ پڑا جائے۔
ضمیموں کے اِس کام کے متوازی، کلاں اردو لغت کو کمپیوٹر پر فراہم کرنے (یعنی سی ڈی پر مہیا کرنے) اور اِس کا اِنٹرنیٹ ایڈیشن ویب پر شائع کرنے کا پراجیکٹ شروع کردیا جائے۔ یہی بہترین وقت ہے اِن دونوں کاموں کو کرنے کا۔ اوکسفرڈ NED نے تو سافٹ کاپی اور اِنٹرنیٹ ورژن بہت پہلے سے فراہم کردیا ہوا ہے۔ کلاں اردو لغت کا اِس سمت میں بڑھاوا اوکسفرڈ کی نری تقلید میں نہیں بلکہ دورِجدید کے علمی تقاضوں کو ہاں کہتے ہوئے ہونا چاہیے۔
اور، ساتھ ہی اردو قاموس الامثال (Corpus) پر کام کی بسم اللہ بھی کردی جائے۔ لیکن اِسے بہرحال یک جلدی ہونا چاہیے اور حجم زیادہ سے زیادہ اوکسفرڈ ایڈوانسڈ لرنرز جتنا، اور قیمت عوام کی قوتِ خرید کے اندر۔ یہ ضرور ہے کہ اردو پر اِس جہت میں کہیں کہیں کام ہو بھی رہا ہے[7] لیکن ظاہر ہے کہ تعداد میں لغت بورڈ جتنی اَسناد کسی کے پاس نہیں ہیں جن سے لفظ کے استعمال کے ذائقے اور چٹ پٹے پن کا تنوع، اردو کی کلاسیکی روایت سے لے کر دورِحاضر کی مشینی اور ہوائی دیدہ اردو تک، کہیں یک جا مل سکتا ہو۔ یہی وہ جرِثقیل ہے اور کلاں اردو لغت کی یکائی، جس کی بنیاد پر الفاظ، محاورات، روزمرے، کہاوتوں، ضربَ الامثال، تلمیحات اور جملوں وغیرہ کے مختلف مفاہیم کی ازسر تازہ (Contemporary/ Present-day) نظائر بنانے کا کام ہوگا۔ راقم کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ صرف ایسا قاموس الامثال ہی زبان کی تازگی اور زندگی کا ضامن ہے۔ اِس سلسلے میں بنت، ڈھب، ڈھچر، وضع قطع، فارمیٹ، ہیولا، جو بھی کہہ لیجیے، کے لیے رہنما British National Corpus (BNC) اور Collins COBUILD کو بنایا جانا چاہیے نہ کہ اردو کا کلاسیکی ادب اور طوامیرِشعر ایک بار پھر سے ٹائپ کردینا؛ اِن نظائر کے لیے ”مہذب اللغات“ کے ساتھ ساتھ تھوڑی سی مدد مقتدرہٴ قومی زبان کے ”درسی اردو لغت“ سے بھی مل سکتی ہے۔
زندہ زبان میں الفاظ کی آوک جاوک بالکل ویسے لگی رہتی ہے جیسے دنیا میں انسانوں کا آنا اور جانا برابر لگا ہوا ہے۔ کلاں اردو لغت کے پہلے ایڈیشن پر کام شروع کرنے والے بیشتر لوگ آج دنیا میں نہیں ہیں۔ دوسری اور تیسری نسل کے ہاتھوں یہ ایڈیشن مکمل ہورہا ہے۔ کل کی زبان یوں سے ووں ہوگئی ہے اور تحریر وتقریر کا ایک بالکل نیا روپ سامنے آرہا ہے۔ کل کی اردو زبان عربی اور فارسی کے منتہیوں اور کہی ومہی کی جولان گاہ تھی، آج فرنگیت مآبی کا سورج نصف النہار پر ہے۔ دیکھا جائے تو پہلے ایڈیشن کا مکمل ہونا اور ایک مزید، وسیع تر کام کا آغاز اِکٹھے ہی ہورہا ہے:
حدِ سفر سمجھ کے جسے خوش ہُوا تھا میں
اِک تیر کا نشاں تھا وہاں بھی بنا ہُوا
اللہ کرے کہ اردو لغت بورڈ کا عملہ یہ کام بھی نئے جوش اور ولولے کے ساتھ اوڑھ لے اور بقائے دوام کے دربار میں صفِ اوّل میں جگہ پالے۔ یہ مانا کہ کچھ لوگ کام مکمل ہوتے ہوتے ہونکنے لگتے ہیں لیکن ہمت ور لوگوں کی تھکن تو نیا کام سامنے آنے پر ازخود اُتر جایا کرتی ہے!
ابھی کچھ دن پہلے مشتاق احمد خان یوسفی صاحب سے ٹیلی فون پر بات ہوئی۔ شان الحق حقی صاحب کے بارے میں کوئی بات کرتے ہوئے اُنھوں نے خود ہی کلاں اردو لغت کا کام کنارے لگنے کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ”اللہ کا شکر ہے کہ ایک بڑا کام مکمل ہورہا ہے۔ یہ بہت بڑی خدمت ہے۔ یہ لغت خواہ اِس میں کتنی بھی کمی ہو، بہرحال ایک عظیم کام ہے۔ شکر ہے۔ اللہ کا شکر ہے۔“ قبلہ یوسفی صاحب اردو اور صرف اردو کے لیے بغیر کسی ہوڑا ہوڑی کے، ڈپٹی کمشنری کے عہدے پر لات مارکر ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ اردو کے لیے لسانی غیرت اور عصبیت کی ایسی کوئی اور مثال میرے علم میں نہیں ہے۔ کلاں اردو لغت کی نیّا کنارے لگنے پر اُن کا شکر کرنا سمجھ میں بھی آتا ہے۔
اردو کی لہلہاتی کھیتی کو جن علاقائی بولیوں کی ندیوں سے پانی مل رہا ہے اُن میں کی ایک سرائیکی بھی ہے۔ یوسفی صاحب کی خوشی اور شکر کی کیفیت نے خواجہ غلام فرید کی ایک کافی بے اختیار زبان پر جاری کرادی:
تھیّا فرید سہاگ سِوایا
مولیٰ جھوک نوں آن وسایا
رانجھن مینڈا مَیں گھر آیا
جَیں کارن دل ماندی ہے
***
اب کچھ باتیں اِکیسویں جلد سے متعلق ہوجائیں۔ پہلی بات جو میں نے اِس میں دیکھی، آزاد نظم سے اِستناد کا آغاز ہے۔ یہ اچھی بات ہے۔ نثری نظم خالصتًا الگ مضمون ہے؛ اِس سے اگر سند لی جائے گی تو نثر ہی کی لی جائے گی نہ کہ نظم کی۔
دوسری نئی بات یہ ہے کہ کلاں اردو لغت کے لیے عالمی معیاری کتاب نمبر (ISBN) بھی حاصل کیا گیا ہے (اگرچہ یہ کام بہت پہلے ہونا چاہیے تھا) لیکن اِس کا اندراج ”عالمی سلسلہٴ شمارِ کتب“ کے الفاظ میں کیا گیا ہے۔ عرض ہے کہ صرف ایک آدھ کے علاوہ سارے ہی اِشاعتی ادارے جو یہ نمبر اپنی کتب کے لیے لیتے ہیں، اِسے ”عالمی معیاری کتاب نمبر“ لکھتے ہیں۔ اور اِس کا یہی ترجمہ مناسب بھی معلوم ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ نمبر نیشنل لائبریری آف پاکستان (عقب وزیرِاعظم ہاؤس) اسلام آباد سے ملتا ہے؛ وہ لوگ بھی اِس کا یہی ترجمہ کرتے ہیں۔
کئی ایک جگہ پر اَسناد کے اِملاء کا یکراہ نہ ہونا دیکھنے میں آتا ہے۔ اگر سند میں اِملاء نادرست ہے تو ”کذا“ لازمًا لکھا جانا چاہیے ورنہ اِسے درست کرکے لکھنا چاہیے۔ ایسا کیا بھی گیا ہے لیکن کچھ جگہ پر نہیں ہوسکا مثلًا ”موقعہ“ (ص307) اور ”مجپر“ (ص372)۔ ”جدہر“ کے بجائے ”جدھر“ درست اِملاء ہے (ص474)۔ لِللّٰہ الحمد لکھنا غلط ہے (ص373)؛ درست اِملاء لِلّٰہ الحمد ہے۔ لفظِ اللّٰہ کے لیے دو ل اور ایک ہ طے شدہ اِملاء ہے؛ اِسی وجہ سے لِلّٰہ کا تیسرا ل ترقیم میں نہیں آتا۔ کچھ ایسی جگہوں پر اَسناد درج نہیں کی گئی ہیں جہاں کے لیے سند تھوڑی کوشش سے مل سکتی تھی مثلًا ”وہ وقت آگیا ہے“ (ص404)۔ ایسے ہی اِکّا دُکّا اِشتقاقی معلومات نامکمل ہیں۔ لیکن سیدھی سی بات ہے کہ اِن اور ایسی اور خفیف فروگزاشتوں پر اعتراض کا حق اُسے اور اُس کے ہوتوں سوتوں کو ہے جنھوں نے بجائے ہیولانی خواہشوں، تصورات اور زبانی جمع خرچ کے اِس اہم قومی کام میں کبھی کوئی ٹھوس حصہ ڈالا ہو۔ بہرحال چوں کہ اِس لغت کا قاری عمومًا ایک پڑھالکھا آدمی ہوتا ہے اِس لیے اُسے کوئی دشواری نہیں ہوتی۔
***
جائزہ نگار کے لیے روا نہیں کہ وہ کسی ادارے کے انتظامی امور کے ذکر سے علاقہ رکھے۔ اردو لغت بورڈ کئی حوالوں سے میرے لیے بہت احترام والی جگہ ہے اور یہاں کے کام کرنے والے میرے محترم۔ جب یہ کام شروع ہوا تو بہت سا ”تازہ خون“ لیا گیا تھا تاکہ کام چل سکے۔ پہلا گیئر بہت مَشقت کھینچتا ہے کیوں کہ اُس کے ذمے کھڑی گاڑی کو حرکت میں لانا ہوتا ہے۔ کلاں اردو لغت کی گاڑی کو پہلے گیئر میں ڈالنے والے تو آج پیوندِ خاک ہوچکے ہیں:
وہ جس نے بِنا کیں یہ زیاراتِ خوش آثار
ہے دفن کسی قطعہٴ ہموار کے نیچے
لیکن یہ سب حضرات و خواتین جنھوں نے اِسی ایک دفتر میں دنوں کو رات کیا اور اِنھی دیواروں کے سائے میں بال سفید کردیے مگر اردو کو زندہ اور باصلاحیت زبان ثابت کرنے کی جو کوشش بڑوں نے شروع کی تھی اُسے جان توڑ محنت سے Black & White میں لاکر پورا کر دکھایا، صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیائے اردو کے تشکر کے جائز طور پر مستحق ہیں۔ اگر افسر شاہی کا کوئی رکن اِس تحریر کو پڑھنے کی زحمت کرچکا ہے تو میری یہ گزارش بھی مان لے کہ کسی بڑی قومی تقریب میں اِس دفتر کے تمام لوگوں کو مدعو کرنے کی سبیل کرے اور سارے حاضرین کو کھڑا کرکے اِن کے لیے تالیاں بَجوائے (Standing Ovation)۔ لغت کا ایک یادگاری ٹکٹ جاری کرایا جائے۔ نمایاں کام کرنے والوں کو پاکستان کا اعلیٰ ترین سول اعزاز دے کر اِس طویل اور بے نظیر خدمت کا قومی سطح پر اعتراف کیا جائے۔ ادارے کے یومیّہ ملازمین کو مستقل کرنے کے ساتھ ساتھ سب ملازمین کو اگلے گریڈوں میں ترقی دی جائے، اور اِن کو اور کچھ نہ سہی، کم سے کم ایک ایک پلاٹ تو ضرور ہی دیا جائے کیوں کہ لغت خواہ کتنی ہی جلدوں کا پشتارہ ہو، گھر کا کام بہرحال نہیں دے سکتی۔
آخری درخواست اردو سے محبت رکھنے والے عوام سے ہے کہ للہ اِس لغت کا ایک ایک سیٹ خود خریدیں اور ہم مذاق دوستوں کو تحفتًا بھی دیں؛ یہ بہترین تحفہ ہے۔ راقم نے جتنے بھی دوستوں کو اب تک یہ لغت تحفے میں دیا ہے، اُن کے ماحول کی زبان اور علمیت میں آئی بہار سر کی آنکھوں سے نظر آتی ہے۔ یاریگری تو نام ہی اِس کا ہے کہ احباب کو اپنے رنگ میں رنگ لیا جائے۔ پانچ ہزار روپے میں ایک پورے ماحول کو اُردوادینا کوئی مہنگا تحفہ نہیں۔ آزمالیجیے۔
***

یہ مضمون ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب کی اجازت سے لکھا گیا۔ اِس کی نوک پلک سنوارنے میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب اور محبی سید محمد ذوالکفل بخاری کو زحمت دی گئی۔
اردو قاموس الامثال (Corpus) سے متعلق تازہ معلومات کی فراہمی کے حوالے سے جناب محمود احمد (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہٴ انگریزی، گورنمنٹ ڈگری کالج بورے والا) کا شکریہ بھی واجب ہے۔
***
13جولائی 2007ء
28جمادی الاخریٰ 1428ھ












حواشی:

1. راقم کو یہ اطلاع ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب نے دی ہے۔ اگرچہ موٴلفِ لغت نے اِس بات کو صراحت سے ذکر نہیں کیا۔ رک: فرہنگِ عامرہ، چوتھا ایڈیشن، ”دیباچہ طبع چہارم“ از محمد عبداللہ خاں خویشگی موٴلفِ لغت
2. اردو لغت (تاریخی اصول پر)، جلد اوّل، تعارف از محمد ہادی حسین، ص-ب
3. ایضًا؛ ایضًا؛ ص-ج
4. ایضًا؛ جلد19؛ ص-؟؟(صفحہ نمبر درج نہیں)
5. ایضًا؛ جلد20؛ ص-ix
6. ایضًا؛ جلد21؛ ص-ix
7. اردو قاموس الامثال (Corpus) پر دنیا بھر میں ہونے والے کاموں کی ایک تصویر مندرجہٴ ذیل ہے:
Works on Urdu Corpora - A Cursory View:
1. Pre-Computer work on Urdu Corpus: Urdu Dictionary (On Historical Principles); 300,000 words; first 16 of the proposed 22 volumes were printed with primitive technology and change towards computer-entered data came with the 17th volume.

2. Work on Urdu Corpus in Foreign Countries
2.1 The EMILLE/CIIL Corpus (2003): The EMILLE/CIIL Corpus (2003) was constructed as a collaborative venture between the EMILLE project (Enabling Minority Language Engineering), Lancaster University, UK, & the Central Institute of Indian Languages (CIIL), Mysore, India.
2.2 Martynyuk (2003): Based on 4,40,000 words, Martynuk examines statistical lexical distribution in electronic media speech. Tools for comparison of lexical data were developed to compile frequency lists for Urdu and Hindi.
2.3 Kashif and Beker ( 2004): Plan to make available Urdu corpus of written text to the natural language processing community. The Urdu text is stored in the Unicode character set.

3. Computer-based work on Urdu Corpus in Pakistan
3.1 CRULP Corpus (2005): CRULP developed the following applications:
• Urdu spell checker
• Prototype Hindi to Urdu transliteration engine
• Prototype Urdu Naskh and Nastaliq optical character recognition system
• Prototype Urdu speech recognition system
• Urdu morphological parser
• Urdu Corpus
• Urdu Lexicon
• English to Urdu machine translation system, etc

3.2 Center of Excellence for Urdu Informatics (2006): Plans to develop an Urdu Database (UDB) which will be basically such a collection of Urdu texts, of the past and the present, sources of written and media text, serve for a secure and permanent "Run-Time Online Urdu Evolution Analysis."
*****
 

arifkarim

معطل
محبوب:‌ اس آرٹکل کو پاکستان کی اردو انفارمیٹکس کے سلیبس میں شامل کروا دیجئے۔ اس کو مکمل پڑھنے اور سمجھنے میں کم از کم تین چار گھنٹے لگیں گے :grin:
خیر آپ نے لکھا کہ اردو کی لغت کیلئے موجودہ اردو کی لغت سائٹس سے مدد لی جائے۔ تو یہاں کچھ لنکس پیش کر دیتا ہوں:
1۔ کرلپ کی اردو سے اردو ڈکشنری:
http://www.crulp.org/oud/

2۔ پاک ڈیٹا کی انگلش ٹو اردو: الفاظ: 35,000+
http://urduseek.com/

3۔ اردو انگریزی لغت، الفاظ: 1,35,000+
http://www.urduenglishdictionary.org/

اسکے علاوہ تصویری شکل میں الفاظ ظاہر کرنے والی لغت کی سائٹس:
4۔ انگلش ٹو اردو، الفاظ:47,000+
http://ijunoon.com/urdudic/

5۔انگلش ٹو اردو، الفاظ: 20,000+
http://www.urduword.com/
 

محبوب خان

محفلین
محترم arifkarim صاحب!

تحقیقی مضامین کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے آپ صحیح کہ رہے کہ ٹائم تو لگتا ہے۔

لنکس مہیا کرنے کا شکریہ۔
 

دوست

محفلین
ڈاؤنلوڈ سیکشن میں اردو ویب کی لغت بھی موجود ہے جس کی استعداد ایک لاکھ الفاظ سے زیادہ ہے۔ یہ تین لغات کا مجموعہ ہے جس میں کرلپ کی لغت بھی شامل ہے۔
تھیوری اچھی ہے اور یہی اچھا اب تک نظر آیا ہے ہمیں ان مضامین میں۔
 

arifkarim

معطل
ڈاؤنلوڈ سیکشن میں اردو ویب کی لغت بھی موجود ہے جس کی استعداد ایک لاکھ الفاظ سے زیادہ ہے۔ یہ تین لغات کا مجموعہ ہے جس میں کرلپ کی لغت بھی شامل ہے۔
تھیوری اچھی ہے اور یہی اچھا اب تک نظر آیا ہے ہمیں ان مضامین میں۔

محبوب خان: آپ اس لغت کو بھی استعمال کر سکتے ہیں‌جو کہ ایک اطلاقیہ کی صورت میں ہے۔ اس میں‌شامل الفاظ ایکس ایم ایل فارمیٹ میں ہیں۔
 

باسم

محفلین
اگست بھی قریب ہے جب اس اردو لغت کی بائیسویں جلد منظر عام پر ہوگی
بہت اچھی تجاویز دی گئی ہیں
جیسے لسان العرب کی بنیاد پر اشاریہ ترتیب دینا
لغت کا سی ڈی اور ویب ورژن جاری کرنا
یہ بھی اچھی خبر ہے کہ دو جلدی تلخیص شائع ہوگی
اور یہ کہ مختلف مضامین پر الگ لغات شائع ہونگی
نئی جلدیں ان پیچ پر چھپی اچھی لگتی ہیں مگر پرانی تو دیکھنے میں بھی کوفت ہوتی ہے خیر نئی ترتیب پر چھپیں گی جیسا کہ اکیسویں جلد میں لکھا ہے تو یہ مسئلہ بھی حل ہوجائے گا
 
Top