اردو غزل اور غزالان ِ خوش بیان کا نسبی و حسبی تعلق --(ناہید وِرک کی شاعری )

مغزل

محفلین
اردو غزل اور غزالان ِ خوش بیان کا نسبی و حسبی تعلق
ناہید وِرک کی شاعری پر ایک نظرسیدانورجاویدہاشمی​

اگر ہم یہ کہیں کہ شاعری علی الخصوص غزلیہ شاعری کو بلاشبہ دوشیزگی کی حدوں سے نکال کر بلوغت کی منزلوں میں لایا جاچگا ہے مگر اس کی وابستگی جب کسی دوشیزہ سے ہو تو ہمیں بہ یک وقت آغاز سے تاحال ایک طائرانہ نظر دوڑانا ہی پڑتی ہے۔ راقم نے گزشتہ 35،چالیس برسوں میں اردو،علاقائی اور عالمی ادب کے مطالعے میں اپنی زندگی کا بڑا عرصہ صرف کرتے ہوئے چار کتابیں اردو دنیا کے قارئین کو دی ہیں جن میں شاعری کا ایک مختصر مجموعہ انتظار کے پودے1989 کے علاوہ تین نثر کی کتابیں نئے بت پرانے پجاری، مشاہدہ ِ حق اور تکلف برطرف اسی مطالعے کے ماحصل کے طور پر پیش کی گئیں جب کہ50کتابوں اور صاحبان کتب شعرا،اہل قلم،افسانہ نگاروں،نقادوں کی شخصیات و تحریروں پر مضامین اخبارات و جرائد میں شائع ہونے کے بعد تفصیلی طور پر کتاب کاغذ کا رزق میں پیش کرنے کی سعی کی گئی جو تاحال اشاعت سے محروم ہے! یہ وضاحت سرسری طور پر اس لیے پیش کررہا ہوں کہ اکثر نوواردان بساط اہل ادب اپنے تئیں جب راقم کی کوئی تحریر پڑھ کر اپنی رائے پیش کرنا چاہتے ہیں تو میرے قد کی پیمائش اپنے پیمانوں سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں خیر یہ ان کا مسئلہ ہے یوں بھی کوئی کسی کی زبان یا قلم کو نہیں روک سکتا!
محترمہ شاہین مفتی[جلال پور جٹاں]کے شعری مجموعوں، شبہ طراز کی کہانیوں کے مجموعے،بے شمار حضرات کی شاعری و شخصیت پر طبع آزمائی میں اتنی دقت نہیں پیش آئی جتنی سر دست سامنے رکھے ہوئے ناھید وِرک کے تازہ مجموعے تیرے نام کی آھٹ کے مطالعے و تبصرے کے دوران پیش آئی ہے۔ ناہید ورک امریکا میں مقیم ہیں۔ان سے تعارف اردو فورم پر ہوا تھا جب ان کی نظم پر ہم نے اپنا تبصرہ پیش کیا تو احتشام انور شام سلونے کی جانب سے ہلکی سی صدائے احتجاج آئی: ”کیا کرتے ہیں، ہاشمی صاحب! آپ تو ہر وقت تنقید کی چھری پر دھار لگاتے رہتے ہیں“۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ یا تو بات مت کرو یا اگر بات بنائے نہ بنے تو دوٹوک اور کھری کھری کہہ دو مگر کھُرّا پن نہیں آئے نہ ہی ایسی بات کہہ دی جائے کہ سننے والا ہتھے سے ہی اُکھڑنے لگے۔ اردو لغت بورڈ نے ہمیں چار سالہ رفاقت علمی کے دوران جہاں ہزاروں کتب و اسناد کے مطالعے و مطالبے کا شرف بخشا وہاں لفظ کے استعمال میں حزم و احتیاط اور محاورات و تراکیب لفظی سے بھی آشنا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ورنہ ہم برخودغلط جو کچھ لکھے جارہے تھے اسے مستند ہی گردانتے تھے۔ بات ہورہی ہے ناہید ورک کے شعری مجموعے تیرے نام کی آہٹ کی جسے نواب سنز پبلی کیشنز،اقبال روڈ،کمیٹی چوک راول پنڈی کے اعجاز احمد نواب نے ستمبر 2005 میں شائع کردیا تھا مگر اس کی مارکیٹنگ اب جاکے ہورہی ہے۔ امی اور ابا جی کے نام شاعرہ نے انتساب کیا ہے اور اس میں اپنے پیش لفظ زندگی کی راہوں میں پھیلی دھوپ کے حوالے سے بہ عنوان پیلی دھوپ ناہید نے اپنی کیفیات و جذبات کا برملا اظہار کرتے ہوئے تحریر کیا ہے۔”جس طرح بادل آسمان کا تازہ حال بتاتے ہیں اُسی طرح خواب ذہن کے موسم کا پتہ دیتے ہیں اور پیلی دھوپ کے نرغے میں یہ آہٹیں جہاں ”میری“ ترجمان ہیں وہیں کئی بجھتی ہوئی آنکھوں میں لرزتے ہوئے آنسووؤں کی ردااوڑھے بہتی ہوئی خواہشوں اور حسرتوں کی عکاسی کرتی ہیں اور کہیں جگمگاتے ہوئے روشن دن کے چہرے پر سجے کٹے پحتے اجالوں پر بکھرے رات کے زخموں کی کہانی سناتی ہیں“۔
ناہید نے مجموعے کا نام اپنے ایک مصرعے سے اخذ کیا ہے
ہاتھ کی لکیروں سے کس طرح نکالوں میں
تیری یاد کے موسم تیرے نام کی آھٹ
انسانی زندگی کے مختلف تجربات اور حقائق دیگر شاعروں کی طرح ناہید ورک کا بھی موضوع سخن ہیں اس میں نسوائیت کا پہلو جس طرح اجاگر ہوا ہے وہ تنہائی ،ہجر،تمنااور ناآسودگی کو ہمارے سامنے نمایاں انداز میں لاتا ہے۔
پیار ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
اس میں وہم و گماں نہیں ہوتے
جب ناہید کو دو ٹوک بات کہنے سے کوئی نہیں روک سکتا اور وہ بھرپور طریقے سے اپنے جذبات و خیالات کی عکاسی بہ صورت غزل و نظم کرتی ہیں تو پھر ہمیں بھی برملا یہ بات کہہ دینا چاہیے کہ یہ شعری مجموعہ بذاتہ اپنے مطالعے کا متقاضی ہے انتخاب کلام یا اشعار چن کر سامنے رکھ دینے سے وہ تاثر یا تاثیر آپ کو نہ مل سکے گی جس سے آپ مطالعے کے بعد خود کو محروم نہیں پائیں گے۔ناہید ورک کا یہ شعری مجموعہ بلاشبہ ہمارے عہد کی شاعرات کے مجموعہ ہائے کلام میں ایک بہترین اضافہ قراردیا جاسکتا ہے۔

سید انور جاوید ہاشمی
 

مغزل

محفلین
آپ کا بھی شکریہ جناب ۔ مگر آپ نے کل بتا یا نہیں کہ میل ملی تھی یا نہیں۔۔
 
Top