اردو سوشل میڈیا سمٹ 2015

arifkarim

معطل
اردو سوشل میڈیا سمٹ 2015
فرحت طاہر / May 20, 2015
سال کا گرم ترین مہینہ مئی!اس میں کسی تقریب کا انعقاد اور وہ بھی دن کے اوقات میں کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیںکہلاتا !ہاں مگر دن کی طوالت کے باعث کام کے لیے وافر وقت مل جاتا ہے۔ شاید اسی لیے امتحانات اور اب انتخابات کے لیے بھی کیلنڈر کا یہ ہی حصہ پسندیدہ ٹھہرتا ہے! اور شاید یہ ہی سوچ کراردوسوشل کانفرنس کی تاریخ طے کی گئی ہو گی۔ اس کا اعلان تو بہت دن سے فیس بک پر نظر آ رہا تھا مگر ہم نے کوئی خاص نوٹس نہ لیا۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ جب تک اس کا نام لے کر نہ پکارا جائے توجہ نہیں دیتا۔ دراصل ہم آج تک اپنے آپ کو مستند بلاگرزکی فہرست میں شامل ہی نہیں کرتے! وہ تو بھلا کرے اسرٰی غوری کا جنہوں نے جانے کی بابت پوچھا اور اصرار کیا تو انکشاف ہوا کہ یہ تو سوفی صد ہماے ہی لیے ہے۔ یعنی ہم چاہے اپنے آپ کو طفل مکتب ہی سمجھیں ہیں ایک بلاگرہی! دلچسپ بات یہ کہ جب اسرٰی سے بات ہوئی اس وقت ہم بلاگنگ پر ایک ورکشاپ کروانے جارہے تھے۔ سچ ہے کہ اپنا مقام خود پہچاننے کی ضرورت ہے! نہ جانے کتنے افراد ہماے بہت بعد بلاگنگ کی دنیامیں داخل ہوئے اوربہت آ گے نکل گئے۔۔۔ بہر حال آخری دن ہم نے بھی شرکت کے لیے رجسٹریشن کرواہی لی۔ اندازہ ہوا کہ خا صی پررو نق محفل ہوگی!

8؍ مئی کی صبح ساڑھے نو بجے کے قریب شیخ زائد گیٹ سے ہم جامعہ کے اندر داخل ہوئے تو ایک خوشگواری کا احساس ہوا۔ ہمیں پیدل دیکھ کر کئی رکشے والوں نے آفر کی مگر ہم نے کوئی توجہ نہ دی۔وجہ جامعہ کے موجودہ طالبعلموں اور اسٹاف کو تو معلوم ہی ہوگی! ہاں دیگر قارئین کے لیے اطلاعاً عرض ہے کہ وہ اس کو شٹل سروس ہر گز نہ سمجھیں ،بلکہ ان رکشہ برادران کی نظر ہمارے بیگ میں رکھے والٹ پر ہوتی ہے! خیر یہ واحد وجہ نہیں تھی بلکہ اصل وجہ اس جگہ سے تعلق ہے جہاںپیدل چل کر اس فضا اور ماحول کو زیادہ سے ز یادہ اپنے اندر جذب کر سکیں!جس زمانے میں ہم یہاں پیدل مٹرگشت کیا کرتے تھے اسوقت فاصلوں کو ناپنے کے لیے قدم کاپیمانہ استعمال ہوتا تھا! اپنے شعبے سے لائبریری کتنے قدم ہیں؟ کیفے ٹیریا سے ٹرمینل ، ۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔آہ! اب تو گھڑیاں دیکھ کر چلتے ہیں۔۔۔کتنے منٹ لگیں گے؟ْ؟ وقت سب کچھ بدل دیتاہے! نہ فرصت ہے نہ اسٹمنا، مگر پھربھی پیدل ہی روانہ ہوئے۔
چند قدم ہی چلیں ہوں گے کہ سامنے دکانیںنظر آ گئیںجنہیں دیکھ کر ہمیں کئی چیزیں لینی یاد آگئیں۔ وہاں سے نکلے تو سامنے ایک گاڑی آرکی لفٹ دینے کے لیے۔ شناسائی تو نہیں تھی مگرلگاکہ خاتون روزیہ نیکی کرتی ہیں۔ان کارخ بھی وہیں تھایعنی ٹرمینل کی طرف!ارم نام تھا ان کا اور اپنی بیٹی کو شعبہ ماحولیات میں چھوڑنے جارہی تھیں ۔اسے زیادہ گفتگو ممکن نہیں تھی کیونکہ ہماری منزل آ گئی تھی۔

ایچ ای جے جہاں ہم روزکی بنیادپر جایا کرتے تھے خاصہ تبدیل نظر آیا۔ ہدایات کے مطابق گیٹ 4 پر پہنچے تو کسی فلم کے کھڑکی توڑبکنگ کا سا منظر دکھائی دیا۔گیٹ کے نگہبان اپنے مداحوں میں گھرے ہوئے تھے۔ دیگرافراد چونکہ گروپ میںتھے لہذا پر لطف موڈ میں تھے۔ہم اکیلے ہونے کے باعث ذرا زیادہ ہونق محسوس ہورہے تھے۔ اسرٰی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر اتنا شورتھاکہ آواز سننا اور سمجھنا ناممکن! خیر ہمنے اپنی انٹری کسی نہ کسی طور کرواہی لی! پیپر پر بھی اور لیپ ٹاپ میں بھی۔نتیجے میں ہمیں ایک کارڈعنایت ہوا مگریہ انٹری کارڈ ہر گز نہیںتھا بلکہ یہ ہمارے بیگ کا زر ضمانت سمجھ لیں! جی ہاں!سب کے بیگ رکھوائے جارہے تھے۔اور مجمع لگنے کی وجہ بھی شایدیہ ہی تھی! سیکورٹی گارڈز کا بیگ چھوڑنے پر اصرار اور خواتین کاحتجاج!کیا نکالیں اور کیا چھوڑیںبیگ میں؟ ایک عجیب شش و پنج والا معاملہ تھا۔ دل پر پتھر رکھ کر بیگ حوالے کیامگر بعد میں خیال آیا کہ قلم تو نکالے ہی نہیں !گارڈ نے بیگ میں سے قلم نکالنے کے ہمارے مطالبے پر اپنی جیب سے نکال کر دے دیا!ااس سے اس کی مصروفیت کااندازہ لگایا جا سکتاہے! خیر کسی نہ کسی طرح نبٹے اور اندر داخل ہوئے۔

لگتا تھا ایک نئی دنیاہے! خوبصورت،صاف ستھرا اور پر فضا! ہم ذہن میں اس جگہ کا تصور اپنے زمانے سے کرنے لگے۔ قدرتی خوبصورت ماحول تو شاید پہلے بھی ہوگا مگر اب حضرت انسان کی توجہ، محنت اورسر مایہ کاری کا منہ بولتا ثبوت نظر آرہا تھا۔ جمعہ ہونے کے باعث گھر سے سورہ کہف پڑھ کر نکلے تھے اس کامفہو م ذہن میں تھا! اپنا تعلق اس بدلی ہوئی دنیا میں انہی اصحاب سے جوڑنے کودل چاہا۔۔۔ آ ڈیٹوریم میں داخل ہونے کے بعد پھر اپنا نام، موبائیل نمبر اور تقریب میں حیثیت نوٹ کروائی۔ استقبالیہ پر مامور طالبہ نے ہمارا تعلق پوچھ کر جس عزت سے ہمیں اساتذہ اور مہمانوں کے ساتھ اگلی صف میں بٹھایا، دل خوش ہو گیا! کون کہتا ہے کہ موجوہ نسل بے ادب ہے؟ ہمیں پچیس، تیس سالہ اپنا طا لب علمی کا دور یاد آ گیا۔

پروگرام کا دیا گیا وقت توشرو ع ہوگیا مگر تقریب؟ ہمیں تو پہلے ہی شبہ تھا! کراچی میں صبح گیارہ بجے سے پہلے مجال ہے کہ کوئی پروگرام شرو ع ہوسکے! دیکھتے ہی دیکھتے آیٹوریم کھچا کھچ بھر گیا۔ ہنوز اسرٰی سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔ ہمارے برابر میں ملکہ افروز صاحبہ آکر بیٹھیں ۔ان سے ملاقات کی پرانی خواہش پوری ہوئی۔ تقریب کے میزبان کاشف نصیر نے نشست کے قریب آکر خوش آ مدید کہا اور تقریب کی یاد گار پیش کی۔ اسی وقت اسرٰ ی بھی نظر آ گئیں۔ وہ اسٹیج کی دائیں جانب جبکہ ہم انتہائی بائیں طرف تھے۔ ساڑھے دس تک مائیک آن ہوگیا۔ ابتدا میں چینل زدہ گلیمرائزڈ انائونسمنٹ سن کراور دیکھ کر طبیعت خاصی مکدر ہوئی مگر پھر عمار ابن ضیاء نے جب مائیک سنبھالا تو کچھ تقویت ملی۔ پروگرام کے آغاز کے ساتھ وائی فائی بھی آن ہوگیا تھا ساتھ ہی اسٹیج سے اعلان ہواجو افراد یہاں نہ آسکے ہوں وہ live streaming کے ذریعے گھر بیٹھے براہ راست دیکھ سکتے ہیں۔ہم نے ایک دو ساتھیوںکو مطلع کیا اور ساتھ ہی facebookپر پوسٹ لکھنی اورٹوئٹر پر #UrduSMS ٹرینڈ بنانے کی کوشش کی پھر اس حماقت سے باز آگئے۔گھروں میں بیٹھے لوگوں کو چمکانے سے بہترہے کہ خود توجہ کے ساتھ پروگرام سے محظوظ ہواجائے جو اب باقاعدہ شروع ہوچکا تھا کیونکہ ریکارڈنگ توہوہی رہی ہو گی! ہم اتنی زحمت اٹھا کر آئے ہیں تو liveپروگرام کے مزے کیوں نہ لیں!

(شدید مصروفیات اور بجلی کی آنکھ مچولی کے باعث یہ روداد مکمل ہی نہیں ہوپارہی تو سوچاکہ جتنا ہوگیا ہے اپ لوڈکر دیں۔ باقی پروگرام
پر تبصرے، مشورے، تجاویز بعد میں۔۔۔ لہذا باقی آئندہ )
http://www.qalamkarwan.com/2015/05/urdu-sms-2015.html
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
سوشل میڈیا سمٹ: حصہ دوم
فرحت طاہر / 2 days ago


پروگرام کے آغاز میں شبہ ابلاغ کے صدر جناب محمود غزنوی افتتاحی کلمات کے لیے اسٹیج پر تشریف لائے۔ ان کو دیکھتے ہی ہمارے کانوں میں راہنما، راہنما، بت شکن غزنوی، غزنوی کے نعرے گونجنے لگے۔۔۔ جی نہیں! ایسی کوئی آوازیں آڈیٹوریم میں نہیں تھیں بلکہ یہ تو آ ج سے برسوں پہلے کے انتخابی جلسوں کے مناظر تھے جو ہماری یاد داشت کی اسکرین پر چمکنے لگے تھے۔۔۔ (آرٹس لابی۔۔۔ ایڈمنسٹریشن۔۔ شعبہ حیوانات اور ادویات کا سبزہ زار!) جب ہم نے انہیں کراچی یونیورسٹی کی صدر انجمن کی حیثیت سے منتخب کروایا تھا۔۔۔ شاید ہمارا گروپ آخری تھا جو اس عہد کا گواہ ہے! ان کی قائدانہ صلاحیتیں اب پیشہ پیغمبری کی اہم ترین ذمہ داری ابلاغ پر فائز ہیں۔۔۔ کافی تسکین ملی یہ دیکھ کر۔۔۔ ورنہ حسین حقانی اور جا وید ہاشمی کی اوقات گرتے دیکھ کر ہمیں بڑا ترس آ تا تھا ان طالبعلموں کے پچھتاوے کا سوچ کر جنہوں نے ان حضرات کو ووٹ دیے ہوں گے! محمود غزنوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردو کو مہنگا ، مشکل، اور ناقابل استعمال بنا دیا ہے۔ رسم الخط سے رشتہ ٹو ٹنا بڑا ہولناک ہو گا کہ ادبی ورثہ ختم ہو جائے گا۔ اردو میں چار لاکھ اصطلاحات موجود ہیں لہذا ہر علم کی تعلیم ممکن ہے مگرہم مرعو بیت کے باعث انگریزی کو چھوڑنے پر تیار نہیں۔۔۔

اس سمٹ کے اسپانسرز میں شاہی سپاری بنانے والے بھی شامل ہیں۔ اس کی طرف سے غیاث الدین صاحب نے زبان اور سیاست کے عنوان سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ بات ان کی سچ تھی کہ زبان اور مذ ہب عوام کوبھڑکانے میں استعمال کیا جاتا ہے لہذا ایک زبان کا نفاذ دشوار ہے مگر کوئی نہ کوئی طریقہ اپنانا ہو گا۔

اس کے بعد اردو پوائنٹ کی پیشکش (presentation )تھی جسے پیش کرنا تھا فوزیہ بھٹی کو! ان کا رضیہ بھٹی سے کوئی رشتہ ہے ! یہ سر گوشی ہمارے اور ملکہ افروز کے در میان ہوئی جس کا جواب ہمیں اس وقت تو نہیں مگر لنچ پر ملا تھاجب ہم کھانے کی قطار میں کھڑے تھے۔ انہوں نے بات شروع کرنے سے پہلے ہی معذرت کی کہ وہ مکمل اردو میں اپنی بات نہیں کر سکتیں کیونکہ معاملہ brought up کا ہے! اگر وہ یہ نہ بھی کہتیں توانداز واطوار انگلش میڈیم کی صریح گواہی دے رہے تھے! ان کی صاف گوئی اچھی لگی ورنہ حلیے اور گفتگو کا تضاد ہمیں الجھن میں مبتلا کر دیتا ہے۔ انہوں نے بڑے اسٹائل اور روانی سے اردو پوائنٹ کی کار کردگی بتائی اور ہم دانت کچکچا کر رہ گئے کیونکہ اردو پوائنٹ کی خبروں کا معیاراور انتخاب ہمارے ذوق پر خاصی گراں گزرتی ہیں مگر ظاہر ہے کمرشلزم کی دنیا میں ساری بات ریٹنگ کی ہوتی ہے کہ پبلک کی ڈیمانڈ یہ ہی ہے۔۔۔ میری دعا ہے کہ تری آرزو بدل جائے!اردو کے نام پر ہر بے ہودگی قابل قبول نہیں ہوسکتی!

بار کے صدر منظور حمید آرائیں نے زبان کوتعلق بنانے اورجوڑنے کا ذریعہ بنانے پر زور دیا۔ ان کامشوہ تھا کہ سوشل میڈیاکے حوالے سے اظہار رائے کی آزادی کسی کے لیے اظہار رنج نہ ہو! معلومات کو علم میں کیسے ڈھالا جائے ؟ اس سوال کے جواب کے لیے پیرا میٹر بنا نے ہوں گے!

غازی صلاح الدین کا نام مہمانوں کی فہرست میں نہیں تھا مگر ان کی اگلی نشستوں میں موجودگی اس بات کی مظہر تھی کہ شرکاء کو ضرور مستفید کریں گے اور یہ ہی ہوا جب انہوں نے بڑے لطیف اندازمیں کہا کہ میرانام نہ ُچھپا تھا اورنہ ہی َچھپا تھا گویا زیر زبر پیش سے الفاظ بن جاتے ہیں۔ یہی اردو کی شان ہے جوعربی رسم الخط کا انعام ہے! اگلا شکوہ ان کا منتظمین سے سبین محمود کے حوالے سے تھا جن کا کوئی ذکراب تک کی گفتگو میں نہ ہوئی۔ اس کی وضاحت اگلے انائونسمنٹ میں ہوئی۔ غازی صاحب نے انکشاف کیا کہ ہم بے زبان لوگ ہیں! انگریزی کا معیار بھی بہت گر گیا ہے۔ (اس سے تو ہم بھی متفق ہیں )۔ انگریزی ہمارے سر کا تاج بھی ہے اور پائوں کی زنجیر بھی! دنیا کے چھوٹے چھوٹے ممالک کی اپنی زبان ہے۔ (بے چارہ پاکستان!)۔۔۔ تیس ہزار طلبہ ہوں گے جامعہ کراچی کے؟ مگر تین سو بھی کلاسک نہیں پڑھ رہے ہوں گے۔ شاید صورت حال اس سے بھی زیادہ دگر گوں ہے! ۔۔۔ویسے ہمارے خیال میں کچھ دانشور ٹی وی اسکرین پر ہی سجتے ہیں! خواندگی میں اضا فہ کیا ذہنی غلامی سے نجات کا باعث بن سکتا ہے؟ ہم سوچ میں پڑ گئے۔

سمٹ کے منتظمین میں اسد اسلم کا سیشن دلچسپ تھا جس میں انہوں نے ایک امریکی سے اردو میں انٹر ویو کیا۔ ٹھہریں ہم آ پ کو ایک نمایاں بات بتانا بھول گئے تھے۔۔۔ بائیں طرف نشست میں مہمانوں کی قطار میں یورپی نسل کا ایک آدمی لال رنگ کی دھوتی پہنے، اپنے بالوں کی پونی باندھے سب کی توجہ کا مرکز بنا ہواتھا! زبر دست تجسس تھا جو بالآ خر اس وقت ختم ہوا۔۔۔ موصوف ایلن کیسلر نسلاً امریکی مگر خانیوال کی پیدائش ہے جہاں قیام پاکستان سے پہلے ان کے والدین رہائش پذیر تھے۔ ان کی گفتگو آپ ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں ہم کیوں اپنے الفاظ خرچ کریں؟

بس اتنا عرض کریں گے ان کے منہ سے نستعلیق اردو سن کر دل خوش ہو گیا۔ ان کو دریافت کرنے کا سہرا ریحان اللہ والا کے سر ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ ایلن کیسلر کا پاکستان سے قلبی لگائو انہیں یہاں کھینچ لا یا! پاکستان کے بارے میں ان کی پیشنگوئیاں جہاں پر مسرت اور حوصلہ افزا تھیں وہیں دل میں کچھ خوف اور وسوسے بھی پیدا ہونے لگے کیونکہ اس کے خیر خواہوں کے مقابلے میں بد خواہوں کی تعداد زیادہ بھی ہے اور منظم بھی! اللہ اسے اپنی حفظ و امان میں رکھے!

اس رنگا رنگ سیشن کے بعد ریحان اللہ والا کی پریزینٹیشن سوشل میڈیا کے بہتر استعمال کے موضوع پر تھی! انہوں نے بڑی خوش آئند صورت حال دکھائی کہ ہر فرد ہماری ایک کلک پرہے! یہ اللہ والے خاصے پر اسرار ہوا کرتے ہیں! انہوں نے انٹر نیٹ کے فوائد نامی ایک کتابچہ بھی تقسیم کروایا۔ شعبہ ابلاغ کے شہید پروفیسر یاسر رضوی کے بارے میںای ک تاثراتی رپورٹ دکھائی گئی جس پر اکثریت کی آنکھ نم ہو گئی۔

اس کے بعد مہمان خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر مونس احمر کو دعوت خطاب دی گئی۔ وہ اس تقریب سے زیادہ خوش نظرنہیں آئے! معلوم نہیں یہ ان کے مزاج کا حصہ ہے یا ہنگامی طور پرلیکچر روم سے بلوانے پر بر ہم تھے(ان کے شاگرد تو یقینا خوش ہوں گے!) دراصل شیخ الجامعہ ڈاکٹر قیصر کو آنا تھا مگر اچانک میٹنگ میں جانا پڑ گیا۔ ان کے نہ آ نے کا ہمیں بہت افسوس ہوا کہ ان کو سلام کر کے دعائیں لے لیتے جیسے برسوں پہلے Bot 502کا پیپر دے کر اے گریڈ لیا تھا! ڈاکٹر مونس نے ایک عمومی سی بات کہی کہ معلومات کو علم میں منتقل کرنا از بس ضروری ہے!

اس کے ساتھ ہی نماز اور کھانے کا وقفہ تھا۔ اتنے افراد کا بیک وقت اس آ ڈی ٹوریم سے نکلنا ایک سوالیہ نشان تھا مگر شاباش ہے منتظمین پر کہ اس امتحان میں بھی کا میاب رہے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ مرد حضرات تو مسجد میں چلے جائیں گے اور خواتین؟ اس کا حل بھی فوراً مائیک کے ذریعے آ یا یعنی ہمیں میس میں نماز ادا کرنے کی سہولت ہے ۔ وہاں پہنچنے والوں میں ہم اولین تھے۔ پہلے آنے والوں کو جہاں کچھ مسائل ہوتے ہیں وہیں اپنی پسندیدہ جگہ حاصل کرنے کی سہولت بھی رہتی ہے۔ وہان نماز پڑھتے ہوئے ہمیں مدینہ کا سفر یاد آ گیا راستے میں جہاں نماز قصر ادا کی تھی وہ جگہ اس میس کے مماثل تھی ۔جمعہ کا دن، مدینہ کی یاد اور درود نہ پڑ ھیں! الھم۔۔۔

نماز سے فارغ ہوکر ہم، ملکہ، اسرا، اور عظمٰی باتوں میں الجھ گئے۔ یہ تو ہر جگہ، ہر وقت ہوسکتی ہیں مگر اس وقت تو ہم صرف اور صرف گپ شپ کے ایجنڈے پر تھے لہذا گفتگو کے جوہر دکھارہے تھے مگر ساتھ ساتھ انتظامات پر بھی نظر ڈال رہے تھے۔ دل ہی دل میں خوف بھی کہ اتنے زیادہ افراد کو اتنے کم وقت میں کیسے نبٹایا جائیگا؟ اور حقیقی شرکاء کو کیسے پہچانا جائے گا؟ مگر شاباش ہے کہ کوئی بد نظمی بظاہر نظر نہیں آئی( اندرون خانہ منتظمین کے تنائو کا نہیں کہہ سکتے!) نہایت اطمینان سے میزوں پر کپڑا بچھایا گیا، برتن سجائے گئے اور پھر کھانا بہت عزت سے چناگیا۔۔۔ وقت طعام بالفاظ دیگر کھانا کھلتے وقت بھی کوئی مانوس منظر نہ دکھائی دیا بلکہ نہایت تمیز سے کھانا لیا اور کھا یا گیا۔ شاید ماحول کا اثرہو۔۔۔ شکر ادا کیا کہ تعلیم یافتہ، باشعور ہونے کا ثبوت دیا گیا۔ (ہوسکتا ہے کچھ افراد کو صد مہ ہوا ہو کہ وہ تو غالب کے پرزے اڑنے کے منتظر ہوں گے اور یہاں تو سب کچھ بہت اطمینان سے ہو رہا ہے کسی بھی بھگدڑ کے بغیر!)۔ کھانا لیتے وقت ہمارا ٹکرائو فوزیہ بھٹی سے ہوا اور ہمارے نامعقول سوال کا جواب بہت سوچ کر نفی میں دیا۔ کھانا بھی بہت عمدہ اور وافرتھا بمع سویٹ ڈش! کولڈ ڈرنک بھی تھی مگر چونکہ ہم پیتے نہیں اس لیے محروم رہے! کھانے کے دوران ایک پیاری سی شخصیت فوزیہ نصیرسے تعارف ہوا ۔ بہت مختصر ملاقات بڑے گہرے روابط کی بنیاد بن گئی۔ ماہ وسال کے فاصلوں کے باوجود بہت کچھ مشترک اور اپنائیت بھرا لگا۔
http://www.qalamkarwan.com/2015/06/urdusms-part-2.html
 

arifkarim

معطل
اردو سوشل میڈیا سمٹ 2015، آخری حصّہ
فرحت طاہر / 17 hours ago


کھانے سے فارغ ہوکر آڈیٹوریم میں اپنی نشست پر واپس آئے۔تھوڑی دیر بعد پروگرام کا دوبارہ آ غاز ہوا۔KPFکے نائب صدر خورشید تنویر صاحب کی تقریرتھی۔انہوں نے زبان کے ضمن میں پڑھے لکھے افراد کے زیادہ ذمہ دارہونے کی ضرورت پر زوردیا۔ اس کے بعد کالم نگار، بز نس ا یڈوائزر۔۔۔ جناب کاشف حفیظ کی پریزینشیشن تھی جس نے ماحول میں شگفتگی بھر دی! دلچسپ انداز میں اتنی اہم باتیں جو بیک وقت تکلیف دہ بھی ہیں اور پر امید بھی! آ گہی تو ایسی ہی ظالم ہوتی ہے۔ آئینہ دیکھنے پر ہم قطعی شر مندہ نہیں! جو ہیں جیسے ہیں وہی نظر آ تے ہیں مگر ہمارا کوئی رول ماڈل نہیں! یہ خیال بڑا آ زردہ کرنے والا ہے! اگر اردو اٹھ گئی تو بہت بڑا ثقافتی خلاء ہو گا۔

سعد ربانی، جرنلزم کے شاگرد نے ضیاء محی الدین کی پیروڈی بیوی کیسی ہونی چاہیے ؟ سنا کر محظوظ کیا۔bbcاردو کے سربراہ عامر احمد خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ سوشل میڈیا نے ہرفرد کو براڈ کاسٹر بنادیا ہے اوریہ بی بی سی کا چوتھا پلیٹ فارم ہے۔selfie کا استعمال زبان میں داخل ہوگیا ہے۔

مکالمہ کے عنون سے ایک ٹاک شو تھا ( ٹی وی والا نہیں بلکہ نہایت مہذب انداز میں اپنے روایتی طریقے سے!)موضوع گفتگو تھا روایتی میڈیا بمقابلہ سوشل میڈیا جس کے اینکر تھے مہتاب عزیز!اس کی ویڈیو تو آپ دیکھ ہی چکے ہوں گے! اورجنہوں نے نہیں دیکھی ظاہر ہے کہ ان کو نہ دلچسپی نہ فرصت نہ ضرورت ! پھر ہم کیوں اپنے الفاظ ضائع کریں؟ ( ایک تو کی بورڈ خراب ہے،آن اسکرین کی بورڈ میں مائوس کتنی شرارت کرتا ہے! اسکے اثرات زائل کرنا گویا ایک قدم آ گے جاتے ہیں تو دو قدم پیچھے پلٹنا پڑتا ہے۔۔ دوسرا k-electricکا تاریخی کردار کہ عین گرمی کے مہینے میں اپنی سر گر میاں شروع کی ہوئی ہیں اور اس بلاگ کی تاخیر کی وجوہات میں ہماری بے ہنگم مصروفیات اور پے در پے پر وگرامز کے علاوہ یہ بھی شامل ہیں) لیکن مکالمہ کے بارے میں کچھ جملے لکھے بغیریہ بلاگ ادھورا رہے گا لہذا عرض ہے :

وسعت اللہ خان صاحب نے اپنے تیکھے انداز میں باور کروایا کہ میڈیا بھی ایک انڈسٹری ہے صابن بیچںا یا خبریں! بات ا یک ہی ہے! محمود غز نوی صاحب نے کہا کہ ہم ایک صاف ستھرا پر زہ تیار کر تے ہیں مگر معا شرے کی زنگ آلود مشین میں جا کر ناکارہ بن جاتا ہے گویا مشینری بدلے بغیر تبدیلی خواب رہے گی۔ اس مکالمے کے دیگرشرکاء میں ریاض اللہ فاروقی ،فیض اللہ اور فیصل کریم ،سما نیوز والے شامل تھے۔ ویسے نام تو مظہر عباس اوراییچ خانزادہ کے بھی بتائے گئے مگر موجود ہ نہ تھے۔ اس مکالمہ کا ماخذ یہ تھا کہ سوشل میڈیا بہت بڑی طاقت ہے۔ جہاں آپ کے پر جلیں وہاں اس طاقت کواستعمال کریں۔۔۔ (اس موقع پر ہمیں مختلف ممالک کے بلاگرزیاد آئے جو سزا کے مستحق ٹحہرے۔۔۔ اس کی وضاحت وسعت اللہ خان کے جملے سے ہوئی۔۔۔ سوشل میڈیا بھی اتنا ہی خطرناک ہے۔۔۔ اس پر آپ سنسر نہیں ہوتے مگر آئینے کی طرح روشن ہوتے ہیں۔ سوال کرنے سے، ایشو کو ہائی لائٹ کر نے سے آپ کی شخصیت کا پتہ چلتاہے۔۔۔)

کچھ روہانسی گفتگو کے بعد یہ حوصلہ افزا جملہ سننے کو ملا کہ اعتدال کے رویے کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس بات پر سب متفق نظر آ ئے کہ ہم سنجیدہ گفتگو اور طنز و مزاح میں تمیز کھو چکے ہیں۔ جب گھٹیا زبان کے ساتھ ابلاغ ہورہا ہے تو زبان کون سیکھے؟ سب کا ملبہ ٹی وی اینکرزپر گررہا تھا جبکہ اینکرز کی یہ قوم تو کھمبیوں کی طرح اگے انگلش میڈیم اسکولزکی پیداوارہیں۔۔۔ گویا جو تیس سال پہلے بویا گیا تھا اس کی فصل کٹ رہی ہے! اس معاملے میں یکسوئی اور شرح صدرکے ساتھ مناسب فیصلہ سازی کی ضرورت ہے یقینا اس قسم کے summitراہ متعین کرنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں ! یعنی گیند سوشل میڈیا کے کورٹ میں آچکی ہے کہ وہ کتنی قوت اور سر عت سے اس ایشو پر جنگل کی آگ کی طرح ذہن سازی کرواتی ہے! جی ہاں! اردو زبان کے ذریعے اپنی تہذیب کی صورت گری!

ٹھیک یہ ہی بات ڈاکٹر نعمان الحق صاحب، استاد IBAنے کہی۔ان کا خطاب پروگرام کا آخری شوتھا مگراہمیت کے لحاظ سے سر فہرست کہا جاسکتا ہے۔ ان کی گفتگو میں اپنے علمی اور ادبی خانوادے کی جھلک نمایاں تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے دھیمے مگر پر اثر انداز میں زبان کے سلسلے میں اپنے قیمتی تجربات شرکاء کو منتقل کیے! ان کا کہنا تھا کہ زیر زبر کے فرق سے الفاظ سکڑجاتے ہیں لہذا زبان کو کمزور نہ کیا جائے۔ اردو ایک لسانی، عالمی میراث ہے۔ اس کی حفاظت اور پھیلاؤ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اس کی وضاحت وسعت اللہ خان کے اس جملے سے ہوتی ہے کہ جتنی محنت آپ اچھی انگلش سیکھنے میں کرتے ہیں اگر اس کی آدھی بھی اچھی اردو پر صرف کریں تو انگلش خود بخود اچھی ہوجائے گی۔ زبردست اور آسان فارمولا ہے اور اگر نئی نسل ٹھان لے تواسے عام ہونے سے کوئی روک بھی نہیں سکتا جس کا ثبوت اس پروگرام کا انعقاد ہے۔

یہ بات ہم نے منتظمین کو اسٹیج پر دیکھ کر سوچی! جی ہاں! پروگرام کے اختتام پر ان کو اپنے دیدار کروانے کی دعوت دی گئی اور ہم آنکھیں پھاڑ کر اس دھان پان سی مخلوق کو دیکھ رہے تھے جوآڈیٹوریم کی سیٹوں کے درمیان اور اندر باہر اڑتی پھررہی تھی! یہ تو وہ کام تھے جو نظر آ رہے تھے ورنہ تو نہ جانے کتنے دن اور راتیں اس کام میں لگی ہوں گی! ( قائد اعظم یاد آ گئے!اگر کام کا تعلق جثے سے ہوتا تو ہمارے نواز شریف نہ کچھ کر لیتے!) دل میں دعائوں کے ساتھ ایک فخر بھرے خوشگوار تاثر ات ابھرے۔۔۔ یا اللہ! اس ایونٹ کو ارینج کرنے میں جتنی محنت ان ینگسٹرز نے کی ہے ان کو ضرور۔۔۔۔۔ ( دیکھا اپنی اوقات میں آ گئے نا کہ بات کو پر اثر بنانے کیلیے انگریزی کا سہارا۔۔۔۔ گویا بنتی نہیں بادہ و ساغر کے بغیر !۔۔۔۔اسی غلامی سے تو نکلنا ہے ) اے اللہ۔۔۔ان نوجوانوں نے اس تقریب کے انعقاد کے لیے جتنی محنت کی اس کا بہترین اجر عطا کرے !
( ہم نے تو سوچ لیا ہے آ ئندہ اپنے کسی بھی پروگرام کے لیے ایونٹ آ رگنائزر کے انتخاب پر توجہ دیں گے۔۔۔)

اسٹیج سے جب ایوارڈ کی تقسیم ہونے لگی تو ہم لفظ ایوارڈ کا متبادل اردو لفظ سوچنے لگے۔ (لیکن بات وہی ہے کہ اردو ایک مہمان نواز قوم کی زبان ہے اس لیے ہر لفظ کو اپنے اندر سمولیتی ہے اور ایوارڈ بھی ان میں سے ایک ہے!) بہترین اردوبلاگ، بہترین فیس بک صفحہ اور ٹوئٹر پر ایوارڈ دیے گئے۔ بہترین بلاگ جریدہ کو ملا۔ یقیناً اس کی کارکردگی ایسی ہوگی کہ انعام ملے۔۔۔ اختتامی کلمات کے ساتھ ہی میس میں چائے کا اعلان کیا گیا۔ اس آ فر سے فائدہ اٹھا نے کے بجائے ہم نے گھر واپسی کو تر جیح دی۔ باہر نکل کر گارڈ کو اس کا قلم شکریہ کے ساتھ واپس کیا جس کے جواب میں اس نے ہمارا کارڈ لے کر بیگ واپس کیا۔ راستے بھر ہم اس شاندار پروگرام کا سوچتے رہے کہ جن افراد نے ڈیزائن کیا اور محنتیں کیں۔۔۔ ساتھ میں یہ کہ ہم بلاگر کی فہرست میں کیسے آئے؟ اس پر تو ایک اور بلاگ بنتا ہے۔۔۔۔ان شاء اللہ آ ئندہ سہی!

ہر پروگرام پر کچھ مجموعی تاثرات، مشورے، تجاویز ذہن میں آ تی ہیں۔ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس پر بھی کچھ کہیں:
}ہمارے پروگرامز کی عموماً ریہرسل نہیں ہوتی۔ نہ مہلت ملتی ہے نہ توجہ دی جاتی ہے۔ ( اپنی بہن کی کہی بات یاد آ رہی ہے کہ انگلستان کی ملکہ زندہ سلامت ہے مگرہر سال ریہرسل ہوتی ہے کہ ملکہ کے انتقال کے وقت ماتمی جلوس کہاں اورکیسے نکلے گا؟ کون کون سی سوگوار دھنیں چلیں گی۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ہم ٹھہرے آزاد نسل والے لوگ !ہم نے کوئی Long Live Queen یا Save the Queen کا ترانہ تھوڑی گایا ہے کہ ہم غلامی کی اس ادا کی اتباع کریں!ہم تو جہاں اور جیسے کی بنیاد پر تقریبات کامیابی سے منعقد کرتے ہیں! کمال کی ہم آ ہنگی ہے )
تفنن بر طرف۔۔۔۔

} سمٹ کے مقصد میں سوشل میڈیا پر کام کر نے والوں کے جذبات کو مہمیز کرنا تھا اور یقینا اس میں سو فی صد کامیابی رہی۔ مبارک ہو !
آئندہ اگر کچھ مخصوص معلومات کا احاطہ بھی کیا جائے تو بہتر رہے گا۔ کچھ تیکنکی، کچھ ڈیجیٹل، کچھ مسائل اور ان کا حل، کچھ روابط، موضوعات پر رہنمائی وغیرہ وغیرہ۔۔۔
} اگر ممکن ہو تو خواتین کی علیحدہ نشست( مکمل نہ سہی ، ایک آدھ ہی سہی ) اس میں ان کا آپس میں تعارف اور تعلق کچھ بے تکلف ماحول میں ہو سکے۔
اگلی نشست کا انتظار شروع!
http://www.qalamkarwan.com/2015/06/urdu-sms-last-part.html
 
Top