اردو روزنامہ انقلاب کی بہار میں لانچنگ تشہیر ی آرٹ ورک

افضل حسین

محفلین
ممبئی سے شائع ہونے والے مشہور روزنامہ انقلاب نے گزشہ 27 مئی کو بہار سے 1،00،000 کاپیوں کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کیا ۔


121320730.jpg


123253103.jpg


114842192.jpg
 

ابن جمال

محفلین
انقلاب پہلے ممبئی سے صرف نکلاکرتاتھا اس کے مالک ممبئی کے کوئی مسلم تھے۔ اسے حالیہ عرصے میں مشہور ہندی اخبار دینگ جاگرن نے خرید لیاہے اوراب وہی اسے پورے ملک میں وسعت دیتی جارہی ہے۔ یہی حال راشٹریہ سہاراکااردوبھی ہے یہ ملک گیر سطح پر نکلتاہے لیکن اس کے بھی مالکین غیرمسلم ہیں۔ یعنی اب اردو میڈیم سے بھی حکومت تک آواز پہنچانا مسلمانوں سے چھنتاجارہاہے۔
انگلش ،ہندی اوردیگر صوبائی زبانوں میں کوئی ایک اچھااخبار ہمارے پاس نہیں تھالے دے کر اردو اخبار تھا اور وہ بھی ہماری نااہلی سے ہمارے ہاتھوں سے نکلتاجارہاہے۔ اب صرف حیدرآباد کے کچھ اخبار جیسے منصف اورسیاست ہیں جو معیار میں ان اخبارات کا مقابلہ کرسکتے ہیں ورنہ دیگر تمام اردو اخبارات کا معیار چوتھے درجے سے بھی پست تر ہے۔
 

افضل حسین

محفلین
اردو اخبار روایتی طور پر زیادہ تر نجی ہوہوتے ہیں مگر اب کارپوریٹ بھی اردو میڈیا میں اپنی دلچسپی دکھارہا ہے پہلے سہارا نے "روزنامہ راشٹریہ سہار " کو ملک کے درجنوں ریاستوں سے شائع کرنا شروع کیا۔اور اب دینک جاگرن گروپ نے مڈے گروپ کو ٹیک اوور کیا تو چونکہ انقلاب مڈڈے گروپ کا حصہ تھا اس لئے اب وہ بھی دینک جاگرن گروپ کے تحت آگیا گزشتہ 75 سالوں سے انقلاب ممبئی تک ہی محدود تھا مگر دینک جاگرن کے ٹیک اوور کے بعد یہ ممبئی سے نکل کر دہلی، یوپی ، بہار تک پہنچ ہوگیا ہے اور جلد ہی مغربی بنگال سے بھی شائع ہونے والا ہے۔اس کے بر عکس نجی اخبار زیادہ تر اپنی اپنی ریاستوں میں محدود ہیں ۔
 

ابن جمال

محفلین
اردو اخبار روایتی طور پر زیادہ تر نجی ہوہوتے ہیں مگر اب کارپوریٹ بھی اردو میڈیا میں اپنی دلچسپی دکھارہا ہے پہلے سہارا نے "روزنامہ راشٹریہ سہار " کو ملک کے درجنوں ریاستوں سے شائع کرنا شروع کیا۔اور اب دینک جاگرن گروپ نے مڈے گروپ کو ٹیک اوور کیا تو چونکہ انقلاب مڈڈے گروپ کا حصہ تھا اس لئے اب وہ بھی دینک جاگرن گروپ کے تحت آگیا گزشتہ 75 سالوں سے انقلاب ممبئی تک ہی محدود تھا مگر دینک جاگرن کے ٹیک اوور کے بعد یہ ممبئی سے نکل کر دہلی، یوپی ، بہار تک پہنچ ہوگیا ہے اور جلد ہی مغربی بنگال سے بھی شائع ہونے والا ہے۔اس کے بر عکس نجی اخبار زیادہ تر اپنی اپنی ریاستوں میں محدود ہیں ۔
اس میں خوشی اورغم دونوں کے پہلوموجود ہیں۔
خوشی کا پہلو یہ ہے کہ اردو کی جانب ملک گیر میڈیا متوجہ ہورہاہے اوراس کو اپنارہاہے۔
غم کا پہلو (اوریہ زیادہ بڑاہے)کہ مسلم جو ہندوستان میں سرکاری ذرائع کے مطابق 12فیصد اورغیرسرکاری ذرائع کے مطابق 20فیصد ہیں ان کے پاس اردو کاایک بھی ایسااخبار نہیں جو ملک گیر سطح کا ہواورجس کے ذریعہ وہ اپنی آواز حکومت تک پہنچاسکیں۔ یہ صورت حال مستقبل کے لحاظ سے مایوس کن ہے۔ اخبار جس کے قبضہ میں ہوتاہے پالیسیاں وہی بناتاہے۔
راشٹریہ سہارا کے مالک سبرت رائے سہارا اب کارپوریٹ کی دنیا میں بدنام ہوچکے ہیں اور ان کی تمام کاروباری سرگرمیاں دھوکے کی ٹٹی ہیں اوروہ دن دور نہیں جب پتہ چلے گاکہ سہاراگروپ جن بنیادوں پر کھڑاتھا وہ انتہائی ناپائیدار تھے۔ بہرحال یہ اس تھریڈ کا موضوع نہیں ہے۔
دینک جاگرن والے اپنی مسلم دشمنی اورتعصب کیلئے پہلے ہی سے مشہور ہیں۔ دینک جاگرن کے ہندی ادارے اس کے اثبات کیلئے کافی ووافی ہیں۔دینک جاگرن والوں نے اپنی اخبار کی کیاپالیسی اپنائی ہے وہ مجھے نہیں معلوم اورنہ ہی میں کبھی انقلاب کامطالعہ کرتاہوں۔​
 
Top