اردوکو عملی طور پر دفتری زبان بنایا جا سکتا ہے؟

مباحثے کے لیے مواد کی ضرورت ہے۔
کسی کے پاس اگر کوئی مواد ہو یا کوئی خیال، دلیل یا اشعار تو براہِ کرم آگاہ فرمائیے اور دعائیں لیجئیے۔
مباحثے کی قرارداد ہے:
"اردو کو عملی طور پہ دفتری زبان بنایا جا سکتا ہے۔"

اس لڑی میں سب کو دو طرفہ دلائل دینے کی اجازت ہے اور ملتے جُلتے اشعار بھی بتائے جائیں۔
شکریہ

نوٹ : غلط فہمی کے باعث پہلے غلط عنوان تحریر کیا گیا تھا ، اب اس موضوع پر اپنی آراء پیش کریں ۔
شکریہ
 
آخری تدوین:
باقی باتیں اپنی جگہ لیکن ۔۔
آپ کی لڑی دیکھی ۔ آخری الفاظ کاپی کر رہا ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔
گو کہ میں اس کی مخالفت میں کھڑے ہونے کا ارادہ رکھتی ہوں لیکن پھر بھی اس لڑی میں سب کو دو طرفہ دلائل دینے کی اجازت ہے اور ملتے جُلتے اشعار بھی بتائے جائیں۔
شکریہ

مجھ سے کوئی توقع نہ رکھی جائے!
۔۔۔۔۔۔۔
دستخط کو ساتھ ملا کے پڑھا جائے تو بات زیادہ سمجھ میں آتی ہے :D:D
 
اسلم محمود کی ایک غزل کے چند اشعار ۔۔۔

کہاں ہے فرصت نشاط و غم کی ، کہ خود کو تسخیر کر رہاہوں
لہومیں گرداب ڈالتا ہوں، نفس کو شمشیر کر رہاہوں

میں سنگ و خشت، انا کی بارش میں کب کا مسمار ہو چکا ہوں
اب انکساری کی نرم مٹی سے ، اپنی تعمیر کر رہا ہوں
 

La Alma

لائبریرین
اردو کو آپ تھوپ رہے ہیں جو قوم پر
اردو نوازیوں کے زمانے گزر گئے

وسعت پذیر دامنِ اردو ہے آج بھی
ہر گوشہ اک جہان ہے اردو زبان کا

اردو جسے کہتے ہیں تہذیب کا چشمہ ہے
وہ شخص مہذب ہے جس کو یہ زباں آئی
 

محمد وارث

لائبریرین
وہ جو اقبال نے کم و بیش ایک صدی قبل فرمایا تھا کہ ع۔ گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے تو یہ بات ابھی بھی سچ ہے۔

اردو کو عملی طور پر دفتری اور علمی زبان بننے کے لیے ابھی بہت زیادہ ارتقا کی ضرورت ہے۔ آج کل میں خشونت سنگھ کی خودنوشت پڑھ رہا ہوں، اُس نے اپنی زندگی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے ایک عجیب بات کہی ہے کہ ہندی (اور اردو میں بھی) mouse اور rat دونوں کے لیے ایک ہی لفظ ہے یعنی چوہا حالانکہ ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ماؤس کا سائز اگر چڑیا کے برابر ہوتا ہے تو ریٹ بلی کے سائز کے بھی ہوتے ہیں (اور بعض تو بلیوں سے ڈرتے بھی نہیں) جب کہ ہم دونوں کو "چوہا" ہی کہتے ہیں۔

مثال بیان کرنے سے غرض یہ ہے کہ جب عام روز مرہ زندگی کے لیے بھی اردو الفاظ کی کمی ہے تو دفتری زبان تو ساری کی ساری بھاری بھر کم اصطلاحات پر مشتمل ہوتی ہے۔ اردو کو دفتری زبان کے طور پر نافذ کرنے کے لیے ہمارے پاس مناسب اصطلاحات ہونی چاہئیں جو کہ ابھی نہیں ہیں اور اس کے لیے ہمیں دوسری زبانوں (عربی، فارسی، انگریزی، لاطینی وغیرہ) سے حد سے زیادہ اصطلاحات مستعار لینی پڑیں گی اور ہماری حالت یہ ہے کہ اردو کے "سو کالڈ" محبوں میں سے کسی کو عربی فارسی سے چڑ ہے تو کسی کو انگریزی لاطینی سے، اور ان زبانوں کا نام اردو کے ساتھ آتے ہی تیوری چڑھ جاتی ہے، کف اڑس لیے جاتے ہیں، خون کھول اٹھتا ہے اور زبان بے لگام ہو جاتی ہے۔
 

غدیر زھرا

لائبریرین
اردو زبان کو دفتری زبان کے طور پر رائج کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ دفتری اصطلاحات کے تراجم اردو میں کرنے پر سنجیدگی اور جانفشانی سے کام کیا جائے..لیکن بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی اردو کے فروغ کی کوشش جب تک بحیثیت مجموعی نہیں ہوتی مشکل ہے کہ اردو کا نفاذ بحیثیت دفتری زبان ممکن ہو...ہم اپنے بہترین اذہان اس بنیاد پر کھو دیتے ہیں کہ ان کی انگریزی کمزور ہے انہیں انگریزی زبان نہیں آتی اس لیے وہ ملک کی ترقی میں حصہ لینے کے اہل نہیں وہ یا تو اس بات پر احساسِ کمتری میں مبتلا ہو کر اپنی قوت کار کھو دیتے ہیں یا ہمارا تعلیمی نظام انہیں اسناد مہیا نہیں کرتا جس کی وجہ سے وہ یا تو دفاتر تک پہنچ ہی نہیں پاتے یا دفتری معاملات سمجھ نہیں پاتے...اس پر ہمارا انگلش اور اردو میڈیم میں بٹا تعلیمی نظام...ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے اردو کے فروغ میں رکاوٹ بنی ان مشکلات کو ہٹایا جائے..زبان کو زبان ہی رہنے دیا جائے صلاحیت یا اہلیت جانچنے کا ذریعہ نہ بنایا جائے..اس کے بعد ایسے اقدامات اٹھائیں جائیں..بنا تیاری کے میدان میں اترنے کا قطعاً فائدہ نہیں :)
 

آصف اثر

معطل
اردو کی تنگ دامنی بھی اردو کی ترویج میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ترجمہ نگار حضرات اس سے بخوبی واقف ہیں سائنسی قلم کار خصوصا آوازِ دوست عائشہ عزیز وغیرہ اس پر مزید مفید اظہارِ خیال کرسکتے ہیں۔
پشتو میں نیولوجیزم پر خوب کام ہورہاہے۔ جو ایک بروقت اقدام ہے۔
ماہنامہ گلوبل سائنس کے مدیرِ اعلیٰ محترم علیم احمد صاحب اپنے اداریوں میں اس حوالے سے کافی کچھ رقم کرچکے ہیں۔ جدید اصطلاحات کے لیے اردو متبادلات پر انہیں اختصاصی علم حاصل ہے۔
جہاں تک دفتری نفاذ کی بات ہے تو یہ صرف اور صرف حکومتِ وقت پر منحصر ہے جس کے کرتادھرتا مشنری اور انگلش اسکولوں میں پڑھ کر کامیابی سے ذہنی غلامی اور احساس کمتری کا شکار ہوچکے ہوتے ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ سب سے پہلے تو یہ بحث ہونی چاہیے کہ کیا عمومی گفتگو کے لئے صرف اردو کافی ہے یا اس کے ساتھ دوسری زبانوں کا استعمال لازم و ملزوم ہے۔ ہمارے ہاں عام لوگ انگریزی کی مدد کے بغیر اپنی بات نہیں کہہ پاتے اور اردو کے کسی نہ کسی لفظ کا انگریزی متبادل جان کر کہتے ہیں کہ تو یہ لفظ (انگریزی کا لفظ) کہتے نا۔ بلاوجہ مشکل اردو گھسا کر بات کو مشکل کر دیا۔

میرے خیال سے بامشکل پانچ فیصد لوگ ایسے ہوں گے کہ جو مکمل اردو میں اپنا مافی الضمیر بیان کر سکیں۔ یہاں میں صرف اُس بیانیہ کی بات کر رہا ہوں کے جس کے بیان کی صلاحیت اردو زبان میں بہ درجہ اتم موجود ہے (یعنی جہاں تک اردو زبان باآسانی ساتھ دے سکتی ہے)۔ رہے وہ الفاظ جن کی اصل ہی انگریزی ہے تو اُس کے لئے بہرحال مجبوری ہے۔

یعنی ہماری اکثریت اردو زبان کے معاملے میں نااہل ہے۔ یا جو بھی آپ کہنا چاہیں۔

سو ایسے میں پانچ فیصد لوگوں کی بنیاد پر پورے نظام کو بدلنے کی کوشش کرنا حقیقت سے نظر چرانے کے مترادف ہی سمجھا جا سکتا ہے۔

واللہ عالم!
 

فرخ منظور

لائبریرین
میرے خیال میں دفتری زبان انگریزی ہی ہونی چاہیے۔ ورنہ آپ دنیاسے کٹ جائیں گے اور خواہ مخواہ انگریزی اصطلاحات کو ترجمہ کرنے کی بجائے اسے انگریزی میں ہی رہنے دینا چاہیے۔ جیسے ایک مکینک چھوٹے کو بھی پتا ہوتا ہے کہ کاربوریٹر کیا ہے لیکن اگر اس کا کوئی اردو ترجمہ اسے سکھائیں گے تو یقیناً اس کے لیے سیکھنا بہت مشکل ہو گا۔ ویسے بھی آج کل کے بچے انگریزی جلدی سیکھ جاتے ہیں بہ نسبت اردو کے کیونکہ ہم نے اردو کو جدید بنانے کے لیے کوئی کام نہیں کیا اور اردو کو جدید بنانے کے لیے بہت وقت، وسائل اور محنت درکار ہے۔ زبانیں ویسے بھی ادارے نہیں بلکہ عوام بناتے ہیں۔
 

صدیق صادق

محفلین
ساری بڑی بڑی ڈگریاں تو ہمارے یہاں انگریزی میں ہی ہوتی ہیں
جیسا کے وکالت لے لیں
ساری کی ساری ہی انگریزی میں ہے اکثر لوگوں کو وکلاء حضرات اپنی مرضی کا ترجمہ پیش کر کے لوٹ لیتے ہیں
اردو کو عام کرنے کے لیے سب سے پہلے اردو کو تعلیمی سر گرمیوں میں عام کرنا ہوگا
ایم اے انگریزی کے علاوہ سب کچھ اردو میں کر دیا جائے تو فائدہ ہو سکتا ہے :) :):):):):):)
 

عثمان

محفلین
اس موضوع پر ہونے والی بحث میں عموما یہ فرض کیا جاتا ہے کہ اردو زبان کو رائج کرنا دراصل انگریزی زبان کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔
اگر تو مقصود یہ ہے تو میری رائے میں ایسا فی الوقت ممکن نہیں ہے۔ انگریزی سائنس و ٹیکنالوجی ، فیشن ، عالمی تجارت اور عالمی مواصلات کی ایک رائج اور مقبول ترین زبان ہے۔ اور نا چاہنے کے باوجود برصغیر میں ایک وسیع تاریخ رکھتی ہے۔ لہذا اس سے آپ پیچھا چھڑانے سے رہے۔
لیکن اگر مقصود یہ ہے کہ اردو کو بھی ترویج کا کچھ موقع ملے، اور لوگوں کا شوق بھی پورا ہوجائے تو ہاں ہوسکتا ہے۔ یورپی یونین کوئی دو درجن سے زائد زبانوں میں ترجمے کا محنت طلب کام کرتی ہے۔ دنیا کے کئی دیگر ممالک بھی ایسا کرتے ہیں۔ آپ بھی کوشش کر لیں۔ کافی افرادی قوت اور مادی وسائل درکار ہونگے۔
برتر دفتری زبان انگریزی کے ساتھ اردو ثانوی زبان کی حیثیت سے جگہ پا سکتی ہے۔ تاہم اندازہ ہے کہ اس کام پر ہونے والی محنت اور وسائل اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے فوائد سے شائد کہیں زیادہ ہیں۔
 
آخری تدوین:

عثمان

محفلین
کیا پاکستان میں اردو کی مقبول لغات ہر سال نئے شامل ہونے والے الفاظ کی فہرست مرتب کرتی ہیں؟ یہ فہرست کہاں مل سکتی ہے ؟
 
گو کہ اس لڑی میں سب مراسلہ جات سے ہم خوب مستفید ہو رہے ہیں مگر ہم ایک بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ، مباحثے کا عنوان یہ نہیں ہے کہ 'کیا اردو کو دفتری زبان کا درجہ ملنا چاہئیے؟' اور نہ ہی صرف تعلیمی نظام کی بات ہو رہی ہے۔ حضور! تعلیم تو فقط ایک پہلو ہے اور
یہاں ہمیں اس کے متعلق دلائل دینے ہیں کہ وہ کون سے حقائق یا عوامل ایسے ہیں جن کے باعث اردو کا دفتری زبان کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ اس معاملے میں اس کی تاریخ بھی چاہئیے کہ اب تک کیوں نہیں دیا جا سکا ؟؟؟؟

"عملی طور پر"
اور ان دلائل کے علاوہ اشعار کی بھی ضرورت ہے
 

آوازِ دوست

محفلین
ہم محض ایک مفتوح اور غلام قوم کی ریت نبھا رہے ہیں. کیا چین, جاپان, جرمنی اور فرانس انگریزی کو اپنی علمی اساس بنائے بغیر پسماندہ رہ گئے ہیں ؟ یقینا" ایسا نہیں ہے.زبان اپنی حقیقت میں محض ایک انٹرفیس یا آلہ ربط ہے. یہاں گورے حاکموں کی زبان کی سرپرستی کالے حاکموں نے عوام سے ایک فاصلہ اور فرق قائم رکھنے کے لیے اپنائی ہوئی ہے. جو طبقہ انگریز حکمرانوں کے بوٹ چاٹتا تھا اور اُن کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے منہ ٹیڑھا کر کر کے ولائتی لہجے کی انگریزی بولتا تھا اور اپنی اس صداکاری کی داد کے طور پر انگریز آقاؤں سے مختلف فوائد حاصل کرتا تھا,انگریزوں کے جانے کے بعد اُن کی نشست پر بیٹھ گیا ہے اور ہم اسے بیوروکریسی کے نام سے جانتے ہیں. آج شائد اس لسانی بت پرستی کے جدِ امجد تو مر کھپ گئے ہیں مگر اُن کے جانشیں اس ریت کو کامیابی سے چلائے ہوئے ہیں. آج کے ترقی یافتہ دور میں زبان جیسے بنیادی اوزار کو جدید اسلوب میں ڈھالنا اور اُس کی تراش خراش کُچھ مشکل نہیں ہے. پھر اُردو تو انتہائی لچکدار زبان ہے کہ یہ پہلے ہی مختلف زبانوں کے الفاظ اپنے ذخیرہ میں سموئے ہوئے ہے سو مسئلہ تکنیکی نہیں بدنیتی ہے. مناسب رہنما خطوط ترتیب دے کر آپ اُردو کو ادبِ عالیہ کے ساتھ ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان بھی بنا سکتے ہیں. لیکن نام نہاد اشرافیہ کو یہ منظور نہیں کہ جدید علوم کو زبانِ فرنگ کے اس کڑے پہرے سے نکال کر عام آدمی کے حوالے کر دیں اور پھر اُن کے بچوں اور ایک مزدور کے بچوں میں علم و دانش اور شعور کی ترقی کے حوالے سے کوئی فرق باقی نہ رہے. خیر بات مختصر کہ فقط دفتری ہی نہیں بلکہ اُردو ہر شعبہ زندگی کی زبان بن سکتی ہے اگر اس میں حائل طبقاتی مفادات کی پیدا کردہ مکروہ بدنیتی سے جان چھُڑا لی جائے.
 

آوازِ دوست

محفلین
اُردو کے دفتری نفاذ کے معاملے پر سپریم کورٹ کی رولنگ موجود ہے. اوریا مقبول جان نے کسی کالم میں بہت اچھا تجزیہ کیا ہے. کینیڈا میں فرنچ دوسری آفیشل زبان ہے اور اُن کے فرنچ علاقے میں ایڈمنسڑیشن اور امیگریشن قوانین تک علیحدہ ہیں. شائد اس طرح کے بندوبست سے وہ اپنے فرنچ بولنے والوں کو اُن کی بھرپور شناخت اور تمام حقوق دیے جانے کا عملی ثبوت دیتے ہیں اور ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ اگر بنگلہ دیشی عوام کو اُردو کے ساتھ بنگلہ دوسری دفتری زبان کے طور پر پیش کی جاتی تو اُن کے احساسِ محرومی کا کُچھ ازالہ ہو سکتا تھا. ایک عبوری مدت کے لیے انگریزی اور اُردو کو متوازی استعمال میں لایا جا سکتا یے تاکہ روزِ مرّہ امور متاثر نہ ہوں پھر متعینہ وقت پر انگریزی کو اُس کی موزوں حدود تک محدود کیا جاسکتا ہے. زبان عملی طور پر آوازوں کے قابلِ فہم مجموعے سے زیادہ کُچھ نہیں. سپریم کورٹ میں ساری بحث و تمحیص کا نتیجہ اُردو کو عملی طور پر رائج کرنے کے حکم کی صورت میں سامنے آیا تھا اگر انٹرنیٹ پر اس سے متعلق مواد مل سکے تو آپ کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے.
 
Top