ارباب فکر و نظر کے لیے ایک سنجیدہ تحریر

السلام علیکم! یہ بھی میری تحریر نہیں ہے۔ پسند آئی تو شئیر کر رہا ہوں۔

https://www.facebook.com/notes/nai-...-نظر-کے-لیے-ایک-سنجیدہ-تحریر/1778100012420981


ارباب فکر و نظر کے لیے ایک سنجیدہ تحریر
By Jameel UrRahman on Tuesday, March 15, 2016 at 3:50pm
نظم، روحِ عصر اور تاریخ​
آج کی اردو نظم اپنی (ادبی) تاریخ سے زیادہ اپنے تخلیقی بہاؤ میں مگن ہے۔ ادب کے نادیدہ کناروں کو چھوتی ہوئی نئی اردو نظم کے اپنے ازل، اپنے ابد ہیں۔ اپنے جھوٹ اپنی سچائیاں ہیں، جو اپنی نوعیت میں آفاقی بھی ہیں، طبیعی بھی اور ما بعدالطبیعی بھی۔ شاعرانہ صداقت کے باب میں ارسطو نے اپنی بوطیقا میں کہا تھا کہ "تاریخ اس چیز کو بیان کرتی ہے جو ہو چکی ہے جبکہ شاعری اس قسم کی چیزوں کو سامنے لاتی ہے جو ہو سکتی ہیں۔ اس وجہ سے شاعری بمقابلہ تاریخ زیادہ فلسفیانہ اور زیادہ توجہ کے قابل ہے۔ شاعری آفاقی صداقتوں سے سروکار رکھتی ہے جب کہ تاریخ مخصوص واقعات سے سروکار رکھتی ہے۔" دوسرے لفظوں میں شاعری تاریخ کے جبر سے آزاد ہوتی ہے۔ اس میں بیک وقت تینوں زمانوں کی رو چلتی ہے اور اس میں روحِ عصر ہوتی ہے۔ روح عصر ایک وسیع اصطلاح ہے۔ محدود معنوں میں اسے کسی عہد کی ناگزیر فکری سچائی یا ایسی سرگرمی کہہ سکتے ہیں جو اپنے زمانے کے سماجی، ثقافتی، مذہبی، سائنسی، معاشی، سیاسی، داخلی اور معروضی حالات و ضروریات کے نتیجے میں ایک فکری اکائی کے طور پر ابھرتی ہے اور انسانی خیالات، احساسات اور علوم و ادبیات کا حصہ بن جاتی ہے۔ کسی خاص طبقے کی فکر اور محسوسات کو اپنے عہد کی روح نہیں کہا جا سکتا۔ روح عصر کسی بھی عہد کی مجموعی پکار کا نام ہے، جس کا خاموش ارتعاش زیریں طبقے سے لے کر طبقہ ء خواص تک پھیلا ہوتا ہے۔ اس کا اطلاق شعر و ادب پر کیا جائے تو حقیقی ادب میں اپنے عہد کی روح ایک مرکزے کی طرح موجود ہوتی ہے۔ اسی لئے ادب بمقابلہ تاریخ زیادہ اہم ہوتا ہے۔ تاریخ میں کسی خاص طبقے یا مخصوص واقعات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ تاریخ کی اپنی مصلحتیں، اپنے جھوٹ اور اپنی سچائیاں ہوتی ہیں۔ لیکن شعر و ادب میں جاری و ساری روح عصر کبھی جھوٹ نہیں ہو سکتی۔ شعر و ادب سے کسی عہد کی سچی تاریخ مرتب کی جا سکتی ہے کیونکہ اس میں روح عصر بول رہی ہوتی ہے۔ تاریخ اپنے موڑ مڑتی رہتی ہے اور اچانک کہیں پیادوں کے ازدحام یا گھوڑوں کے سموں سے اٹھنے والے گرد باد میں گم ہو جاتی ہے۔ لیکن شاعری چلتی رہتی ہے۔ نوبل انعام یافتہ پرتگیزی ادیب حوزے سارا میگو نے تو اپنے نوبل خطبے میں یہاں تک کہا کہ "ادب اپنی پیدائش سے پہلے سے موجود تھا۔" اور مزید یہ کہ "تاریخ حقیقی زندگی نہیں ہے۔" اس لیے کہ جو ہو چکا ہے وہ حقیقی زندگی نہیں اور جو ہو رہا ہے وہ تاریخ نہیں۔ تاریخ کے بیانیے ہمیشہ تخلیقی وفور سے عاری ہوتے ہیں۔ تاریخ محققین، مؤرخین اور ناقدین کی مرہون منت ہوتی ہے اور چلنے کے بجائے نصابوں میں رہنا، لائبریریوں میں محفوظ ہونا اور عجائب گھروں میں حنوط ہونا پسند کرتی ہے۔ لیکن نظم چلتی رہتی ہے، ایک اننت دھارا میں، دلوں میں اور ذہنوں میں۔ تاریخ اس کے راستے کا پتھر نہیں بن سکتی۔ ہاں، اس کی انقلاب آفریں سیال رو تاریخ کو ضرور بہا کر لے جا سکتی ہے۔ (نصیر احمد ناصر)​
 
Top