ادھوری دانش اظہر م کے قلم سے

ادھوری دانش
؛؛ محبت مرد کی زندگی کا محض ایک واقعہ ہوتی ہے ؛؛ کتنی اچھی باتیں بتاتی ہیں بانو، میں نے اُن کا تازہ ترین ناول شیلف میں سجاتے ہوئے سوچا جہاں اُن کے ان گنت افسانوں کے مجموعے اور ناول رکھے ہوئے تھے۔ یہ ناول میں کئی مرتبہ پڑھ چکی تھی اور مجھے زبانی یاد تھا۔ مجھے زندگی میں والدہ ، اور اپنی ایک ٹیچر کے بعد جس شخصیت نے متاثر کیا وہ بانو ہی تھیں اور پھر شائد وہ اُن سب پر سبقت لے گئی تھیں کہ ہوش سنبھالنے کے بعد ماما کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا تھا کہ وہ ہانڈی چولھا بھی کریں اور مجھے بھی دیں، اور ٹیچر ایک برس پڑھانے کے بعد مدرسہ سے رُخصت ہو گئیں تھیں۔
بہت محنت کی تھی میں نے اسد کو پانے کے لئے۔ نہ جانے یونیورسٹی میں کتنی لڑکیاں اُس کی ایک نظر عنایت کی منتظر رہتی تھیں اور بات بے بات چپکی جاتیں۔ خون کھولتا تھا میرا۔ میں خوبصورت تھی اور وہ بھی بہت خوبصورت، لیکن اور بھی تو تھیں وہاں۔ کوئی لیکچر سمجھ نہ آنے کے بہانے اور کوئی بغیر کسی بہانے ہی اُس سے بات کرنے لگتی۔ ایسے میں میں اُسے کسی نہ کسی کام کے بہانے وہاں سے کہیں بھیج دیتی، وہ لاکھ کسمساتا لیکن کچھ بنائے نہ بنتی اور اُسے اُٹھنا ہی پڑتا، آخر دفتر میں ابا اُس کے والد سے سینئر تھے اور اُن کی نوکری ابا کے ایک اشارے کی محتاج تھی۔
،، کن سوچوں میں گُم ہو رملہ ،، یہ ابا تھے جن کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ ؛؛کچھ نہیں ابا، اسد ابھی تک نہیں آیا، اُسی کے انتظار میں ہوں؛؛
؛؛ آ جائے گا بیٹا کچھ کام پڑ جاتا ہے آخر مرد ذات ہے؛؛ ابا نے چائے کے لوازمات جو میں نے منگوائے تھے میرے سامنے رکھتے ہوئے کہا
؛؛ ابا مردوں کے لیے محبت محض ایک واقعہ ہوتی ہے، اُنہیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ عورت کی تو زندگی یہی محبت ہوتی ہے؛؛ میں نے سامان سجاتے ہوئے کہا۔
؛؛ یہ تُم سے کس نے کہا؛؛ ابا نے حیرانی سے پوچھا
؛؛ بانو کہتی ہیں، ایک معروف سماجی کارکن، سینکڑوں کتابوں کی مصنفہ ہیں ایک جانی مانی انٹل ایکچول؛؛ میں نے اپنی معلومات فخریہ انداز سے گنوانا شروع کیں۔ اور ساتھ ہی تازہ ترین ناول شیلف سے نکال کر ابا کے ہاتھ میں تھما دیا، ؛؛ یہ دیکھیں؛؛
؛؛ ہاں بانو واقعی بہت مشہور لکاری ہیں؛؛ ناول دیکھتے ہوئے ابا نے کہا۔ ؛؛ لیکن بیٹا یہ بات پوری نہیں ہے، ادھوری ہے؛؛
؛؛ وہ کیسے ابا؟ آخر آپ بھی ایک مرد ہیں ، آپ بھلا یہ سب کیسے مانیں گے؛؛ میں نے جزبز ہو کر کہا
؛؛ دیکھو بیٹا ایک عام انسان اگر یہ بات کرے تو مشکل نہیں ہوتی لیکن اگر یہی بات ایک دانش ور کرے تو بہت سوں پر اُس کا منفی اثر ہوتا ہے، جو کہ غلط ہے؛؛ ابا بولے
؛؛ وہ کیسے ؛؛ میں نے کہا
؛؛ ارے بیٹے ایسے لوگوں کو ہمیشہ پوری بات کہنا چاہیے تاکہ کچے ذہنوں پر اُس کا بُرا اثر نہ پڑے۔ اب دیکھو کہ تُم نے اس بات کو ایک یونیورسل ٹرتھ کے طور پر مان لیا ہے، جو کہ غلط ہے۔ سبھی مرد ایک سے نہیں ہوتے جیسا کہ سبھی عورتیں بھی ایک سی نہیں ہوتیں؛؛ ابا سمجھاتے ہوئے بولے
؛؛ اب اسی جملے کو دیکھ لو اگر اسے یوں بھی کہ دیا جائے کہ بہت سے مردوں کے لیے محبت محض ایک واقعہ ہوتی ہے تو بھی قابل قبول ہو سکتا تھا، مگر موجودہ حالت میں یہ انتہائی قابل اعتراض ہے، ادھوری دانش ہے اور ناقابل قبول ہے۔ کم از کم ان جیسے دانشوروں کو یہ باتیں نہیں کہنا چاہیں؛؛ ابا نے بات جاری رکھتے ہوئے ناول واپس میرے ہاتھ میں تھما دیا
؛؛ دیکھا آپ نے ابھی تک نہیں آیا، اُسے شائد یہ بھی یاد نہ ہو کہ میں نے اُسے بلایا تھا، اور کیوں بلایا تھا، آج ویلنٹائن ڈے ہے؛؛ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے اور میں بیرونی دروازے کی طرف لپکی تھی۔
وہ باہر کھڑا ہوا تھا، اور زینت اُس کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی۔ میرے تن بدن میں جیسے آگ سی لگ گئی
؛؛ تُم یہاں باہر کھڑے کھڑے کیا کر رہے ہو؟ ؛؛ میں نے چیختے ہوئے کہا تھا
؛؛ رملہ وہ میں بس بیل بجانے ہی والا تھا؛؛ اسد نے قریب قریب گھگیاتے ہوئے کہا
؛؛ اور یہ چنڈالن یہاں تُمہارے ساتھ کیا کر رہی ہے؛؛ میں چلائی تھی
؛؛ رملہ اس بے چاری نے تو میری بہت مدد کی ہے؛؛ اسد بولا
؛؛ مدد مائی فٹ، تُم مردوں کے لئے محبت محض ایک واقعہ ہوتی ہے؛؛ اور یہ کہ کر میں نے ہاتھ میں تھاما ہوا ناول اسد کو دے مارا۔ ناول اس بُری طرح سر پہ لگا کہ خون کا ایک فوارہ سا جیسے پھوٹ پڑا ہو۔ اسد بے ہوش ہو کر گر پڑا۔
ابا اندر سے دوڑے ہوئے آئے اور ایمبولینس کو فون کیا۔ ایمبولینس آئی اور ابا اسد کے ساتھ بیٹھ کر چلے گئے۔ خون دیکھ کر میرے اوسان خطا ہو چکے ہوئے تھے، زینب نے مجھے سہارا دیا اور اندر لے گئی، پانی پلایا تو کچھ اوسان بحال ہوئے۔ پھر زینب نے اجازت چاہی تو میں نے اُسے پوچھا،؛؛ تُم یہاں لینے کیا آئی تھیں ؛؛
؛؛ میں کچھ لینے نہیں دینے آئی تھی؛؛ وہ بولی
؛؛ کیا دینا تھا ؛؛ میں نے چڑ کر پوچھا
وہ باہر گئی اور واپسی پر اُس کے ہاتھ میں سُرخ گلاب تھے؛؛ یہ اسد نے تُمہارے لیے پشاور سے منگوائے تھے میرے ہاتھوں کیونکہ راولپںڈی اور اسلام آباد میں کہیں بھی سُرخ گلاب نہیں مل رہے تھے، اُسے پتہ تھا کہ میں نے آج پشاور سے واپس آنا ہے تو مجھے کہا کہ وہاں سے لیتی آوں چار بجے سے پہلے لانے کو کہا تھا، گاڑی راستے میں خراب ہو گئی اس لیے وہ دروازے پر کھڑا انہی پھولوں کا انتظار کر رہا تھا؛ یہ لے لو اب میں چلتی ہوں؛؛ یہ کہ کر زینب یہ جا وہ جا اور میں ہکا بکا کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔
ابھی ابھی میں ہاسپٹل پہنچی ہوں اور اسد کے سرہانے بیٹھی ہوئی یہ سب کچھ لکھ رہی ہوں صرف اس لئے کہ آئندہ کوئی بھی ادھوری دانش کا شکار نہ ہو، اور ہاں میں نے سب ناول ، افسانوں کی سب کتابیں جلا کر راکھ کر دی تھیں آنے سے پہلے
 

نایاب

لائبریرین
بہت سادگی سے کہی گئی بہت گہری بات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادھوری دانش سچ میں کچے ذہنوں کو بہکا دیتی ہے ۔۔۔۔۔
 
Top