ادبی تنظیموں کی سرگرمیاں

عمومی تلاش میں کوئی ایسا زمرہ دکھائی نہیں دیا۔ کوئی ایسا زمرہ یا لڑی اگر ہے اور میں اس کو نہیں پا سکا تو براہِ کرم اس کی نشان دہی فرما دیجئے۔ اور اگر نہیں ہے تو شروع کر دیجئے۔ یہ یقیناً ایک مفید اور مثبت اقدام ہو گا۔
 
دیارِ ادب ٹیکسلا کی تنظیمِ نو
روداد نگار: شہزاد عادل

ٹیکسلا کے سئنیر ادیبوں کا ایک غیر معمولی اجلاس اتوار 2 مارچ 2014 کو دن 11 بجے جناب محمد یعقوب آسی کی صدارت میں انہیں کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا جس کی نظامت طارق بصیر نے کی، دیگر شرکاء میں وحید ناشاد، رانا سعید دوشی، سعید گل، شہزاد عادل، رئیس عباس، اظہر محمود، راؤ عارف خیام اور پروفیسر نذیر انجم شامل تھے۔ اجلاس کے شرکاء نے گروہ بندی اور ذاتی پسند و ناپسند سے بالاتر ہو کر صحت مند ادبی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے ماضی کی ادبی تنظیم دیارِ ادب کو نئے سرے سے منظم کرنے کا فیصلہ کیا اور اتفاق رائے سے مندرجہ ذیل عہدیداران (مجلسِ عاملہ) کو منتخب کیا گیا:
1۔ صدر : وحید ناشاد
2: نائب صدر : رانا سعید دوشی
3۔ معتمدِ عمومی: شہزاد عادل
4۔ نائب معتمد : رئیس عباس
5۔ معتمدِ مالیات : طارق بصیر
6۔ معتمدِ نشریات : محمد یعقوب آسی

اجلاس میں دیارِ ادب ٹیکسلا کا عبوری آئین کا مسودہ پیش کیا گیا جسے مکمل اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا اور تمام حاضرین نے اعلانِ رکنیت پر دستخط کئے۔ اتفاق رائے سے طے کیا گیا کہ دیارِ ادب کی ادبی سرگرمیاں خالصتاً ادب کی ترویج کے لئے ہوں گی اور ماضی کے واقعات کو پسِ پشت رکھتے ہوئے کسی بھی تنازعے میں الجھنے سے گریز کیا جائے گا اور اراکین کے ذاتی معاملات پر دیارِ ادب ٹیکسلا میں بحث نہیں کی جائے گا۔

دیارِ ادب ٹیکسلا کے باقی تنظیمی امور جو اتفاق رائے سے طے کئے گئے ان کا مختصر ذکر کچھ یوں ہے:
1۔ اجلاس کا مقام: گورنمنٹ ایلیمنٹری سکول، انجینئرنگ یونیورسٹی ٹیکسلا
2۔ اجلاس کے دن: ہر ماہ کا دوسرا اور چوتھا سوموار
3۔ اجلاس کا وقت: بعد از نمازِ مغرب
4۔ فوری زرِ تعاون: 500 روپے (جو تمام اراکین کی طرف سے ادا کر دیا گیا)
5۔ ماہانہ زرِ تعاون: 100 روپے ماہانہ

اجلاس میں یہ بھی طے کیا گیا کہ دیارِِ ادب ٹیکسلا کا سہ ماہی خبرنامہ بھی جاری کیا جائے گا جس کی مجلسِ ادارت مندرجہ ذیل ہو گی:
مدیرِ مسئول: محمد یعقوب آسی
مدیر: رئیس عباس
ناظم: طارق بصیر

دیارِ ادب ٹیکسلا کے تنظیمی امور طے کرنے کے بعد محفلِ شعر منعقد کی گئی جس کی صدارت صدر دیار ادب ٹیکسلا وحید ناشاد نے کی جبکہ نظامت کی ذمہ داری شہزاد عادل نے نبھائی۔ تفصیلی روداد جلد جاری کر دی جائے گی۔ احباب سے مشاورت کے بعد اعلان کیا گیا کہ دیارِ ادب ٹیکسلا کا آئندہ اجلاس سوموار 10 مارچ 2014 کو منعقد کیا جائے گا جو محفلِ شعر پر مشتمل ہو گا۔


شہزاد عادل معتمدِ عمومی دیار ادب ٹیکسلا
 
دیارِ ادب ٹیکسلا کی تنظیمِ نو ۔ اور محفلِ شعر :: 2 مارچ 2014
معتمد عمومی جناب شہزاد عادلؔ کی مرتب کردہ تفصیلی روداد کا خلاصہ
محمد یعقوب آسی (معتمد نشریات) کے قلم سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
ٹیکسلا کے سینئر اور ہم خیال قلم کاروں کاغیر معمولی اجلاس اتوار 2مارچ 2014کو دن ۱۱ بجے محمد یعقوب آسی کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا، جس کا مقصد اس شہرِ سنگ و آہن میں ذاتیات سے بالاتر صاف ستھری ادبی سرگرمیاں شروع کرنے پر غور کیا گیا۔ اجلاس دو نشستوں میں ہوا، پہلی نشست کی صدارت محمد یعقوب آسی نے کی جب کہ نظامت کے فرائض طارق بصیر نے ادا کئے۔ دیگر شرکاء میں وحید ناشاد، چوہدری نذیر احمد انجم، رانا سعید دوشی، شہزاد عادل، رئیس عباس، راؤعارف خیام، اظہر محمود اور ٹیکسلا کے معروف افسانہ نگار سعید گل نے شرکت کی۔ ناظمِ اجلاس نے غرض و غایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکسلا کے اکلوتے ادبی حلقے میں صحت مند ادبی سرگرمیاں جاری رکھنا قریب قریب ناممکن ہو چلا تھا، ہم خیال سینئر اہلِ قلم اس بات پر متفق ہیں کہ کسی ممکنہ محاذ آرائی سے بچنے اور صحت مند ادبی سرگرمیوں کے اجراء کے لئے ماضی میں فعال رہنے والی ادبی تنظیم دیارِ ادب کو نئے سرے سے منظم کیا جائے۔

صدرِنشست محمد یعقوب آسی نے دیارِ ادب ٹیکسلا کی ادبی خدمات کا اجمالی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ1985میں قائم ہونے والی اس تنظیم کو ٹیکسلا میں پہلی بار تنقیدی نشستیں شروع کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ تنظیم ٹیکسلا میں بہتر اور مؤثر ادبی سرگرمیوں کو مہمیز کرنے کے لئے قائم ہوئی تھی۔ بعد ازاں جب حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا اور دیارِ ادب ٹیکسلا کی ترجیحات متماثل ہو گئیں تو باہمی رضامندی سے 1988میں اس کو حلقہ میں ضم کر دیا گیا۔ تاہم اس کے ٹیکسلا چھاؤنی ونگ کے اجلاس مزید دو تین سال تک منعقد ہوتے رہے۔ محمد یعقوب آسی نے کہا: موجودہ صورتِ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ دیارِ ادب کو از سرِ نو منظم کر کے صحت مند ادبی ماحول مہیا کیا جائے۔ انہوں نے حاضر احباب کو اظہارِ خیال کی دعوت دی۔ رانا سعید دوشی، وحید ناشاد، سعید گل اور شہزاد عادل نے مختصراً اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ لبِ لباب یہ تھا کہ ماضی کے تلخ واقعات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ٹیکسلا میں خالصتاً ادب کے فروغ کے لئے اپنی کوششیں کی جائیں اور ٹیکسلا کے ادبی ماحول کو اسی بلندی اور نیک نامی کی طرف لے جایا جائے جو کبھی اس کا خاصہ ہوا کرتا تھا۔ تمام شرکاء نے اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی۔

محمد یعقوب آسی نے اپنا مرتب کردہ ’’دیارِ ادب ٹیکسلا کا عبوری دستور‘‘ کا مختصر خاکہ پیش کیا اور چیدہ چیدہ نکات پر روشنی ڈالی جس میں دیارِ ادب ٹیکسلا کے سہ ماہی خبرنامہ کا اجراء بھی شامل ہے۔ تمام شرکاء نے مکمل اتفاق رائے سے دیارِ ادب ٹیکسلا کے عبوری آئین کی منظوری دی اوراعلانِ رکنیت فارم پر دستخط کئے۔
دوسرے مرحلے میں دیارِ ادب ٹیکسلا کی مجلسِ عاملہ کو اتفاق رائے سے منتخب کیا گیا۔ نو منتخب عہدیداران کے نام اورذمہ داریاں کچھ یوں ہیں : وحید ناشاد:صدر؛ رانا سعید دوشی:نائب صدر؛ شہزاد عادل:معتمدِ عمومی؛ محمد یعقوب آسی:معتمدِ نشریات؛ رئیس عباس:نائب معتمد؛ اور طارق بصیر:معتمدِ مالیات۔ مجوزہ خبرنامہ کے لئے مدیر مسؤل:محمد یعقوب آسی؛ اور مدیر:رئیس عباس۔
تمام شرکاء نے نو منتخب مجلسِ عاملہ کو مبارکباد دیتے ہوئے اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا اور نومنتخب نائب صدر رانا سعید دوشی نے مجوزہ خبرنامہ کے اجراء کے سلسلے میں پانچ ہزار روپے عطیہ دینے کا پیشگی اعلان کیا جس کا تمام حاضرین نے خیر مقدم کیا۔ یوں دیارِ ادب ٹیکسلا کی تنظیمِ نو کا اہم ترین مرحلہ بخیر و خوبی سر ہوا۔ میزبان محمد یعقوب آسی نے ایوان نومنتخب صدر اور معتمدِ عمومی کے حوالے کر دیا۔

دیارِ ادب ٹیکسلا کے صدر جناب وحید ناشاد نے احباب کے اعتماد پر اُن کا شکریہ ادا کیا۔ معتمدِ عمومی شہزاد عادل کی تحریک پر دیارِ ادب ٹیکسلا کے معمول کے اجلاسوں کے لئے جگہ، دن اور وقت اورفوری بنیادی فنڈ اور ماہانہ زرِ تعاون کے معاملات نمٹائے گئے۔ اتفاق رائے سے طے شدہ صورت یہ ہے:
فوری بنیادی فنڈ کے لئے تمام اراکین 500 روپے ادا کریں گے ( جو تمام حاضر اراکین نے فوری طور پرمعتمدِ مالیات طارق بصیر کو جمع کروا دئے)۔ ماہانہ زرِ تعاون 100 روپے طے کیا گیا ۔ معمول کے ادبی اجلاس ہر مہینے کے دوسرے اور چوتھے سوموار کو مغرب کی نماز کے فوراً بعد گورنمنٹ ایلیمنٹری سکول UETٹیکسلا میں ہوا کریں گے۔پروفیسر نذیر احمد انجم نے کہا آپ فوری طور پر سکول میں اجلاس شروع کر دیں، بعد میں بہتر جگہ حاصل کر لی جائے گی۔

انتظامی امور نمٹانے کے بعد محفلِ شعر منعقد کی گئی۔ انتخابِ کلام:

شہزاد عادلؔ :
یہ تیرے شہر کی مسجد نہیں کہ بند ملے
یہ مے کدہ ہے میاں! ساری رات چلتا ہے
تو شام ڈھلتے ہیں گھبرا گیا ہے کیوں عادل
یہاں تو شورِ سگاں ساری رات چلتا ہے

اظہر محمود:
اک بے نوا کے درد کا چارہ نہ کر سکے
اچھا نہیں ہوا کہ تم اچھا نہ کر سکے
امروز کی فصیل کے ملبے میں دب گئے
وہ لوگ جو تفکرِ فردا نہ کر سکے

رئیس عباس:
میری خواہش ہے یہ روئی کی طرح دھنکے مجھے
اب کسی دشت میں لے جائے جنوں چُن کے مجھے
نعرۂ لا ہوں سو معبد شعار عہد مرا
اک عجب حیرت و وحشت میں ہے گم سن کے مجھے

عارف خیام راؤ:
گماں کے ساتھ ملیں یا رہیں یقین کے ساتھ
یہ گفتگو نہیں موزوں کسی مشین کے ساتھ
سنا رہے ہیں جو محرومیوں کے افسانے
یہ نوحہ گر ہیں انہیں اور کچھ نہیں آتا

سعید گل:
وہ جو کل دیر تلک مجھ سے لپٹ کر رویا
آج اُس شخص میں یہ اعتماد کیسا ہے

طارق بصیر:
رو پڑے تھے سب ستم گر اُس اندھیری رات میں
دیکھ کر جلتے ہوئے گھر اُس اندھیری رات میں
کربلا کی رات بھی کیا رات تھی طارق بصیر
روشنی دیتے ہوئے سر اُس اندھیری رات میں

رانا سعید دوشی:
میری رگ رگ میں جو دوڑتا خوف ہے
اور کچھ بھی نہیں بس مرا خوف ہے
کچھ ملا مجھ کو اجداد سے اور کچھ
میرا اپنا کمایا ہوا خوف ہے
یہ جو رسوائی ہے شان ہے عشق کی
نیک ناموں کو اس کا بڑا خوف ہے

محمد یعقوب آسی:
سپنے تو کجا! دیکھئے کیا سو بھی سکیں گے؟
مانوس جدائی سے تری ہو بھی سکیں گے؟
ڈر تھا کہ وہ بچھڑا تو تبسم سے گئے ہم
کیا جانئے اِ س ہجر میں اب رو بھی سکیں گے؟

صدرِ محفل وحید ناشاد:
عکس بنتا ہے کبھی وہم و گماں بنتا ہے
وہ مرے خواب کی تعبیر کہاں بنتا ہے
ایک قطرہ بھی تسلسل سے اگر ٹپکے تو
لوگ کہتے ہیں کہ پتھر پہ نشاں بنتا ہے
اب تری یاد رلاتی ہے شب و روز مجھے
اب ترا نقش سرِ آبِ رواں بنتا ہے

محفلِ شعر کے بعد اعلان کیا گیا کہ سوموار 10مارچ 2014 کا اجلاس شعری نشست پر مشتمل ہو گا ۔ آخر میں حاضرین کو چائے پیش کی گئی اور تصاویر لی گئیں۔
*******
 
آخری تدوین:
1904134_439634676179996_1542117962_n.jpg

صدارت: وحید ناشادؔ (صدرِ حلقہ)، نظامت: شہزاد عادلؔ (معتمد عمومی)
چیدہ چیدہ کلام
شہزاد عادلؔ :
میں آسمانِ تخیل کو چھو کے آتا ہوں
کبھی جو بامِ غزل سے وہ دیکھتا ہے مجھے
غزل کی جھیل پہ بیٹھا ہوں ایک مدت سے
اور ایک ایک کنول سے وہ دیکھتا ہے مجھے
حسابِ سود و زیاں ساری رات چلتا ہے
یہی یقین و گماں ساری رات چلتا ہے
نتیجہ کوئی نکلتا نہیں ترے بارے
قیاسِ نکتہ وراں ساری رات چلتا ہے
احمد ابرار:
تمہارے جسم کی اس راجدھانی کے علاوہ
تمہاری روح پر حکم رانی چاہتے ہیں
مثالِ گرد رقصاں ہوں جسے ملنے کی خاطر مَیں
فراق اس کا قیامت ہے اسے کہنا ملے مجھ سے​

اظہر محمود:
اک نام کو سینے سے لگا رکھا ہے اظہرؔ
اک عکس کو کاغذ پہ اتارا ہوا ہے
یہ تاج سر پہ سجاؤں تو سر نہیں رہتا
جنوں میں نام بنانے سے گھر نہیں رہتا
یہی سبب ہے مری دل سے اب نہیں بنتی
ترے سوا یہ کسی بات پر نہیں رہتا
مکاں کے منہدم ہونے کے غم میں
فصیلِ جاں گرا مت دیجئے گا
طارق بصیرؔ :
ہم اپنی اپنی انا پہ دونوں اڑے ہوئے ہیں
جبھی تو فرقت کی سولیوں پر چڑھے ہوئے ہیں​

رانا سعید دوشیؔ :
دبے لفظوں میں میرے تذکرے ہیں
میں افواہوں سا پھیلایا ہوا ہوں
زمانے بھر کو ٹھکرایا ہے میں نے
زمانے بھر کا ٹھکرایا ہوا ہوں
نظر نیچے کئے بیٹھے ہوئے لوگوں سے جا کے مل
یہ خطرہ بھانپ لیتے ہیں یہ خدشہ دیکھ لیتے ہیں
ہوا ہے جاگتے میں بولنا بھی اب محال ایسا
کہ جیسا خواب میں دشوار آوازہ لگانا ہے​

محمد یعقوب آسیؔ :
دن دا چانن اکھاں کھلن نہیں دیندا
رات پوے تے آوے خوف ہنیرے توں
لاشاں دے بیوپاری آئے پھردے نیں
ویکھاں کیہڑا وِکدا پہلوں میرے توں
پنڈا پیر دھرُوئی جاندے
مُڑ مُڑ پچھے جھاکن اکھاں
میرا درد ونڈاون آیا ایں؟
پھر کیوں تیریاں ہسّن اکھاں
شہر کا شہر سمجھتا ہے تجھی کو جھوٹا
اتنا سچ بول گیا ہے ارے پگلے پاگل
چپ کرو یار، مجھے ڈر ہے تمہاری باتیں
اور لہجہ، نہ کسی اور کو کر دے پاگل​

وحید ناشادؔ (صدرِ محفل):
ایک جیسا ہے مرے شہر میں دونوں کا مزاج
اب اجالوں کی خوشی ہے نہ مجھے رات کا غم
کس قدر ہو گئے محتاط مرے شہر کے لوگ
دوستی ایک سی رکھتے ہیں گل و خار کے ساتھ
مجھ سے پوچھو کہ محبت کی حقیقت کیا ہے
میں نے اک عمر گزاری ہے غمِ یار کے ساتھ​
۔۔۔
اعلان کیا گیا کہ آئندہ اجلاس (سوموار : ۲۴ مارچ ۲۰۱۴ء) میں رئیس عباس اپنی غزل تنقید کے لئے پیش کریں گے۔ بعد میں شعری نشست ہو گی۔ احباب سے کہا گیا کہ وہ ترجیحاً یومِ پاکستان (۲۳ مارچ) کی مناسبت سے اپنے اشعار پیش کریں۔

روداد نگار: محمد یعقوب آسیؔ (معتمدِ نشریات)
 
مدیر کی آخری تدوین:
دیارِ ادب ٹیکسلا ۔۔ سوموار 24 مارچ 2014 ۔۔ مقام : محمد یعقوب آسیؔ کی بیٹھک
تنقیدی اور شعر نشست کا خاکہ ۔
صدرِ اجلاس: رانا سعید دوشی، ناظمِ اجلاس : شہزاد عادل، غزل : رئیس عباس
دیگر شرکائے اجلاس: وحید ناشاد، طارق بصیر، نذیر انجم، اظہر محمود، عارف خیام، اور صاحبِ خانہ محمد یعقوب آسیؔ
پہلی نشست میں رئیس عباس کی غزل پر گفتگو ہوئی، اس کے بعد حاضر شعرا سے ان کا کلام سنا گیا۔ محمد یعقوب آسی کو پوتی کی پیدائش پر مبارک بات پیش کی گئی۔ اور ماہِ رواں کے دوران سات کتابوں کے انٹرنیٹ ایڈیشن پیش کرنے پر ان کی خدمات کو سراہا گیا۔ راکب محمود راجا کے سسر مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کی گئی۔
رسمی مختصر روداد ’’رودادِ چمن‘‘ کے زیرِ عنوان جلد پیش کر دی جائے گی۔ مندرجہ ذیل لنک بھی ملاحظہ فرمائیے گا۔

https://www.facebook.com/groups/105991389443306/permalink/676055945770178/?stream_ref=3
 
دیارِ ادب ٹیکسلا ۔۔۔ تنقیدی اور شعری اجلاس
سوموار ۲۴؍ مارچ ۲۰۱۴ء
صدرِ محفل: رانا سعید دوشی، ناظمِ اجلاس: شہزاد عادلؔ ، غزل برائے تنقید: رئیس عباس
دیگر شرکائے محفل: اظہر محمود، عارف خیامؔ ، طارق بصیرؔ ، وحید ناشاد (صدرِ حلقہ)، پروفیسر نذیر انجمؔ ، اور محمد یعقوب آسی (صاحبِ خانہ)۔

ناظمِ اجلاس شہزاد عادلؔ نے گزشتہ اجلاس (۱۰؍ مارچ ۲۰۱۴ء) کی رپورٹ پیش کی جسے روداد نگاری کی عمدہ مثال قرار دیا گیا۔ ناظمِ اجلاس نے احباب کا خیر مقدم کرتے ہوئے شدید بارش کے باوجود اتنے دوستوں کے بہم ہو جانے کے جذبے کو سراہا اور یاد دلایا کہ گزشتہ اجلاس کی شام بھی موسم کچھ ایسا ہی تھا۔ بعد ازاں نوجوان صاحبِ طرز شاعر رئیس عباس کو اپنی غزل بحث کے لئے پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ غزل ملاحظہ ہو:

ہوا، یہ شامِ فسردہ، دِیا قیامت ہے
تمہاری یاد کا روغن جدا قیامت ہے

عجب کہانی ہے وحشت رسیدہ لوگوں کی
کوئی پکارے تو کہتے ہیں کیا قیامت ہے

وہ اب تقاضائے بیعت نہیں کرے گا کبھی
اسے خبر ہے مرا حرفِ لا قیامت ہے

یہی سبب ہے کہ پھر مبتلا نہیں ہوا دل
یہ عشق پہلا ہو یا دوسرا قیامت ہے

مجھ ایسے ہجر نشینوں کو چین یوں ہے نہ یوں
صبا ہو یا تری بوئے قبا قیامت ہے​


صدرِ اجلاس نے حاضرین کو غزل پر بات کرنے کی دعوت دی۔ محمد یعقوب آسیؔ نے اپنے ابتدائی تاثرات میں غزل کو سراہا اور اس بات پر مسرت کا اظہار کیا کہ رئیس عباس نے ایک غیر معمولی ردیف لا کر اس کے ساتھ انصاف بھی کیا ہے۔ یعقوب آسیؔ نے مطلع میں علامت نگاری اور رعایات کے استعمال کو شاعر کی چابک دستی گردانا۔ اور غزل میں لائی گئی تراکیب ’’وحشت رسیدہ‘‘ اور ’’ہجر نشینوں‘‘ کو خاص طور پر سراہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ شعر میں الف، واو، یاے گرانے کی اجازت سے قطع نظر ’’تقاضائے بیعت‘‘ میں ضاد کے بعد کے الف کا گرانا محلِ نظر ہے۔ دوسرا شعر بہت وسیع پیش منظر کا حامل ہے۔ یعقوب آسیؔ نے آخری شعر میں فنی پختگی کو سراہا اور کہا کہ یہ ’’استادوں والا شعر ہے‘‘۔ صدرِ اجلاس رانا سعید دوشی نے کہا کہ اس انداز کی ردیف نکیل ڈال دیا کرتی ہے، تاہم اس غزل میں شاعر نے مشکل ردیف کو نبھایا۔ یعقوب آسیؔ نے کہا کہ فاضل شاعر نے کھلے قافیے سے فائدہ اٹھایا ہے۔ صدرِ محفل نے ان سے اتفاق کیا۔

عارف خیام راؤ نے کہا کہ یعقوب آسیؔ نے مختصر مگر جامع گفتگو کر دی اور مزید کچھ کہنے کو کم ہی رہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا: رئیس عباس اپنا ایک اسلوب بنا رہے ہیں ۔ مصیبت کے معانی میں قیامت کا لفظ لانا بہت اچھا لگا۔ ہجر کی کیفیت کی حامل اس غزل کی فضا ایک سی ہے، اور اچھی لگتی ہے۔ ’’مراحرفِ لا قیامت ہے‘‘ اس پر ایک سوال کے جواب میں محمد یعقوب آسیؔ نے کہا: کربلا ہماری شاعری میں بہت مضبوط حوالہ ہے۔ اس شعر میں بھی بات اٹھتی وہیں سے ہے تاہم وہیں تک محدود نہیں رہتی بلکہ دورِ حاضر پر بھی منطبق ہو جاتی ہے۔ رانا سعید دوشی نے اتفاق کیا اور کہا کہ شاعر نے الفاظ کو استعاراتی سطح پر لا کر ان کے مفاہیم کو وسعت دی ہے جو شاعر کی فنی پختگی اور وبستگی کا مظہر ہے۔

شہزاد عادل نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا : رئیس عباس کی غزلوں کا ترتیب وار مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے ہاں اپنا ایک اسلوب تشکیل پا رہا ہے۔ اس عمر میں مختصر سے شعری سفرکے ساتھ یہ امر بہت خوش کن ہے۔ انہوں نے غزل کی معنوی وسعت پر یعقوب آسیؔ سے اتفاق کیا۔ عارف راؤ کے ایک سوال کے جواب میں یعقوب آسیؔ نے کہا: سامنے کے معانی تو تعلقِ خاطر کے حوالے سے ہیں۔ اس شعر میں کوئی گہرا فلسفہ ہے بھی تو میں اس کو نہیں پا سکا۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا: عشق ایک بہت ہی وسیع موضوع ہے اور اس کے مناظرات بہت ہیں، اس پر بات کرنے کو تو ایک الگ نشست درکار ہے، اس غزل کے تناظر میں اپنی بات کر چکا ہوں۔ صدرِ محفل نے کہا : اس شعر میں پہلا اور دوسرا عشق سے عشق مجازی اور عشق حقیقی مراد ہیں۔

طارق بصیر نے غزل پر تفصیل سے گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ صرف دوسرے شعر میں ردیف کسی کیفیت کے ساتھ آئی ہے، باقی اشعار میں معنوی سطح پر بالکل درست ہے تاہم ایسی کیفیت والی بات نہیں ہے۔ عبدالباسط چنگیز سے ایک گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا: جب آسیؔ صاحب گفتگو کر لیتے ہیں تو ہمارے پاس کہنے کو کم ہی بچتا ہے۔ مطلع میں لفظ روغن کابہت خوبصورت استعمال دیکھا ہے۔اور رئیس عباس یہاں تلازمے بھی بہت خوب لائے ہیں۔ طارق بصیرؔ نے اختر شاد کا یہ شعر پڑھا:

جسم تھا شاداب لیکن شہرِ جاں جلتا رہا
درد کا روغن درونِ استخواں جلتا رہا​

انہوں نے کہا فارسی سے لگاؤ میں رئیس عباس اختر شاد سے آگے ہے۔وحشت رسیدہ اور ہجر نشینوں بہت خوبصورت تراکیب ہیں۔ بیعت کے حوالے سے طارق بصیر نے اس بات سے اتفاق کیا کہ شعر کو محدود نہ کیا جائے۔ ’’تقاضائے بیعت‘‘ کی ساخت اور ادائیگی پر انہوں نے یعقوب آسیؔ سے اتفاق کیا۔دوسرا عشق ہے؛ اس شعر میں عشق قیامت اور مبتلا کی مثلث شاعر نے بہت خوبصورت بنائی ہے۔ یہ اس کی شعوری کوشش ہے۔ انہوں نے اس شعر کو اقبال کے تناظر میں دیکھا اور کہا کہ رئیس نے اس شعر میں عشق سے جان ہی چھڑا لی ہے۔ انہوں نے کہا: رئیس عباس کے یہ سارے شعر بہت خوبصورت ہیں اور ہم ان سے ایسے ہی اشعار کی توقع بھی کرتے ہیں۔رئیس عباس اور دلاور علی آزر ہمارے دوستوں میں بہت عمدہ اضافہ ہیں۔یہ محنت کرتے ہیں اور انہوں نے بہت جلد خود کو منوایا ہے۔ میں صاحبِ غزل کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

صدرِ حلقہ جناب وحید ناشادؔ نے اپنی مختصر سی گفتگو میں کہا: مجھے یہ غزل بہت پسند آئی، دوستوں کی بات بھی اچھی لگی اور غزل مزید اچھی لگی کہ ہر ناقد اس میں نئی معنویت دیکھتا ہے۔ شہزاد عادل کے اس سوال کے جواب میں کہ اس غزل کی بحر ’’فعول فاعلتن فاعلات فاعلتن‘‘ میں آخری سبب خفیف سے پہلے سبب ثقیل یا سبب ثقیل دونوں جائز ہیں تاہم اس سے غزل کے حسن و قبح پر کیا اثر مرتب ہوتا ہے؛ محمد یعقوب آسیؔ نے کہا: یہ دونوں جائز ہیں اور بہت مستعمل ہیں، اس فرق سے شعر کی جمالیات پر کوئی اثر نہیں پڑتا، نہ مثبت نہ منفی؛ اور یہ مصرعے اپنے آپ آتے ہیں۔ اس اجازت کے پیچھے بھی ایک نفسیاتی عنصر ہے، شاعر کو بسا اوقات اس کا احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ فِعلن اور فَعِلن کو مقابل لے آیا ہے۔

صدرِ محفل رانا سعید دوشی نے اپنے صدارتی خطبے میں رئیس عباس کو ایک کامیاب اور خوبصورت غزل پیش کرنے پر مبار باد دی۔ رئیس کا رجحان کلاسیک اور فارسی روایت کی طرف ہے اور فن غالب ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم دوسروں کا اثر لیتے ہیں تاہم بہت زیادہ اثر نہیں لینا چاہئے۔رئیس کو غزل پر کورے کاغذ کی طرح اپنا نام لکھنا چاہئے۔تاہم غزل میں شاعری کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس غزل میں شاعری موجود ہے لیکن میں رئیس سے اس سے زیادہ کی توقع کرتا ہوں۔

صاحبِ غزل رئیس عباس نے احباب کا شکریہ ادا کیا۔ ناظمِ اجلاس شہزاد عادل نے شعری نشست کا آغازکیا اور اپنے اشعار سنائے۔ دیگر شعرائے کرام کے اسمائے گرامی یہ ہیں: اظہر محمود، رئیس عباس، عارف خیام راؤ، طارق بصیر، وحید ناشاد، محمد یعقوب آسیؔ اور صدرِ اجلاس رانا سعید دوشی۔ شعری نشست سمیت پورے اجلاس کی آڈیو ریکارڈنگ پہلے ہی انٹرنیٹ پر مہیا کر دی گئی ہے۔

اجلاس کے باضابطہ اختتام سے پہلے صاحبِ خانہ محمد یعقوب آسیؔ نے احباب کو بتایا کہ اللہ کریم نے ان کو ایک اور پوتی سے نوازا ہے جس کا نام صبیحہ رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: دوست جانتے ہیں کہ گزشتہ مہینے کے دوران میں اپنے ادبی اثاثے کا بیش تر حصہ آٹھ کتابوں کے انٹرنیٹ ایڈیشنز کی صورت میں پیش کر چکا ہوں، میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ یہ بات ریکارڈ پر آ جائے۔ صاحبِ خانہ نے دوستوں کو یاد دلایا کہ گزشتہ دنوں ہمارے ساتھی راکب راجا سسر وفات پا گئے۔ اس پر مرحوم کے لئے مغفرت کی دعا کی گئی اور راکب راجا اور لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا گیا۔ اور اعلان کیا گیا کہ آئندہ اجلاس سوموار ۱۴؍ اپریل ۲۰۱۴ء کو ہوگا؛ شہزاد عادلؔ اپنی غزل تنقید کے لئے پیش کریں گے اور بعد میں احباب سے شعر سنے جائیں گے۔

روداد نگار: محمد یعقوب آسیؔ معتمد نشریات
 
دیارِ ادب ٹیکسلا ۔۔۔ تنقیدی اور شعری اجلاس
سوموار ۲۴؍ مارچ ۲۰۱۴ء
صدرِ محفل: رانا سعید دوشی، ناظمِ اجلاس: شہزاد عادلؔ ، غزل برائے تنقید: رئیس عباس
دیگر شرکائے محفل: اظہر محمود، عارف خیامؔ ، طارق بصیرؔ ، وحید ناشاد (صدرِ حلقہ)، پروفیسر نذیر انجمؔ ، اور محمد یعقوب آسی (صاحبِ خانہ)۔

ناظمِ اجلاس شہزاد عادلؔ نے گزشتہ اجلاس (۱۰؍ مارچ ۲۰۱۴ء) کی رپورٹ پیش کی جسے روداد نگاری کی عمدہ مثال قرار دیا گیا۔ ناظمِ اجلاس نے احباب کا خیر مقدم کرتے ہوئے شدید بارش کے باوجود اتنے دوستوں کے بہم ہو جانے کے جذبے کو سراہا اور یاد دلایا کہ گزشتہ اجلاس کی شام بھی موسم کچھ ایسا ہی تھا۔ بعد ازاں نوجوان صاحبِ طرز شاعر رئیس عباس کو اپنی غزل بحث کے لئے پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ غزل ملاحظہ ہو:

ہوا، یہ شامِ فسردہ، دِیا قیامت ہے
تمہاری یاد کا روغن جدا قیامت ہے

عجب کہانی ہے وحشت رسیدہ لوگوں کی
کوئی پکارے تو کہتے ہیں کیا قیامت ہے

وہ اب تقاضائے بیعت نہیں کرے گا کبھی
اسے خبر ہے مرا حرفِ لا قیامت ہے

یہی سبب ہے کہ پھر مبتلا نہیں ہوا دل
یہ عشق پہلا ہو یا دوسرا قیامت ہے

مجھ ایسے ہجر نشینوں کو چین یوں ہے نہ یوں
صبا ہو یا تری بوئے قبا قیامت ہے​


صدرِ اجلاس نے حاضرین کو غزل پر بات کرنے کی دعوت دی۔ محمد یعقوب آسیؔ نے اپنے ابتدائی تاثرات میں غزل کو سراہا اور اس بات پر مسرت کا اظہار کیا کہ رئیس عباس نے ایک غیر معمولی ردیف لا کر اس کے ساتھ انصاف بھی کیا ہے۔ یعقوب آسیؔ نے مطلع میں علامت نگاری اور رعایات کے استعمال کو شاعر کی چابک دستی گردانا۔ اور غزل میں لائی گئی تراکیب ’’وحشت رسیدہ‘‘ اور ’’ہجر نشینوں‘‘ کو خاص طور پر سراہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ شعر میں الف، واو، یاے گرانے کی اجازت سے قطع نظر ’’تقاضائے بیعت‘‘ میں ضاد کے بعد کے الف کا گرانا محلِ نظر ہے۔ دوسرا شعر بہت وسیع پیش منظر کا حامل ہے۔ یعقوب آسیؔ نے آخری شعر میں فنی پختگی کو سراہا اور کہا کہ یہ ’’استادوں والا شعر ہے‘‘۔ صدرِ اجلاس رانا سعید دوشی نے کہا کہ اس انداز کی ردیف نکیل ڈال دیا کرتی ہے، تاہم اس غزل میں شاعر نے مشکل ردیف کو نبھایا۔ یعقوب آسیؔ نے کہا کہ فاضل شاعر نے کھلے قافیے سے فائدہ اٹھایا ہے۔ صدرِ محفل نے ان سے اتفاق کیا۔

عارف خیام راؤ نے کہا کہ یعقوب آسیؔ نے مختصر مگر جامع گفتگو کر دی اور مزید کچھ کہنے کو کم ہی رہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا: رئیس عباس اپنا ایک اسلوب بنا رہے ہیں ۔ مصیبت کے معانی میں قیامت کا لفظ لانا بہت اچھا لگا۔ ہجر کی کیفیت کی حامل اس غزل کی فضا ایک سی ہے، اور اچھی لگتی ہے۔ ’’مراحرفِ لا قیامت ہے‘‘ اس پر ایک سوال کے جواب میں محمد یعقوب آسیؔ نے کہا: کربلا ہماری شاعری میں بہت مضبوط حوالہ ہے۔ اس شعر میں بھی بات اٹھتی وہیں سے ہے تاہم وہیں تک محدود نہیں رہتی بلکہ دورِ حاضر پر بھی منطبق ہو جاتی ہے۔ رانا سعید دوشی نے اتفاق کیا اور کہا کہ شاعر نے الفاظ کو استعاراتی سطح پر لا کر ان کے مفاہیم کو وسعت دی ہے جو شاعر کی فنی پختگی اور وبستگی کا مظہر ہے۔

شہزاد عادل نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا : رئیس عباس کی غزلوں کا ترتیب وار مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے ہاں اپنا ایک اسلوب تشکیل پا رہا ہے۔ اس عمر میں مختصر سے شعری سفرکے ساتھ یہ امر بہت خوش کن ہے۔ انہوں نے غزل کی معنوی وسعت پر یعقوب آسیؔ سے اتفاق کیا۔ عارف راؤ کے ایک سوال کے جواب میں یعقوب آسیؔ نے کہا: سامنے کے معانی تو تعلقِ خاطر کے حوالے سے ہیں۔ اس شعر میں کوئی گہرا فلسفہ ہے بھی تو میں اس کو نہیں پا سکا۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا: عشق ایک بہت ہی وسیع موضوع ہے اور اس کے مناظرات بہت ہیں، اس پر بات کرنے کو تو ایک الگ نشست درکار ہے، اس غزل کے تناظر میں اپنی بات کر چکا ہوں۔ صدرِ محفل نے کہا : اس شعر میں پہلا اور دوسرا عشق سے عشق مجازی اور عشق حقیقی مراد ہیں۔

طارق بصیر نے غزل پر تفصیل سے گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ صرف دوسرے شعر میں ردیف کسی کیفیت کے ساتھ آئی ہے، باقی اشعار میں معنوی سطح پر بالکل درست ہے تاہم ایسی کیفیت والی بات نہیں ہے۔ عبدالباسط چنگیز سے ایک گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا: جب آسیؔ صاحب گفتگو کر لیتے ہیں تو ہمارے پاس کہنے کو کم ہی بچتا ہے۔ مطلع میں لفظ روغن کابہت خوبصورت استعمال دیکھا ہے۔اور رئیس عباس یہاں تلازمے بھی بہت خوب لائے ہیں۔ طارق بصیرؔ نے اختر شاد کا یہ شعر پڑھا:

جسم تھا شاداب لیکن شہرِ جاں جلتا رہا
درد کا روغن درونِ استخواں جلتا رہا​

انہوں نے کہا فارسی سے لگاؤ میں رئیس عباس اختر شاد سے آگے ہے۔وحشت رسیدہ اور ہجر نشینوں بہت خوبصورت تراکیب ہیں۔ بیعت کے حوالے سے طارق بصیر نے اس بات سے اتفاق کیا کہ شعر کو محدود نہ کیا جائے۔ ’’تقاضائے بیعت‘‘ کی ساخت اور ادائیگی پر انہوں نے یعقوب آسیؔ سے اتفاق کیا۔دوسرا عشق ہے؛ اس شعر میں عشق قیامت اور مبتلا کی مثلث شاعر نے بہت خوبصورت بنائی ہے۔ یہ اس کی شعوری کوشش ہے۔ انہوں نے اس شعر کو اقبال کے تناظر میں دیکھا اور کہا کہ رئیس نے اس شعر میں عشق سے جان ہی چھڑا لی ہے۔ انہوں نے کہا: رئیس عباس کے یہ سارے شعر بہت خوبصورت ہیں اور ہم ان سے ایسے ہی اشعار کی توقع بھی کرتے ہیں۔رئیس عباس اور دلاور علی آزر ہمارے دوستوں میں بہت عمدہ اضافہ ہیں۔یہ محنت کرتے ہیں اور انہوں نے بہت جلد خود کو منوایا ہے۔ میں صاحبِ غزل کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

صدرِ حلقہ جناب وحید ناشادؔ نے اپنی مختصر سی گفتگو میں کہا: مجھے یہ غزل بہت پسند آئی، دوستوں کی بات بھی اچھی لگی اور غزل مزید اچھی لگی کہ ہر ناقد اس میں نئی معنویت دیکھتا ہے۔ شہزاد عادل کے اس سوال کے جواب میں کہ اس غزل کی بحر ’’فعول فاعلتن فاعلات فاعلتن‘‘ میں آخری سبب خفیف سے پہلے سبب ثقیل یا سبب ثقیل دونوں جائز ہیں تاہم اس سے غزل کے حسن و قبح پر کیا اثر مرتب ہوتا ہے؛ محمد یعقوب آسیؔ نے کہا: یہ دونوں جائز ہیں اور بہت مستعمل ہیں، اس فرق سے شعر کی جمالیات پر کوئی اثر نہیں پڑتا، نہ مثبت نہ منفی؛ اور یہ مصرعے اپنے آپ آتے ہیں۔ اس اجازت کے پیچھے بھی ایک نفسیاتی عنصر ہے، شاعر کو بسا اوقات اس کا احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ فِعلن اور فَعِلن کو مقابل لے آیا ہے۔

صدرِ محفل رانا سعید دوشی نے اپنے صدارتی خطبے میں رئیس عباس کو ایک کامیاب اور خوبصورت غزل پیش کرنے پر مبار باد دی۔ رئیس کا رجحان کلاسیک اور فارسی روایت کی طرف ہے اور فن غالب ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم دوسروں کا اثر لیتے ہیں تاہم بہت زیادہ اثر نہیں لینا چاہئے۔رئیس کو غزل پر کورے کاغذ کی طرح اپنا نام لکھنا چاہئے۔تاہم غزل میں شاعری کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس غزل میں شاعری موجود ہے لیکن میں رئیس سے اس سے زیادہ کی توقع کرتا ہوں۔

صاحبِ غزل رئیس عباس نے احباب کا شکریہ ادا کیا۔ ناظمِ اجلاس شہزاد عادل نے شعری نشست کا آغازکیا اور اپنے اشعار سنائے۔ دیگر شعرائے کرام کے اسمائے گرامی یہ ہیں: اظہر محمود، رئیس عباس، عارف خیام راؤ، طارق بصیر، وحید ناشاد، محمد یعقوب آسیؔ اور صدرِ اجلاس رانا سعید دوشی۔ شعری نشست سمیت پورے اجلاس کی آڈیو ریکارڈنگ پہلے ہی انٹرنیٹ پر مہیا کر دی گئی ہے۔

اجلاس کے باضابطہ اختتام سے پہلے صاحبِ خانہ محمد یعقوب آسیؔ نے احباب کو بتایا کہ اللہ کریم نے ان کو ایک اور پوتی سے نوازا ہے جس کا نام صبیحہ رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: دوست جانتے ہیں کہ گزشتہ مہینے کے دوران میں اپنے ادبی اثاثے کا بیش تر حصہ آٹھ کتابوں کے انٹرنیٹ ایڈیشنز کی صورت میں پیش کر چکا ہوں، میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ یہ بات ریکارڈ پر آ جائے۔ صاحبِ خانہ نے دوستوں کو یاد دلایا کہ گزشتہ دنوں ہمارے ساتھی راکب راجا سسر وفات پا گئے۔ اس پر مرحوم کے لئے مغفرت کی دعا کی گئی اور راکب راجا اور لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا گیا۔ اور اعلان کیا گیا کہ آئندہ اجلاس سوموار ۱۴؍ اپریل ۲۰۱۴ء کو ہوگا؛ شہزاد عادلؔ اپنی غزل تنقید کے لئے پیش کریں گے اور بعد میں احباب سے شعر سنے جائیں گے۔

روداد نگار: محمد یعقوب آسیؔ معتمد نشریات

شعری نشست سے انتخاب ۔۔ (از: : شہزاد عادل ۔ معتمد عمومی و ناظمِ اجلاس)


دیارِ ادب ٹیکسلا
اجلاس مؤرخہ 24 مارچ 2014
تنقیدی نشست کی روداد سیکرٹری نشر و اشاعت محمد یعقوب آسی نے پیش کر چکے ہیں شعری نشست میں پیش کئے گئے کلام سے انتخاب ذیل میں درج کیا جا رہا ہے۔​
شہزاد عادل:
کسی کو سونپ نہ دینا یہ خاک دیوانو!
چمن کبھی نہ ملیں گے گنوا کے ویرانے
ہم ایسے اہلِ جنوں کا کمال ہے عادل
کہ لائے شہر تلک ہم بڑھا کے ویرانے
خرد کے زور پر وحشت کو ہم بہلائے رکھتے ہیں
دلِ وحشی کو اک زنجیر سی پہنائے رکھتے ہیں
اُسے دنیا فشارِ خون سے موسوم کرتی ہے
رگوں کے بیچ ہم جو آگ سی دہکائے رکھتے ہیں

اظہر محمود اظہر:
زمانے سے خزاؤں نے ہمیں گھیرا ہوا ہے
ملے گا کب ہمیں یارب کوئی موسم سہانا
اگر دیکھے مجھے کوئی ستاروں کی نظر سے
بنا سکتا ہوں میں افلاک پر اپنا ٹھکانہ
مری بربادیوں کی داستاں سن کر وہ بولے
بہت دل چسپ اور رنگین ہے تیرا فسانہ

رئیس عباس:
یہ عصر عداوت کو روایت میں بدل دے
ممکن ہے محبت کو جنایت میں بدل سے
اے جوئے رواں اُس کو عداوت ہے خزا ں سے
تو مجھ کو کسی اور حکایت میں بدل دے
یہ دل بھی کوچۂ وحشت میں کھویا رہتا ہے
کہ اب تو صبح سے تا شام گھر نہیں آتا
ترا وجود بھی احساسِ درد ایسا ہے
ازل سے دل میں ہے لیکن نظر نہیں آتا
عارف خیام راؤ:
وہ جو میں تھا گیا گزر مجھ میں
کون رہتا ہے کیا خبر مجھ میں
روکنے والے اب ترا افسوس
آن اترا ہے سر بہ سر مجھ میں

طارق بصیر:
کچھ تو ہوائے شہر بھی میرے خلاف تھی
اس پر مزاجِ دوستاں برہم عجیب سا
اس کے کسی سوال کا کیسے جواب دوں
جس کا ہر اک سوال ہو مبہم عجیب سا
گلاں دے پھٹ بھر نئیں جاندا
اینیں نیکی کر نئیں جاندا
انج دیاں گلاں باتاں کر دا اے
جیویں کوئی ڈر نئیں جاندا
جہڑا دکھ میرے ول آندا اے
جان دا کہندا اے پر نئیں جاندا
کلیاں جے کر جینا پے جائے
یارو بندا مر نئیں جاندا

وحید ناشاد:
کس طرح پورا اترتا وقت کے معیار پر
آج بھی جس کا عقیدہ ہے وفا پر پیار پر
میرے ہونٹوں پر مچلتے ہیں وہ بوسے آج بھی
ثبت کرنا تھا جنہیں میں نے ترے رخسار پر

محمد یعقوب آسی نے پنجابی نظم اکھیاں ونّو ون وہار پیش کی جسے پسند کیا گیا۔
تیری پلکوں کے ستاروں میں سمانا چاہوں
اپنے اشکوں کو کسی طور چھپانا چاہوں
تا کوئی حسرتِ تعمیر نہ باقی رہ جائے
آشیاں شانۂ طوفاں پہ بنانا چاہوں
کچھ نہ کچھ ہو تو سہی اپنے لہو کا حاصل
شب کے ماتھے پہ شفق رنگ سجانا چاہوں
شدتِ ضبط سے بے طرح بکھر جاتا ہوں
نغمۂ درد جو محفل میں سنانا چاہوں
دشتِ حسرت تو بسے گا ہی اگر مر بھی گئیں
پھر تمناؤں کا اک شہر بسانا چاہوں
سوچتا ہوں تو ہنسی آتی خود پر یارو
میں بھی کیا شخص ہوں روتوں کو ہنسانا چاہوں
شہرِ یعقوب ہے ویران بڑی مدت سے
ایک یوسف ہے جسے ڈھونڈ کے لانا چاہوں
پنجابی:
جہڑے گھر دا بڑا سی مان تینوں تیرے پتراں نے دتا ڈھا بابا
اسیں گھر دے وچ بے گھر ہوئے سانوں کیتی دی ملی سزا بابا
ترا سبق یقین تنظیم والا اسیں کدوں دا دتا بھلا بابا
اسیں رب رسول نو چھڈ بیٹھے گھڑ بیٹھے آں کئی خدا بابا
بابا کیہ دساں تینوں کیویں دساں اوکھی مننی اپنی تقصیر بابا
اسیں ویریاں دے آکھے لگ بیٹھے وکھو وکھ ہوئے سبھے ویر بابا
اج تیری جدائی رلاوندی اے کوئی آن کے کر تدبیر بابا
کوئی پیار دی تھاپناں دے سانوں تیرے بچے نیں بڑے دلگیر بابا

صدرِ محفل رانا سعید دوشی:
مولا تو نے اس دھرتی پر یہ بھی اک احسان کیا ہے
اک لختِ فردوس ہے جس کو تو نے پاکستان کیا ہے
کاش اب کے بھی ملاقات میں مدت پڑ جائے
یوں مجھے تجھ سے جدا رہنے کی عادت پڑ جائے
اپنا اسباب ہی ہجرت میں اٹھانا ہے محال
اس پہ احباب کا بھی بارِ امانت پڑ جائے
لشکرِ جرم تو کام اپنا کرے بے تعطیل
آئے دن دفترِ انصاف میں رخصت پڑ جائے
کب گلہ کوئی کسی دستِ حنائی سے کیا
اک شکوہ تھا خدا سے جو خدائی سے کیا
ایک صحرا تھا کہ سیراب مجھے کرنا تھا
آنکھ میں اشک نہ تھے آبلہ پائی سے کیا

اجلاس کے باضابطہ اختتام سے پہلے صاحبِ خانہ محمد یعقوب آسیؔ نے احباب کو بتایا کہ اللہ کریم نے ان کو ایک اور پوتی سے نوازا ہے جس کا نام صبیحہ رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: دوست جانتے ہیں کہ گزشتہ مہینے کے دوران میں اپنے ادبی اثاثے کا بیش تر حصہ آٹھ کتابوں کے انٹرنیٹ ایڈیشنز کی صورت میں پیش کر چکا ہوں، میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ یہ بات ریکارڈ پر آ جائے۔ صاحبِ خانہ نے دوستوں کو یاد دلایا کہ گزشتہ دنوں ہمارے ساتھی راکب راجا سسر وفات پا گئے۔ اس پر مرحوم کے لئے مغفرت کی دعا کی گئی اور راکب راجا اور لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا گیا۔ اور اعلان کیا گیا کہ آئندہ اجلاس سوموار ۱۴؍ اپریل ۲۰۱۴ء کو ہوگا؛ شہزاد عادلؔ اپنی غزل تنقید کے لئے پیش کریں گے اور بعد میں احباب سے شعر سنے جائیں گے۔
 
دیارِ ادب ٹیکسلا
سوموار ... ۲۷؍ اگست ۲۰۱۴ء ... شعری اور تنقیدی نشست
صدارت: وحید ناشاد، نظامت: شہزاد عادل، غزل برائے تنقید: محمد یعقوب آسی ؔ ... دیگر شرکائے اجلاس: رانا سعید دوشی، راؤ عارف خیام، نذیر احمد انجم، اظہر محمود، تصور حسین تصور، طارق بصیر۔

محمد یعقوب آسی کی غزل کا مطلع:
کیسا ماحول سازگار ہوا
دل زدوں میں مرا شمار ہوا​

غزل پر گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے رانا سعید دوشی نے کہا: مطلع بہت خوبصورت ہے، چھوٹی بحر میں اور ساز گار شعری ماحول میں کہی گئی ہے۔ عارف خیام راؤ نے آخری شعر کو بہترین قرار دیا اور کہا کہ اس شعر میں خاص طور پر زبان، خیال، بندش، اور بحر کی موزونیت پائی جاتی ہے۔

آگہی آگ ہی تو ہوتی ہے
کوئی کندن کوئی غبار ہوا​

عارف خیام راؤ نے مزید کہا کہ دوسرے شعر کا مضمون گھسا پٹا ہے اور اظہار میں بھی کوئی نیاپن نہیں آیا؛ کسی نوآموز کو تو رعایت دی جا سکتی تھی، صاحبِ غزل کو نہیں۔ انہوں نے لفظ ’’ناقابلِ معافی‘‘ استعمال کیا۔ پانچویں شعر میں:

بیڑیاں ذات کی کبھی ٹوٹیں؟
آپ سے کب کوئی فرار ہوا​

عارف خیام راؤ نے کہا: اگرچہ اس پر میری صاحبِ غزل سے بات ہو چکی ہے تاہم ’’خود‘‘ کے معانی میں ’’آپ‘‘ یہاں کھَلتا ہے۔ اس کے بعد والے شعر کو راؤ صاحب نے بہت عمدہ قرار دیا اور کہا اس میں بھرپور شعریت ہے:

لفظ تو تیز دھار تھے، سو تھے
اس کا لہجہ بھی آب دار ہوا​

شہزاد عادل نے کہا: زیادہ تر امور میں مجھے عارف خیام راؤ سے اتفاق ہے، بشمول ’’آپ‘‘ اور ’’خود‘‘ کی معنویت کے، انہوں نے کہا یہ پنجابی اسلوب ہے۔ غزل کا مجموعی جائزہ لیتے ہوئے انہوں نے کہا: اچھی غزل ہے، چھوٹی بحر میں مناسب زمین میں کہی گئی یہ غزل سہلِ ممتنع کے بہت قریب ہے۔ رانا سعید دوشی نے ’’آپ‘‘ اور ’’خود‘‘ کے نکتے پر عارف راؤ اور شہزاد عادل سے اتفاق نہیں کہا؛ انہوں نے کہا میں اسے غلط نہیں سمجھتا۔ تاہم مصرع کے آخر میں سوالیہ نشان لگا دینے سے مصرع سوالیہ نہیں بن جایا کرتا؛ بلکہ یہ ایک انداز میں قاری پر جبر ہے۔ سوال لانے کے لئے لہجہ بدلنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا: یعقوب آسیؔ کے ہاں مزید بھی ایسے اشعار ہیں جن کی عبارت میں وہ سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ شعری ادب میں یہ نشانات لگائے جاتے ہیں تاہم میں ان سے مطمئن نہیں ہوں۔

تصور حسین تصور نے نکتہ اٹھایا کہ ’’صاحبِ صدر‘‘ درست ترکیب نہیں ہے؛ احباب کو چاہئے کہ وہ ’’صاحبِ صدارت‘‘ کہیں یا ’’جنابِ صدر‘‘ کہیں۔ انہوں نے کہا: آپ اور خود، ایک ہی بات ہے، تاہم تیسرا شعر مجھ پر نہیں کھل رہا۔

آرزو قبر میں اتار آئے
غم مگر جان پر سوار ہوا​

فاضل ناقد کا مؤقف تھا کہ آرزو، خواب، تمنا، جستجو یہ زندگی کی علامات ہیں اور جب زندگی کو قبر میں اتار دیا تو پھر غم کہاں سوار ہو گا، کہ جان تو رہی نہیں۔ شہزاد عادل نے کہا: غم دل پر سوار ہوتا ہے، آرزو کے مر جانے سے طبعی موت واقع نہیں ہوتی۔ فاضل ناقدنے آرزو کو علامتی طور پر زندگی قرار دیا ہے، ایسے میں غم کا جان پر، دل پر سوار ہونا بالکل درست ہے اور یہ ایک عمدہ شعر ہے۔ تصور حسین تصور نے کہا: میں نے زندگی کے حوالے سے بات کی ہے۔ عارف خیام راؤ کا کہنا تھا کہ آرزو کا گلا گھُٹنے پر سب سے پہلا تاثر غم کا ہوتا ہے، جو جان پر سوار ہوتا ہے۔ انہوں نے اس کو بھرپور شعر قرار دیا۔ رانا سعید دوشی کا کہنا تھا کہ آرزو کے مرنے پر مایوسی کی کیفیت کا طاری ہونا بہت بھاری ہوتا ہے۔

غزل پر اپنی تفصیلی رائے دیتے ہوئے طارق بصیر نے کہا: مجھے بھی عارف راؤ کی اکثر باتوں سے اتفاق ہے۔ یعقوب آسیؔ نے ایسی غزلیں بھی کہی ہیں جو سر کے اوپر سے گزر جاتی ہیں، تاہم اس غزل میں ایسا نہیں ہے، مضامین بھی سارے کھل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ردیف ’’ہُوا‘‘ اس کو ماضی میں لے جاتی ہے اور پہلے سے استعمال شدہ ہے۔ طارق بصیر نے حوالے کے طور پر نوید صادق کا ایک شعر پڑھا۔ ساتویں شعر کو سراہتے ہوئے طارق بصیر نے کہا: اس کے مضامین تو خوب ہیں ہی، لفظیات بھی بہت عمدہ ہیں اور اس میں تکرارکی صنعت بہت خوبی سے آئی ہے۔ انہوں نے چھٹے شعر کو بھی سراہا۔ تیسرے شعر پر اُن کا کہنا تھا کہ یہ فاضل شاعر کے ذاتی حوالے کا شعر ہونے علاوہ ہر محرومی کے حوالے سے خوبصورت اظہار ہے۔ چوتھا شعر:

کرب دل میں چھپا لیا سارا
دوستوں پر مرے جو بار ہوا​

اس شعر کو طارق بصیر نے لفظی سطح پر آسان اور محسوساتی سطح پر عمیق قرار دیااور کہا پہلا مصرع محسوس کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔پانچواں شعر انا کے حوالے سے بن سکتا تھا مگر بن نہیں پایا۔ مطلع پر انہوں نے اپنے اِشکال کا اظہار کیا کہ دل زدگی اور ماحول کی سازگاری کا تعلق کیسے بنتا ہے۔ اس پر رانا سعید دوشی نے کہا: میرے نزدیک اس شعر کا مرکزی خیال ہے: ’’عشق دی سب توں وڈی عزت گلی گلی رسوائی اے‘‘ اور میں ابھی تک اِس کے حصار سے نہیں نکل سکا۔

عارف خیام راؤ نے کہا کہ سوالیہ نشان والی بات پر میں رانا صاحب سے متفق نہیں ہوں۔ اس غزل کا اسلوب نہ بیانیہ ہے مکالمہ بلکہ ایک طرح کی خود کلامی ہے جو غزل کے پورے ماحول پر حاوی ہے، اوریہ اس غزل کا حسن ہے۔ رانا صاحب سوالیہ علامات کے حوالے سے اپنے مؤقف پر قائم رہے۔ شہزاد عادل نے یعقوب آسی کی ایک بہت پرانی غزل کا حوالہ دیا ’’تیرا سر قابلِ معافی ہے؟‘‘ اور کہا کہ یہ فاضل شاعر کا اسلوب ہے، جہاں انہوں نے محسوس کیا کہ قاری کو اِشکال ہو سکتا ہے، انہوں نے علامت ڈال دی، اس میں کوئی قباحت نہیں۔ طارق بصیر اور شہزاد عادل کا مؤقف تھا کہ پڑھنے والے کا لہجہ بھی شعر کو بناتا ہے۔ شہزاد عادل نے مزید کہا کہ جب شاعر پڑھے گا اور جب قاری پڑھے گا تو، فرق تو آئے گا۔

اظہر محمود نے کہا آرزو کے مرنے کا غم انسان پر سوار ہو جایا کرتا ہے، مجھ پر یہ شعر پوری طرح کھُل رہا ہے۔ مطلع بہت عمدہ ہے، چوتھا شعر ایک منظر نامہ بناتا ہے۔ ساتواں شعر بہر لحاظ بہت نمایا ں ہے اس میں شاعر کی مشاقی ظاہر ہو رہی ہے۔ نذیر احمد انجم نے کہا: چھٹا شعر ظاہر کرتا ہے کہ شاعر نے بہت تلخیاں برداشت کی ہیں۔ رانا سعید دوشی نے اس کو دو آتشہ قرار دیا۔

نذیر احمد انجم کی خواہش تھی کہ تصور حسین تصور کے نکتہ پر بات کی جائے، تاہم اکثر احباب کا خیال تھا کہ غزل پر بات مکمل ہو لے، پھر اس پر بات کرتے ہیں، کہ یہ نکتہ غزل سے براہِ راست تعلق نہیں رکھتا۔

صدرِ مجلس جناب وحید ناشاد نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا: یہ غزل تفہیم میں خاصی آسان ثابت ہوئی، مطلع پر رانا صاحب کی بات بہت عمدہ ہے، دیگر احباب نے بھی تقریباً ہر پہلو پر سیر حاصل گفتگو کی۔ یہ ایک کامیاب غزل ہے اور میں یقین کے ساتھ اس پر اپنی پسندآوری کا اظہار کر رہا ہوں۔ صاحبِ غزل نے احباب کا شکریہ ادا کیا۔

تصور حسین تصور کے اٹھائے گئے نکتے پر کہ ’’صاحبِ صدر‘‘ کی بجائے ’’صدرِ محفل‘‘ یا ’’صاحبِ صدارت‘‘ کہا جانا چاہئے؛ رانا سعید دوشی، محمد یعقوب آسیؔ اور عارف خیام راؤ نے مکمل اتفاق کااظہار کیا۔ احباب نے کہا کہ بعض تراکیب درست نہ ہوتے ہوئے بھی رائج ہو جایا کرتی ہیں، جیسا کہ ’’صاحبِ صدر‘‘ کے ساتھ ہے؛ اصولی طور پر تصورحسین تصور کا مؤقف درست ہے۔ تصور حسین تصور نے اس پر ممنونیت کا اظہار کیا۔

ناظمِ اجلاس شہزاد عادل نے شعری نشست کا آغاز اپنے اشعار سے کیا:
اسپِ غم پر سوار ہے دنیا
موت کی راہ وار ہے دنیا
زخم ہے مائلِ نمو میرا
کس لئے بے قرار ہے دنیا​

اظہر محمود:
اب تو روشن ہوں خد و خال مرے
آئنے ہو گئے نڈھال مرے
ختم ہو جائے گا مرا قصہ
ختم ہوتے نہیں وبال مرے​

تصور حسین تصور:
بک بک اتھرو حل ہسے دا
کیہ جیہا پایا پھل ہسے دا
اکھیاں وچوں نظری آندا اے
سینے اند سل ہسے دا​

عارف خیام راؤ نے ایک بلاعنوان مختصر نظم پیش کی:
روز کے مسافر کا
راستہ بھی تنگ آ کر
ساتھ چھوڑ دیتا ہے​

طارق بصیر:
تیرے کولوں رُس کے میرا ٹر پینا
تیری اکھ دیاں جھڑیاں مینوں لے ڈُبیاں
اکھیاں سانبھ کے رکھیاں بے وس ہو گئیاں
اچی تھانویں لڑیاں مینوں لے ڈُبیاں​

رانا سعید دوشی:
میں نے بھی دودھ پیا ہے اسی دھرتی ماں کا
اس لئے ہیں یہ شجر میرے رضاعی بھائی
تیرا دشمن بھی وہی ہے جو مرا دشمن ہے
اب مناسب نہیں آپس میں لڑائی بھائی​

محمد یعقوب آسیؔ :
اب کے اس رنگ میں کھلی ہے بہار
رنگ موجود، باس نا موجود
جو بگولوں کو کہہ رہے ہیں نسیم
ان سے کہئے بھی کیا کہ ہے بے سود​

صدرِ محفل جناب وحید ناشاد نے نظم پیش کی: ’’کبھی اے کاش ایسا ہو‘‘۔ ان کی پیش کردہ غزل سے دو شعر
جرم جیسے کر دیا ہے میں نے اڑنا سیکھ کر
شہر کے سب لوگ جلتے ہیں مری پرواز سے
آ رہا ہے ڈر مجھے انجام کا آغاز سے
ابتدا سے ہی نظر آتے ہیں وہ ناراض سے​

۔۔۔
صدرِ محفل (صدرِ حلقہ) جناب وحید ناشاد کی اجازت سے ناظمِ مالیات نے مختصر رپورٹ پیش کی۔ ناطمِ اجلاس (معتمد عمومی) نے اجلاس کو بتایا کہ مجلس عاملہ نے نومبر ۲۰۱۴ء کے آخری عشرے میں خصوصی محفلِ مشاعرہ منعقد کرنے کی منظوری دے دی ہے، اور اس سلسلے میں ذمہ داریوں کی ابتدائی تقسیم ہو چکی ہے۔ خصوصی مشاعرے پر اٹھنے والے اخراجات کی میں ہر رکن مبلغ دو ہزار روپے زرِ تعاون ادا کرے گا، نذیر احمد انجم صاحب نے کچھ زائد تعاون کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ دیارِ ادب کا سہ ماہی خبرنامہ ’’ادب زار‘‘ سال ۲۰۱۵ء کی پہلی سہ ماہی سے جاری کرنے کے انتظامات کئے جا چکے ہیں۔خصوصی محفلِ مشاعرہ کے بعد اس کو حتمی شکل دی جائے گی۔

طے کیا گیا کہ آج کے بعد دیارِ ادب کے معمول کے ادبی اجلاس ہفتہ وار ہوا کریں گے:ہر ہفتے (سنیچر) کے دن مغرب کی نماز کے بعد اسی کمرے میں؛ اگلا اجلاس ہفتہ یکم نومبر ۲۰۱۴ء کو ہو گا جس میں حاضر شعراء سانحۂ کربلا کے حوالے سے اپنے اشعار پیش کریں گے۔

روداد نگار: ... محمد یعقوب آسیؔ (معتمد نشریات)​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل برائے تنقید
۱
کیسا ماحول سازگار ہوا
دل زدوں میں مرا شمار ہوا
۲
یار محوِ شمارِ رنج و طرب
عشق بھی جیسے کاروبار ہوا
۳
آرزو قبر میں اتار آئے
غم مگر جان پر سوار ہوا
۴
کرب دل میں چھپا لیا سارا
دوستوں پر مرے جو بار ہوا
۵
بیڑیاں ذات کی کبھی توٹوٹیں؟
آپ سے کب کوئی فرار ہوا
۶
لفظ تو تیز دھار تھے، سو تھے
اس کا لہجہ بھی آب دار ہوا
۷
آگہی آگ ہی تو ہوتی ہے
کوئی کندن کوئی غبار ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد یعقوب آسیؔ​

۔۔۔
 
دیارِ ادب ٹیکسلا کی تنظیمِ نو
روداد نگار: شہزاد عادل

یہاں دو تبدیلیاں نوٹ فرما لیجئے:
1۔ اجلاس کا مقام: میکینیکل انجینئرنگ بلاک، انجینئرنگ یونیورسٹی ٹیکسلا
2۔ اجلاس کے دن: ہر ہفتے (سنیچر) کی شام (بعد از نمازِ مغرب)


دیار ادب ٹیکسلا

یہاں دو تبدیلیاں نوٹ فرما لیجئے:
1۔ اجلاس کا مقام: میکینیکل انجینئرنگ بلاک، انجینئرنگ یونیورسٹی ٹیکسلا
2۔ اجلاس کے دن: ہر ہفتے (سنیچر) کی شام (بعد از نمازِ مغرب)
 

ایوب ناطق

محفلین
خواہش ہے کہ اسی طرح کا تنقیدی سلسلہ استاد محترم محمد یعقوب آسی صاحب کی رہنمائی اور سرپرستی میں آن لائن اس فورم میں شروع کیا جائے ۔۔۔
 
آخری تدوین:
Top