اختر شیرانی

رضوان

محفلین
اے دل وہ عاشقي کے فسانے کدہر گئے؟
وھ عمر کيا ہوئي ، وہ زمانے کدہر گئے؟
ويراں ہيں صحن و باغ، بہاروں کو کيا ہوا
وہ بلبليں کہاں وہ ترانے کدہر گئے؟

تھے وہ بھي کيا زمانے کہ رہتے تھے ساتھ ہم
وہ دن کہاں ہيں اب وہ زمانے کدہر گئے؟
ہے نجد میں سکوت ہواؤں کو کيا ہوا
ليلائيں ہيں خموش دوانے کدہر گئے؟

صحراء و کوہ سے نہيں اٹھي صدائے درد
وہ قيس و کوہکن کے ٹھکانے کدہر گئے؟
اجڑے پڑے ہيں دشت غزالوں پہ کيا بني
سوتے ہيں کوھسار دوانے کدہر گئے؟

وہ ہجر ميں وصالت کي اميد کي اميد کيا ہوئي
وہ رنج ميں خوشي کے بہانے کدہر گئے؟
غيروں سے تو اميد وفا پہلے نہ تھا
رونا يہ ہے کہ اپنے يگانے کدہر گئے؟

دن رات ميکدے ميں گزرتي تھي زندگي
اختر وہ بے خودي کے زمانے کدہر گئے
 

رضوان

محفلین
نہ ساز و مطرب نہ جام و ساقي نہ بہار چمن ہے باقي
نگاہ شمع سحر کے پردے پہ نقشہ انجمن ہے باقي
بھلاچکي دل سے شام غربت ہر ايک نقشہ ہر ايک صورت
ہماري آنکھوں ميں ليکن اب تک فروغِ صبحِ وطن ہے باقي

زمانہ بدلا مِٹي جواني نہ وہ محبت نہ زندگاني
بس ايک بھولي سي ياد ہے جو برنگ داغ کہن ہے باقي
حباب آسا محيط ہستي ميں جو ہے مٹنے کو بن رہا ہے
ہے انقلاب اک نمود اک نمود ايسي جو زير چرغ کہن ہے باقي

ہم زمانہ کي سختيوں سے ہوئي ہے پامال طبع اختر
نہ وہ نشاط کہن ھے باقي نہ وہ مذاق سخن ہے باقي
 

رضوان

محفلین
ہے نشاط لالہ و گل ميں کيا، ہے بہار سر و سمن ميں کيا؟
مجھے کب دماغ ہے سير کا، ميں کروں گا جاکے چمن ميں کيا؟
مرا واسطہ ہے حظ سے کيا ، مرا کام باغ ختن ميں کيا؟
وھ شميم روح فزا نہيں ترے گيسوؤں کي شکن ميں کيا؟

ھمہ فتنہ و ھمہ فتنہ گر، ھمہ تيرہ دل، ھمہ خيرہ سر
ھے يہ حال اہل وطن اگر، تو کريں گے جاکے وطن ميں کيا؟

وہ سواد رنگ و نظر نہيں، وہ فضائے شام و سحر نہيں
وہ بہار باغ و شجر نہيں، توہے لطف سير چمن ميں کيا؟
 

رضوان

محفلین
وادئ گنگا ميں ايک رات
کرتے ہيں مسافر کو محبت سے اشارے
اے وادي گنگا ترے شاداب نظارے

يہ بکھرے ہوئے پھول يہ بکھرے ہوئے تارے
خوشبو سے مہکتے ہوئے دريا کے کنارے
يہ چاندني رات اور يہ پر خواب فضائيں
اک موج طرب کي طرح بے تاب فضائيں

سبزے کا ہجوم اور يہ شاداب فضائيں
مہکے ہوئے نطارے ہيں بہکے ہوئے تارے
يہ تارے ہيں کہ نور کے مے خانے ہيں آباد
معصوم و حسيں حوروں کے کاشانے ہيں آباد

مستانہ ہواؤں پہ پري خانے ہيں آباد
يادامن افلاک ميں بے تاب شرارے
مہتاب ہے يا نور کي خوابيدہ پري ہے
الماس کي صورت ہے کہ مندر ميں دہري ہے

نيندوں ميں ہيں کھوئي ہوئي بے دار ہوائيں
گل زار ميں گل ريز گہر بار ہوائيں

يا نور ميں ڈوبي ہوئي سرشارہوائيں
يا بال فشاں مستي و نکہت کے نظارے

صحرا ہيں کہ خوابيدہ نظاروں کے شبستاں
دامن ميں لئے چاندستاروں کے شبستاں

فردوس کي پر کيف بہاروں کے شبستاں
شاعر کو تمنا ہے يہيں رات گزارے
 

رضوان

محفلین
وہ کہتے ہيں رنجش کي باتيں بھُلا ديں
محبت کريں، خوش رہيں، مسکراديں
غرور اور ہمارا غرور محبت
مہ و مہر کو ان کے در پر جھکا ديں

جواني ھوگر جاوداني تو يا رب
تري سادہ دنيا کو جنت بناديں
شب وصل کي بےخودي چھارہي ہے
کہوتو ستاروں کي شمعيں بجھاديں

بہاريں سمٹ آئيں کِھل جائيں کلياں
جو ہم تم چمن ميں کبھي مسکراديں
وہ آئيں گے آج اے بہار محبت
ستاروں کے بستر پر کلياں بچھاديں

بناتا ھے منہ تلخئ مے سے زاہد
تجھے باغ رضواں سے کوثر منگا ديں
تم افسانہ قيس کيا پوچھتے ہو
آؤ ہم تم کوليليٰ بنا ديں

انہيں اپني صورت پہ يوں کب تھا
مرے عشق رسوا کو اختر دعا ديں
 

رضوان

محفلین
ہے جام خالي تو پھيکي ہے چاندني کيسي
يہ سيل نور ستم ہے، شراب ہونہ سکی



××××××××××××××××××××××××××××××××××


اللہ اللہ تري آنکھوں کا چھلکتا ہوا کيف
جيسے مستي ميں الٹ دے کوئي پيمانے چند

چٹکياں لينے لگا دل ميں نشاطِ طِفلي
آج ياد آگئے بھولے ہوئے افسانے چند


×××××××××××××××××××××××××××××××××××××××××

گلزار جہاں ميں گل کي طرح، گوشاد ہيں ہم شاداب ہيں ہم
کہتي ہے يہ ہنس کر صبح خزاں ، سب ناز عبث اک خواب ہيں ہم

دو دن کے لئے ہم آئے ہيں، اک شب کي جواني لائے ہيں
فردوسِ سرائےہستي ميں، ھم رنگ گل مہتاب ہيں ہم
 

رضوان

محفلین
کون آيا ہے ميرے پہلو ميں خواب آلودہ
زلف برہم زدہ و چشم حجاب آلودہ
آہ يہ زلف ہے يا ابر سر مئے جامے
آہ يہ آنکھ ہے يا جام شراب آلودہ

کس کے ملبوس سےآتي ہے حنا کي خوشبو
کس کے ہرسانس کي جنبش ہے گلاب آلودہ
کس کو شکوہ ہےمرے عشق سےرسوائي کا
کس کا لہجہ ہے بايں لطف عتاب آلودہ

پھر ہم آغوشي کو موسم نےبکھيرے گيسو
پھر فضائيں نظر آتي ہيں سحاب آلودہ
 

رضوان

محفلین
قرار چھين ليا بے قرار چھوڑ گئے
بہار لے گئے يادِ بہار چھوڑ گئے

ہماري چشم حزيں کا خيال کچھ نہ کيا
وھ عمر بھر کے لئے اشکبار چھوڑ گئے
جسے سمجھتے تھے اپنا وہ اتني مدت سے
اسي کو آج وہ بيگانہ وار چھوڑ گئے

رگوں میں اک طبش درد کار جاگ اٹھي
دلوں ميں اک خلشِ انتظار چھوڑ گئے
ہوائے شام سے آنے لگي صدائے فغاں
فضائے شوق کو ماتم گسار چھوڑ گئے

نشاطِ محفل ليل و نہار لوٹ ليا
نصيب ميں غمِ ليل و نہار چھوڑ گئے
گھٹائيں چھائي ہيں ساون ہے مينہ برستا ہے
وہ کس سمے ميں ہميں اشکبار چھوڑ گئے

دل حزيں ہے اب اور عہد رفتہ کا ماتم
چمن کے سينے پہ داغِ بہار چھوڑ گئے
چھڑا کے دامن اميدِ دل کے ہاتھوں سے
سواد ياس ميں ماتم گسار چھوڑ گئے

نہ آيا رحم ميرے آنسوؤں کي مِنت پر
کيا قبول نہ پھولوں کا ہار چھوڑ گئے
اميد و شوق سے آباد تھا ہمارا دل
اميد و شوق کہاں اک مزار چھوڑ گئے

تمام عمر ہے اب اور فراق کي راتيں
يہ نقش گيسوئے مشکيں بہار چھوڑ گئے
ترس رہے ہيں مسرت کو عشق کے ارماں
ہميں ستم زدہ و سوگوار چھوڑ گئے

اميد خستہ، سکوں مضطرب ، خوشي بسمل
جہانِ شوق کو آشفتہ کار چھوڑ گئے
نگاہ درد کي غرض حزيں قبول نہ کي
ہميں وہ غمزدہ و دلفگار چھوڑ گئے

کسے خبر ہے کہ اب پھر کبھي مليں نہ مليں
نظر ميں ايک ابدي انتظار چھوڑ گئے
ہماري ياد بھُلا کر وہ چل ديے اختر
اور اپني ياد ، فقط يادگار چھوڑ گئے
 

رضوان

محفلین
وعدہ اس ماہ رو کے آنے کا
يہ نصيبہ سياہ خانے کا

ذرے ذرے ميں بے حجاب ہيں وہ
جن کو دعوي ہے منہ چھپانے کا

حاصل عمر ہے شباب، مگر
اک يہي وقت ہےگنوانے کا

اس کي بدلي ہوئي نظر توبہ
يوں بدلتا ہے رخ زمانے کا

کر دياخوگر ستم اختر
ھم پہ احسان ہے زمانے کا
 

رضوان

محفلین
ادائے پردہ کتني دل نشين معلوم ہوتي ہے
پس پردہ کوئي ناز آفريں معلوم ہوتي ہے

يہ کس کو ديکھ کر ديکھا ہے ميں نے بزم ہستي کو
کہ جوشے ہے وہ نگاہوں کو حسین معلوم ہوتي ہے

کسي کا عشق آپہنچا ہے رسوائي کي منزل تک
نگاہ شوخ اب کچھ شرمگيں معلوم ہوتي ہے

×××××××××××××××××××××××××××××××××××××××

مجھے ميخانہ تھرّاتا ہوا محسوس ھوتا ہے
وھ ميرے سامنے اٹھلا کے جب پيمانہ رکھتے ہيں

جواني بھي تو اک موج شراب تند و رنگيں ہے
برا کيا ہے اگرہم مشروب رندانہ رکھتے ہيں

چمن کي ہر کلي سے نور کي مستي جھلکتي ہے
در و ديوار سے مہتاب کي شوخي جھلکتي ہے
 
Top