تفسیر

محفلین

کون کہتا ہے کہ موت آئ تو مرجاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا


احمد ندیم قاسمی



فا ع لا تن | ف ع لا تن | ف ع لا تن | فع لن کو ن کے تا | ہ ک مو آ | ء ت مر جا | ؤ گا مے ت دریا | ہ س من در | م اتر جا | ؤ گا


2 1 2 2 | 1 1 2 2 | 1 1 2 2 | 2 2 کو ن کے تا | ہ ک مو آ | ء ت مر جا | ؤ گا مے ت دریا | ہ س من در | م اتر جا | ؤ گا


--- ۔ -- -- | ۔ ۔ -- -- | ۔ ۔ -- -- | -- -- کو ن کے تا | ہ ک مو آ | ء ت مر جا | ؤ گا مے ت دریا | ہ س من در | م اتر جا | ؤ گا
 

الف عین

لائبریرین
تفسیر۔ مرا خیال ہے کہ ’موت آ‘ کی تقطیع ’موتا‘ ہو گی۔ نہ کہ ’موآ‘
اور یہ ’کہتا‘ کو ’کے تا‘ کرنےکی ضرورت؟؟؟
 

تفسیر

محفلین
تفسیر نے کہا:
السلام علیکم اعجاز صاحب ۔

مجھے خوشی ہوئی کہ آپ نے اس تقتیطع پر توجہ کی ۔ اورخامیوں کو بتایا۔

میری سوچ یہ تھی کہ شعر پڑھنے میں 'ہ' کی آواز نہیں آتی۔ اس لیےمیں نے یہاں ‘ہ ‘ کو مکتوبی سمجھا ہے۔ " ت" کو گرانے کی وجہ شعرائے کرام کوکچھ مراعات ( Poetic License ) عروضیوں نے بطور جواز دے رکھے ہیں۔ یہ ان میں سے ایک ہے۔ دوست ، پوست، میں سے " ت" کو حذف کردیا جاتا ہے۔ گویا ان کا وزن وہی ہوگا جو علم ، عقل ، ( ۔ -- ) وغیرہ الفاظ کا ہے۔ اس کے علاوہ ' موت آ ' کو میں نے 'موتا' بنانا اس لئے نہیں مناسب سمجھا کہ دوسرے اشعار کو دیکھنے یہ پتہ چلا کہ یہ بحر رمل مثمن مخبون محذوب مقطوع ہے۔ اس بحر کا صدراور ابتدا ، میں سالم یا مخبون آسکتا ہے لیکن دوسرا اور تیسرا رکن (حشو) لازماً مخبون آتا ہے۔ اس وجہ سے یہاں میں' آ' کو سالم رکھا۔ ' موتا، کرنے سے پہلے حشو میں خامی پیدا ہوجاتی۔ ہوسکتا ہے کہ میری یہ سوچ غلط ہو۔آپ میری راہ نمائی کیجئے

شکریہ

والسلام
 

فاتح

لائبریرین
تفسیر صاحب،
السلام علیکم!
سب سے پہلے تو یہ خوبصورت اور فیض‌رساں سلسلہ آگے بڑھانے پر آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔ بعد ازاں درج ذیل دو نظریات سے کچھ اختلاف بھی ظاہر کروں گا:


میری سوچ یہ تھی کہ شعر پڑھنے میں 'ہ' کی آواز نہیں آتی۔ اس لیےمیں نے یہاں ‘ہ ‘ کو مکتوبی سمجھا ہے۔
اس معاملے میں میری سوچ آپ سے کچھ مختلف ہے کہ یہاں 'ہ' کی آواز ظاہر ہو رہی ہے اور میں اسے 'ملفوظی و مکتوبی' سمجھتا ہوں۔ گو کہ 'ہ' "مکتوبی غیر ملفوظی" حروف میں شمار ہوتا ہے لیکن مندرجہ بالا مثال میں 'ہ' کو گرا کر 'ے' کا اضافہ درست نہیں کیونکہ ہر دو صورتوں میں وزن ایک ہی رہے گا تو یہ ترمیم کیونکر کی جائے؟


' موت آ ' کو میں نے 'موتا' بنانا اس لئے نہیں مناسب سمجھا کہ دوسرے اشعار کو دیکھنے یہ پتہ چلا کہ یہ بحر رمل مثمن مخبون محذوب مقطوع ہے۔ اس بحر کا صدراور ابتدا ، میں سالم یا مخبون آسکتا ہے لیکن دوسرا اور تیسرا رکن (حشو) لازماً مخبون آتا ہے۔ اس وجہ سے یہاں میں' آ' کو سالم رکھا۔ ' موتا، کرنے سے پہلے حشو میں خامی پیدا ہوجاتی۔ ہوسکتا ہے کہ میری یہ سوچ غلط ہو ۔
'مخبون' کا مطلب ہے خَبن کے زحاف کے تحت بنایا گیا رکن۔ 'خَبن' کا شمار زحافات میں ہوتا ہے یعنی کسی رکن کے پہلے سبب خفیف (فا) کے دوسرے حرف کو گرانا مثلآ فَاعِلَاتُن کے فا کا الف گرا کر اسے فَعِلَاتُن بنا دیا گیا۔
لیکن 'ہَ کِ مَو آ' اور 'ہَ کِ مَوتَا' دونوں ہی فَاعِلَاتُن کی مخبون شکل یعنی 'فَعِلَاتُن' کے وزن پر پر ہیں لہٰذا 'ت' کو گرانے کا جواز ہی نہیں بچتا۔
یوں بھی 'ت' کا شمار 'مکتوبی غیر ملفوظی' حروف (ا،ن،و،ہ،ی) میں کسی صورت نہیں کیا جا سکتا یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ تقطیع میں 'ت' کا گرانا نا جائز ہے۔

ایک مرتبہ پھر عرض کر دوں کہ میں نے وہ لکھا ہے جو آج تک عروض کی کتابوں میں پڑھا ہے۔ اور اس تنقید کا مقصد محض تبادلہ خیال ہے نا کہ دل شکنی۔
والسلام،
 

محمد وارث

لائبریرین
سبحان اللہ بہت اچھی بحث چل نکلی ہے، گو فاتح صاحب کی تفصیلی پوسٹ کے بعد، جس سے مجھے مکمل اتفاق ہے، کسی اضافے کی ضرورت تو نہیں رہی لیکن چند ایک گزارشات جن سے شاید کچھ مزید وضاحت ہو سکے:

ت کا گرانا اور الفِ وصل:

تفسیر صاحب نے تائے تحتانی (ت) کے گرانے کا جو اصول بیان کیا ہے وہ بالکل صحیح ہے لیکن قاسمی کے شعر پر اسکی تطبیق میں شاید تھوڑا سا تسامح ہو گیا۔ اسکا اصول یہ ہے کہ وہ فارسی الفاظ جس میں اوپر تلے تین ساکن حروف آتے ہیں اور عموماً آخری حرف 'ت' ہوتا ہے انکی آخری 'ت' عروضی وزن میں سرے سے شمار ہی نہیں ہوتی یعنی الفاظ دوست، پوست، گوشت، نیست، چیست سب کا عروضی وزن فعل ہوگا یعنی عروض میں اسے دوس، پوس، گوش وغیرہ سمجھا جاتا ہے۔

مثلاً فراز کی ایک غزل کے کچھ اشعار اور یہ اسی بحر میں ہیں جس میں قاسمی کی غزل کا شعر ہے یعنی رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع:

دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا
وہ ہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا

یعنی

دوس بن کر - فاعلاتن
ب نہیں سا - فعلاتن
ت نبانے - فعلاتن
والا - فعلن

ایک اور شعر

تم تکلّف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

اسکے دوسرے مصرعے میں بھی 'دوست' کا یہی 'حشر' ہوا ہے۔

اب قاسمی صاحب کے شعر کو دیکھتے ہیں، اس میں قاسمی نے 'ت' کو نہیں گرایا بلکہ 'الف وصل' کا استعمال کیا ہے کیونکہ 'ت' کو ما سوائے اوپر والے اصول کے شعر کے درمیان کسی طور بھی نہیں گرایا جا سکتا بلکہ نا جائز ہے۔ الف وصل کے استعمال کا اصول یہ ہے کہ ہے اگر پچھلا حرف ساکن ہے اور حرفِ علت نہیں ہے تو اگلے حرف کے الف کو گرا کر پچھلے حرف کے ساتھ مدغم کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً فراز کی اوپر والی غزل کا ایک اور شعر ہے۔

صبح دم چھوڑ گیا نکہتِ گل کی صورت
رات کو غنچۂ دل میں سمٹ آنے والا

اسکے دوسرے مصرع کو دیکھیں

رات کو غن - فاعلاتن
چ ء دل میں - فعلاتن
س م ٹا نے - فعلاتن
والا - فعلن

اس میں دیکھیئے کہ سمٹ آنے کو الف وصل کا استعمال کر کے یعنی ٹ ساکن ہے اور حرف علت بھی نہیں ہے سو اگلے لفظ میں 'آ' کے ایک الف کو واصل کر دیا ہے اور اس کو سِمَٹانے بنایا ہے۔

بعینہ قاسمی صاحب نے بھی یہی کیا ہے اور الف وصل کا استعمال کر کے 'موت آ' کو 'موتا' بنا کر وزن پورا کیا ہے۔ الف وصل پر مزید وضاحت یہاں دیکھیئے۔

میں تفسیر صاحب کا شکر گزار ہوں کہ وہ اس 'خشک' لیکن شاعری کے انتہائی اہم موضوع کہ جسکے بغیر شاعری ممکن ہی نہیں، کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔

۔
 

تفسیر

محفلین
میں آپ لوگوں سے متفق ہوں


کون کہتا ہے کہ موت آئ تو مرجاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا


احمد ندیم قاسمی



فا ع لا تن | ف ع لا تن | ف ع لا تن | فع لن کو ن کہ تا | ہ ک مو تا | ء ت مر جا | ؤ گا مے ت دریا | ہ س من در | م اتر جا | ؤ گا


2 1 2 2 | 1 1 2 2 | 1 1 2 2 | 2 2 کو ن کہ تا | ہ ک مو تا | ء ت مر جا | ؤ گا مے ت دریا | ہ س من در | م اتر جا | ؤ گا


--- ۔ -- -- | ۔ ۔ -- -- | ۔ ۔ -- -- | -- -- کو ن کہ تا | ہ ک مو تا | ء ت مر جا | ؤ گا مے ت دریا | ہ س من در | م اتر جا | ؤ گا
 

تفسیر

محفلین


اب آپ میں سے کسی کی باری ہے


رُت بدلتی ہے تو معیار بدل جاتے ہیں
بلبلیں خار لئے پھرتی ہیں منقاروں میں

 

فاتح

لائبریرین
فَاعِلَاتُن ۔ فَعِلَاتُن ۔ فَعِلَاتُن ۔ فِعلُن
رُت بدلتی ۔ ہَ تُ معیا ۔ ربدل جا ۔ تے ہے
فَاعِلَاتُن ۔ فَعِلَاتُن ۔ فَعِلَاتُن ۔ فِعلُن
بلبلے خا ۔ رلیے پر۔ تِ ہَ من قا ۔ رو مے
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ فاتح اور وارث۔ میں تو اتنا قابل وغیرہ نہیں۔ ماشا ءاللہ آپ لوگوں کی عروضی نظر کتابی ہے، میں تو محض اکتسابی ہوں اس معاملے میں۔ والد مرحوم سے ہی جو کچھ سیکھا تھا، بس وہی علم ہے۔ جو دو ایک کتابیں پڑھی تھیں وہ بھی بچپن میں ہی۔ اس وقت تو میرے پاس کوئی لتریچر بھی نہیں ہے۔
تفسیر۔ سلسلہ جاری رکھو۔ امید ہے کہ نئے شعراء کو اس سے مدد ملے گی۔ میں بھی ذرا کچھ ثقہ واقع ہوا ہوں کہ نثری نظم کو گھاس کم ہی ڈالتا ہوں۔۔
 
Top