احمد ندیم قاسمی کی افسانہ نگاری

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
یوں تو احمد ندیم قاسمی مختلف اصناف ادب کی تحقیق اور تخلیق میں مصروف رہے جن میں نظم ، غزل ، افسانہ ، کالم نویسی ، بچو ں کی کتابیں ، تراجم ، تنقید اور ڈرامے وغیرہ شامل ہیں ۔لیکن زیر نظر مضمون میں صرف ان کے فن ِ افسانہ نگاری پر بحث ہو گی۔ اگرچہ کوئی بھی ادبی تخلیقی شخصیت مختلف اصناف کی تخلیق میں اظہار اور موضوعات کے کچھ بنیادی رنگوں کو اہمیت دیتی ہے۔ تاہم ادب کی ایک آدھ صنف ہی ایسی ہوتی ہے جس میں صاحبِ تحریر اپنے تخلیقی یا نفسیاتی پس منظر کے حوالوں سے اظہار کی مناسب سہولت محسوس کرتا ہے۔ لیکن نثری ادب میں افسانہ ہی وہ واحد صنف ہے جس میں ندیم کا قلم جولانیِ طبع کے امکانات روشن کرتا ہے۔انہوں افسانوں کے کئی مجموعے تخلیق کیے آئیے ان کے فن اور فکر کی خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں۔

پنجاب کی دیہاتی زندگی:۔

احمد ندیم قاسمی کو خصوصی طور پرپنجاب کی دیہاتی زندگی کا عکاس افسانہ نگار کہا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ دیہی پس منظر میں لکھے گئے ندیم کے افسانے ہمارے دیہاتی زندگی، وہاں کی طرز معاشرت ، رہن سہن، طبقاتی نظام ، معصومیت اور الہڑ پن کے دلکش جیتے جاگتے مرقعے ہیں۔ اردو میں پنجاب کے دیہات کے پس منظر میں اس سے خوبصوررت کہانیاں اور کسی نے نہیں لکھیں۔ شاید اس کی بنیادی وجہ ندیم کا شعور اور لاشعور ہے جس میں زندگی کے حوالے سے تمام بنیادی خدوخال دیہات ہی کے پس منظر سے متعلق ہیں۔چونکہ ندیم کی پیدائش دیہات میں ہوئی اس کا بچپن اور لڑکپن گائوں ( انگہ) میں گزرا ۔ یہیں اس کے کچے پکے جذبات پروان چڑھے ، اسی مٹی کی مہک اُسے اپنی رگوں میں اترتی محسوس ہوئی۔ دیہات ہی کی سادگی کا بے ساختہ پن ندیم کے لب و لہجہ کی پہچان بنا اور یہی فضا ہے جس کی گرفت سے وہ دیہاتی سے شہری بن جانے کے باوجود باہر نہیں نکل سکا۔

زندگی اور معاشرے کا شعور:۔

دراصل جس زندگی سے افسانہ نگار کی واقفیت درست اور براہ راست ہو اسے اپنے تخیل میں خام مواد کے طور پراستعمال کرنا سونے پر سہاگے کے مترادف ہوتا ہے۔ یہاں ایک بات یہ بھی کہی جا سکتی ہے کہ ندیم نے ممکن ہے متوسط یا دیہات کی زندگی کا انتخاب یہ سوچ کر کیا ہو کہ متوسط یا زیادہ تر نچلے طبقوں کی زندگی میں جو زمین میں اپنی جڑیں مضبوط رکھتے ہیں اور مٹی سے جن کا ناتا بڑ بھر پور ہوتا ہے بنیادی انسانی محرکات کا مطالعہ جس بے ساختگی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے اتنا شاید ان لوگوں کے حوالے سے ممکن نہ ہو جو اپنی فطرت ِ انسانی کو مصنوعی تہذیب ، معاشرت کا لبادہ پہنا دیتے ہیں اور یوں ان کا مصنوعی پن ان کے رہن سہن کے تمام بنیادی رویے مصنوعی بنا دیتا ہے۔اگرچہ منافقت کے حوالے سے مختلف کرداروں پر لکھے گئے ندیم کے افسانوں کے بنیادی موضوعات وہ معاشرتی قدغنیں ہیں معاشی ناہمواریاں ہیں جو ہماری زندگی میں قدم قدم پر موجود ہیں اور بھیس بدل بدل کر ہمارا استحصال کرتی ہیں انہی کی وجہ سے ظلم و انتقام کی بے شمار شکلیں ہمارے سامنے آتی ہیں اور سیاست و مذہب کے ٹھیکیدار اپنے مفادات کی بقا کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر ان فاصلوں کو ہوا دیتے رہتے ہیں۔

جنگ عظیم کے اثرات:۔

اسی طرح ان کے افسانوں کے موضوعات میں مقامی جنگوںکے علاو ہ عالمی جنگیں بھی ہیں جن کی تباہ کاریوں کا نشانہ وہ ضرور ت مند بنتے ہیں جن کے پیٹ روٹی مانگتے ہیں اور جن کے بدن لباس کو ترستے رہتے ہیں اور جو اپنی مادی ضروریات کے ہاتھوں مجبور ہو کر بخوشی غیر حکومت کے مقاصد کی تکمیل غیر محسوس طریقے سے کرتے ہیں ۔ اور یوں غیروں کی جنگ میں ایندھن کا کام دیتے ہیں۔ ندیم کے ایسے افسانوں میں خصوصیت کے ساتھ ”ہیروشیما سے پہلے۔ ہیروشیما کے بعد“ کا نام لیاجا سکتا ہے جو اردو کے بہترین اور بڑے افسانوں میں سے ایک ہے اور جس سے ہمیں یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ جنگیں اپنے اختتام کے باجود بھی ایسے کئی سماجی مسائل پیدا کر جاتی ہیں جن میں نہ انسانوں کی عزت و عصمت محفوظ رہتی ہے نہ خاندانوں کی عظمت و آبرو۔

وسعت نظر:۔

ادیب کا کام اپنے دور کی زندگی کی ترجمانی اپنے دور کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر عہد کے لیے کرنا ہوتی ہے۔ افسانے ”ہیرو شیما سے پہلے۔ ہیرو شیما کے بعد“ میں ہیرو شیما پر بم گرا کر جاپانیوں کو شکست دینا دوسری عالمگیر جنگ کا شدید ترین واقعہ تھا لیکن ندیم صرف اس واقعے کے حوالے سے نہیں بلکہ پوری جنگ کے پس منظر میں اس کا اثر پنجاب کے دیہات کی زندگی پر دکھاتا ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے پنجا ب کے گمنام سے گھرانے میں جو انقلاب آیا وہ ساری جنگ کی اشاراتی ترجمانی کرتا ہے۔ اس کی ہولناکیوں کا غماز ہے۔ معلوم ہوتا ہے جنگ کا ایک ایک لمحہ ایک ایک واقعہ گائوں کی زندگی میں رچ بس گیا ہے اور صدیوں سے روایت کے ایک ہی محو ر پر زندگی گزارنے والا یہی معاشرہ کشمکش اور تذبذب کا شکار ہو گیا ہے۔ بے یقینی کی کیفیت لہجوں میں جنم لینے لگی ہے۔ ہیرو کا باپ گزرتے لمحوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش رکھنے والا، غربت کے حصار سے نکلنے کے خواب دیکھنے والا۔ہیرو کی غیر موجود گی میں اپنے فطری تقاضوں سے شکست کھانے والی اور دوسرے مرد کے ساتھ بھاگ جانے والی ہیرو کی بیوی اور خود ہیرو وقت کے ساتھ انسان کی تذلیل اور برباد ہونے والی انسانیت کی ایک علامت ۔

فسادات:۔

ندیم کے افسانوں کا ایک اہم موضوع وہ فسادات ہیں جو تقسیم ہند کے موقعے پر رونما ہوئے اور جن کے پس منظر میں ظلم ، جبر ، درندگی اور بربریت کی ایسی ایسی داستانیں پنہاں ہیں جن سے انسانیت کی تذلیل تکمیل تک پہنچی اورانسانی فطرت و ذہنیت کے انتہائی پست پہلو سامنے آئے ۔ یہ موضوع ایسا ہے جس نے اردو افسانے کو ایک نئی جہت سے روشناس کرایااور اردو کے تقریباً سبھی قدآور افسانہ نگاروں نے اس موضوع کو مثبت یا منفی حوالوں سے برتا ۔ ندیم نے ان واقعات کے پس منظر میں جو افسانے لکھے وہ اس حوالے سے بڑے اہم ہیں کہ ان میں جانبداری نہیں برتی گئی۔ ندیم اس سچائی کا ادراک رکھتے ہیں کہ اچھے برے لوگ معاشرے کے تمام طبقوں میں ہوتے ہیں او رکوئی بھی قوم بہ حیثیت مجموعی ساری کی ساری ظالم یا مظلوم نہیں ہوتی۔ زیادہ تر انفرادی رویے ہوتے ہیں جن کے پس منظر میں انسان کی محرومیاں، ناکامیاں یا نفسیات کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ اسی لیے ندیم نے اس حقیقت کے باوجود کہ اسے اپنی مٹی کی خوشبو عزیز ہے اسے اپنی پاکستانیت پر فخر ہے۔ فسادات کے حوالے سے افسانے لکھتے ہوئے چھوٹی چھوٹی جزئیات پیش کرنے میںاپنی جذباتیت کو غالب نہیں آنے دیا اور ایک بالغ النظر ادیب کے طور پر اپنے فرائض سے روگردانی نہیں کی۔

غیر جانبداری:۔

فسادا ت کے موضوع پر لکھتے ہوئے بہت سے اہل قلم صرف تصویر کا ایک رخ بےان کرتے ہیں۔ پاکستا ن سے تعلق رکھنے والوں نے غیر مسلموں کے ظلم و تشدد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور ہندوستان کے لکھاریوں نے مسلمانوں کو اس بربریت کا ذمے دار ٹھہرایا اور ا س نکتہ نظر سے لکھے گئے بہت سے افسانے جانبداری اور رواداری کی گر د میں ہمیشہ کے لیے گم ہو گئے۔ تاہم منٹو کے بعد ندیم و ہ اہم افسانہ نگار ہیں جس نے اپنے افسانوں میں یہ بات کہنے کی کوشش کی ہے کہ یہ حالات ہوتے ہیں جو کسی بھی قوم یا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو مطمئن یا مشتعل کر سکتے ہیں اور یہ کہ انسان دوستی کے عناصر آفاقی ہیں یہ صرف مسلمانوں ، ہندوئوں ، سکھوں، عیسائیوں تک محدود نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں اُ ن کا افسانہ ”پرمیشر سنگھ“ بہت ہی اہم ہے۔

انسانی نفسیات سے آگاہی:۔

ندیم نے اپنے افسانوں میں قبائلی دور کے انسان کے انتقام اور رقابت کے اس موضوع کو بھی اپنی تحریروں میں شامل کیا ہے جو معمولی سے جھگڑے، نام نہاد اناپرستی یا جھوٹی غیرت کی بدولت انسانوں کو خاک و خون میں نہلا دینے کا پس منظررکھتا ہے۔ لیکن یہاں بھی ندیم انسانی نفسیات سے آگاہی کا ثبوت دیتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ پتھر سے پتھر دل انسان میں بھی محبت اور رحم کے جذبات ضرور ہوتے ہیں اور کہیں نہ کہیں کبھی نہ کبھی غیر محسوس طریقے سے اپنا اظہار بھی کرتے ہیں۔ نیکی او ر بدی کے جذبات انسانی کردار کی تکمیل کا ایک حوالہ ہیں۔ کوئی انسان مکمل طور پر نیک نہیں ہوسکتا اور کوئی انسان پوری طرح کمینہ نہیں ہوتا۔ انسان صرف انسانہوتا ہے جس میں اچھائی اور برائی کے عناصر اپنی نسبت کے حوالے سے کم و بیش ہوتے رہتے ہیں اور شاید اسی سے انسان کی پہچان ممکن ہوتی ہے ورنہ تو وہ فرشتہ بن جائے یا پھر شیطان کہلائے۔ندیم نے اس موضوع پر جو افسانے لکھے ہیں ان میں انسانی نفسیات سے آگہی اور بیا ن میں فنی گرفت کے تمام عوامل پوری طرح اپنی موزنیت کا احساس دلاتے ہیں اس ضمن میں ان کے مشہور افسانے ”گنڈاسا“ کی مثال دی جاسکتی ہے جس میں ندیم نے ایک بہت ہی نازک لیکن جمالیاتی ، نفسیاتی حقیقت کی ترجمانی کی ہے۔

موضوعات کا تنوع:۔

زندگی کا ہر جذبہ ایک دوسرے سے زنجیر کی کڑیوں کی طرح ملا ہوا ہوتا ہے کوئی جذبہ اپنی ذات میں اکیلا نہیں ہوتا ۔ پھول کی خوشبو میں مٹی کی مہک کے ساتھ ساتھ روشنی کی دھنک اور ہوا کی سرسراہٹ بھی شامل ہوتی ہے۔
ندیم ایسا فنکار ہے جس نے ان نازک جزئیات کو محسوس بھی کیا ہے اور ان کے فنکارانہ اظہار میں اپنے فنی قدو قامت کی بلندی کا ثبوت بھی بہم پہنچایا ہے۔ یہاں ایک اور اہم بات کی وضاحت از حد ضروری ہے کہ کسی بھی افسانہ نگار کے لیے وجہ امتیاز یہ نہیں ہے کہ اس کے یہاں موضوعات ِ زندگی کے تنوع میں سیاست، جمالیات، مذہب اور فلسفی موجود ہے یا نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ ان کی موجود گی یا غیر موجو د گی میں انسانی فکر نظر اور ادراک و تیقن کوکس حد تک وسعت دے سکتا ہے۔ اور اس کا نکتہ نظر میں کتنی انفرادیت ، ہمہ گیری ، توازن اور مرکزیت ہے۔

توازن اور غیر جانبداری:۔

گوپی چند نارنگ نے درست کہا ہے کہ مقصد اور فن کا حسین توازن ندیم کی کامیابی کی ضمانت بن گیا ہے۔ندیم ترقی پسند تحریک کے سرگرم رکن اور عہدیدار بھی رہے ہیں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اتنا بڑ ا ترقی پسند نہیں جتنا بڑ افنکار ہے۔ اگرچہ اس کی ذہنی و فکری تشکیل میں مارکسزم کا ایک نمایاں کردار ہے ۔ تاہم و ادب میں پروپیگنڈے کی بے اعتدالی کا کبھی شکارنہیں ہوا۔ اس کی جڑیں اپنی مٹی میں بڑی گہری ہیں۔ یوں وہ ایک غیر جانبدار مصنف کے روپ میں ابھر تے ہیں جن کے ہاں نظریے کی آمیزش سے تیار کیے گئے افسانے جابجا نظر آتے ہیں اور دوسری طرف رومان کی حسین فضا اور وطن کی مٹی سے محبت کا حوالہ بھی اُن کے افسانوں کا بنیادی خاصہ ہے۔

مجموعی جائزہ:۔

ندیم کے افسانوں میں زمین اور انسان سے ان کی بے پایاں محبت اور بھی کھل کر سامنے آتی ہے۔ ان کا تخیل پنجاب کی فضائوں میں چپے چپے سے روشناس ہے اور اس نے لہلہاتے کھیتوں ، گنگناتے دریائوں اور دھوپ میں جھلستے ہوئے ریت کے ذروں کو ایک نئی زبان دی ہے ، نئی معنویت عطا کی ہے۔ پنجاب کی رومانی فضاءاور وہاں کے لوگوں کی معصومیت و زندہ دلی ، جرات وجفاکشی اورخدمت و ایثار کی تصویریں ان کے افسانوں میں آخر لازوال ہو گئی ہیں۔ ان کے ہاں غم و غصے ، تعصب و نفرت اور تنگ نظر و تشدد کا شائبہ تک نہیں۔ ہر کہیں مہر و محبت ، خلوص و وفااور صدق و صفا کا سونا چمکتا محسوس ہوتا ہے اوریہی ان کی بڑائی کی دلیل ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top