احمد مشتاق کے ۷۵ اشعار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس راہ سے چھپ چھپ کر گزری رت سبز سنہرے پھولوں کی
جس راہ پہ تم کبھی نکلے تھے گھبرائے ہوئے شرمائے ہوئے
اب رات تھی اور گلی میں رکنا
اس وقت عجیب سا لگا تھا
چاند بھی نکلا ستارے بھی برابر نکلے
مجھ سے اچھے تو شب ۔ غم کے مقدر نکلے
شام ہوتے ہی برسنے لگے کالے بادل
صبح دم لوگ دریچوں میں کھلے سر نکلے
چھٹ گیا ابر شفق کھل گئی تارے نکلے
بند کمروں سے تیرے درد کے مارے نکلے
’ان مکینوں کو مکاں روتے ہیں
جو انہیں پھر نہ بسانے آئے
یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے
اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں
ہم کہیں کھو گئے تیری گلی کے آس پاس
اپنے گھروں کو چل دیے لوگ تجھے پکار کے
دیکھ زرد رو پہاڑ ساری تکان اتر گئی
کون زمیں پہ رکھ گیا بار ۔ سفر اتار کے
رات ڈراؤنی سہی رو نہیں غم زدہ نہ ہو
میں تیرے ساتھ ساتھ ہوں دیکھ مجھے پکار کے
ایک مدت اسے دیکھا اسے چاہا لیکن
وہ کبھی پاس سے گزرا تو بلایا نہگیا
کہیں پتی کہیں کانٹا کہیں پھول
وہ میرے سامنے آتا ہے گلستاں بن کر
پریوں کی تلاش میں گیا تھا
لوٹا نہیں آدمی ہمارا
محبت میں زیادہ سوچنا اچھا نہیں ہوتا
زیادہ سوچنے سے وسوسے گھر دیکھ لیتے ہیں
بس ذرا دیر کو رکھ لیتے ہیں آنکھوں پہ کبھی
کوئی جاتا ہے تو اب ہاتھ ہلاتے نہیں ہم
بکھر چلا ہے میرا تن مگر نہیں ٹوٹے
قمیض پر جو بٹن تھے تیرے لگائےہوئے
جانے کن بادلوں سے برسے گا
سبز دریا کا گمشدہ پانی
کھویا ہے کچھ ضرور کہ جس کی تلاش میں
ہر چیز کو ادھر سے ’ادھر کر رہے ہم
یہ کون خواب میں چھو کر چلا گیا میرے لب
پکارتا ہوں تو دیتے نہیں صدا میرے لب
یہ اور بات کسی کے لبوں تلک نہ گئے
وگرنہ پاس سے گزرے ہیں بارہا میرےلب
اب اس کی شکل بھی مشکل سے یاد آتی ہے
وہ جس کے نام سے ہوتے نہ تھے جدا میرے لب
لب سوکھ کیوں نہ جائے گلا بیٹھ کیوں نہ جائے
دل میں ہیں جو سوال اٹھاتے رہیں گےہم
دکھ کے سفر پہ دل کو راوانہ تو کر دیا
اب ساری عمر ہاتھ ہلاتے رہیں گے ہم
بہت اداس ہو تم اور میں بھی بیٹھا ہوں
گئے دنوں کی کمر سے کمر لگائے ہوئے
کتنے گھر باقی ہیں کتنی دستکیں باقی ہیں اور
اس کا دروازہ کھلے گا کتنے دروازوں کے بعد
اس سے پہلے کہ ترس جائیں نمی کو آنکھیں
لوح ۔ دل پر کوئی تصویر بنا پانی کی
سوکھتا جاتا ہے دریائے ۔ محبت مشتاق
مصرع ۔ تر سے کوئی موج اٹھا پانیکی
وہ درختوں کے ’جھنڈ دیکھتے ہو؟
وہیں بستی میں گھر ہمارا ہے
بار بار ’اس گلی میں جاتےہیں
جیسے کوئی ’ادھر ہمارا ہے
کوئی اجلا سا بھلا سا گھر تھا
کس کو دیکھا تھا وہاں یاد نہیں
پانی میں عکس اور کسی آسماں کا ہے
یہ ناؤ کون سی ہے یہ دریا کہاں کا ہے
وہ میرے خواب کی پریاں مرے خیال کے جن
چھپے ہوئے تھے عجب واہمے درختوں میں
کبھی کبھی ہم ایسے باتیں کرتے ہیں
جیسے نیند میں بچے باتیں کرتے ہیں
پھولوں کو چپ رہنے پر الزام نہ دو
اس موسم میں کانٹے باتیں کرتے ہیں
پتہ اب تک نہیں بدلا ہمارا
وہی گھر ہے وہی قصبہ ہمارا
وہی ٹوٹی ہوئی کشتی ہے اپنی
وہی ٹھہرا ہوا دریا ہمارا
کسی جانب نہیں کھلتے دریچے
کہیں جاتا نہیں رستہ ہمارا
اب دھوپ ہے اور ایک رخسار
کندن کی طرح دمک رہا ہے
پھرتا رہوں دور دور کب تک
اک روز قریب سے گزر جا
بوسے ہوئے نڈھال لبوں کی تلاش میں
ھاتھوں کے انتظار میں دستانے سو گئے
شام ۔ غم یاد ہے کب شمع جلی یاد نہیں
کب وہ رخصت ہوئے کب رات ڈھلی یاد نہیں
ٹھنڈے موسم میں پکارا کوئی ہم آتےہیں
جس میں ہم کھیل رہے تھے وہ گلی یاد نہیں
کانٹے سمجھ کے گھاس پہ چلتا رہا ہوں میں
قطرے تمام اوس کے چھالوں میں آ گئے
مزہ تو یہ ہے کہ وہ خود تو ہے نئے گھر میں
اور اس کی یاد پرانے مکاں میں رہتی ہے
شبنم کو ریت پھول کو کانٹا بنا دیا
ہم نے تو اپنے باغ کو صحرا بنا دیا
اک رات چاندنی میرے بستر پہ آئی تھی
میں نے تراش کر تیرا چہرا بنا لیا
گزر رہی ہے تمنا کے ساحلو ں سے ہوا
لرز رہے ہیں درختوں کے سائے پانی میں
گزرنے والے تو کب کے گزر چکے دل سے
یہ کون چیز چمکتی ہے نقش ۔ پا کی طرح
کیسے مکاں اجاڑ ہوا کس سے پوچھتے
چولہے میں روشنی تھی نہ پانی گھڑے میں تھا
اب ہوا معلوم دل می دائرے کیسے بنے
میں جو کنکر پھینکتا رہتا تھا پانی میں بہت
کہیں پتوں کے اند دھیمی دھیمی سرسراہٹ ہے
ابھی ہلنے لگیں گی ڈالیا آہستہ آپستہ ۔۔۔
جہاں ڈالے تھے اس نے دھوپ میں کپڑے سکھانے کو
ٹپکتی ہیں ابھی تک رسیاں آہستہ آہستہ
فضا ئے دل پہ کہیں چھا نہ جائے یاس کا رنگ
کہاں ہو تم کہ بدلنے لگا ہے گھاس کا رنگ
جب شام اترتی ہے کیا دل پہ گزرتی ہے
ساحل نے بہت پوچھا خاموش رہا پانی
وقت ہر چیز کی تقدیر بدل دیتا ہے
میں نے دیکھا ہے محبت کا فنا ہو جانا
کیا بتائیں تجھے کیا ہجر میں دل پر گزری
آنکھیں سبزے کو ترس جائیں تو کیا ہوتا ہے
دوپہر کے وقت ٹھنڈی گھاس پر لیٹا ہوا
صاف نیلے آسماں کو دیکھتا رہتا ہوں میں
اندھیرہ دیکھ کر کمرہ کسی کا
ستارے روزنوں تک آگئے ہیں
وہ سو رہا ہو اور اسے دیکھتا رہوں
مشتاق چاہتی ہے طبیعت کبھی کبھی
آنکھ سے آنسو نکل جائیں گے اور ٹھنہی سے پھول
وقت بدلے گا تو سب قیدی رہا ہو جائیں گے
رہ ۔ وفا میں خوشی کم ہے اور ملال بہت
خدا کرے کہ سلامت رہے ہنسی تیری
موسم ۔ گل ہو کہ پت جھڑ ہو بلا سے اپنی
ہم کہ شامل ہیں نہ کھلنے میں نہ مرجھانے میں
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں
دل فسردہ تو ہوا دیکھ کہ اس کو لیکن
عمر بھر کون جواں کون حسیں رہتا ہے
میں تجھے بھول نہ جاتا تو خزاں ہی رہتی
شاخ پر پھول تیری یاد دلانے آیا
راہ اس کی ہے تھکن اس کی ہے منزل اس کی
ہم کرائے کے مسافر ہیں سفر اس کا ہے
بہت رک رک کے چلتی ہے ہوا خالی مکانوں میں
بجھے ٹکرے پڑے ہیں سگریٹوں کے راکھ دانوں میں
اب راہ طلب اور بھی دشوار ہوئی ہے
اب سوچ سمجھ کر کوئی دیوانہبنے گا
فٹ پاتھ کی دیوار سے چمٹے پتے
اک روز ہواؤں کو درختوں پہ ملے تھے
ہوتے ہی شام آنکھ سے آنسو ررواں ہوئے
یہ وقت قیدیوں کی رہائی کا وقت ہے
میں نے کہا کہ دیکھ یہ میں یہ ہوا یہ رات
اس نے کہا کہ میری پڑھائی کا وقت ہے
یہ لوگ ٹوٹی ہوئی کشتیوں میں سوتے ہیں
میرے مکان سے دریا دکھائی دیتا ہے
رہ گیا مشتاق دل میں رنگ ۔ یاد ۔ رفتگاں
پھول مہنگے ہو گئے قبریں پرانی ہو گئیں
یار سب جمع ہوئے رات کی تاریکی میں
کوئی رو کر تو کوئی بال بنا کر آیا
 
اس راہ سے چھپ چھپ کر گزری رت سبز سنہرے پھولوں کی
جس راہ پہ تم کبھی نکلے تھے گھبرائے ہوئے شرمائے ہوئے
اب رات تھی اور گلی میں رکنا
اس وقت عجیب سا لگا تھا
چاند بھی نکلا ستارے بھی برابر نکلے
مجھ سے اچھے تو شب ۔ غم کے مقدر نکلے
شام ہوتے ہی برسنے لگے کالے بادل
صبح دم لوگ دریچوں میں کھلے سر نکلے
چھٹ گیا ابر شفق کھل گئی تارے نکلے
بند کمروں سے تیرے درد کے مارے نکلے
’ان مکینوں کو مکاں روتے ہیں
جو انہیں پھر نہ بسانے آئے
یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے
اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں
ہم کہیں کھو گئے تیری گلی کے آس پاس
اپنے گھروں کو چل دیے لوگ تجھے پکار کے
دیکھ زرد رو پہاڑ ساری تکان اتر گئی
کون زمیں پہ رکھ گیا بار ۔ سفر اتار کے
رات ڈراؤنی سہی رو نہیں غم زدہ نہ ہو
میں تیرے ساتھ ساتھ ہوں دیکھ مجھے پکار کے
ایک مدت اسے دیکھا اسے چاہا لیکن
وہ کبھی پاس سے گزرا تو بلایا نہگیا
کہیں پتی کہیں کانٹا کہیں پھول
وہ میرے سامنے آتا ہے گلستاں بن کر
پریوں کی تلاش میں گیا تھا
لوٹا نہیں آدمی ہمارا
محبت میں زیادہ سوچنا اچھا نہیں ہوتا
زیادہ سوچنے سے وسوسے گھر دیکھ لیتے ہیں
بس ذرا دیر کو رکھ لیتے ہیں آنکھوں پہ کبھی
کوئی جاتا ہے تو اب ہاتھ ہلاتے نہیں ہم
بکھر چلا ہے میرا تن مگر نہیں ٹوٹے
قمیض پر جو بٹن تھے تیرے لگائےہوئے
جانے کن بادلوں سے برسے گا
سبز دریا کا گمشدہ پانی
کھویا ہے کچھ ضرور کہ جس کی تلاش میں
ہر چیز کو ادھر سے ’ادھر کر رہے ہم
یہ کون خواب میں چھو کر چلا گیا میرے لب
پکارتا ہوں تو دیتے نہیں صدا میرے لب
یہ اور بات کسی کے لبوں تلک نہ گئے
وگرنہ پاس سے گزرے ہیں بارہا میرےلب
اب اس کی شکل بھی مشکل سے یاد آتی ہے
وہ جس کے نام سے ہوتے نہ تھے جدا میرے لب
لب سوکھ کیوں نہ جائے گلا بیٹھ کیوں نہ جائے
دل میں ہیں جو سوال اٹھاتے رہیں گےہم
دکھ کے سفر پہ دل کو راوانہ تو کر دیا
اب ساری عمر ہاتھ ہلاتے رہیں گے ہم
بہت اداس ہو تم اور میں بھی بیٹھا ہوں
گئے دنوں کی کمر سے کمر لگائے ہوئے
کتنے گھر باقی ہیں کتنی دستکیں باقی ہیں اور
اس کا دروازہ کھلے گا کتنے دروازوں کے بعد
اس سے پہلے کہ ترس جائیں نمی کو آنکھیں
لوح ۔ دل پر کوئی تصویر بنا پانی کی
سوکھتا جاتا ہے دریائے ۔ محبت مشتاق
مصرع ۔ تر سے کوئی موج اٹھا پانیکی
وہ درختوں کے ’جھنڈ دیکھتے ہو؟
وہیں بستی میں گھر ہمارا ہے
بار بار ’اس گلی میں جاتےہیں
جیسے کوئی ’ادھر ہمارا ہے
کوئی اجلا سا بھلا سا گھر تھا
کس کو دیکھا تھا وہاں یاد نہیں
پانی میں عکس اور کسی آسماں کا ہے
یہ ناؤ کون سی ہے یہ دریا کہاں کا ہے
وہ میرے خواب کی پریاں مرے خیال کے جن
چھپے ہوئے تھے عجب واہمے درختوں میں
کبھی کبھی ہم ایسے باتیں کرتے ہیں
جیسے نیند میں بچے باتیں کرتے ہیں
پھولوں کو چپ رہنے پر الزام نہ دو
اس موسم میں کانٹے باتیں کرتے ہیں
پتہ اب تک نہیں بدلا ہمارا
وہی گھر ہے وہی قصبہ ہمارا
وہی ٹوٹی ہوئی کشتی ہے اپنی
وہی ٹھہرا ہوا دریا ہمارا
کسی جانب نہیں کھلتے دریچے
کہیں جاتا نہیں رستہ ہمارا
اب دھوپ ہے اور ایک رخسار
کندن کی طرح دمک رہا ہے
پھرتا رہوں دور دور کب تک
اک روز قریب سے گزر جا
بوسے ہوئے نڈھال لبوں کی تلاش میں
ھاتھوں کے انتظار میں دستانے سو گئے
شام ۔ غم یاد ہے کب شمع جلی یاد نہیں
کب وہ رخصت ہوئے کب رات ڈھلی یاد نہیں
ٹھنڈے موسم میں پکارا کوئی ہم آتےہیں
جس میں ہم کھیل رہے تھے وہ گلی یاد نہیں
کانٹے سمجھ کے گھاس پہ چلتا رہا ہوں میں
قطرے تمام اوس کے چھالوں میں آ گئے
مزہ تو یہ ہے کہ وہ خود تو ہے نئے گھر میں
اور اس کی یاد پرانے مکاں میں رہتی ہے
شبنم کو ریت پھول کو کانٹا بنا دیا
ہم نے تو اپنے باغ کو صحرا بنا دیا
اک رات چاندنی میرے بستر پہ آئی تھی
میں نے تراش کر تیرا چہرا بنا لیا
گزر رہی ہے تمنا کے ساحلو ں سے ہوا
لرز رہے ہیں درختوں کے سائے پانی میں
گزرنے والے تو کب کے گزر چکے دل سے
یہ کون چیز چمکتی ہے نقش ۔ پا کی طرح
کیسے مکاں اجاڑ ہوا کس سے پوچھتے
چولہے میں روشنی تھی نہ پانی گھڑے میں تھا
اب ہوا معلوم دل می دائرے کیسے بنے
میں جو کنکر پھینکتا رہتا تھا پانی میں بہت
کہیں پتوں کے اند دھیمی دھیمی سرسراہٹ ہے
ابھی ہلنے لگیں گی ڈالیا آہستہ آپستہ ۔۔۔
جہاں ڈالے تھے اس نے دھوپ میں کپڑے سکھانے کو
ٹپکتی ہیں ابھی تک رسیاں آہستہ آہستہ
فضا ئے دل پہ کہیں چھا نہ جائے یاس کا رنگ
کہاں ہو تم کہ بدلنے لگا ہے گھاس کا رنگ
جب شام اترتی ہے کیا دل پہ گزرتی ہے
ساحل نے بہت پوچھا خاموش رہا پانی
وقت ہر چیز کی تقدیر بدل دیتا ہے
میں نے دیکھا ہے محبت کا فنا ہو جانا
کیا بتائیں تجھے کیا ہجر میں دل پر گزری
آنکھیں سبزے کو ترس جائیں تو کیا ہوتا ہے
دوپہر کے وقت ٹھنڈی گھاس پر لیٹا ہوا
صاف نیلے آسماں کو دیکھتا رہتا ہوں میں
اندھیرہ دیکھ کر کمرہ کسی کا
ستارے روزنوں تک آگئے ہیں
وہ سو رہا ہو اور اسے دیکھتا رہوں
مشتاق چاہتی ہے طبیعت کبھی کبھی
آنکھ سے آنسو نکل جائیں گے اور ٹھنہی سے پھول
وقت بدلے گا تو سب قیدی رہا ہو جائیں گے
رہ ۔ وفا میں خوشی کم ہے اور ملال بہت
خدا کرے کہ سلامت رہے ہنسی تیری
موسم ۔ گل ہو کہ پت جھڑ ہو بلا سے اپنی
ہم کہ شامل ہیں نہ کھلنے میں نہ مرجھانے میں
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں
دل فسردہ تو ہوا دیکھ کہ اس کو لیکن
عمر بھر کون جواں کون حسیں رہتا ہے
میں تجھے بھول نہ جاتا تو خزاں ہی رہتی
شاخ پر پھول تیری یاد دلانے آیا
راہ اس کی ہے تھکن اس کی ہے منزل اس کی
ہم کرائے کے مسافر ہیں سفر اس کا ہے
بہت رک رک کے چلتی ہے ہوا خالی مکانوں میں
بجھے ٹکرے پڑے ہیں سگریٹوں کے راکھ دانوں میں
اب راہ طلب اور بھی دشوار ہوئی ہے
اب سوچ سمجھ کر کوئی دیوانہبنے گا
فٹ پاتھ کی دیوار سے چمٹے پتے
اک روز ہواؤں کو درختوں پہ ملے تھے
ہوتے ہی شام آنکھ سے آنسو ررواں ہوئے
یہ وقت قیدیوں کی رہائی کا وقت ہے
میں نے کہا کہ دیکھ یہ میں یہ ہوا یہ رات
اس نے کہا کہ میری پڑھائی کا وقت ہے
یہ لوگ ٹوٹی ہوئی کشتیوں میں سوتے ہیں
میرے مکان سے دریا دکھائی دیتا ہے
رہ گیا مشتاق دل میں رنگ ۔ یاد ۔ رفتگاں
پھول مہنگے ہو گئے قبریں پرانی ہو گئیں
یار سب جمع ہوئے رات کی تاریکی میں
کوئی رو کر تو کوئی بال بنا کر آیا

ایک کم ہے بھائی :):)
 
Top