احتجاج ۔۔۔ آخر کس کے لیئے ؟

ظفری

لائبریرین
ملک میں ایمرجینسی کے نفاذ کے ساتھ ہی مخلتف طبقہ ِ فکر نے اپنی سوچ اور وساطت کے مطابق ایک احتجاجی سلسلہ شروع کیا ہے ۔ جس میں طالب علموں کی حمایت بھی شامل ہوگئی ہے ۔ گو کہ ابھی ایک عام آدمی اس احتجاج کا بھرپور حصہ نہیں بنا ہے مگر امید کی جاسکتی ہے کہ یہ سلسلہ دراز ہوا تو شاید ایک عام آدمی کو اس بات کا ادراک ہوسکے کہ وہ بھی احتجاج کرے ۔ مگر میرے ذہن میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ احتجاج ۔۔۔۔ آخر کس کے لیئے ۔۔۔۔ ؟

میں مسلسل ٹاک شوز دیکھتا رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں ۔ بھانت بھانت کے سیاستدان اور لیڈر آرہے ہیں ۔ ان کی گفتگو سنیں ۔ سب ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں ۔ مشرف گو ، مشرف آمر ۔ اور پھر بات اس سے نکل کر ایم ایم اے ، پیپلیز پارٹی ، مسلم لیگ وہ گروپ ، مسلم لیگ وہ گروپ کی آپس میں چپلقش اور ایک دوسرے پر الزام تراشی تک محدود ہے ۔ کسی نے ایک لفظ بھی پاکستان کی مظلوم اور غریب عوام کے حق میں ادا نہیں کیا ہے ۔ جب ایمرجینسی ، الیکشن اور پھر اقتدار کی دوڑ میں مصورف ہیں ۔ ہر کوئی چاہ رہا ہے کہ اقتدار کی مسند پر بیٹھ کر اپنے پچھلے ازالے پورے کرے ۔ یہ سب سیاسی شعبدہ باز کیا ہمارے دیکھے بھالے نہیں ہیں ۔ ان کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ ایمرجینسی اور ملک میں افراتفری کا رونا روئیں ۔ کیا انہوں نے اپنے دور میں یہ تباہی اور کھیل نہیں کھیلے ۔ کیا پاکستان کے عوام نہیں جانتے کہ ان لیڈروں نے ان کو صرف اقتدار کی طرف رواں گاڑیوں میں ایک ایندھن کی طور پر استعمال کیا ہے ۔ انہیں صرف گالیوں ، پھانسیوں ، کوڑوں ، جیلوں اور لاٹھی چارجوں کے لیئے مخصوص کیا ہوا ہے ۔ اور لیڈر شپ ان کی قبروں پر اپنے قدم جما کرایوانِ اقتدار تک پہنچنا اپنا حق سمجھتی ہے ۔ اور جب مصبیت آتی ہے تو ان کو جیلوں اور مار کھانے کے لیئے چھوڑ کر بیرونِ ملک فرار ہوجاتی ہے ۔ اور پھر جہاں سے جہموریت اور اس کے لیئے ہر قسم کی قربانی کے بیانات دینا اپنی مصروفیات کا حصہ بنا لیتی ہے ۔

پاکستان کے قیام سے لیکر اب تک بے تحاشہ فاختائیں دکھ جھیل رہیں ہیں ۔ اور صرف چند سو کوے انڈے کھانے پر لگے ہوئے ہیں ۔ کبھی ان انڈوں کو فرائی کر لیا تو کبھی آملیٹ بنا کر نوش کر لیا ۔ اور کچھ کوے تو ان انڈوں کو کچا کھانے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔ یہ وہ کوے ہیں جو یہی کہتے ہیں کہ ہم پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے ، آگے دیکھنا ہمارا کام ہے ۔ لاکھوں سیاسی کارکن اس جہموریت کےسفر میں اپنی زندگیاں تباہ کر بیٹھے ، اپنے گھر پھونک بیھٹے ۔ مفرور ہوگے ، دربدر ہوگئے ۔مگر کسی لیڈر کے پاس ان کے لیئے ایک لفظ بھی نہیں ہے جو وہ ان کے لیئے کم از کم تسلی کے طور پر ہی استعمال کر سکیں ۔ کسی حقیر کارکن کے پاس جا کر اس سے تسلی کا ایک لفظ کہنے کے بجائے یہ لیڈرز امریکی سینٹروں سے ملاقات کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اپنی زندگیاں تباہ کرنے والے عوام کی قمست یہی ہے کہ وہ اپنی قربانیوں پر فخر کرتے رہیں ۔ نہ عام آدمی کو عزت نصیب ہونی ہے اور نہ ہی یہ مہنگائی کی عفریت کا خاتمہ ہونا ہے ۔ نہ انہیں اور ان کے بچوں کو تعلیم کے مواقع میسر ہونے ہیں اور نہ ہی ان کو صحت کی بنیادی سہولیات ملنی ہیں ۔ ان کا نصیب اب یہی رہ گیا ہے کہ وہ ان لیڈروں کی لمبی لمبی گاڑیوں کے چوڑے چوڑے ٹائروں کے آگے پیچھے بھاگ کر جیوے بھئی جیوے اور آوے بھئی آوے کے نعرے لگاتے پھریں ۔ فرانس سے پانی منگوا کر پینے والوں‌کو نلکوں سے پانی کے ساتھ نکلنے والی غلاظت کا احساس کیسے ہوسکتا ہے ۔ ائیرکنڈیشنڈ گاڑیوں میں بیٹھنے والوں‌کو تانگے اور سرکاری بسوں پر لٹکنے والوں کی مشکلات کا اندازہ کیونکر ہوسکتا ہے ۔ جن کے جانور ائیر کنڈیشنڈ ماحول میں رہتے ہیں ۔ انکا بھلا ایسے لوگوں سے کیا واسطہ جن پر بجلی بند کریں تو وہ مرجاتے ہیں اور استعمال کریں تو بلوں کو ہاتھوں خود اپنا گلا گھونٹ دیتے ہیں ۔ یورپ کے بڑے بڑے اسکولوں میں اپنے بچوں کا داخل کروانے والے غریب عوام کے اس کرب کو کسیے سمجھیں کہ چند سکوں کی کمی کی خاطر یہ عوام اپنوں بچوں کا اسکول سے نام کٹوانے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ اور پھر لیٹ فیس کے نام پر معصوم ذہنوں میں اپنی محرومی کے بارے میں کیسے کیسے سوال اٹھتے ہونگے ۔ جب ان کو بھوک کا علم ہی نہیں تو پھر یہ کیا جانیں کی بھوکی عوام کیا ہیں ۔

مشرف جائے ، یا کوئی اور جائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ایک عام آدمی کا عام آدمی کے عہدے پر ہی فائز رہنا ہے ۔ اس کا کام ہی غریب اور مہنگائی کی چکی میں پسنا ہے ۔ اور کوئی آ بھی جائے تو کونسا اس کا غمگسار ہونا ہے ۔یہ اقتدار تو بڑے لوگوں کا کھیل ہے ۔ اور کھیلنے کا حق بھی انہی لوگوں کو ہے ۔ عوام کا کام صرف ہر کسی کے گول پر تالی بجانا ہے ۔ بھنگڑے ڈالنا ہے یا پھر اپنی ٹیم کے ہارنے پر لڑنا مرنا ہے ۔ یہ نظام ہے ۔ جو ہم بدلنا نہیں چاہتے ۔ اس کے لیئے احتجاج نہیں کرنا چاہتے ۔ کاش کوئی بھوک سے بلبلاتا ہوا ، بل ادا نہ ہونے پر میٹر کٹوانے والا ، اسکو ل کی فیس نہ بھرنے والا کوئی عام آدمی ان خواہشات کلبلاتے ہوتے لاکھوں کروڑوں مجبوروں کا لیڈر بن کر آگے آسکے ۔ مگر یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب ہم احتجاج کسی لیڈر کے لیئے ، یا کسی آمر کے خلاف نہ کریں بلکہ اس نظام کے خلاف کریں جہاں اقتدار صرف چند لوگوں کے درمیان ٹینس کی گیند بنی ہوئی ہے ۔ اگر ایسا نہیں کر سکتے تو ہر احتجاج صرف اپنی بے بسی اور ناعقلی کا ہی مذاق اڑانا ہے اور کچھ بھی نہیں ۔
 
بھائی پہلی بات جو لوگ احتجاج کر رہے ہیں وہ نہ تو یہ کسی سیاست دان کے لئے کر رہے ہیں نہ ہی انکی مشرف سے زاتی دشمنی ہے۔ ہمارا احتجاج اس عدلیہ کے وقار کی بحالی کے لئے ہے جس سے ساٹھ سال بعد ایک عام آدمی نے امیدیں باندھ لیں تھیں، اسکو لگنے لگا تھا اب اس ملک میں عوام کی سنی جائے گی، اور ان کو اپنے حقوق کے لئے سسکنا نہیں پڑے گا۔ ان کو امید ہو چلی تھی، کہ عرصہ دراز سے انکے اپنے جو گم کر دئے گئے تھے، اب ان سے آ ملیں گے۔ کالجز انتظامیہ کے لیئے چیکس اور سفارش اب میرٹ نہیں کہلائیں گے، بلکہ اب میرٹ پر غریب کے بچوں کو داخلہ ملے گا ۔ لیکن 3 نومبر کی شام کو ان سب لوگوں کی امیدوں کا خون ہوا، ایک ادارے کے وقار کو ایک آمر نے اپنے پیروں تلے روند دیا ۔

یہ احتجاج نہ ہی بی بی ، نہ میاں ، نہ ہی مذہبی ٹھیکیداروں کے بھیس میں ان لٹیروں کے لئے ہے، بلکہ یہ افتخار چوہدری، بھگوان داس، جاوید اقبال اور ان پانچ ساڑھے پانچ درجن جج صاحبان کے لئے ہے جنھوں نے مشرفی آرڈر کے تحت حلف نہیں اٹھایا۔یہ میرے ان صحافی بھائیوں کے لئے ہے جنھوں نے شاہراہ دستور پر اپنے سر پھٹوائے، لیکن سچ پہنچانے کا عظم کم نہیں ہوا۔ آج ہم سڑکوں پر مار افتخار چوہدری، اپنے صحافی بھائیوں اور ان عظیم جج صاحبان کے لئے کھا رہے ہیں جنھوں نے انصاف اور سچائی کو حقیقت کا روپ دیا۔ جنھوں نے فرد واحد کی بدمعاشی کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کی۔ اگر شاکر عزیز سڑک پر کھڑا رہا تو اس کے گلے میں چیف جسٹس کی بحالی کا نعرہ تھا۔ طلبا بھی عدلیہ، میڈیا اور ملک پاکستان کی بقاء کے لئے سڑک پر آئے ہیں۔

انشاءاللہ وہ وقت آئے گا جب فردواحد دوبارہ کبھی بھی اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے عدلیہ کو نشانہ نہیں بنائے گا، نہ ہی وہ سچ کا گلہ گھونٹنے کے لئے چینلز بند کوا پائے گا۔ خواہ وہ آرمی چیپ ہو یا جمہوریت کے لبادہ میں کوئی ڈکٹیٹر۔ میں جانتا ہوں یہ راستہ آسان نہیں، اور نہ یہ اتنا چھوٹا ہے کہ پل بھر میں گزر جائے۔ مانا آج ہم چند ہیں کل ہم ہزاروں میں ہوں گے، پھر یہ ایسا سیلاب کی صورت اختیار کرے گا، کہ اس ملک سے آمریت کا گند ہمیشہ کے لئے صاف ہو گا انشاءاللہ۔ اور یہ بھی ہم جانتے ہیں

قدم قدم پہ اندھیروں سے ٹکراؤ ہو گا
جو ڈھونڈتے ہیں اجالے انھیں خبر کر دو​

ابس اللہ تعالی سے دعا ہے وہ ہم سب کو اتنی ہمت دے، اور اتنی استقامت دے کہ ہم اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے دل جان سے کوششیں کر سکیں(آمین)
 

نبیل

تکنیکی معاون
ظفری، آپ کی پوسٹ پر میرا اظہار تشکر آپ کی thought provoking تحریر کے لیے ہے، اگرچہ میں اس سے مکمل طور پر اتفاق نہیں کرتا ہوں۔

اگر ہم صرف اس لیے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں کہ آخر تو پاکستان کے عوام نے اسی شیطانی چکر میں گھومتے رہنا ہے تو پھر ہماری تمام تر دانشوری بے کار محض ہے اور ہماری ذہانت اور تعلیم کا مصرف صرف ہماری ذات کی منفعت ہے۔ قوموں کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب وہ اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے کی اہل بن سکتی ہیں اور میری دانست میں حالیہ بحران ایسا ہی موقع فراہم کر رہا ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
ایسی بات نہیں ہے کہ مجھے ان احتجاجات پر کسی قسم کا اعتراض ہے ۔ بلکہ کہنا صرف یہ مقصود تھا کہ زمینی حقائق ، علاقائی صورتحال اور عالمی منظر نامے کو سمجھے بغیر آپ اندھیرے میں چھلانگ لگائیں گے تو اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ ساری جہدوجہد ایک دائرے میں ہی مقید رہ جائے گی اور پھر ہم وہیں گھوم کر پہنچ جائیں گے ۔ جہاں سے چلے تھے ۔ وکلاء برادری نے چیف جسٹس کی بحالی کے بعد ایک دم سے خاموشی اختیار کر لی تھی ۔ مگر ملک میں انتشار اور افراتفری کے سبب ایمرجینسی لگ جانے اور عدلیہ کے پھر سے معطل ہونے سے وہ پھر متحرک ہوگئے ہیں ۔ کل پھر عدلیہ بحال ہوجائے گی اور سب وکلا ء اپنی اپنی کہچریوں میں چلے جائیں گے ۔ تو جہدوجہد کس بات کی ہوئی ۔ صرف ایک شخص کے لیئے یا ایک ادارے کے لیئے ۔ ؟ پھر ابھی آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ وکلاء نے کہہ دیا ہے کہ وہ اپنا حق اور احتجاج اپنے بل بوتے کریں گے ۔ سیاسی جماعتوں کو چھوڑیں اگر ایک عام آدمی جو ان کا ساتھ دینے کو تیار ہے ۔ وہ تو مختلف خانوں میں بٹ جائے گا ۔ اور یہی حال سیاسی جماعتوں کا ہے ۔ غور کریں قوم کیا چاہتی ہے ۔ ؟

1- صاف شفاف انتخابات 2 - غیر جانبدار الیکشن کمیشن 3 - قومی اتفاق رائے کی حکومت جو انتخابات کرا سکے 4 - سب سیاسی جماعتوں کی مساوی حقوق 5 - جلا وطن لیڈروں کی وطن واپسی 6 - آمریت کا خاتمہ 7 - قانون کی بالادستی 8 - پاکستان کی خوشحالی اور ترقی 9 - ملک میں امن و امان 10 - ہر قسم کے تشدد اور انتہا پسندی کا خاتمہ 11 - بے روزگاری اور مہنگائی سے نجات اور بچوں کے لیئے تعلیم اور مناسب علاج ۔

ایسی صورت میں کون سا راستہ محفوظ اور مناسب ہے اس کا تجزیہ کوئی مشکل کام نہیں ۔ ملک کو بچانا ہے تو ہر قسم کی قربانی کے لیئے تیار رہنا پڑے گا ۔ مگر یہ قربانی اس وقت تک رائیگاں گردانی جائے گی جب تک آپ کو یہ احساس نہ وہ کہ آپ کی جہدوجہد صحیح سمت ہے کہ نہیں ۔ ورنہ کل بینظیر آجائے گی یا نواز شریف آجائے گا ۔ عدلیہ وہی کردار ادا کرتیں رہیں گی جو پہلے کرتیں رہیں ہیں ۔ آمر پھر موقع دیکھ کر اقتدار پر قابض ہوجائیں گے ۔ لہذا ہم کو فیصلے وہ کرنے ہیں جوملک و قوم کے مفاد میں‌ ہوں ۔ کیونکہ ابھی ہم ایسے آتش فشاں پہاڑ پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ جس کے پھٹنے پر کہیں ہم ایک بار پر 71 کے سانحے کی طرف نہ چلیں جائیں ۔
 

ظفری

لائبریرین
اگر ہم صرف اس لیے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں کہ آخر تو پاکستان کے عوام نے اسی شیطانی چکر میں گھومتے رہنا ہے تو پھر ہماری تمام تر دانشوری بے کار محض ہے اور ہماری ذہانت اور تعلیم کا مصرف صرف ہماری ذات کی منفعت ہے۔ قوموں کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب وہ اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے کی اہل بن سکتی ہیں اور میری دانست میں حالیہ بحران ایسا ہی موقع فراہم کر رہا ہے۔

میں یہی تو کہنا چاہتا تھا ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہ رہیں کہ عوام ہمیشہ ہی اسی شیطانی چکر میں گھومتے رہیں ۔ بلکہ یہ کہنے کی بھی کوشش کی ہے کہ اگر ہم اپنی جہدوجہد کو کسی خاص مرکزیت کی طرف مذکور نہیں کریں گے‌ تو ہمارا ہر احتجاج ہمیشہ کی طرح آمروں ، دڈیروں اور جاگیرداروں کو تقویت دے گا ۔ اور ہم سمجھتے رہیں گے کہ ہمارا بھلا ہونے والا ہے ۔ کیونکہ ہر بار عوام کے ہر احتجاج اور تحریک سے ملک کی ساٹھ سالہ تاریخ میں کیا کیا تبدیلیاں آئی ہے ۔ یہ ہم سب جانتے ہیں ۔ اور یہ آپ کی بات بلکل سو فیصد درست ہے کہ موجودہ بحران ایک نئی سیاسی شعور کے تشخص کو ابھارنےمیں بہت معاون ثابت ہوسکتا ہے ۔ اور اسی موقع سے فائدہ اٹھا کر ہم سب پرانے سیاسی شعبدہ گروں سے جان چھڑائیں اور کسی ایسے شخص کی حمیت اور تائید اختیار کریں جو ان سب سے مخلتف ہو ۔ کیونکہ اگر قوم اپنی تقدیر کا ہر فیصلہ انہی بازی گروں سے کرواتی رہے گی تو پھر کونسی تبدیلی متوقع ہوگی ۔ میری سب سے پہلی پوسٹ کا مرکزی نقطعہ بس یہی تھا ۔
 

ظفری

لائبریرین
کہنا صرف یہ ہے کہ جب بھی ریاست کی تشکیل بنیاد مقصد بنی تو تمام دلائل اس کے لیئے فراہم کیے گئے کہ سیاسی تبدیلی کی جہدوجہد ایک ہمہ گیر تبدیلی کا دروازہ کھول سکتی ہے ۔ یہ سیاسی تبدیلی ہر جگہ اسلامی تحریکوں کی جہدوجہد کا مرکزی نقطہ قرار پائی ۔ القائدہ وغیرہ اسی فکر کا انتہائی ظہور ہے ۔ اس سوچ کے متوازی اور پہلے سے جو فکری لہر جو مسلم معاشروں میں چل رہیں تھیں ۔ وہ اشتراکی تھی ۔ اور اس میں بھی سیاسی تبدیلی بنیادی اہمیت رکھتی تھی ۔ چناچہ اس کے ایک لازمی نتیجے کے طور پر اس بات کو مسلمہ طور پر تسلیم کر لیا گیا کہ اگر ہمیں کوئی تبدیلی کی کوشش کرنی ہے تو پھر اس کی سب سے موثر صورت یہ ہے کہ اقتدار تک پہنچا جائے ۔
یہاں میری بس یہی گذارش ہے کہ یہ سوچ اساسی طور پر غلط ہے ۔ اور اس کے نتیجے میں اسلامی معاشروں میں‌ نہ ‌صرف کوئی بڑی رونما ہوئی بلکہ اس کا نقصان یہ ہوا کہ بہت سے ذہین ، نیک اور باصلاحیت لوگ ایک ایسی جہدوجہد میں اپنی صلاحیتیں برباد کرتے رہے جس کا لاحاصل نوشتہ دیوار ہے ۔ میرا خیال یہ ہے کہ آج یہ سوال ہمارے اہلِ دانش کی توجہ کا سب سے بڑا مستحق ہے کہ ہم اس معاشرے کو کس طرح دورِحاضر کا زندہ مسلمان معاشرہ بنا سکتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اقتدار کی حریفانہ کشمکش میں فریق بن کر کوئی بھی شخص اس سوال کا جواب تلاش نہیں کرسکتا ۔ ایک مخلص اور نیک آدمی جب اس سوال کا جواب تلاش کرتا ہے تو اس کے نزدیک معاشرے کو درپیش مسائل کا سبب جنرل پرویز مشرف کا اقتدار ہے ۔ اگر کسی کو دلیل کی ضرورت ہے تو عمران خان اور قاضی حسین احمد کے بیانات پڑھ لے ۔ مشرف سے پہلے یہ سبب نواز شریف تھے ۔ جب وہ برسراقدار تھے تو اس وقت بینظیر صاحبہ ہمارے مسائل کی اصل جڑ تھیں ۔ یہ نتیجہ صرف اسی صورت میں ترتیب پاتا ہے جب آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ اصل اہمیت معاشرے کی نہیں ، ریاست کی ہے ۔ اور مطلوبہ تبدیلی معاشرتی تبدیلی نہیں بلکہ سیاسی تبدیلی ہے ۔ جبکہ اصل اہمیت معاشرے کی ہے اور ایک مصلح کا میدانِ عمل معاشرتی اصلاح ہے ۔ جس کا ایک نتیجہ سیاسی اصلاح ہے ۔ اور یہ عمل معاشرے میں ایک شعوری تبدیلی سے شروع ہوگا ۔ سو اگر اس بحران میں ہم نے اپنی توجہ اور توانائی کا رخ معاشرے کی اصلاح پر کر لیا تو کوئی بعید نہیں کہ سیاسی افق پر چھائے ہوئے یہ مکروفریب کے سیاہ بادل چھٹ جائیں ۔ اور ہم معاشرے کی اصلاح کرتے ہوئے سیاسی طور پر ملک و قوم سے اتنے مخلص ہوجائیں کہ قوم کی خوشحالی اور ترقی ہمیں دنوں‌کا سفر لگیں گے ۔ میرا خیال ہے میں اس سے زیادہ اپنے موقف کو واضع نہیں کرسکتا ۔
 

محسن حجازی

محفلین
کہنا صرف یہ ہے کہ جب بھی ریاست کی تشکیل بنیاد مقصد بنی تو تمام دلائل اس کے لیئے فراہم کیے گئے کہ سیاسی تبدیلی کی جہدوجہد ایک ہمہ گیر تبدیلی کا دروازہ کھول سکتی ہے ۔ یہ سیاسی تبدیلی ہر جگہ اسلامی تحریکوں کی جہدوجہد کا مرکزی نقطہ قرار پائی ۔ القائدہ وغیرہ اسی فکر کا انتہائی ظہور ہے ۔ اس سوچ کے متوازی اور پہلے سے جو فکری لہر جو مسلم معاشروں میں چل رہیں تھیں ۔ وہ اشتراکی تھی ۔ اور اس میں بھی سیاسی تبدیلی بنیادی اہمیت رکھتی تھی ۔ چناچہ اس کے ایک لازمی نتیجے کے طور پر اس بات کو مسلمہ طور پر تسلیم کر لیا گیا کہ اگر ہمیں کوئی تبدیلی کی کوشش کرنی ہے تو پھر اس کی سب سے موثر صورت یہ ہے کہ اقتدار تک پہنچا جائے ۔
یہاں میری بس یہی گذارش ہے کہ یہ سوچ اساسی طور پر غلط ہے ۔ اور اس کے نتیجے میں اسلامی معاشروں میں‌ نہ ‌صرف کوئی بڑی رونما ہوئی بلکہ اس کا نقصان یہ ہوا کہ بہت سے ذہین ، نیک اور باصلاحیت لوگ ایک ایسی جہدوجہد میں اپنی صلاحیتیں برباد کرتے رہے جس کا لاحاصل نوشتہ دیوار ہے ۔ میرا خیال یہ ہے کہ آج یہ سوال ہمارے اہلِ دانش کی توجہ کا سب سے بڑا مستحق ہے کہ ہم اس معاشرے کو کس طرح دورِحاضر کا زندہ مسلمان معاشرہ بنا سکتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اقتدار کی حریفانہ کشمکش میں فریق بن کر کوئی بھی شخص اس سوال کا جواب تلاش نہیں کرسکتا ۔ ایک مخلص اور نیک آدمی جب اس سوال کا جواب تلاش کرتا ہے تو اس کے نزدیک معاشرے کو درپیش مسائل کا سبب جنرل پرویز مشرف کا اقتدار ہے ۔ اگر کسی کو دلیل کی ضرورت ہے تو عمران خان اور قاضی حسین احمد کے بیانات پڑھ لے ۔ مشرف سے پہلے یہ سبب نواز شریف تھے ۔ جب وہ برسراقدار تھے تو اس وقت بینظیر صاحبہ ہمارے مسائل کی اصل جڑ تھیں ۔ یہ نتیجہ صرف اسی صورت میں ترتیب پاتا ہے جب آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ اصل اہمیت معاشرے کی نہیں ، ریاست کی ہے ۔ اور مطلوبہ تبدیلی معاشرتی تبدیلی نہیں بلکہ سیاسی تبدیلی ہے ۔ جبکہ اصل اہمیت معاشرے کی ہے اور ایک مصلح کا میدانِ عمل معاشرتی اصلاح ہے ۔ جس کا ایک نتیجہ سیاسی اصلاح ہے ۔ اور یہ عمل معاشرے میں ایک شعوری تبدیلی سے شروع ہوگا ۔ سو اگر اس بحران میں ہم نے اپنی توجہ اور توانائی کا رخ معاشرے کی اصلاح پر کر لیا تو کوئی بعید نہیں کہ سیاسی افق پر چھائے ہوئے یہ مکروفریب کے سیاہ بادل چھٹ جائیں ۔ اور ہم معاشرے کی اصلاح کرتے ہوئے سیاسی طور پر ملک و قوم سے اتنے مخلص ہوجائیں کہ قوم کی خوشحالی اور ترقی ہمیں دنوں‌کا سفر لگیں گے ۔ میرا خیال ہے میں اس سے زیادہ اپنے موقف کو واضع نہیں کرسکتا ۔

بہت خوب! اسے کہتے ہیں گہرا تجزیہ۔۔۔ دور تک سوچنا اور بڑی تصویر کو درست تناظر میں دیکھنا۔
 

Mona*

محفلین
جی محسن صاحب ھم بھی آپ کے ھم خیال ھیں بہت اچھے انداز میں انھوں نے واضع کر دیا ھے
 

اظہرالحق

محفلین
دوستو بہت مختصر کی بات کہوں گا کہ ، ہم اس وقت ہجوم ہیں ہمیں قوم بننے کے عمل سے گذرنا ہو گا ، پچھلے دو سو سالوں میں نئی قوم صرف ایک ہی وجود میں آئی تھی وہ تھی پاکستانی قوم ۔ اب یہ قوم اپنی پختگی کی طرف مائل ہے ، شاید اسے کسی طہتیر (فلٹریشن) کا عمل کہ سکتے ہیں ۔ ۔۔ بحثیت پاکستانی میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہماری نئی نسل جو 70 کی دہائی میں پیدا ہوئی ، جس کی نوجوانی ضیائی دور میں گذری ، جسنے جوانی کو نواز شریف اور بی بی کی جمہوریت میں "رول" دیا اور جو اب پختہ عمر میں مشرف کا آمرانہ دور دیکھ رہی ہے ، وہ ہی اس طہارت کے عمل کو انجام دے سکتی ہے ، ایک قربانی اس نسل نے دی تھی جنہوں نے عثمانی سلطنت کو بکھرتے دیکھا تھا ، جنہوں نے دو بڑی جنگوں کے دور میں ہوش سنبھالا تھا ، جنہوں نے آمریت کو انجام تک پہنچایا تھا ۔ ۔ ۔ کیونکہ وہ بھی اسی تجربے سے گذرے تھے جس سے ہماری آج کی یہ نسل گذر رہی ہے ۔ ۔ ۔ میں اور آپ زیادہ تر اسی نسل کے لوگ ہیں ، اب یہ ہماری ذمہ داری ہے ، کہ ہم کیا کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ سمجھوتہ یا ۔ ۔ پھر فیصلہ ۔ ۔ ۔ ایک بڑی تبدیلی کا ۔ ۔ ۔
 
Top