احادیث‌ نبوی

منتخب احادیث‌نبوی ۔۔


شرک کے بعد بدترین گناہ کسی انسان کو تکلیف پہنچانا ہے۔


جس کو مسلمان کا غم نہ ہو، وہ میری امت میں سے نہیں ۔


تم اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ مظلوم کی مدد ظالم سے اس کو چھڑانا، اور ظالم کی مدد اس کو ظلم سے باز رکھنا ہے۔


جو شخص سلام سے پہلے بات کرےاس کا جواب مت دو، جب تک پہلے سلام نہ کرلے۔


جو اﷲ تعالیٰ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے، اسے کہہ دو کہ پڑوسی کی تکریم کرے۔


سخی اﷲ سے قریب ہے، جنت سے قریب ہے، لوگوں سے قریب ہے اور آگ سے دور ہے۔


بخیل اﷲ سے دور ہے، جنت سے دور ہے، لوگوں سے دور ہےاور دوزخ سے نزدیک ہے۔


تین باتوں میں دیر نہ کرو، نماز میں جب اس کا وقت ہوجائے، جنازے میں جب تیار ہوجائے اور بیوہ کے نکاح میں جب اس کا جوڑمل جائے۔


نجات کیا ہے؟ اپنی زبان کو بند رکھنا، اپنے گھر میں قیام رکھنا اور گناہوں پر نادم ہونا۔


سادگی ایمان کی علامت ہے۔


قیامت کے دن مومن کے اعمال کے ترازومیں کوئی چیز خوش خلقی سے زیادہ وزنی نہ ہوگی، اور اﷲ تعالیٰ بدگو اور بد زبان کو بہت برا سمجھتا ہے۔


حکومت طلب مت کرو، اگر وہ تمہیں مانگنے سے ملی تو اس کا سب بوجھ تم پر پڑجائے گا، اور اگر بن مانگے ملی تو تمھاری ہر طرح سے امداد ہوگی ۔
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی ہے۔ پس جس کی ہجرت دنیا کی طرف ہے تاکہ وہ اسے ملے یا کسی عورت کی طرف تاکہ اس سے وہ شادی کرے، تو جس چیز کی طرف اس نے ہجرت کی ہے اسی کی طرف اس کی ہجرت مانی جائے گی۔
(رواہ البخاری)

حدیث کے راوی کی تعریف
حدیث کے راوی حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ ہیں، ہجرت سے پہلے ایمان لائے اور وہ دوسرے خلیفہ بھی ہیں۔ ان کی خلافت ساڑھے دس سال تک تھی۔ 23 ہجری ماہ ذی الحجہ میں شہید کیئے گئے۔

حدیث سے مستنبظ فوائد
1) اسلام میں کسی بھی عمل کی اساس اور بنیاد نیت ہے۔
2) جب نیت سچی اور عمل نیک ہو تو بیشک اللہ تعالی اسے قبول فرماتا ہے۔
3) اگر مسلم کی نیت صحیح ہے تو وہ اپنے دنیاوی اعمال پر بھی اجر و ثواب دیا جائے گا، جتنے اعمال ہیں سب کے سب اللہ سبحانہ و تعالٰی کے لیے عبادت ہیں۔ جیسے کہ مدرس کا عمل اپنے پڑھانے میں اور طالبِ علم کا عمل اپنے پڑھنے میں اور عہدہ والے کا عمل اپنے فرض کی ادائیگی میں، تجارت کرنے والے کا عمل اپنی تجارت میں، یہ اور اسی قسم کے دیگر حضرات اگر ان کی نیتیں صحیح ہیں تو یہ سب عبادت ہیں۔
4) اگر کسی مسلم نے کوئی نیکی کے کام کرنے کی نیت کر لی لیکن اس کے انجام دینے کی اس میں طاقت نہ رہی تو وہ اپنی نیت پر ثواب دیا جائے گا۔
5) اگر اللہ تعالٰی کے لیے نیت خالص ہے تو یہ دنیا و آخرت میں کامیابی اور نجات کا سبب ہے۔
 

سارا

محفلین
شاہد احمد خان نے کہا:
منتخب احادیث‌نبوی ۔۔


شرک کے بعد بدترین گناہ کسی انسان کو تکلیف پہنچانا ہے۔


جس کو مسلمان کا غم نہ ہو، وہ میری امت میں سے نہیں ۔


تم اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ مظلوم کی مدد ظالم سے اس کو چھڑانا، اور ظالم کی مدد اس کو ظلم سے باز رکھنا ہے۔


جو شخص سلام سے پہلے بات کرےاس کا جواب مت دو، جب تک پہلے سلام نہ کرلے۔


جو اﷲ تعالیٰ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے، اسے کہہ دو کہ پڑوسی کی تکریم کرے۔


سخی اﷲ سے قریب ہے، جنت سے قریب ہے، لوگوں سے قریب ہے اور آگ سے دور ہے۔


بخیل اﷲ سے دور ہے، جنت سے دور ہے، لوگوں سے دور ہےاور دوزخ سے نزدیک ہے۔


تین باتوں میں دیر نہ کرو، نماز میں جب اس کا وقت ہوجائے، جنازے میں جب تیار ہوجائے اور بیوہ کے نکاح میں جب اس کا جوڑمل جائے۔


نجات کیا ہے؟ اپنی زبان کو بند رکھنا، اپنے گھر میں قیام رکھنا اور گناہوں پر نادم ہونا۔


سادگی ایمان کی علامت ہے۔


قیامت کے دن مومن کے اعمال کے ترازومیں کوئی چیز خوش خلقی سے زیادہ وزنی نہ ہوگی، اور اﷲ تعالیٰ بدگو اور بد زبان کو بہت برا سمجھتا ہے۔


حکومت طلب مت کرو، اگر وہ تمہیں مانگنے سے ملی تو اس کا سب بوجھ تم پر پڑجائے گا، اور اگر بن مانگے ملی تو تمھاری ہر طرح سے امداد ہوگی ۔

اس پوسٹ کو ذرا غور سے پڑھیں۔۔۔یہاں ایک حدیث بیاں کی گئی ہے۔۔
‘‘جو شخص سلام سے پہلے بات کرےاس کا جواب مت دو، جب تک پہلے سلام نہ کرلے۔ ‘‘

مجھ سمیت یہاں کتنے لوگ ہیں جو اس پر عمل کرتے ہیں؟؟یہاں ایک دھاگہ کھولا جائے جس میں ہر آنے والا سب سے پہلے سلام کرے اس کے بعد آگے کسی دوسرے دھاگے پر جائیں۔۔۔جزاک اللہ خیر۔۔۔
 

سارا

محفلین
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ واّلہ وسلم نے فرمایا:‘‘جس شخص نے فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی پھر طلوع شمس تک اللہ تعالی کا ذکر کرنے کے لئے بیٹھا رہا پھر سورج نکلنے کے بعد دو رکعتیں پڑھیں اس کے لئے (یہ عمل) ایک مکمل حج اور عمرہ کے برابر ہے‘‘۔
‘‘جامع الترمذی‘ صحیح الجامع الصغیر‘‘
 

سارا

محفلین
حضور اکرم صلی اللہ علیہ واّلہ وسلم نے فرمایا۔۔

‘میری امت پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ پانچ چیزوں کو یاد رکھیں گے اور پانچ کو بھول جائیں گے۔۔
1۔۔دنیا سے محبت کریں گے اور آخرت کو بھول جائیں گے۔۔

2۔۔مال پر مائل ہوں گے اور حساب و کتاب کو بھول جائیں گے۔۔

3۔۔خلقت سے محبت کریں گے اور خالق کو بھول جائیں گے۔۔

4۔۔گناہوں کی طرف راغب ہوں گے اور توبہ کو بھول جائیں گے۔۔

5۔۔محلات و باغات کی چاہ ہو گی مگر قبروں کو بھول جائیں گے۔۔‘‘
 

سارا

محفلین
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ دین‘اسلام‘ ہمیشہ قائم رہے گا اور مسلمانوں میں سے ایک نہ ایک جماعت اس دین کی حفاظت کے لیے قیامت(قائم ہونے کے قریب) تک لڑتی رہے گی (یعنی روئے زمین جہاد سے خالی نہیں رہے گی‘ کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی صورت میں جہاد ہمیشہ ہوتا رہے گا)‘‘
(مسلم)

اللہ تعالٰی تمام امت کو جہاد کے مقصد و معنی اور اس کی فرضیت کی صیح فہم عطا فرمائے اور مجاہدین اسلام کی ہر طرح سے مدد کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ۔۔۔

بہت ہیں نسبتیں تم سے بقائے جاودانی کو
تمہیں چاہو تو بخشو تازگی اب زندگانی کو
تمہارے عزم کی ٹھوکر میں ہے ہر تاج سلطانی
تمہیں بخشی گئی ہے ایک علم کی نگہبانی۔۔
 

سارا

محفلین
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ‘‘سب سے افضل (بہتر) جہاد اس شخص کا ہے جو ظالم حکمران کے سامنے حق بات کہے‘‘
(ترمزی‘ابو داود و ابن ماجہ)
 

سارا

محفلین
حضرت عمران ابن حصین کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ‘‘کہ میری امت کی کوئی نہ کوئی جماعت ہمیشہ حق کی حمایت و حفاظت کے لئیے بر سر جنگ رہے گی اور جو بھی شخص(ملک یا قوم) اس (جماعت) سے دشمنی کرے گا وہ(جماعت) اس پر غالب رہے گی‘ یہاں تک کے اس امت کے آخری لوگ مسیح و دجال سے جنگ کریں گے‘‘۔۔

(ابو داود و)

اسلام کے شیروں کو مت چھیڑنا تم ورنہ
تکبیر کے نعروں سے دنیا کو ہلا دیں گے
کافر کو یہ بتلا دو مسلم ابھی زندہ ہے
ایمان سے جزبے سے کا فر کو مٹا دیں گے۔۔

اس امت کے آخر لوگ سے مراد حضرت امام مہدی اور حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کے تابعین ہیں جو قرب قیامت میں دجال کے زریات سے جنگ کریں گے‘ اور آخر کار حضرت عیسی علیہ السلام اس کو فنا کے گاٹ اتاریں گے۔۔۔
 

سارا

محفلین
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ‘۔۔اللہ تعالٰی فرماتا ہے جو شخص میری راہ میں اس طرح نکلا کہ میری راہ میں جہاد‘ مجھ پر ایمان اور میرے رسولوں کی تصدیق نے ہی اسے نکلنے پر مجبور کیا تو میری یہ زمہ داری ہے کہ میں اسے جنت میں داخل کروں یا اسے اس کے مسکن تک جہان سے وہ نکلا ہے اس طرح واپم لاؤں کہ وہ اجر یا غنیمت سے مالا مال ہو‘ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدصلی اللہ علیہ واّلہ وسلم کی جان ہے‘اللہ کی راہ میں کسی شخص کو جو بھی زخم آئی گا وہ قیامت کے دن اسی زخمی حالت میں اللہ کے حضور پیش ہو گا اس زخم کا رنگ تو خون کا ہو گا لیکن اس کی خوشبو مشک کی ہو گی‘اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدصلی اللہ علیہ واّلہ وسلم کی جان ہے اگر میری امت کے لیے تکلیف دہ نہ ہوتا تو میں اللہ کی راہ میں لڑی جانے والی کسی بھی جنگ میں پیچھے نہ رہتا لیکن نہ تو میرے پاس اتنی وسعت ہے کہ میں ان سب کو سامان جنگ مہیا کر سکوں اور نہ ان کو خود ہی اتنی وسعت حاصل ہے‘مسلمانوں کو یہ بھی اس قدر ناگوار گزرتا ہے کہ میں کسی مہم میں نکلوں اور وہ پیچھے رہ جایئں‘اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدصلی اللہ علیہ واّلہ وسلم کی جان ہے میری خواہش ہے کہ میں اللہ کی راہ میں لڑوں اور مارا جاؤں‘ پھر لڑوں پھر مارا جاؤں‘ پھر لڑوں پھر مارا جاؤں‘‘۔۔

(مسلم)
 

سارا

محفلین
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ‘ تمام کاموں کا دارومدار نیت پر ہے(یعنی آدمی کو اس کی نیت کے مطابق ہی پھل ملتا ہے) تو جس شخص نے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہجرت کی اور خدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا جوئی و اطاعت کے سوا اس کی ہجرت کا کوئی اور سبب نہیں تھا)تو اس کی ہجرت اللہ اور رسول کے لیے ہی ہوئی(اور بے شک وہ اللہ و رسول کا سچا مہاجر ہے اور اس کو اس کا اجر ملے گا) اور جس نے کسی دنیاوی غرض کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی خاطر ہجرت کی تو اس کی ہجرت (اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نہ ہو گی بلکہ) اسی چیز کے لیے ہو گی جسکا اس نے ارادہ کیا۔۔

(بخاری و مسلم)
 

سارا

محفلین
‘‘جنت سے قریب اور دوزخ سے دور کرنے والی بات‘‘

حضرت ابو ایوب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے کہ ایک دیہاتی سامنے آ کھڑا ہوا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اوٹنی کی رسی پکڑ لی اور پھر کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (یا آپ کا نام لے کر کہا کہ اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم) مجھے وہ بات بتاؤ جو مجھے جنت سے قریب اور دوزخ کی آگ سے دور کر دے راوی کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کا جواب دینے کے لیے اپنی اوٹنی کو روک لیا) پھر اپنے ساتھیوں کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اور(ان کو متوجہ کرتے ہوئے) فرمایا کہ اس کو اچھی توفیق ملی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کرنے والے سے فرمایا کہ ہاں ذرا پھر سے کہنا تم نے کس طرح کہا؟؟ سوال کرنے والے نے اپنا سوال پھر دہرایا(مجھے وہ بات بتاؤ جو مجھے جنت سے قریب اور دوزخ کی آگ سے دور کر دے)حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘عبادت اور بندگی صرف اللہ کی کرتے رہو اور کسی کو بھی اس کے ساتھ شریک نہ کرو‘ اور نماز قائم کرتے رہو‘ اور زکوتہ ادا کرتے رہو‘اور صلہ رحمی کرو(یعنی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور ان کے حقوق ادا کرو) یہ بات مکمل کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کرنے والے سے فرمایا کہ اب میری اوٹنی کی رسی چھوڑ دو‘‘

(مسلم)
 

سارا

محفلین
حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:‘ بندہ کے اور کفر کے درمیان نماز اور چھوڑ دینے ہی کا فاصلہ ہے‘‘۔

(مسلم)
 

سارہ خان

محفلین
مسلم، الصحیح، 4 : 2067، رقم: 2675)

”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوتا ہوں، اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جس وقت وہ میرا ذکر کرتا ہے، پس اگر وہ اپنے دل میں میرا ذکر (ذکر بالسر) کرے تو میں بھی اپنے دل میں اس کا ذکر (ذکر بالسر) کرتا ہوں، اور اگر وہ جماعت میں میرا ذکر (ذکر بالجہر) کرے تو میں اس کی جماعت سے بہتر جماعت میں اس کا ذکر (ذکر بالجہر) یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک آئے تو میں ایک ہاتھ اس کے نزدیک ہوتا ہوں، اور اگر وہ ایک ہاتھ میرے نزدیک آئے تو میں دو ہاتھ اس کے نزدیک ہوتا ہوں اور اگر وہ چل کر میری طرف آئے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔
 
Top