اجنبی شہر کے اجنبی راستے

ظفری

لائبریرین

اجنبی شہر کے اجنبی راستے ، میری تنہائی پر مسکراتے رہے
میں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا ، تم بہت دیر تک یاد آتے رہے

زہر ملتا رہا ، زہر پیتے رہے ، روز مرتے رہے ، روز جیتے رہے
زندگی بھی ہمیں آزماتی رہی ، اور ہم بھی اسے آزماتے رہے

زخم جب بھی کوئی ذہن و دل پر لگا ، زندگی کی طرف ایک دریچہ کھلا
ہم بھی گویا کسی ساز کے تار ہیں ، چوٹ کھاتے رہے ، گنگناتے رہے

سخت حالات کے تیز طوفان میں ،گِھر گیا تھا ہمارا جنونِ وفا
ہم چراغِ تمنا جلاتے رہے ، وہ چراغِ تمنا بجھاتے رہے

شاعر: نامعلوم
 

الف عین

لائبریرین
ظفری۔۔۔ ’اجنبی شہر کے اجنبی راستے‘ درست ہے
یہ غزل راہی معصوم رضا کی ہے۔ ایک اچھے ترقی پسند شاعر، اور فلمی کہانی اور مکالمہ نگار۔ علی گڑھ میں کافی ہر دل عزیز اپنے زمانے میں۔۔
 

ظفری

لائبریرین
استادِ محترم ۔۔ ! غلطی کی طرف توجہ دلانے کے لیئے میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ اور اس بات کے لیئے خاص شکریہ کہ آپ نے شاعر کا نام بتایا ۔
 

ظفری

لائبریرین
لجیئے اس خوبصورت غزل کو سنیئے ۔ اس غزل کو میرے فیورٹ سنگر اشوک کھوسلہ نے گایا ہے ۔
استادِ محترم اس سنگر نے اس غزل میں " اجنبی شہر میں " ہی کہا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ اپنی سہولت کے لیئے " کے " کی جگہ " میں " کا لفظ لے لیا ہو ۔


[ame="http://www.divshare.com/download/3649487-35e"]http://www.divshare.com/download/3649487-35e[/ame]​
[/QUOTE]
 

الف عین

لائبریرین
Top