مکمل اجنبی آنکھیں ۔ کرشن چندر

فرخ منظور

لائبریرین
اجنبی آنکھیں
(تحریر: کرشن چندر)
چہرے پر اُس کی آنکھیں بہت عجیب تھیں۔ جیسے اس کا سارا چہرہ اپنا ہو اور آنکھیں کسی دوسرے کی جو چہرے پر پپوٹوں کے پیچھے محصور کر دی گئیں۔ اس کی چھوٹی نوک دار ٹھوڑی، پچکے لبوں اور چوڑے چوڑے کلّوں کے اوپر دو بڑی بڑی گہری سیاہ آنکھیں عجیب سی لگتی تھیں۔ پورا چہرہ ایک چالاک ذہین، شاطر، خود غرض اور کمینے آدمی کا تھا… ایسا چہرہ جو پینتیس برس بعد اکثر ان انسانوں کے ہاں ملتا ہے جو نوجوان ہوتے ہی غلط دھندوں میں پڑ جائیں۔ اسی لیے مجھے اس کی آنکھوں سے بڑی دلچسپی پیدا ہو گئی۔ معلوم نہیں کہاں سے چرائی تھیں ظالم نے یہ آنکھیں!

میں اس کی دکان پر اپنی قمیص سلوانے گیا تھا۔ کولُون میں اس کی کپڑوں کی بہت بڑی دکان تھی۔ باہر تختہ لگا تھا: ’’یہاںجوڑا چوبیس گھنٹے میں تیار کیا جاتا ہے۔‘‘ تختے نے مجھے دکان کے اندر جانے پر مائل کیا۔ ایک تو یہ تھی، دوسری وجہ اس کا نام تھا جو تختے پر بڑے بڑے حروف میں لکھا تھا: ’’پروپرائٹر… بی۔ڈی اسرانی۔‘‘
وہ بی۔ ڈی۔ اسرانی تھا اور میں جی۔ڈی۔اسرانی! ناموں کی مماثلت نے بھی مجھے اس دکان کے اندر جانے پر مجبور کر دیا۔

وہ عمدہ کپڑے پہنے، منہ میں لمبا سگار دابے، ہاتھوں میں ہیرے کی دو انگوٹھیاں پہنے بڑھیا تمباکو کا خوش گوار دھواں چھوڑتے اپنی کشادہ دکان میں ادھر اُدھر گھوم رہا تھا۔ پہلے تو اس نے میرا کوئی خیال نہیں کیا۔ لیکن آرڈر لیتے وقت جب اس نے میرا نام معلوم کیا، تو خوشی سے چونک پڑا ہم دونوں سندھی تھے اور ایک ہی ذات والے… اور یہ ہانگ کانگ تھا، وطن سے اس قدر دور! چند منٹوں میں ہم ایک دوسرے سے گھل مل گئے جیسے برسوں کے دوست ہوں۔ اس نے مجھے رات کے کھانے پہ اپنے گھر آنے کی دعوت دی جو میں نے فوراً قبول کر لی۔ پھر میں نے اپنی ایک تکلیف بھی اس سے بیان کی۔

میں کینتھ ہوٹل میں ٹھہرا تھا۔ ’’بامبے آبزرور‘‘ کے نمائندے کی حیثیت سے ہانگ کانگ آیا تھا۔ یہ سستا قسم کا ہوٹل تھا۔ ایک روز رات کو دو بجے کے قریب میں لوٹا، تو معلوم ہوا، ہوٹل کے آٹھ دس کمروں میں ایک ساتھ چوری ہو گئی ہے۔ بدقسمتی سے ان میں میرا کمرا بھی شامل تھا۔ میرے دونوں سوٹ کیس چوری ہو گئے اور ٹائپ رائٹر بھی۔ پولیس تحقیقات کر رہی تھی، کرے گی اور کرتی رہے گی۔ مگر مجھے دو دن بعد بمبئی لوٹنا تھا۔ آبزرور کے ایڈیٹر نے فوراً واپس آنے کے لیے تار دیا تھا۔ ہانگ کانگ میں میرا کام ختم ہو چکا تھا۔ اب مجھے بمبئی پہنچ کر وہاں سے فوراً نیروبی جانا تھا۔

’’مجھے کچھ رقم چاہیے۔‘‘ میں نے بی۔ڈی۔اسرانی سے کہا ’’مگر میں اب اس کے عوض صرف اپنا چیک پیش کر سکتا ہوں۔ وہ بھی ہندوستان کے بینک کا۔‘‘
’’کتنی رقم چاہیے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’پانچ سو روپے۔‘‘
’’ضرور۔‘‘ بی۔ڈی۔اسرانی نے اطمینان کا سانس لیا۔ ’’میرے ساتھ چلو۔ میں ابھی بینک سے اپنی گارنٹی پر آپ کا چیک کیش کرائے دیتا ہوں۔ یا خود رقم دے دوں گا۔ یہاں ہم سندھیوں کا اپنا ایک بینک ہے۔‘‘

دی سندھی مرکنٹائل بینک پانچ منزلہ عمارت میں واقع تھا۔ بی۔ڈی۔اسرانی نے مجھے بتایا کہ بینک کی عمارت کا مالک وہی ہے۔ گیارہ ہزار روپے کرایہ ہر مہینے آتا ہے۔ وہ بینک کا ڈائریکٹر بھی ہے۔ پانچ سو روپے دلوا کر اس نے مجھ سے کہا ’’شام کے ٹھیک چھے بجے میری دکان پر آجانا۔ گھر جانے سے پہلے تھوڑا سا گھوم پھر لیں گے۔‘‘
میں شام کے ٹھیک چھے بجے اس کی دکان پر پہنچ گیا۔ وہ پہلے ہی سے میری راہ دیکھ رہا تھا۔ دکان کے ملازموں کو ہدایت دے کر میرے ساتھ باہر نکلا۔ دکان کے باہر بادامی رنگ کی ایک مرسڈیز کھڑی تھی۔ ہم اس میں بیٹھ گئے۔ وہ موٹر بہت تیز چلا رہا تھا۔ مگر گاڑی کے بریک بہت عمدہ تھے۔ اس کا چہرہ چھوٹا مگر جسم بہت مضبوط تھا۔ خاص طور پر اس کے ہاتھ بڑے مضبوط اور بالوں سے بھرے دکھائی دیتے۔ خوبصورت جوڑے کے اندر اس کا جسم ضرور کسی بن مانس یا گوریلا کا رہا ہو گا۔
وہ راہ چلتے چلتے سیٹی بجاتا۔ کسی خوبصورت چینی لڑکی کے قریب جا کر اپنی تیز موٹر ایک دم دھیمی کر کے اس سے چینی زبان میں کچھ کہتا اور پھر ہنس کر آگے چل دیتا۔

اس کے لب و لہجے سے معلوم ہوتا تھا کہ ناشائستہ فقرے کس رہا ہے۔
’’کسی چینی لڑکی سے پِٹے نہیں اب تک؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’یہاں کس میں ہمت ہے جو اسرانی کو پیٹے۔ یہ گلی میری ہے۔‘‘
’’تمھاری کیسے ہے؟‘‘
’’اس گلی کے سب غنڈوں کو میں جانتا ہوں۔ یہاں میرے دو جوئے خانے چلتے ہیں، دیکھو گے؟‘‘
’’دیکھ لیں گے۔‘‘

سامنے کراکری کی دکان، پچھواڑے جوئے خانہ! دونوں کے درمیان جائے حاجت کا ایک لمبا کمرا جن کے اندر دو ادھیڑ عمر کے چینی چھوٹے چھوٹے تولیے لیے کھڑے تھے۔ وہ اسرانی کو تو پہچانتے ہی تھے، اس لیے مجھے جوئے خانے جاتے ہوئے کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مگر دوسرے گاہکوں کے لیے ’’کوڈ ورڈ‘‘ تھا۔ اس جوئے خانے میں وہی جا سکتا تھا جسے وہ خفیہ لفظ معلوم ہوتا ورنہ بس حاجت دور کرے اور واپس ہو جائے۔
’’میں ہر کام بڑے ’’اسٹائل‘‘ سے کرتا ہوں۔‘‘ بی۔ڈی۔اسرانی نے مجھے اپنا جوئے خانہ دکھاتے ہوئے کہا۔ عمدہ سجے ہوئے دس کمرے، دبیز بے آواز غالیچے، خاموش مؤدب بیرے، نازک اندام چینی لڑکیاں جام پیش کرتی ہوئیں اور امیر گاہک۔

’’یہاں ہائی کلاس جوا چلتا ہے۔ صرف گنے چنے گاہک یہاں آتے ہیں۔ روز رات کو ڈھائی تین ہزار ڈالر مجھے یہاں سے ملتا ہے۔ باہر کراکری کی دکان بھی اچھی چلتی ہے۔‘‘
’’بہت خوبصورت جگہ ہے۔‘‘ میں نے اس سے کہا۔ ’’یہاں تو خلیفہ ہارون رشید کی طرح تالی بجانے کو جی چاہتا ہے۔
’’کون خلیفہ؟‘‘ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھ کر پوچھا۔
اس کی آنکھیں مجھے اس وقت بڑی معصوم اور بھولی سی معلوم ہوئیں۔
’’کچھ نہیں!‘‘ میں نے بات ٹالتے ہوئے کہا۔ ’’بمبئی میں میرا ایک دوست ہے۔ وہ مجھے اس وقت یاد آ گیا۔ جب وہ کوئی اچھی جگہ دیکھے تو تالی پیٹنے لگتا ہے۔‘‘
’’کیا بچپنا ہے!‘‘ اس نے مجھ سے کہا اور لمبا سگار اپنے منہ میں لے کر اس کا خوشگوار دھواں میرے منہ پرپھینکنے لگا۔
’’جوا کھیلو گے؟‘‘ اس نے پوچھا۔

’’نہیں!‘‘ میں نے جواب دیا۔ وہ مجھے لیے باہر آ گیا۔ دوسرا جوئے خانہ دکھا کے وہ مجھے ٹی ہاک اسٹریٹ میں لے گیا۔ وہاں بھی سب لوگ اسے جانتے تھے۔ ان کے چہروں سے لگتا تھا جیسے اس سے ڈرتے بھی ہوں۔ ’’یہاں میرا ایک چنڈو خانہ ہے۔‘‘ اسرانی نے مجھ سے کہا۔
’’کیا ابھی تک ادھر چنڈو خانے موجود ہیں؟ میں نے اس سے پوچھا۔

’’ہانگ کانگ میں تو ہیں۔ اُدھر سنا ہے نہیں رہے۔‘‘ اسرانی نے منہ سے اپنا سگار نکال ’’اُدھر‘‘ (چین) کی طرف اشارہ کیا۔
چنڈو خانے کی فضا مجھے بڑی بھلی معلوم ہوئی۔ اچھا انتظام تھا۔ ہشت پہلو چینی شمع دان، ہر پہلو پر رنگ دار جھالریں لٹکتی ہوئیں چھوٹے چھوٹے پیالوں میں انواع و اقسام کی منشیات اور ترچھے پپوٹوں والی حسینائیں جو نشہ لا سکتی تھیں۔ یہ چنڈو خانہ بھی ہشت پہلو تھا۔ ہر کمرا ایک مرکزی ہال میں نکلتا جس میں چند چینی سازندے بیٹھے تھے اور ایک چینی رقاصہ ٹھمک ٹھمک کر ناچ رہی تھی۔
’’میکائو سے منگائی ہے۔‘‘ اسرانی نے مجھے بتایا۔ ’’دو سو ڈالر روز پر،کیسی ہے؟‘‘
’’اچھی ہے!‘‘
’’ملو گے۔‘‘
’’نہیں!‘‘
’’تمھاری مرضی۔‘‘

باہر آ کے ہم اس کی مرسڈیز میں اڑ گئے۔ اس نے بتایا ’’پورے کولُون میں ٹی ہاک کا چنڈو خانہ سب سے بڑھیا ہے۔ رات کو پانچ سات ہزار ڈالر کی گاہکی ہوتی ہے۔ دن کو بھی دو ڈھائی ہزار کی ہو جاتی ہے۔ ونڈرفل بزنس۔‘‘
’’اور کپڑے کی دکان؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ارے وہ تو ایک سائن بورڈ ہے، وہاں سے کیا ملتا ہے۔ آج کل سیدھا دھندا کر کے کون جی سکتا ہے؟ کیسی بے وقوفی کی بات کرتے ہو!‘‘ اس نے مجھ سے کہا۔
’’اس میں کیا شبہ ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
پھر وہ مجھے ایک قحبہ خانے لے گیا۔ میں سمجھ گیا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ وہ دراصل مجھے اپنی سلطنت دکھا رہا تھا۔ غریب سندھی آج سے پینتیس برس پہلے دو سو ڈالر لیے ہانگ کانگ آیا تھا۔ آج اُسی بی۔ڈی۔اسرانی کا شمار ہانگ کانگ کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔
’’ایسے ایسے میرے چھے ہیں۔‘‘ اس نے پہلا قحبہ خانہ دکھاتے ہوئے کہا۔ ’’کوئی لڑکی پسند آئی؟‘‘
’’نہیں!‘‘
’’کیا تم کو لڑکیاں پسند نہیں؟‘‘
’’ہیں تو سہی، مگر اپنے گھروں میں۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘ اس نے پھر انہی حیرت زدہ معصوم نگاہوں سے میری طرف دیکھا جو اس کی بڑی بڑی روشن اور سیال پتیلوں سے چھن کر آ رہی تھیں۔ اس لمحے وہ نگاہیں بہت پاکیزہ تھیں۔ سردیوں کی پہلی برف کی طرح میرے چہرے پرگر رہی تھیں۔ میں نے تشریح کرنا مناسب نہ سمجھا، صرف اتنا کہا کہ میرے لیے ہانگ کانگ اور کلکتہ یا بمبئی کے قحبہ خانوں میں کوئی فرق نہیں۔ اگر کوئی فرق ہے، تو محض ظاہری سجاوٹ یا پھر چہرے کی ظاہری ساخت میں! وہاں لڑکیاں بھارتی ہیں، یہاں چینی اور کوئی فرق نہیں!‘‘
’’اوہ، میں سمجھ گیا، تم کو فارن مال پسند ہے، ایمبیسی روڈ پر جومیرا براتھل ہے، اس میں باہر کا مال بھی ملتا ہے۔ ابھی تم کو ادھر لے چلتا ہوں۔ اِدھر ایک نئی چھوکری آئی ہے،

اس کو ذرا دیکھ لو۔‘‘
اسرانی نے مہتمم سے چینی میں کچھ بات کی۔ وہ لوگ ہمیں ایک نیم تاریک کمرے میں لے گئے جہاں ایک چینی لڑکی ہاتھ پائوں سے بندھی صوفے پر پڑی تھی۔ اسرانی کے کہنے پر اس کے ہاتھ پائوں کھول دیے گئے۔ اس کی عمر مشکل سے پندرہ سولہ سال ہو گی۔ اسرانی چند منٹ تک اسے چینی زبان میں کچھ سمجھاتا رہا۔ مگر وہ لڑکی برابر سر ہلا کر انکار کرتی رہی۔ آخر میں چیخنے اور کمرے سے بھاگنے کی کوشش کرنے لگی۔
اسرانی نے گھونسا مار کر لڑکی کو نیچے گرا دیا۔ اس کے منہ سے خون جاری ہو گیا۔ وہ فرش پر پڑی پڑی سسکنے اور وحشت زدہ نگاہوں سے ہماری طرف دیکھنے لگی۔ اسرانی مجھے لے کر باہر آ گیا۔ اس نے دروازہ باہر سے بند کر کے اپنے ماتھے کا پسینا پونچھا۔ پھر میری طرف دیکھ کر بولا ’’کل ہی تائیوان سے چھے لڑکیوں کا ایک بیج منگوایا ہے۔ہر دوسرے تیسرے مہینے نئی منگانی پڑتی ہیں ورنہ کاروبار نہیں چلتا۔ اغوا کر کے لائی گئی ہیں، اس لیے دھندا بالکل نہیں جانتیں۔ ایک دم اناڑی ہیں۔ اسے کچھ مردوں کے حوالے کرتا ہوں تبھی سیدھی ہو گی۔‘‘
٭٭
اس کا گھر بہت عمدہ اور چھوٹی سی پہاڑی ڈھلوان پر واقع تھا۔ وہاں سے ہانگ کانگ کا سارا منظر نظر آتا۔ بیوی، شاردا بہت ہی گھریلو اور سیدھی سادھی عورت تھی۔ دو بچیاں تھیں، بڑی پیاری اور معصوم۔ ایک دس سال کی ہو گی، دوسری کوئی بارہ تیرہ برس کی۔ اس نے مجھے بتایا ’’سب سے بڑی لڑکی کی شادی ہو چکی۔ اس کا خاوند امریکا میں کاروبار کرتا ہے، سندھی ہے۔ جنوبی امریکا میں بہت بڑا دھندا ہے اس کا! میری لڑکی کے دو بچے بھی ہیں۔ وہ بہت خوش ہے اپنے گھر میں۔‘‘
’’لڑکا کوئی نہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’لڑکا نہ ہو، تو مکتی کیسے ہووے؟‘‘ وہ زور سے ہنسا۔ ’’دو لڑکے ہیں مگر دونوں سیانے عمر کے ایک کو فلپائن میں بزنس کرکے دیا ہے، دوسرا جاپان میں ہے۔‘‘
’’پی کے وہ چہکنے لگا۔‘‘ بھگوان نے سب کچھ دیا ہے مجھ کو۔‘‘
شاردا اس کے قریب بیٹھی ہماری باتیں سنتے پیلے رنگ کی اُون سے ایک سوئیٹر بن رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد شاردا نے اپنی بڑی بیٹی کی تصویر لا کے مجھے دکھائی۔ ایک خوبصورت بے عقل لڑکی ایک موٹے تاجر کے ساتھ کھڑی تھی۔ دونوں کے چہروں پر وہ حماقت بھری خوشی طاری تھی، جو صرف شادی کے ابتدائی دنوںمیں نظر آتی ہے۔ تبھی وہ ہنس کر بولا ’’پینتیس سال ہوئے میں ہانگ کانگ آیا تھا، دو سو ڈالر لے کر۔ آج دو کروڑ سے زیادہ کی جائداد میرے پاس ہے۔‘‘
’’تم ایک آتش فشاں پہاڑ کے دہانے پر بیٹھے ہو۔ ہانگ کانگ دو گھنٹے میں چین کے پاس جا سکتا ہے۔‘‘
’’میں بے وقوف نہیں۔‘‘ اسرانی بولا۔ ’’اسی لیے تو میں نے اپنی فرم کا صدر دفتر منیلا میں کھول رکھا ہے۔ سکھ داس کواس کا انچارج بنا دیا۔ باقی سب بندوبست ایسا ہے کہ میں بھی ہانگ کانگ سے دو گھنٹے میں جا سکتا ہوں۔‘‘ ایک عجیب مقدس مسرت آمیز مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیلی تھی۔ وہ بڑے اطمینان سے اپنے پیٹ پر دھیرے دھیرے ہاتھ پھیرتے کہہ رہا تھا۔ ’’میں بہت خوش ہوں۔ میں بہت خوش ہوں…‘‘
٭٭
کھانا کھا کے ہم کافی پی رہے تھے کہ دیواری گھڑی نے دس بجائے۔ اسرانی کے منہ سے نکلا ’’ارے…‘‘ کافی کی پیالی اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پر جا گری۔ اس نے جلدی سے چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں چھپا لیا۔ شاردا دوڑی دوڑی دوسرے کمرے میں گئی اور دوڑی دوڑی واپس آئی۔ اس کے ہاتھ نے تہ در تہ بہت سے رومال پکڑ رکھے تھے۔ شاردا نے جلدی سے وہ رومال اسرانی کے گھٹنے پر رکھ دیے۔
میں نے دیکھا اتنی دیر میں اسرانی کا چہرہ آنسوئوں سے بھیگ گیا۔ نہ صرف چہرہ بلکہ اس کی ہتھیلیاں بھی بھیگ گئی تھیں۔ جلد ہی وہ رومال لے کر اپنی آنکھیں صاف کرنے لگا۔ مگر آنسو تھے کہ اس کی بڑی بڑی آنکھوں سے اُبلتے چلے آ رہے تھے۔
میں حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ رومال سے اپنے آنسو صا ف کرتے ہوئے بولا ’’تم سے باتیں کرتے ہوئے مجھے خیال نہیں رہا۔‘‘
’’کیا خیال نہیں رہا؟‘‘
’’کہ وقت آ گیا ہے۔‘‘
’’کون سا وقت ؟‘‘

وہ کچھ دیر چپ رہا۔ پھر اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے بولا ’’مجھے اس دنیا میں کوئی تکلیف نہیں… بس اگر کوئی تکلیف ہے، تو یہی! جوں ہی رات کے دس بجیں میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ کبھی گھنٹا بھر، کبھی دو گھنٹے، کبھی تین گھنٹے میری آنکھوں سے آنسو جاری رہتے ہیں۔‘‘
’’مگر کیوں؟‘‘
’’کیا معلوم! امریکا تک ہو آیا ہوں ان آنکھوں کے علاج کے لیے، مگر کسی ڈاکٹر سے ٹھیک نہیں ہوئیں۔ کسی ڈاکٹر کو میری بیماری کا پتا نہیں چل سکا۔‘‘
’’کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’بس آنسو بہتے ہیں۔‘‘
’’بس آنسو بہتے ہیں؟… اور کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔‘‘
’’نہیں، اور کوئی تکلیف نہیں ہوتی!‘‘
اس کی آنکھیں رو رہی تھیں۔آنسو گالوں پر بہ رہے تھے۔ وہ بار بار رومال لگا کر اپنی آنکھوں کو خشک کرتا۔ آنسو بہ کر نکلتے چلے آ رہے تھے۔ یکایک مجھے اس کابھیگا، آنسوئوں میں تر چہرہ ایک ایسی لاش کا چہرہ دکھائی دیا جو پانی میں ڈوبی ہو۔ پھر دور کسی گہرے کنوئیں سے مجھے ایک لڑکی کی چیخیں سنائی دینے لگیں۔
’’شاید یہ آنکھیں احتجاج کرتی ہیں۔‘‘
’’کیا؟‘‘ وہ آنکھیں پونچھتے پونچھتے میری طرف حیرت سے دیکھنے لگا۔ ’’کیا کہہ رہے ہو تم؟ میں نہیں سمجھا۔‘‘
’’کچھ نہیں یہ وہ بیماری ہے جسے تم نہیں سمجھ پائو گے۔‘‘
میں نے سر پر ٹوپی رکھ اسے سلام کیا اور اسرانی اور اس کی بیوی کو حیران و ششدر چھوڑ کر باہر نکل آیا۔
قحبہ خانہ کی لڑکی اب ہنس رہی تھی۔
 
Top