مومن اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا - حکیم مومن خان مومن

فرخ منظور

لائبریرین
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا

بے وفا کہنے کی شکایت ہے
تو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا

ذکرِ اغیار سے ہوا معلوم
حرفَ ناصح برا نہیں ہوتا

کس کو ہے ذوقَ تلخ کامی لیک
جنگ بن کچھ مزا نہیں ہوتا

تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا

اس نے کیا جانے کیا کیا لے کر
دل کسی کام کا نہیں ہوتا

امتحاں کیجیے مرا جب تک
شوق زور آزما نہیں ہوتا

ایک دشمن کہ چرخ ہے نہ رہے
تجھ سے یہ اے دعا نہیں ہوتا

آہ طولِ امل ہے روز افزوں
گرچہ اِک مدعا نہیں ہوتا

نارسائی سے دم رکے تو رکے
میں کسی سے خفا نہیں ہوتا

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

حالِ دل یار کو لکھوں کیوں کر
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا

رحم کر خصم، جانِ غیر نہ ہو
سب کا دل ایک سا نہیں ہوتا

دامن اس کا جو ہے دراز تو ہو
دستِ عاشق، رسا نہیں ہوتا

چارہ دل سوائے صبر نہیں
سو تمھارے سوا نہیں ہوتا

کیوں سنے عرض مضطر اے مومن
صنم آخر خدا نہیں ہوتا
 

فاتح

لائبریرین
فرخ صاحب، مومن کی مشہور زمانہ غزل شیئر کرنے کا بہت شکریہ۔
اسی غزل کے مندرجہ ذیل شعر کے متعلق غالب نے فرمایا تھا کہ "کاش مومن مجھ سے میرا سارا کلام لے لیں اور اپنا یہ شعر مجھے دے دیں"؂
تُم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا​
 

جیہ

لائبریرین
فرخ صاحب آپ کیوں چن چن کر ایسے کلاسیک غزلیں جمع کر رہے ہیں جن کو دیکھ کر پرانے زخم تازہ ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔ یہ غزل بھی ان میں سے ایک ہے جن سے زمانہ طالبعلمی میں بہت تنگ تھے۔۔۔۔ مطلب تشریح یاد کرنے سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ایک بات ہے کہ ہے لا جواب غزل:)
 

ہما

محفلین
تُم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا

بے وفا کہنے کی شکایت ہے
تُو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا


واہ صاحب واھ کیا شئیرنگ ہے ۔۔۔۔۔خوش رہیئے
 

فرخ منظور

لائبریرین
میں نے پہلے یہ غزل پوسٹ کی تھی لیکن اس میں کچھ شعر کم تھے۔ اس غزل کو دوبارہ مکمل کرکے پوسٹ کر رہا ہوں

اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا

بے وفا کہنے کی شکایت ہے
تو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا

ذکرِ اغیار سے ہوا معلوم
حرفَ ناصح برا نہیں ہوتا

کس کو ہے ذوقَ تلخ کامی لیک
جنگ بن کچھ مزا نہیں ہوتا

تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا

اس نے کیا جانے کیا کیا لے کر
دل کسی کام کا نہیں ہوتا

امتحاں کیجیے مرا جب تک
شوق زور آزما نہیں ہوتا

ایک دشمن کہ چرخ ہے نہ رہے
تجھ سے یہ اے دعا نہیں ہوتا

آہ طولِ امل ہے روز افزوں
گرچہ اِک مدعا نہیں ہوتا

نارسائی سے دم رکے تو رکے
میں کسی سے خفا نہیں ہوتا

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

حالِ دل یار کو لکھوں کیوں کر
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا

رحم کر خصم، جانِ غیر نہ ہو
سب کا دل ایک سا نہیں ہوتا

دامن اس کا جو ہے دراز تو ہو
دستِ عاشق، رسا نہیں ہوتا

چارہ دل سوائے صبر نہیں
سو تمھارے سوا نہیں ہوتا



کیوں سنے عرض مضطر اے مومن
صنم آخر خدا نہیں ہوتا
 

فاتح

لائبریرین
ایک مرتبہ پھر بہت شکریہ فرخ صاحب
آپ حکیم صاحب کا کون سا نسخہ استعمال کر رہے ہیں؟
 
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا


حالِ دل یار کو لکھوں کیوں کر
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا


مومن کی اس غزل کی کیا ہی بات ہے بہت خوب ۔ ۔
 

فاتح

لائبریرین
تو ایسا کیجیے فرحت عباس شاہ کی تین چار کلیات کے مقابلے میں اسی قدر وزنی نسخہ جات تحریر فرما کر یا فرموا کر ارسال کر دیجیے جنہیں‌دیکھ دیکھ کر اختلاج قلب کا شکار ہوں
 

فرخ منظور

لائبریرین
تو ایسا کیجیے فرحت عباس شاہ کی تین چار کلیات کے مقابلے میں اسی قدر وزنی نسخہ جات تحریر فرما کر یا فرموا کر ارسال کر دیجیے جنہیں‌دیکھ دیکھ کر اختلاج قلب کا شکار ہوں

واہ حضور ہم آپ کو صحت مند دیکھنے پر تلے ہوئے ہیں اور آپ اختلاجِ قلب کا شکار ہونا چاہ رہے ہیں۔ یعنی کسی طرح صحت مند نہ ہونا پڑجائے۔ چہ خوب۔ :eyerolling:
 
Top