فراز اب کے ہم بچھڑے تو شايد کبھي خوابوں ميں مليں ۔ فراز

راجہ صاحب

محفلین
اب کے ہم بچھڑے تو شايد کبھي خوابوں ميں مليں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں ميں مليں

ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں ميں وفا کے موتي
يہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں ميں مليں

غم دنيا بھي غم يار ميں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابيں جو شرابوں ميں مليں

تو خدا ہے نہ ميرا عشق فرشتوں جيسا
دونوں انساں ہيں تو کيوں اتنے حجابوں ميں مليں

آج ہم دار پہ کھينچے گئے جن باتوں پر
کيا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں ميں مليں

اب نہ وہ ہیں، نہ وہ تُو ہے، نہ وہ ماضی ہے فرازؔ
جیسے دو شخص تمّنا کے سرابوں میں ملیں
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ نظم تو نہیں، لیکن پہلا شعر بچپن سے سنتے آرہے ہیں۔ بہت اچھا لگا کہ آج آپ کے توسط سے پوری نظم پڑھنے کو مل گئی
 

راحیل

محفلین
اب کے ہم بچھڑے تو شايد کبھي خوابوں ميں مليں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں ميں مليں

ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں ميں وفا کے موتي
يہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں ميں مليں

غم دنيا بھي غم يار ميں شامل کر لو
نشہ برپا ہے شرابيں جو شرابوں ميں مليں

تو خدا ہے نہ ميرا عشق فرشتوں جيسا
دونوں انساں ہيں تو کيوں اتنے حجابوں ميں مليں

آج ہم دار پہ کھينچے گئے جن باتوں پر
کيا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں ميں مليں

اب نہ وہ ميں ہوں نہ تو ہے نہ وہ ماضي ہے فراز
جيسے دو سائے تمنا کے سرابوں ميں مليں

دراصل، فرازؔ صاحب کی کتاب “درد آشوب“ میں مقطع کچھ یوں درج ہے:

اب نہ وہ ہیں، نہ وہ تُو ہے، نہ وہ ماضی ہے فرازؔ
جیسے دو شخص تمّنا کے سرابوں میں ملیں

مزید یہ کہ، “نشہ برپا“ کی جگہ دراصل “نشہ بڑھتا“ درج ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
دراصل، فرازؔ صاحب کی کتاب “درد آشوب“ میں مقطع کچھ یوں درج ہے:

اب نہ وہ ہیں، نہ وہ تُو ہے، نہ وہ ماضی ہے فرازؔ
جیسے دو شخص تمّنا کے سرابوں میں ملیں

مزید یہ کہ، “نشہ برپا“ کی جگہ دراصل “نشہ بڑھتا“ درج ہے۔

بہت شکریہ راحیل صاحب! میں نے تصحیح کر دی ہے، لیکن اگر آپ کوئی پرانی پوسٹ میں اغلاط دیکھیں تو اغلاط کی درستگی کر کے کلام کو دوبارہ اسی دھاگے میں پوسٹ کر دیا کریں۔
 
Top